خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے دو تاریخی تعلق
مولوی اللہ دتہ صاحب اور حضرت منشی رحیم بخش صاحبؓ
دو سال قبل خاکسار کی تایا زاد بہن مکرمہ طیبہ طاہرہ صاحبہ اہلیہ مکرم امان اللہ امجد صاحب کا ایک مضمون ’’احمدیت نے ہمارے خاندان کو کیا دیا‘‘ ہمارے پردادا سے متعلق روزنامہ الفضل آن لائن لندن کے 25 جون 2020ء کی زینت بنا۔
اسی مضمون سے یہ تحریک ہوئی کہ خاکسار کو بھی اس بارہ میں کچھ لکھنا چاہیئے۔ ہمارے خاندان کو اس پر فخر ہے کہ ہمارا تعلق حضرت مسیح موعودؑ کے چار صحابہ سے ہے۔ اسی تناظر میں خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے دو ایسے عجیب تعلق قائم کئے جن کو تاریخ نے بھی محفوظ کیا۔
حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ
سبحان اللّٰہ تبارک وتعالیٰ زاد مجدک ینقطع آبآؤک و یبدء منک
سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے۔ اس نے تیرے مجد کو زیادہ کیا تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہو جائے گایعنی بطور مستقل ان کا نام نہیں رہے گا اور خدا تجھ سے ابتداء شرف اور مجد کا کرے گا۔
(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد اول صفحہ 582 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
حضرت مسیح موعودؑ کے اس الہام کا اعجاز جہاں آپ کی ذات کے متعلق تھا وہیں آخرین کی جماعت ہونے کے ناطے اس کا اطلاق جماعت پر بھی ہوا۔ کئی احمدی اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ اپنا خاندان کا سلسلہ حضرت مسیح موعودؑ تک زمانہ تک لے جانا پسند کرتا ہے یا حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کے بعد کی تاریخ محفوظ ترین تاریخ شمار ہوتی ہے۔ جو اس الہام کی صداقت کا ایک اور بیّن ثبوت ہے۔
علاوہ ازیں ایک احمدی کے لئے احمدی ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے کسی بھی قسم کی نسبت ہونا کیا ہی خوش نصیبی کی بات ہے۔ خاندانِ اقدس سے بعض واقعات کی بدولت ایسی عجیب مناسبت ہے جو گو کہ تاریخ کا حصہ بن گئی ہے لیکن ان واقعات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا ایک بابرکت تعلق ہمارے خاندان کی تاریخ کا آغاز ہے۔ اس سے قبل کی تاریخ کالعدم ہے اور کوئی بھی نہیں جانتا۔ ذیل میں انہی ایام کے دو واقعات درج کرنے مقصود جو احمدیت سے تعارف کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔
پہلا تعلق:تدریس کا
خاکسار کے پردادا حضرت حکیم مولوی حبیب اللہ صاحب ؓ آف لودھی ننگل اور ان کے دو بھائی حضرت مولوی نور احمد صاحبؓ آف لودھی ننگل اور حضرت مولوی عبد الحق صاحبؓ آف لودھی ننگل اور ان کے والد مولوی اللہ دتہ صاحب اہلِ حدیث کے جید عالم اور حضرت مسیح موعودؑ کے ہم عصر تھے۔ مولوی اللہ دتہ صاحب شاید دعویٰ کے وقت بقید حیات نہ رہے لیکن حضرت مسیح موعودؑ کی ان کے بارہ میں نیک ظنی یا ان کے لئے کی گئیں دعائیں ہی تھیں کہ ان کے تینوں بیٹوں کو ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی اور اب ہم ان کے ایمان لانے کی وجہ سے احمدیت کے برگ و بار شجرۂ طیبہ کے پھل کھا رہے ہیں۔
مکرم فضیل احمد عیاض صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں کہ
