• 27 اپریل, 2024

لارنس گارڈن (باغ جناح) لاہور کے ماتھے کا جھومر

تاریخ برصغیر یہی بتاتی ہے کہ مغلیہ اور برطانوی دور کی تعمیرات نے پاک و ہند کے شہروں کو ایسا حسن اورایسی دلکشی عطا کی ہے کہ جن کی وجہ سے آج پاکستان، بھارت کے بڑے بڑے شہر دنیا کی سیاحت کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ لاہور کا لارنس گارڈن بھی انگریزی دور کی ایک خوبصورت نشانی اور یادگار ہے جو مال روڈ پر واقع ہے جس کو برطانیہ کے کیو گارڈن کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ باغ اپنی متعدد خصوصیات اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے اہلیان لاہور کی بھرپور توجہ کا مرکز ہے اور رہا ہے۔ باغ جناح چونکہ لاہور کے بالکل وسط میں واقع ہے لہذا اس میں داخل ہونے کے تین راستے ہیں۔ ایک راستہ لارنس روڈ کی طرف سے جاتا ہے دوسرا شارع صنعت و تجارت کی طرف سے اور تیسرا شاہراہ قائد اعظم کی طرف سے، اور یہی مین داخلی راستہ ہے۔ آج بھی روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ باغ جناح میں سیر کے لئے داخل ہوتے ہیں ان میں عورتیں، بچے، بوڑھے، مرد جوان اور مریض ،تحقیق کرنے والے طالب علم اور سیاح اور دوسرے شہروں سے آئے ہوئے لوگ شامل ہیں۔یہ وہ باغ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات سے قبل آخری دورہ لاہور میں اس باغ کی سیر کی تھی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری دورہ لاہور میں لارنس باغ میں سیر۔ تاریخ احمدیت لاہور میں حضرت قاضی محبوب عالم رضی اللہ کی لکھی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؑ نے اپنے آخری دورہ لاہور میں لارنس گارڈن (باغ جناح) کی سیر کی تھی۔ روایت کے مطابق ’’مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ حضور ؑ حضرت ام المومنین کے ساتھ لارنس گارڈن میں سیر کے لئے تشریف لے گئے۔ حضرت ام المومنین نے فرمایا ’’مجھے سخت پیاس لگی ہے‘‘۔ حضرت اقدس نے مجھے فرمایا، کہیں سے دودھ اور برف مل سکتی ہے ؟ میں نے عرض کیا: ہاں حضور! سب کچھ مل سکتا ہے۔ چنانچہ میں لارنس گارڈن سے باہر دوکان پر گیا، معلوم ہوا کہ دودھ اور برف تو موجود ہے مگر برتن نہیں۔ پاس میں ایک کنواں تھا وہاں مالی سے میں نے ایک ’’ٹنڈ‘‘ لینے کی اجازت لی۔ اس نے محصل سے کھول کر دی، میں وہ ساتھ لے گیا اور اس میں دودھ اور برف لایا۔ حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت ام المومنین نے بھی پیا اور بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔ فرمایا آپ کو یہ ’’ٹنڈ‘‘ کہاں سے ملی ؟۔ عرض کیا حضور اس کنویں کے مالی سے مانگ کر لایا ہوں۔ فرمایا اب اس کو واپس کردو، چنانچہ میں واپس گیا اور اس کو واپس دے آیا۔ یہ آخری بار آنے کی بات ہے‘‘

(تاریخ احمدیت لاہور صفحات نمبر243,44)

