• 20 اپریل, 2024

عقل تو خُود اندھی ہے گر نیّر اِلہام نہ ہو

اگر ہم یہ کہیں کہ ناظرین کے لئے یہ خبر کہ ’’چین نے امریکہ کے چاند پر امریکی جھنڈا لگانے کے 50 سال بعد اپنا جھنڈا بھی وہاں لگا دیا ہے۔‘‘ (بی بی سی لندن مؤرخہ 5نومبر 2020ء) حیران کن لیکن قابل قبول ہو سکتی ہے اور اگر یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون ِ قدرت کے خلاف ’’ہم جنس پرستی‘‘ قابلِ قبول نہیں تو یہ بات اب معاشرے میں معدوم پڑتی نظر آرہی ہے ۔نام نہاد ترقی یافتہ قومیں جب مذہب کی بجائے عقل کی دلیل پر عمل پیرا ہونے لگیں اور یہ کہیں کہ عقل کے پاس کوئی ایسا لگا بندھا ضابطہ اور کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے، جو عالمی حقیقت رکھتا ہو۔ اور زندگی میں اپنی بوریت کو دُور کرنے کے لئے نت نئے طریق اختیار کرنے لگیں توآپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ اس میں آپ کو یہ نظر آئے گا کہ اس عقل نے انسان کو اتنے دھوکے دیئے ہیں جس کا کوئی شمار اور حد و حساب ممکن نہیں۔ اگر عقل کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا جائے تو انسان کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک خبر سےمجھے انسان اپنے علم کے باوجود اتھاہ پستیوں میں گرتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ سب کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟ اس لیے کہ عقل کو اس جگہ استعمال کیا جارہا ہے جو عقل کے دائرۂ کارمیں نہیں ہے۔ جہاں وحی الٰہی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اور عقل کو وحی الٰہی کی رہنمائی سے آزاد کرنے کا نتیجہ یہ ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَ لَا تَقۡرَبُوا الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ ۚ

(سورۃالانعام:152)

اور فحشاء کے قریب بھی نہ جاؤ، نہ ظاہری فحشاء اور بے حیائیوں کے، نہ چھپی ہوئی بے حیائیوں کے۔

اس ایک حکم میں مختلف قسم کی بے حیائیوں اور برائیوں سے روکا گیا ہے۔ الْفَوَاحِشَ کے مختلف معنیٰ ہیں۔ اس کے معنیٰ زنا بھی ہیں۔ اس کے معنیٰ زیادتیوں میں بڑھنے کے بھی ہیں۔ اس کے معنیٰ اخلاق سے گری ہوئی اور اخلاق کو پامال کرنے والی حرکات کے بھی ہیں۔ اس کے معنیٰ قبیح گناہ اور شیطانی حرکتوں کے بھی ہیں۔ ہر بری بات کہنے اور کرنے کے بھی ہیں۔ اس کے معنیٰ بہت بخیل ہونے کے بھی ہیں۔ پس اس حکم میں ذاتی اور معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کیا گیا ہے۔ یا وہ باتیں جن سے گھر، ماحول اور معاشرے میں بے حیائیاں پھیلتی ہیں، اُن کا سدّ باب کیا گیا ہے۔

(خطبہ جمعہ 2؍ اگست 2013ء فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

مندرجہ ذیل خبر کے مطابق درحقیقت والدہ نے اپنے بیٹے کے نطفہ سے اور بیٹی کے بیضہ سے بیک وقت پوتی اور نواسی اور بیٹی کو جنم دیا۔

’’امریکہ میں ایک خاتون نے اپنے ہم جنس پرست بیٹے کے لیے سروگیٹ بن کر پوتی کو پیدا کیا۔‘‘