مولوی اللہ دتہ صاحب آف لودھی ننگل اصل میں تیجہ کلاں کے رہنے والے تھے۔ اور مذہبا ًاہل حدیث تھے۔مولوی اللہ دتہ صاحب کو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں صاحبزادہ مرزا سلطان احمد اور صاحبزادہ مرزا فضل احمد کی تعلیم کے لیے بطور اتالیق رکھا تھا ۔ لیکن حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ پرایک علمی اختلاف کی وجہ سے آپ جلد ہی قادیان چھوڑ کر چلے گئے۔ اور لودھی ننگل جا کر ایک منظوم فارسی خط حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھا جس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا منظوم جواب دیا جو آپ کے ابتدائی فارسی کلام درمکنون میں چھپا ہوا موجود ہے۔ اس کا ذکر مکتوبات احمد جلد پنجم کے صفحہ 209سے 216تک ہے۔
آپ کے بیٹے حضرت مولوی نور احمد صاحبؓ بھی ابتدا میں مخالفت میں پیش پیش رہے اور ایک کتاب بھی ازالہ ٔاوہام کے جواب میں بعنوان تحقیق الکلام فی اثبات حیات مسیح علیہ السلام لکھی جس کے دو جز چھپ چکے تھے اور تیسرا چھپنے جا رہا تھا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انفاس قدسیہ کے طفیل آپؑ کے حلقۂ بیعت میں داخل ہو گئے۔آپ کی فطرت پاک اور طبعاً سعادت مند تھی۔ جب مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر آپ کے خلاف فتویٰٔ کفر لکھا تو آپ کو بھی دستخط کرنے کو کہا جس پر آپ نے انکار کیا ور ایک خط مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام لکھا جس میں اس انکار کی وجوہات لکھیں جو الحکم کی اولین اشاعت اکتوبر 1897ءکے پہلے پرچے میں ایڈیٹر الحکم کے اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوا کہ مولوی صاحب نے یہ خط اس وقت لکھا جب آپ نے ابھی بیعت نہیں کی تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب نے اشاعۃ السنۃ کی ایک اشاعت میں اس کتاب کی اشاعت کا ذکر کیا اور مولوی نور احمد کو اپنا اقراری شاگرد قرار دیا۔ یہ رسالہ مدت تک آپ کے بیٹے جناب حکیم برکت اللہ صاحب آف سانگلہ ہل کے پاس دیکھا اور یہ عبارت ان کے ہاتھ سے خط کشیدہ دیکھی تھی لیکن نہ معلوم وہ رسالہ کہاں چلا گیا۔
(ماخوذ ’’اِک خواب ہے اور مستقل ہے‘‘ از بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 24 دسمبر 2019ء)
جو تعلق خاکسار بیان کرنا چاہتاہے وہ تدریس کا تعلق ہے۔ الحمدللّٰہ خاندان اقدس کی جسمانی وروحانی اولاد سے یہ تعلیمی رشتہ اب تک قائم ہے۔ خاندان کے کئی افراد کو دینی و دنیوی تدریس دونوں کی توفیق ملی۔
چنانچہ حضرت مولوی نور احمد صاحبؓ کی نسل سے مکرم فضیل عیاض صاحب کو جامعہ احمدیہ ربوہ میں بطور استاد فقہ خدمت کی سعادت حاصل ہوئی اور اب بطور نگران متخصصین تدریس کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح حضرت مولوی صاحب کے پوتے اور نواسے مکرم عامر شہزاد صاحب کو مجلس نصرت جہاں کے تحت نصرت سینیئر سیکنڈری سکول دی گیمبیا ویسٹ افریقہ میں بطور انچارج شعبہ کیمسٹری پڑھا رہے ہیں۔
حضرت مولوی حبیب اللہ صاحبؓ کی نسل میں مکرم عزیز احمد شہزاد صاحب مربی سلسلہ جامعہ احمدیہ تنزانیہ میں پڑھا رہے ہیں۔ اور خاکسار کو نصرت جہاں اکیڈمی ربوہ میں کچھ عرصہ پڑھانے کا موقع ملا اور مجلس نصرت جہاں کے تحت احمدیہ سیکنڈری سکول روکوپر ،سیرالیون میں بطور استاد اسلامیات اور عربی کی تدریس کرنے کی سعادت مل رہی ہے۔
حضرت مولوی عبد الحق صاحبؓ کی نسل سے مکرم رضوان خالد صاحب مربی سلسلہ کو جامعہ احمدیہ ربوہ میں علم الکلام پڑھانے کی سعادت حاصل رہی۔
مربیان سلسلہ کے علاوہ بھی خاندان کے مرد و زن کو شعبہ تدریس کے تحت حضرت مسیح موعودؑ کی جسمانی و روحانی اولاد کو نصرت جہاں اکیڈمی ربوہ، جامعہ احمدیہ اور جماعتی سکولز میں پڑھانے کی سعادت ملی اور ابھی کچھ جامعہ میں زیرِ تعلیم بھی ہیں۔
