• 11 جولائی, 2025

اہلِ ایمان پر فسق و کفر کی تہمت لگانا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوکر تشریف لائے تو آپؐ نے انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے آخری اور سب سے زیادہ پسندیدہ دین میں داخل ہونے کی دعوت دی جو کوئی بھی اس دعوت کو قبول کرتا آپؐ اسے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھاتے اور یوں وہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔

حضرت خدیجة الکبریٰ ؓ کے اقرار اور کلمۂ توحید پڑھ لینے سے شروع ہونے والا سفر خود آپؐ کی زندگی میں ہی تعداد کے اعتبار سے لاکھوں میں داخل ہوگیا اور کبھی کسی ایک کے لئے بھی آپؐ (شارع نبیؐ) کی طرف سے کبھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ میں اسے اس کی فلاں کمزوری یا غفلت یا سستی کی بناء پر کافریادائرہ اسلام سے خارج قراردیتا ہوں۔بلکہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کرنے کی ایک طرح سے ممانعت تھی۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَاِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ

(الحجرات: 15)

یعنی دیہاتی (بدو) لوگ کہتے ہیں ہم ایمان لائے تو انہیں کہہ دے کہ تم ابھی ایمان نہیں لائے لیکن یہ کہا کرو کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے (کیونکہ) ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اس آیت سے یہ بات خوب واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو دلوں کے بھید جانتا ہے اور کوئی چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں، وہ ان بدوؤں کی دلی کیفیات کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کررہا ہے کہ ابھی ایمان ان کے قلوب میں داخل نہیں ہوا، پھر بھی خدائے عزّوجل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہا ہے کہ انہیں اجازت دے دیں کہ وہ یہ کہہ لیں کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے یا وہ اسلام لے آئے ہیں۔ یعنی باوجود اس کے کہ خود خدائے علیم و خبیر کی گواہی آگئی کہ ایمان ابھی ان کے دلوں میں نہیں اُترا، آپؐ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت نہیں ملی کہ آپؐ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت نہیں ملی کہ آپؐ انہیں خارج از اسلام قراردیں۔

سلام کہنے والے کے حوالہ سے حُکم

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حکم آیا ہے کہ وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا (النساء: 95) اور جو کوئی بھی تمہیں سلام پیش کرے اسے (آگے سے) یہ نہ کہو کہ تُو تو مومن نہیں ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود اس آیت کے حوالے سے فرماتے ہیں۔ ’’قرآن شریف نے تو نکتہ چینی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے کہ کَذٰلِکَ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ (النساء 95) یعنی تم بھی تو ایسے ہی تھے خدا نے تم پر احسان کیا ہے۔‘‘

(الحکم جلد12 نمبر26-30 اپریل 1908 صفحہ نمبر2)

اس آیت کا شانِ نزول

مولانا محمودالحسن اور علامہ شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تفسیر اور شانِ نزول بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:۔ ’’حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج کو ایک قوم پر جہاد کے لئے بھیجا۔ اس قوم میں ایک شخص ’’مسلمان‘‘ تھا جو اپنا مال و اسباب اور مویشی ان میں سے نکال کر علیحدہ کھڑا ہوگیا تھا۔ اس نے مسلمانوں کو دیکھ کو ’’السلام علیکم‘‘ کہا۔ مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ یہ بھی کافر ہے، اپنی جان اور مال بچانے کی غرض سے اس نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ۔ اس لئے اس کو مارڈالا۔ اور اس کے مویشی اور اسباب نے لیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو تنبیہہ اور تاکید فرمائی گئی کہ جب تم جہاد کرنے کے لئے سفر کرو تو تحقیق سے کام لو۔ بے سوچے سمجھے کام مت کرو۔ جو تمہارے سامنے اسلام ظاہر کرے اس کے مسلمان ہونے کا ہرگز انکار مت کرو۔ اللہ کے پاس بہت غنیمتیں ہیں۔ ایسے حقیر سامان پر نظر نہ کرنی چاہئے۔‘‘

(قرآن مترجم و محشیٰ از شیخ الہند مولانا محمودالحسن وعلامہ شبیراحمد عثمانی)