مارننگ اور ایوننگ واک کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد وہاں نظر آتی ہے جن میں اعلیٰ سرکاری افسران کے علاوہ سیاست، صحافت سمیت زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ باغ جناح ماضی و حال کا حسین امتزاج ہے۔ اس کے اندر گھومتے پھرتے کبھی کبھی ایک جنگل کاسا گماں ہونے لگتا ہے جب اوپر،دائیں بائیں انتہائی گھنے درختوں کی شاخیں ہوتی ہیں۔ کچے پیدل چلنے والے ٹریک موجود ہ ہیں جو بڑے چھوٹے پودوں، خوشبودار پودوں اور درختوں میں گھرے ہوتے ہیں، بیٹھنے کے لئے لکڑی کے بنچ جگہ جگہ لگے ہوئے ہیں، گھومتے اور جھومتے ہوئے پانی کے فوارے باغ کی دلکشی کو بڑھاتے ہیں۔ فیملی پکنک منانے کی یہ لاہور کی بہترین جگہوں میں سرفہرست ہے۔ یہاں گھومتے پھرتے جب آپ درختوں، پودوں کے نام اور ان کے تعارف کے ساتھ ان کی عمریں بھی پڑھیں گے تو ورطۂ حیرت میں ڈوب جائیں گے، معلومات کا ایک خزانہ ہے جو باغ جناح میں چلتے پھرتے آپ کو ملے گا۔ مسافروں کے سستانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ ہر موسم میں یہاں لوگوں کی بڑی تعداد ہر وقت موجود رہتی ہے لیکن سہانے موسم اور چھٹیوں میں یہاں کی رونق عروج پر ہوتی ہے۔ درجنوں مالی اور دیگر ملاز میں ہر طرف کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ محض ایک باغ ہی نہیں ہے بلکہ پودوں، جڑی بوٹیوں اور درختوں پر تحقیق کا مرکز بھی ہے، اسی لئے اس کو نباتاتی باغ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں پودوں کے بارے تحقیق بھی کی جاتی ہے اور اس کا ایک بڑے تعلیمی ادارہ کے ساتھ الحاق بھی ہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ باٹنی یہاں کے پودوں پر لمبا عرصہ تحقیق کا کام کرتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ اس باغ جناح میں کچھ ایسے بھی پودے ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ نیشنل جیو گرافک سوسائٹی امریکہ نے اس باغ کو پاکستان کا تاج اور ایشیا کا اہم ورثہ قرار دیا تھا۔ اس باغ میں 450اقسام کے 21 ہزار سے زائد درخت و پودے موجود ہیں، ہزاروں نایاب اور قیمتی پودے یہاں موجود ہیں۔ اس کے اندر سبزہ ہی سبزہ ہے جو وہاں سیر کرنے اور گھومنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ ماضی میں یہ چڑیا گھر لاہور کا ایک حصہ ہی ہوا کرتا تھا لیکن بعد میں الگ کر دیا گیا تھا۔ موجودہ دور میں اس لارنس گارڈن (آج کے باغ جناح) میں دو بہت بڑی لائبریریاں ہیں، قائد اعظم اور دارالسلام لائبریری، کھیلوں کا گراؤنڈ، ایک تھیٹر، جوگنگ ٹریک، ایک ریستوران، ٹینس کا میدان موجود ہے اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ باغ جناح سیاحت، کھیل اور تعلیم کا بہترین مرکز ہے، اس کے علاوہ اس میں متعدد بڑی نرسریاں اور مصنوعی پہاڑیاں بھی ہیں۔ آج کا جناح باغ مختلف ادوار میں تعمیر اور تبدیل ہوتا رہا اور آہستہ آہستہ ضرورت کے مطابق اندر سڑکیں، ٹریک وغیرہ بنتے رہے۔ اس کی تاریخ بہت دلچسپ اور پڑھنے کے لائق ہے۔ اس باغ کی تعمیر کے بعد اس کا نام ’’جان لارنس‘‘ کے نام پر رکھا گیا تھا جو اس دور میں متحدہ ہندوستان کا وائسرائے تھا اور شروع میں اس کا مجسمہ بھی لگایا گیا تھا جو بعدازاں شمالی آئرلینڈ منتقل کردیا گیا تھا۔ باغ جناح141 ایکڑ پر قائم ہے۔ پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کی تعمیر سے پہلے یہ ایک ویران جگہ ہوا کرتی تھی اور اینٹوں کے متعدد بھٹے یہاں تھے۔ انگریزی دور کی ابتداء میں جب ڈاکٹر ٹی ای براؤن نے 1861ء میں سوسائٹی کے سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا تو پھر 1862ء میں ایگری ہارٹی کلچر سوسائٹی نے یہاں ایک چھوٹا باغ تعمیر کیا اور اس وقت یہ زمین مزنگ کے زمینداروں سے 176 ایکڑ زمین انتہائی معمولی رقم سے خریدی گئی تھی، اور اس نئے باغ کا نام ’’ایگری ہارٹی کلچر گارڈن‘‘ رکھا گیا تھا، سات سال بعد 1867ء میں اس باغ کو مزید وسعت دی گئی۔