دوسرا تعلق: مخالفت سے محبت کا
خاکسار کی نانی جان محترمہ ممتاز بیگم صاحبہ مرحومہ (اہلیہ مکرم مقبول احمد بھٹی صاحب مرحوم باب الابوب ربوہ) کے ماموں حضرت مولانا رحیم بخش صاحبؓ تھے۔ یعنی حضرت مولوی نور احمد صاحبؓ کے ایک صاحبزادے مکرم عنایت اللہ صاحب کی شادی حضرت رحیم بخش صاحبؒ کی ہمشیرہ سے ہوئی اور پھر آپ کی ایک صاحبزادی کی شادی اس خاندان میں ہوئی جس کے بعد دونوں خاندانوں میں متواتر رشتے طے ہوتے گئے اور گویا ایک خاندان ہی بن گیا۔
لوٹے والا واقعہ
جس عجیب واقعہ کی طرف خاکسار توجہ دلانا چاہتا ہے وہ تاریخ سلسلہ میں یہ واقعہ ’’لوٹے والا واقعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جس کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے۔
حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) رعیہ میں جہاں مریضوں کا ظاہری علاج کرتے تھے۔ وہاں آپ کی بدولت کئی سعید روحوں کوسلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ 1902ء میں رعیہ خاص میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ایک منشی مولوی رحیم بخش صاحب عرائض نویس نے آپ کو ایک لوٹا مارا جس سے آپ زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ کی بابت مکرم سیداحمدعلی شاہ صاحب مربی سلسلہ تحریر کرتے ہیں:-
’’مورخہ 14مئی 1967ء کو مجھے سلسلہ کے ایک کام کے لئے دھرگ میانہ نزد رعیہ ضلع سیالکوٹ میں جانے پر مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب امیرجماعت احمدیہ حلقہ دھرگ نے ایک واقعہ سنایا جو سبق آموز اور ازدیادِ ایمان کا موجب ہے۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) کے والد ماجد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب جو کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابی تھے۔ رعیہ کے ہسپتال میں لمبا عرصہ ملازم رہے ہیں۔ انہی ایام کا واقعہ ہے کہ ایک روز حضرت شاہ صاحب نماز کی ادائیگی کے لئے نزدیکی مسجد میں تشریف لے گئے اس وقت ایک سخت مخالفت احمدیت چوہدری رحیم بخش صاحب وضو کے لئے مٹی کا لوٹا ہاتھ میں لئے وہاں موجود تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کو دیکھتے ہی مذہبی بات چیت شروع کردی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کی کسی بات پر چوہدری رحیم بخش صاحب نے شدید غصہ میں آکر مٹی کا لوٹا زور سے آپ کے ماتھے پر دے مارا۔ لوٹا ماتھے پر لگتے ہی ٹوٹ گیا۔ ماتھے کی ہڈی تک ماؤف ہوگئی اور خون زور سے بہنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب کے کپڑے خون سے لت پت ہوگئے۔ آپ نے زخم والی جگہ کو ہاتھ سے تھام لیا اور فوراً مرہم پٹی کے لئے ہسپتال چل دیئے۔ ان کے واپس چلے جانے پر چوہدری رحیم بخش صاحب گھبرائے کے اب کیا ہوگا؟ یہ سرکاری ڈاکٹر ہیں۔ افسر بھی ان کی سنیں گے اور میرے بچنے کی اب کوئی صورت نہیں۔ میں کہاں جاؤں! اور کیا کروں! وہ ان خیالات میں ڈرتے ہوئے اور سہمے ہوئے مسجد میں ہی دبکے پڑے رہے۔ اُدھر ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال میں جا کر زخمی سر کی مرہم پٹی کی۔ دوائی لگائی اور پھر خون آلود کپڑے بدل کر دوبارہ نماز کے لئے اسی مسجد میں آگئے۔جب ڈاکٹر سیدعبدالستار شاہ صاحب دوبارہ (بیت) میں داخل ہوئے اور چوہدری رحیم بخش صاحب کو وہاں دیکھا تو دیکھتے ہی آپ مسکرائے اور مسکراتے ہوئے پوچھا کہ:-