فتوے بازوں کا عمومی نظریہ

یہ امر نہایت افسوس ناک ہے کہ فتوے بازی کا دھندہ کرنے والوں نے عجیب شغل اپنا رکھا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کیفیت (جس پر کسی دوسرے انسان کو دسترس ہوہی نہیں سکتی) از خود بیان کرتے اور اس پر بھی فتویٰ کفرو فسق جڑ دیتے ہیں۔ اس میں پہلی بات تو ذہن میں رہنی چاہئے کہ کسی کو کافر، ملحد، فاسق یا مشرک وغیرہ قرار دے کر اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا یہ کسی کا اختیار نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ اختیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیا۔ دوسرے یہ کہ جو شخص کسی دوسرے انسان کے بارہ میں یہ فتویٰ دے کہ اس کے دل میں یہ بات ہے، وہ تو خود خدائی کا دعوی دار بن بیٹھا ہے کیونکہ دلوں کے رازوں تک خدا کے علاوہ کسی کو رسائی حاصل نہیں۔ سو خدائی کا دعویٰ دار شخص کسی پر کیا فتویٰ دے گا کہ وہ کافر ہے فاسق ہے یا مشرک وغیرہ ہے۔

تیسری بات یہ کہ اللہ اور اس کے رسول نے قطعی طورپر کسی بھی شخص کو یہ اختیار دیا ہی نہیں کہ وہ کسی کے بارہ میں اپنی رائے دے اور اسے پھیلائے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ جو شخص کلمۂ توحید پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا ہے وہ اس اقرارپر عملی رنگ میں کس قدر قائم ہے۔ یہ اس کا اور خدا کا معاملہ ہے۔یہی حقیقت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل سے اخذ ہوتی ہے۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ کا واقعہ

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسامہؓ سے بہت محبت رکھتے تھے وہ آپؐ کے منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ کے فرزند تھے۔ وہ ایک جنگ میں شامل تھے۔ جب گھمسان کا رن پڑا تو ایک کافر ان کی زد میں آیا۔ انہوں نے حملہ کا قصد کیا تو وہ لا الٰہ الا اللّٰہ پُکار اُٹھا۔ مگر اسامہ ؓ نے اس کافر کے اس کلمہ پڑھنے کو اس کی جان بچانے کے فریب پر محمول کرکے اس کا کچھ خیال نہ کیا اور اسے قتل کردیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو اسامہ ؓسے سخت آزردہ ہوئے۔ اسامہؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ! اس نے صرف تلوار کے خوف سے کلمہ پڑھا۔ فرمایا اے اسامہؓ! کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا۔ پھر برابر فرماتے رہے اے اسامہ! قیامت کے دن اس کلمے کا کیا جواب دو گے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان صفحہ52 مطبوعہ مصر)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد

صحیح مسلم میں طارق بن اثیم سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے زبان سے لا الٰہ الا اللّٰہ کہا اور جو چیز کہ سوائے خدا کے پوجی جاتی ہودرخت ہو یا پتھر یا قبر، اس سے انکار کرے تو اس کا مال اور خون حرام ہے۔ اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔ پھر دوسری حدیث میں ہے کہ بخاری و مسلم میں حضرت ابو بکر صدیقؓ اور عمر فاروق اور جابرؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں۔ سو جس نے لا الٰہ الا اللّٰہ کہا اس نے اپنا مال اور جان بچالی مگر دین کی حق تلفی کا بدلہ ہے۔ اور اس کا حساب خدا کے ذمہ ہے۔ یعنی جب آدمی مسلمان ہوا اور کلمہ پڑھا تو اس کا جان اور مال لینا حرام ہے اور اگر وہ خوف سے ظاہر میں مسلمان ہوااور دل میں کافر رہا تو اس سے خدا حساب لے گا۔ دلوں کے حال دریافت کرنے کا حاکم اور قاضی کو حکم نہیں۔

(بحوالہ مشارق الانوار مؤلفہ امام رضی اللہ حسن صنعانی ؒ۔ اردو ترجمہ و فوائد از مولانا خرم علی صفحہ8-9)