سیسل ایلج کا کہنا ہے کہ انہوں نے سروگیسی (اپنی کوکھ سے کسی دوسرے کے بچے کی پیدائش) کی پیشکش اس وقت کی تھی جب ان کے ہم جنس پرست بیٹے اور ان کے پارٹنر ڈوہرٹی نے پہلی مرتبہ یہ کہا تھا کہ وہ اپنا کنبہ بڑھانا چاہتے ہیں۔ یقیناً اس پیشکش پر وہ سب ان پر ہنس پڑے تھے۔ یہ ہم جنس پرست جوڑا، جو مسز ایلج کے گھر کے قریب ہی اوماہا میں رہتا ہے، اپنے بچے کی پیدائش کے لیے راستے ڈھونڈ رہا تھا تو اس دوران انہیں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ مسز ایلج کی پیشکش عملی طور پر ممکن ہو سکتی ہے۔ اس بچے کی پیدائش کے لیے میتھیو ایلج نے نطفہ (سپرم) فراہم کیا اور ایلیئٹ ڈوہرٹی کی بہن نے بیضہ (ایگ) دیا۔ مسز ایلج کہتی ہیں کہ ان کے حاملہ ہونے پر اکثر لوگوں کا ردعمل مثبت تھا لیکن کچھ لوگ اس پر حیران تھے جیسے ان کے دوسرے دو بچے یعنی میتھیو کے بہن بھائی جنہیں ہلکا دھچکا لگا۔ میتھیو کو چار سال قبل ایک سکول سے نکال دیا گیا تھا جب انہوں نے انتظامیہ کو بتایا کہ وہ اپنے ہم جنس پرست پارٹنر سے شادی کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس بات پر ہم جنس پرستوں میں کافی غم و غصہ پایا گیا تھا اور ایک آن لائن پٹیشن بھی جاری کی گئی تھی جس کی ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے حمایت کی تھی۔ مسز ایلج کہتی ہیں کہ وہ ہم جنس پرستوں کے ساتھ امتیازی سلوک روکنے کے لیے اپنی کہانی منظر عام پر لے کر آئے تاکہ یہ بھی بتایا جا سکے کہ یہاں کچھ امید ابھی باقی ہے۔ میتھیو کہتے ہیں کہ اب وہ ان رویوں کو ذاتی طور پر نہیں لیتے۔ آخر کار ہم فیملی ہیں، دوست ہیں اور ہمارے اردگرد یہ کمیونٹی ہے جو ہماری حمایت کرتی ہے۔‘‘

(بی بی سی لندن مؤرخہ 5نومبر 2020ء)

کون سی چیز اچھی ہے؟ کون سی چیز بُری ہے؟ کون سی چیز اختیار کرنی چاہیے؟ کون سی چیز اختیار نہیں کرنی چاہیے؟ یہ فیصلہ جب ہم عقل کے حوالہ کرتے ہوئے عمل پیرا ہوتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ جس کو ساری دنیا کے انسان تسلیم کرلیں اور اس کے ذریعہ وہ اپنے خیر و شر اور اچھائی اور برائی کا معیار تجویز کرسکیں تو محسوس ہوتا ہے کہ زمانہ جیسے جیسے ترقی کر رہا ہے اُسی قدر تیزی سے عجیب و غریب بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ مذہبی واخلاقی قدروں کی قربانی دے کر ہم معاشرے کو جن نت نئے نشوں کی لت لگا رہے ہیں اس کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم کسی بھیانک خواب میں ہوں اور جاگنے کا انتظار کر رہے ہوں۔

ان میں دنیا میں بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جو ایک وبا کی صورت پھیلی ہوئی ہیں ان میں کچھ جسمانی، کچھ روحانی اور کچھ اخلاقی بیماریاں ہیں ۔ میرے خیال سے روحانی اور اخلاقی بیماریاں، جسمانی بیماریوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہیں ۔

جب معمولی معمولی برائی کوہم نظر انداز کرنے لگیں اور اس سوچ کے ساتھ کہ انسان اپنی زندگی میں آزاد ہے اپنی اپنی زندگی گزارنے لگیں تو ہم اپنی آزادی کی بجائے اپنی سوچ کے غلام بنتے جاتے ہیں ۔جن کی اپنی آزاد سوچ ہوتی ہے، ان کو غلام نہیں رکھا جا سکتا اور قوموں کی غلامی اصل میں سوچ کی غلامی ہوتی ہے۔

سقراط کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگاکہ بتائیں میرا مستقبل کیسا ہوگا؟ سقراط نے ایک کاغذ منگوایا اور کہا اس پر اپنے خیالات لکھو۔ اس شخص نے جو جو سوچا تھا سب کاغذپر لکھ ڈالا۔ سقراط نے کہا کہ جیسے تمہارے خیالات ہیں اس کے مطابق تمہارا مستقبل ایسا ہوگا۔

اسی طرح معروف مصنف نپولین ہل کہتا ہےکہ دنیا میں اتنا خزانہ زمین میں سے نہیں نکالا گیا جتنا کہ انسان نے اپنے ذہن، خیالات، تصورات اور سوچ کے سمندر سے حاصل کیا۔