’’چوہدری رحیم بخش! ابھی آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوا ہے یا نہیں؟‘‘ یہ فقرہ سنتے ہی چودھری رحیم بخش کی حالت غیر ہوگئی۔ فوراً ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی کے ملتجی ہوئے اور کہنے لگے کہ شاہ صاحب! میری بیعت کا خط لکھ دیں۔ یہ اعلیٰ صبر کا نمونہ اور نرمی اور عفو کا سلوک سوائے الٰہی جماعت کے افراد کے کسی سے سرزد نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ چوہدری صاحب احمدی ہوگئے کچھ عرصہ بعد ان کے باقی افراد خانہ بھی جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ چوہدری صاحب اور حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب تو اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں مگرخدا کے فضل سے دونوں کے خاندان احمدیت کی آغوش میں پرورش پارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے بزرگوں کے نیک نمونہ پر چلنے کی توفیق دے۔ اور دونوں کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین‘‘۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 3 جون1967ء)
رعیہ میں حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب نے منشی رحیم بخش صاحب عرائض نویس کو بغرضِ مطالعہ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتاب ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ عنایت کی۔ جسے پڑھ کر وہ وفات مسیح کے قائل ہوگئے۔
مکرم احمد طاہر مرزا صاحب اپنی کتاب حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ میں اس واقعہ سے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔
’’چند ماہ قبل خاکسار جب موضع فتوکے حالات دریافت کرنے گیا تو خاکسار کی ملاقات مکرم چوہدری حنیف احمد صاحب سکواڈرن لیڈر سے ہوئی جو احمدی ہیں ۔ وہاں کے صدرجماعت بھی ہیں۔ آپ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ اس بزرگ کے پوتے ہیں۔ جنہوں نے مخالفت کے جوش میں آکرحضرت سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) کی پیشانی پر لوٹا دے مارا تھا۔ چنانچہ چوہدری حنیف احمد صاحب آف فتوکے نے بتایا کہ دادا جان حضرت چوہدری منشی رحیم بخش صاحب ولد چوہدری عبداللہ صاحب رعیہ کی تحصیل کچہری میں عرائض نویس اور قانون دان تھے اور عمر میں حضرت ڈاکٹر سیدعبدالستارشاہ صاحب(اللہ آپ سے راضی ہو)سے بڑے تھے۔اس علاقہ میں لوگ آپ سے فتاویٰ حاصل کرتے تھے۔ آپ دین کا شغف رکھنے والے انسان تھے۔ خاکسار کے داداجان حضرت شاہ صاحب کے زیرتبلیغ تھے۔شفاخانہ رعیہ اور کچہری رعیہ کا درمیانی فاصلہ قربیاً دو فرلانگ بنتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) شفاخانہ میں مریضوں کے علاج معالجہ سے فارغ ہو کر دعوۃالی اللہ کے لئے کچہری میں تشریف لے جاتے اور دعوة الی اللہ کا سلسلہ جاری رہتا۔
کچہری میں مولوی رحیم بخش صاحب عرائض نویس تھے۔ جن سے آپ کا تبادلہ خیالات ہوتا رہتا تھا۔ ایک روز دوپہر کا وقت تھا۔ حضرت شاہ صاحب مولوی صاحب سے تبادلہ خیالات کررہے تھے کہ نبوت کے مسئلہ پر مولوی صاحب جوش میں آگئے اور اس مسئلہ پر آپ نے ایک لوٹا اُٹھا کر حضرت شاہ صاحب کے ماتھے پر دے مارا جس سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ حضرت شاہ صاحب کچہری سے فوری طور پر ہسپتال تشریف لے گئے۔ مرہم پٹی کرکے اور لباس تبدیل کرکے دوبارہ کچہری میں تشریف لے آئے۔ اس دوران مولوی صاحب کی حالت بدل گئی اور کچہری میں جتنے لوگ موجود تھے سب نے کہا ڈاکٹر صاحب سرکاری آدمی ہیں۔ آپ نے یہ کیا کردیا آپ کو سزا بھی ہوسکتی ہے۔ مولوی صاحب اسی گھبراہٹ میں تھے کہ شاہ صاحب نے آکر مولوی صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا مولوی صاحب کیا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہے؟ کچہری میں سب دوست شاہ صاحب کے اس رویہ سے غیرمعمولی طور پر متاثر ہوئے۔ اگر شاہ صاحب چاہتے تو ان پرمقدمہ بھی کرواسکتے تھے تاہم آپ نے کمال وسعت ِ حوصلہ کا مظاہرہ فرما کر درگزرکردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی صاحب پر رقت طاری ہوگئی اوربے اختیارہوکر کہنے لگے کہ شاہ صاحب میری بیعت کاخط لکھ دیں۔ اور اپنی غلطی پر معذرت کا رویہ اختیار کیا۔
اس کے بعد اِن بزرگان کا قادیان جانے کا پروگرام بنا اور زیارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے قادیان روانہ ہوگئے۔‘‘
(حضرت ڈاکٹر سیدعبدالستارشاہ صاحب صفحہ 66-70)
ان بزرگان کی قادیان دارالامان آمدکے بارے میں اخبارالحکم قادیان 10 نومبر1902ء صفحہ 8 تا 10 پر تفصیل درج ہے اور حضرت مولوی صاحب کے حضور اقدس سے دریافت کئے گئے دو سوال اور ان کے جواب بھی درج ہیں۔
ہمارے مہدی سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تاثیر قدسی نے اشد ترین مخالفین کو بھی فنا فی اللہ وجود بنا دیا اور وہ جو مخالفت میں پیش پیش ہوتے تھے۔ آپ کی بیعت کرنے کے بعد دعوت الی اللہ میں بھی پیش پیش نکلے۔حضرت منشی رحیم بخش صاحب عرائض نویس بیعت کے بعد ایک مستعد داعی الی اللہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے اور آپ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کے ہمراہ اکٹھے دعوت الی اللہ کے لئے روانہ ہوتے۔ آپ کی ان خدمات کی جھلک اخبار بدر کی ایک رپورٹ سے بھی ظاہرہوتی ہے۔ جس میں سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات اور آپ کا ایک مکتوب گرامی بھی ہے۔ یہ رپورٹ اخبار بدر قادیان 15 اگست 1907ء صفحہ 11 پر درج ہے۔ آپ حضرت مسیح موعودؑکے ساتھ سیالکوٹ کے احباب کے گروپ فوٹو میں بھی شامل ہونے کی سعادت ملی۔ آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کی قدموں میں تشریف فرما ہیں جبکہ آپ کی گود میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓ تشریف فرما ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کے بارہ میں فرمایا کہ ’’یہ بہشتی کنبہ ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم صفحہ545 روایت نمبر563)
اس بہشتی کنبہ سے تعلق پر جتنا ناز کیا جائے اتنا کم ہے۔ مذکورہ بالا واقعہ سے محبت، پیار اور عقیدت کا یہ رشتہ قائم ہوا تھا۔ جو شاید مرورِ زمانہ سے ماند پڑ گیا۔ اب حضرت سید عبد الستار شاہ صاحبؓ کی پڑپوتی حضرت امۃ السبوح بیگم صاحبہ سلمھا اللّٰہ تعالیٰ اہلیہ سیدنا امیر المومنین کے توسط سے پھر ایک جماعتی و روحانی رشتہ قائم ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مکرم سید خالد احمد شاہ صاحب کے صائب مشورے اور رہنمائی ہمیشہ خاکسار کے شامل حال رہتی ہے۔ شادی کے بعد آپ نے ہی ربوہ میں رہائش کا انتظام کرکے دیا۔
اللہ کرے کہ ان تاریخی تعلقات اور ان سے حاصل ہونے والی برکات سے ہم ہمیشہ مستفیض ہوتے رہیں۔ خاکسار اس کوشش میں ہے کہ ان بزرگان کے مفصل واقعات بھی پیش کرے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ذیشان محمود۔ مبلغ سلسلہ روکوپر، سیرالیون)