یہودی بچے کو کلمہ پڑھایا اور خوشی کا اظہار فرمایا
بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک یہودی لڑکا بیمار ہوااور جب وہ مرنے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ اسلام لے آؤ۔ چنانچہ وہ یہودی لڑکا مسلمان ہوگیا تو آپ یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس لڑکے کو آگ سے بچایا۔‘‘

(تجرید بخاری مترجم جلد اول شائع کردہ دارالاشاعت کراچی صفحہ263)

تھوڑا سا بھی غور کرنے سے اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس یہودی لڑکےنے محض زبان سے اقرار اسلام کیا۔عمل کی کوئی توفیق نہ ملی نہ موقعہ ملا لیکن وہ مسلمان شمار ہوا۔ اسے آپؐ نے جہنم کی آگ سے بچنے کی خوشخبری دی۔

ابوطالب کے آخری وقت آپ کا کلمہ

بخاری و مسلم میں مسیب بن حزنؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اپنے چچا ابوطالب کو ان کی موت کے وقت) ’’اے چچا! کہہ لا الٰہ الا اللّٰہ۔ خدا کے نزدیک اس کلمہ کے کہنے کے سبب سے تیرے واسطے میں جھگڑ لوں گا۔ یعنی تیرے اسلام کی گواہی دے کر تجھ کو بخشاؤں گا۔

(بحوالہ مشارق الانوار صفحہ 9)

اب سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اس موقعہ پر یعنی ابوطالب کے لئے عمل کا کوئی بھی موقعہ نہ تھا۔ وہ تو اس دنیا سے رخصت ہورہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے ایک ہی بات رکھ رہے تھے کہ کلمہ پڑھ لیں۔ کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے کسی کو اسلام میں داخل کرنے کا اور جس نے کلمہ پڑھ لیا وہ داخلِ اسلام ہوگیا اور یہ یقینی بات ہے کہ جب ایک شخص کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوجاتا ہے تو پھر خارج بھی تبھی تصور ہوگا جب وہ اعلانیہ اس کلمہ کا انکار کرے۔ درمیان میں آنے والے دیگر امور خدا اور بندے کے درمیان ہیں۔ کسی دوسرے انسان کو اس میں دخل کا نہ اختیار ہے اور نہ ہی حق ہے۔

کسی کو کافر، فاسق کہنے کی ممانعت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لوگوں کو باقاعدہ طور پر دوسروں کو (امتی بھائیوں کو) کافر، فاسق وغیرہ کہنے سے منع فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا

لَا یَرْمِ رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوْقِ وَلَا یَرْمِیْہِ بِالْکُفْرِ اِلَّا رُدَّتْ عَلَیْہِ اِنْ لَّمْ یَکُنْ صَاحِبُہُ کَذَالِکَ

(بخاری کتاب الادب باب ماینھیٰ عن السباب)

یعنی کوئی شخص کسی دوسرے پر فاسق ہونے کی تہمت نہ لگائے اور نہ ہی کافر ہونے کی۔ اس لئے کہ یہ تہمت لگانے والے پر لوٹ کر آتی ہے۔ اگر وہ (جس پر تہمت لگائی گئی ہے) اس کا (خدا کی نظر میں) مستحق نہیں۔

اسی طرح فرمایا جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کو کافر کہے تو دونوں میں سے ایک ضرور کافر ہوجاتا ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الادب باب من اکفر اخاہ بغیر تأویل فھو کما قالہ)

بہت بڑا انذار

لوگ بلا سوچے سمجھے یا یوں کہنا چاہئے کہ بلا خوف دوسروں کے بارے میں فتوے جڑ دیتے ہیں کہ ہم تو فلاں کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ اس کی فلاں فلاں کمزوری کی وجہ سے ہمیں اس کے ایمان پر یقین نہیں ہے وغیرہ لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ جس بات کو معمولی خیال کرکے وہ اپنے منہ سے نکال رہے ہیں وہ کس قدر خوفناک نتائج کی حامل ہے اور انہیں کتنے بڑے گناہ کا مرتکب بنا رہی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ اَفْتٰی بِغَیْرِ عِلْمٍ کَانَ اِثْمُہُ عَلٰی مَنْ اَفْتَاہ ُ۔

(سنن ابوداؤد کتاب العلم باب التوقی فی الفتیاء)

یعنی جس نے بغیر علم کے فتویٰ دیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے

عَنْ عَلِیٍّ قَالَ اَلْبُھْتَانُ عَلَی الْبَرِيءِ اَثْقَلَ مِنَ السَّمٰوٰتِ

(کنزالعمال جلد3 صفحہ802 رقم8810)

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کسی بے گناہ پر بہتان لگانا آسمانوں سے بھی زیادہ بوجھل ہے۔

اسی لئے نصیحت فرمائی گئی ہے کہ لَا یَنْبَغِیْ لِصِدِّيقٍ اَنْ یَکُوْنَا لَعَّانًا (مشکوٰة المصابیح411/2) یعنی کسی سچے مسلمان پر جائز نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔

تکفیر سازی کا زہر

ابتدائے اسلام کے کچھ ہی عرصہ بعد علماء حضرات کے کچھ گروہوں نے بجائے تکثیر کے لئے کام کرنے کے تکفیر سازی کی فیکٹریاں قائم کرلیں۔ اور وہ کام جو خدا نے شارع نبی ؐ کے بھی سپرد نہ کیا تھا اور اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔ ان علماء نما لوگوں نے اپنا اختیار بناکر لوگوں کے ایمانوں پر تکفیر کے ٹھپے لگانے شروع کردئیے۔ ان کی زبانوں کے شعلے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرتے رہے اور جابجا زبانوں کی تلواریں آہنی تلواروں کا روپ دھار کر مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا سر قلم کرواتی رہیں۔ جس کا فائدہ غیروں کو ہوتا رہا اور بڑی بڑی بارعب اسلام کا قلعہ کہلانے والی سلطنتیں تکفیر کے زہر کے اثر سے تاخت و تاراج ہوگئیں۔

سقوطِ بغداد کا المناک سانحہ تاقیامت ہمیں تکفیر کے زہر کی قتل و غارتگری کی داستان سناتا رہے گا۔ بغداد کی فضائیں معتصم باللہ کی حکومت میں تکفیر سے آلودہ ہوچکی تھیں۔ سنی و شیعہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں تمام حدیں پھلانگ رہے تھے۔ اقتدار کے ایوانوں سے دونوں گروہوں کی یوں حمایت ہورہی تھی کہ وزیرِ اعظم ابن علقمی جو خود بھی شیعہ تھا، شیعوں کی حمایت کرتا تو دوسری طرف خلیفہ معتصم باللہ کا فرزند ابو بکر سنیوں کی حمایت اورامداد کرتا۔ اس لڑائی نے جسدِ علم کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا اور وہ سلطنت جس کی ہیبت کے چارسُر چرچے تھے وہ ہلاکوکی افواج کے سامنے ریت کی دیوار اور راکھ کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ بغداد میں انسانی لاشوں کے ڈھیر تھے جو مسلمانوں کی تھیں اور تین دن تک دجلہ کا پانی خونِ مسلم سے سُرخ رہا۔

تاریخ سے کچھ سبق نہ سیکھا گیا

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے دسیوں، بیسیوں واقعات جو تاریخ کے اوراق میں ہمیں ملتے ہیں۔ ان سے کوئی سبق نہ سیکھا گیا۔ آج بھی جبّہ و دستار کے حامل ملّاں اور جاہل، منافق اور حرام کے رسیاپیر اپنی جعلسازی سے کمائی جانے والی حرام کمائی کی خاطر خونِ مسلم کی ارزانی کی داستانیں سناتے دکھائی دیتے ہیں، آج بھی اپنی حقیقت سے ناآشنا مسلمان ان کے ہوس پرستانہ عزائم کا ذریعہ اور شکار بن رہے ہیں۔ آج بھی ناحق خونِ مسلم بہہ رہا ہے۔آج بھی جسدِ اسلام کو چھلنی کیا جارہا ہے جس سے اسلامی مملکتیں اور ریاستیں عملًا غیروں کے آگے ڈھیر دکھائی دے رہی ہیں۔ تکفیر کا یہ زہر سانپ نماملاؤں کی کچلیوں سے جب تک نکال پھینکا نہ گیا تب تک یہ تاریخ خود کو دھراتی چلی جائے گی۔ اللہ پناہ دے۔

(محمد لقمان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