حقوق کی پاسداری کا مطالبہ کرنے والے لوگوں نے کئی جنگیں جیتیں شاید اسی لیے یہاں اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ موجودہ انتظامیہ اورقانونی ادارےاب پیچھے کی جانب سفر کررہے ہیں۔اب خدشہ ہے کہ انسانی خودمختاری کو چھین کر دوبارہ اندھیروں میں دھکیل دیا جائے گا۔

انسانوں کے اس جانور نماجنگل میں ایک دوسرے کو خوشی پہنچانے کی خاطر اس گھناؤنے کھیل سے انسانیت بھی شرمانے لگےاور اخلاقی وانسانی قدروں کی دھجیاں اڑنے لگیں ابھی بھی وقت ہے کہ اصل مالکِ حقیقی کی طرف رجوع کیا جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرماتے ہیں :
اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ اور افضل سب نبیوں سے اور اَتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں۔ جن کی پیروی سے خدا تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اُٹھتے ہیں اور اس جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔‘‘

روحانی فیض اٹھانے کے لئے رحمان خدا کی طرف توجہ اور اس کا خوف ضروری ہے۔

حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطبہ جمعہ 19؍ جنوری 2007ء میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور شعور عطا فرمایا ہے، اشرف المخلوقات کہلاتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی اس صفت رحمانیت کی وجہ سے اس کے آگے جھکے رہنے والا بنا رہنا چاہئے۔ لیکن عملاً انسان اس کے بالکل الٹ چل رہا ہے۔ انسانوں کی اکثریت اپنے خدا کی پہچان سے بھٹکی ہوئی ہے۔ فیض اٹھاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ اپنی رحمانیت کے صدقے اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا ہے جو لوگوں کو بشارت بھی دیتے ہیں، ڈراتے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر نیک اعمال کی طرف رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ اس کی عبادت کے طریقے بھی بتاتے ہیں۔ لیکن اکثریت اپنی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتی۔ اور پھر اس بات پر نبی اپنے دل میں تنگی محسوس کرتے ہیں کہ قوم کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ اور سب سے زیادہ تنگی ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ و سلم نے محسوس کی۔ جس پر اللہ تعالیٰ کو یہ کہنا پڑا کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔(سورۃ الشعراء:4) یعنی شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال لے گا کہ یہ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم کایہ احساس آپؐ کے اس مقام کی وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رحمۃٌ للعالمین بنا کے بھیجاتھا۔ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی فطرت کا خاصہ تھا۔ بہرحال یہ رحمان خدا کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ وہ دنیاوی ضرورتیں بھی بن مانگے پوری کرتا ہے اور روحانی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ پھر اگر کوئی ان کی قدر نہ کرے، ان کو نہ پہچانے، ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو ایسے لوگ پھر خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہوتے ہیں۔ نبی کی تعلیم اور نبی کا درد ایسے لوگوں کے کسی کام نہیں آتا۔ پس روحانی فیض اٹھانے کےلئے رحمٰن خدا کی طرف توجہ اور اس کا خوف ضروری ہے۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حالت دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکۡرَ وَ خَشِیَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَیۡبِ ۚ فَبَشِّرۡہُ بِمَغۡفِرَۃٍ وَّ اَجۡرٍ کَرِیۡمٍ (سورۃ یٰس:12) تُو صرف اسے ڈرا سکتا ہے جو نصیحت کی پیروی کرتا ہے اور رحمن سے غیب میں ڈرتا ہے۔ پس اسے ایک بڑی مغفرت کی اور معزز اجر کی خوشخبری دے دے۔ …

اس کے لئے کیا طریق اختیار کرنے ہیں۔ یہ جو طریق ہیں، یہ اب آگے اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت میں بیان ہوں گے۔ بہرحال یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ ہمیں بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا اظہار خداتعالیٰ کا پیغام پہنچانا بھی ہے۔ اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو پیغام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے اور جس کو لے کرآج آپ ؐ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہوئے، اس پیغام کو ہم آگے پہنچاتے رہیں اور لوگوں کے دلوں پر اثر نہ ہونے کی وجہ سے مایوس نہ ہوں۔ کئی ایسے ملیں گے جن کے دل اس طرف مائل ہوں گے۔ چاہے وہ قلیل تعداد میں ہی ہوں جو رحمٰن خدا سے ڈرنے والے ہیں، اس کے شکر گزار ہیں۔ اس لئے یہ پیغام پہنچاتے چلے جانا ہے اور یہ پیغام دوسروں کے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی، ان قبول کرنے والوں کے لئے بھی اور پہنچانے والوں کے لئے بھی مغفرت اور مزید انعاموں کا ذریعہ بن جائے گا۔ پس ہمارا ایمان بالغیب بھی اُس وقت اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا اقرار کرنے والا ہو گا جب ہم اپنے اندر بھی خداتعالیٰ کا خوف پیدا کریں گے، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے، خالصۃً للہ اس پیغام کو آگے پہنچاتے چلے جائیں گے۔ راستے کی کوئی روک ہمارے لئے اِس کام کو بند کرنے والی نہیں ہونی چاہئے۔ ختم کرنے والی نہیں ہونی چاہئے، یہی ایک مومن کا خاصّہ ہونا چاہئے۔