1872ء میں زولوجیکل گارڈن چڑیا گھر تعمیر کیا گیا تو باغ کا ایک حصہ محکمہ زراعت و باغبانی کو دے دیا گیا۔ 1885ء میں یہاں کرکٹ کا گراؤنڈ تعمیر کیا گیا تھا جو صرف سرکاری افسران کے لئے مخصوص تھا اور آج بھی زیر استعمال ہے، کچھ عرصہ قذافی اسٹیڈیم کی انتظامیہ کے کنٹرول میں بھی رہا۔ کرکٹ کے فروغ میں اس کا کردار اہم رہا ہے۔ موجودہ باغ جناح کا کل رقبہ 141ایکڑ ہے جس پر عمارتیں، سڑکیں لائبریری، مسجد ریستوران وغیرہ بنے ہوئے ہیں۔ نومبر 1915ء میں اس کو باقاعدہ لارنس نام دیا گیا اور پہلا ٹیوب ویل بھی لگایا گیا 1921ء میں باغ کے اندر کی سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ 1925ء میں باغ کا کنٹرول محکمہ زراعت کے سپرد کردیا گیا تاکہ اس کی بھرپور دیکھ بھال ہوسکے۔ کچھ عرصہ بعد باغ میں ایک نیا حصہ تعمیر کیا گیا جس کو ’’مغل گارڈن‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس میں فوارے، بارہ دریاں اور راہداریاں بنائی گئیں تھیں جو اب مختلف تقریبات اور مشاعروں کا مرکز بن چکا ہے۔ جناح باغ میں تین پہاڑیاں بھی ہیں جو درختوں اور پودوں سے بھری ہوئی ہیں عید کے دنوں اور چھٹیوں میں یہاں بہت رش ہوتا ہے۔ ان پہاڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اینٹوں کے بھٹے تھے، جن کے ملبے کو باغ بننے کے بعد خوبصورت پہاڑیوں کی شکل دے دی گئی۔ ایک پہاڑی پر اوپن تھیٹر قائم ہے جہاں ادبی ثقافتی تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔ جناح باغ کے ایک حصہ کو ’’گلستان فاطمہ‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ نام 1947ء میں محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔

رمضان رفیق باغ جناح کے ایک زرعی افسر رہے ہیں ،اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک مضمون میں انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران کام کے حوالے سے پودوں اور درختوں کے بارے اہم اور دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ باغ کے اندر ’’ارجن‘‘ کے درخت موجود ہیں جن پربڑی بڑی چمگادڑیں الٹی لٹکی دیکھی جاسکتی ہیں۔۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے دور میں ’’لونگ کی جھاڑیاں‘‘ بھی ہوا کرتی تھیں شاید آج بھی ہوں۔ انہوں نے مزیدلکھا ہے کہ باغ جناح میں ایک ساڑھے تین سو سال پرانا پودا موجود ہے جس کی خصوصی حفاظت اور نگرانی کی جاتی ہے، اسی طرح ایک اور عجیب و غریب درخت کے بارے میں لکھا ہے کہ بابا جی کے مزار کے سامنے ایک پیپل اور شریں ایک دوسرے کے ساتھ بغلگیر کھڑے ہیں، تنا ایک ہے لیکن اوپر سے دو مختلف درخت ہیں ان کو الگ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گویا باغ جناح ایک پودوں کی نرسری ہی نہیں بلکہ علم کی سیر گاہ بھی ہے جہاں سیر کرتے آپ بہت کچھ سیکھ اور جان سکتے ہیں۔

(منور علی شاہد۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جون 2021