دنیا کو تباہی سے بچانے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ لوگ رحمٰن خدا کو سمجھیں ورنہ رحمٰن خدا کے احسانوں کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے ایسے عذابوں میں مبتلا ہوں گے جو کبھی بیماریوں کی صورت میں آتا ہے۔ کبھی ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کی صورت میں آتا ہے۔ کبھی ایک قوم دوسری قوم پر ظالمانہ رنگ میں چڑھائی کرکے ان سے ظالمانہ سلوک کرکے عذاب کو دعوت دیتی ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمینی اور سماوی عذاب آتے ہیں۔ پس دنیا کو ان عذابوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہمارا کام ہے، جس کا بہترین ذریعہ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑنا ہے کیونکہ مُردوں کو زندگی دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ پس یہ ایک بہت بڑا فرض ہے جو احمدیت میں شامل ہونے کے بعد ہم پرعائد ہوتا ہے۔ اپنے اپنے ماحول میں، اپنے عمل سے بھی اور دوسرے ذرائع سے بھی رحمٰن خدا کا یہ پیغام پہنچائیں۔ اس انعام کا دوسروں کے سامنے بھی اظہار کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور یہ کرنے سے ہی پھرہم بھی رحمٰن خدا سے ڈرنے والوں میں شمار ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہی، اللہ تعالیٰ کا ایسا خوف جو اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہو، اس کا یہ پیغام پہنچا رہے ہوں گے۔ …

اگر ایک ذی شعور عقلمند انسان غور کرے تو دیکھے گا کہ آجکل مختلف صورتوں میں انسانیت پر جو عذاب آ رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمٰن ہے تو اس کے ساتھ دوسری صفات بھی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں شرک معاف نہیں کروں گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ اس کی اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ ظاہری بتوں کا شرک نہیں ہے۔ بلکہ قسم ہا قسم کے مخفی شرک بھی ہیں جو انسان نے اپنے دل میں بٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے بھی جب ہم غور کریں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ پتا نہیں کون سی بات ہے جو خداتعالیٰ کو ناراض کرنے والی بن جائے۔ یہاں بظاہر حضرت ابراہیمؑ کا اپنے باپ کو رحمٰن خدا کے حوالے سے ڈرانا عجیب لگتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کی اور صفات بھی ہیں۔ تو جب ایک انسان اس کے باوجود کہ خداتعالیٰ بے انتہا نوازنے والا ہے انعامات دینے والا ہے اور بغیرمانگے دینے والا ہے جب اس سے تعلق توڑتا ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پھر وہ اللہ تعالیٰ کی جو دوسری صفات ہیں جن میں سزادینا بھی ہے ان کے نیچے آجاتا ہے۔ تو یہ انسان کی انتہائی بدبختی ہے کہ جو ایسے رحمان خدا کے عذاب کا مورد بنے جس نے دنیاوی سامان بھی ہمیں اپنی زندگی گزارنے کے لئے مہیا فرمائے اور روحانی بہتری کے لئے بھی اپنے مقرب بندے دنیا میں بھیجتا رہتا ہے۔ اور اس زمانے میں ہم گواہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج کر یہ احسان عظیم ہم پر کیا ہوا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات بھی ہیں اور جب انسان صفت رحمانیت کی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر ایسی صفات بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہیں جن میں سختی بھی ہے۔ مثلاً جیسے اللہ تعالیٰ کی صفت جبار بھی ہے قہار بھی ہے تو جب انسان باوجود اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں کے احسان فراموشی کرتا چلا جائے گا تو بعض دفعہ پھر اللہ تعالیٰ کی ان حدود کو پھلانگے گا جہاں جانے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ قہری جلوے بھی دکھاتا ہے۔ …

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’پس آدمی کو لازم ہے کہ توبہ وا ستغفار میں لگا رہے اور دیکھتا رہے۔ ایسا نہ ہو بداعمالیاں حد سے گزر جاویں اور خداتعالیٰ کے غضب کو کھینچ لاویں‘‘۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ (سورۃ الزالزال:9) یعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گا وہ اس سزا کو پائے گا‘‘۔ یہ لکھ کے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’پس یاد رہے کہ اس میں اور دوسری آیات میں کچھ تنا قض نہیں ہے کیونکہ اس شر سے وہ شرمراد ہے جس پر انسان اصرار کرے۔‘‘ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ مَیں بخشوں گا میں رحمان ہوں اور یہاں شر کی سزا دے رہا ہے۔ بلکہ فرماتے ہیں کہ یہاں شر سے مراد ایسا شر ہے جس پر انسان اصرار کرتا رہے ’’اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے، اسی غرض سے اس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذنب کا۔ تا معلوم ہوکہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا ورنہ سارا قرآن شریف اس بارہ میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور توبہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں بلکہ خداتعالیٰ توبہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے۔‘‘

(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ24)

پس اللہ تعالیٰ تو بن مانگے احسان کرنے والا ہے۔ مانگنے والے کو تو بے شمار نوازتا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھنے لگے تو رحمٰن کا لفظ جب آپ کے مبارک منہ سے نکلتا تھا تو آپؐ بے چین ہو کر ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے تھے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا، آخر کسی صحابی نے جو وہاں موجود تھے پوچھا کہ حضور! اس طرح بےچین ہونے کی وجہ کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب مَیں رحمٰن لفظ پہ پہنچتا ہوں تو اس لفظ پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق پر بے شمار انعاموں اور …۔ احسانوں کو یاد کرکے اس بات پر بے چین ہو جاتا ہوں کہ پھر بھی لوگ اس رحمٰن خدا کی سزا کے مورد بنتے ہیں تو یہ کس قدر ان کی بدبختی ہے۔

(دروس الشیخ عائض القرنی جزء 128 صفحہ 4المکتبۃ الشاملۃ CD)

حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے خطبہ جمعہ 5؍ فروری 2010ء میں فرماتے ہیں:

وَ ذَرُوۡا ظَاہِرَ الۡاِثۡمِ وَ بَاطِنَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡسِبُوۡنَ الۡاِثۡمَ سَیُجۡزَوۡنَ بِمَا کَانُوۡا یَقۡتَرِفُوۡنَ

(سُوْرَۃُ الْاَنْعَامِ:121)

اور تم گناہ کے ظاہر اور اس کے باطن (دونوں) کو ترک کر دو۔ یقیناً وہ لوگ جو گناہ کماتے ہیں وہ ضرور اس کی جزا دئے جائیں گے جو (بُرے کام) وہ کرتے تھے۔

اس آیت میں اِثْمٌ کا لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اِثْمٌ کے لغوی معنیٰ ہیں گناہ یا جرم یا کسی بھی قسم کی غلطی یا حدود کو توڑنا یا ایسا عمل جو نافرمانی کرواتے ہوئے سزا کا مستحق بنائے۔ یا ایسا عمل یا سوچ جو کسی کو نیکیاں بجالانے سے روکے رکھے۔ یا کوئی بھی غیرقانونی حرکت۔

ذَنْبٌ ایک لفظ ہے جس کا معنیٰ بھی گناہ کاہے لیکن اہل لغت کے نزدیک ذَنْبٌ اور اِثْمٌ میں یہ فرق ہے کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ ذَنْب ارادةً بھی اور غیرارادی طور پر دونوں طرح ہوسکتا ہے۔ لیکن اِثْمٌ جو ہے وہ عموماً ارادةً ہوتا ہے۔

بہرحال اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِثْمٌ کے حوالے سے دو باتوں کی طرف توجہ دِلائی ہے۔ ایک حکم یہ ہے کہ تم گناہ کی ظاہری صورت سے بھی بچو اور اس کے باطن سے بھی بچو۔ ہر کام کرنے سے پہلے غور کرو ۔بعض چیزیں اور بعض عمل ایسے ہوتے ہیں جو واضح طور پر نظر آرہے ہوتے ہیں کہ غلط ہیں اور یہ شیطانی کام ہیں۔ لیکن دوسری قسم کے وہ عمل یا باتیں بھی ہیں جو بظاہر تو اچھے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ بدنتائج پر منتج ہوتے ہیں۔ ان کی اصل حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ شیطان کہتا ہے کہ یہ کام کرلو کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں لیکن کرنے کے بعد پتاچلتا ہے کہ اس کام سے یہ ایسا گند ہے جس میں پھنس گیا ہوں اس سے نکلنا مشکل ہے۔ اور پھر ایسا چکر چلتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا گناہ سرزد ہوتا چلا جاتا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ پر چلنے والے کا کام ہے کہ ظاہر برائیاں جو ہیں ان پر بھی نظر رکھے اور باطن اور حقیقی برائیاں جو ہیں جن کے بدنتائج نکل سکتے ہیں ان پر بھی نظر رکھے۔ ہر کام کرنے سے پہلے خداتعالیٰ سے مدد چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے شر سے بچائے ،جو بھی اس کام میں شر ہے اس سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف ظاہری حسن دیکھ کر کسی کام کے کرنے پر تیار نہ ہو جاوٴ، اس پر آمادہ نہ ہو جاوٴ، کسی چیز کو دیکھ کر اس کے حسن کو دیکھ کر اس پہ مرنے نہ لگو۔ بلکہ جہاں شبہات کا امکان ہے وہاں اچھی طرح چھان پھٹک کرلو اور ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی اور مدد چاہو۔ اس سے کام میں ایک تو برکت پڑتی ہے اور برائیوں میں ڈوبنے سے یا برائیوں کے بداثرات سے انسان بچتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کو ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے۔

زندگی کے ہر کام میں تقویٰ

دوسری بات یہ واضح فرمادی کہ اگر زندگی میں ہر کام میں تقویٰ کو سامنے نہیں رکھو گے، پھونک پھونک کر قدم نہیں اٹھاوٴ گے، حلال، حرام کے فرق کو نہیں سمجھو گے تو پھر گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ جو بھی گناہ کرو گے اس کی سزا ملے گی۔ یہ بہانے کام نہیں آئیں گے کہ ہمیں پتانہیں چلا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیت میں ایک اصولی بات یہ بیان فرمادی کہ بہت سے لوگ اپنی خواہشوں کے مطابق لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس لئے تمہیں ہوشیار ہونا چاہئے حلال حرام کے فرق کو پہچانو۔ جس کام سے خداتعالیٰ نے روکا ہے اس سے رک جاوٴ۔ اِثْم کا لفظ استعمال فرما کر واضح فرمادیا کہ اس ہدایت کے باوجوداگر تم باز نہیں آتے اور غلط راستے پر چلانے والوں کی باتوں میں آتے ہو تو یہ ایسا گناہ ہے جو ظاہر ہے پھر تم جان بوجھ کر کررہے ہو۔ اور جو گناہ جان بوجھ کر کئے جائیں وہ سزا کا مورد بنا دیتے ہیں۔

پس ہمیں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد سے اپنے دلوں کو بھرنے کی ضرورت ہے تاکہ آج دنیا میں فحشاء اور بے حیائیوں کے جو ہر طرف نظارے نظر آتے ہیں ان سے ہم بچے رہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر شیطان ہمیں ایسے گناہوں کی طرف لے جاتا ہے جو اِثْم کہلاتے ہیں ،جن میں انسان ڈوبتا چلا جاتا ہے، جو ہمیں اپنے فرائض کے بجالانے سے روکے رکھتے ہیں، غلطیوں پر غلطیاں سرزد ہوتی چلی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ بغاوت سے بھی بچو۔ یہ بھی حرام ہے۔ اگر احساس پیدا نہ کیا تو تمام حدود قیود جو ہیں ان کو تم توڑ دو گے۔ تمہیں احساس نہیں رہے گا کہ کون سے عمل احسن ہیں اور صالح ہیں اور کون سے غیرصالح۔ بعض نمازیں پڑھنے والے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ نمازوں کا صحیح مقام حاصل کرنے کے لئے بھی خداتعالیٰ کی مدد اور استعانت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر وقت خداتعالیٰ کا خوف رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک رکھنے کی ضرورت ہے۔ پس جب یہ صورتحال پیدا ہوگی تبھی ایک مومن حقیقی مومن کہلائے گا اور بے حیائی کی باتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے گا۔’’

پس اب ہم غلامان مسیح الزمان کا کام ہے کہ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں اور خدا کے وعدہ کے مطابق اس کے اجر کے وارث بنیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

(نرگس ظفر۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جون 2021