• 7 مئی, 2024

من سب نبیا فاقتلوہ

مَنْ سَبَّ نَبِیًّا فَاقْتُلُوْہٗ

مَنْ سَبَّ نَبِیًّا فَاقْتُلُوْہٗ کے الفاظ کو گزشتہ چند سالوں میں سوشل میڈیا پر اتنا بیان کیا گیا ہے کہ بچہ بچہ ان الفاظ کو جانتا ہے۔ یہاں تک کہ اُستاد طلباء کو یہ الفاظ یاد کرواتے ہیں اور مذہبی جوش دلاتے ہیں کہ جس نے ہمارے نبیﷺ کی گستاخی کی اس کو قتل کردو۔

ہم مسلمان قرآن کریم کے بعد جن احادیث کی کتب کو معتبر مانتے ہیں وہ صحاح ستہ ہیں لیکن جب ہم ان الفاظ کو ان کتابوں میں تلاش کرتے ہیں تو یہ الفاظ ہمیں صحاح کی کسی کتاب میں نظر نہیں آتے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ الفاظ کیوں پیش کئے جاتے ہیں آیا یہ الفاظ کسی حدیث کی کتاب میں موجود بھی ہیں اور علماء اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔

یہ الفاظ ’’الطبراني، المعجم الصغير للطبرانی 1/393‘‘ میں اسی طرح موجود ہیں مَنْ سَبَّ الْاَنْبِیَآءَ قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابِیْ جُلِدَ

جہاں امام بخاری امام مسلم اور باقی ائمہ نے اس حدیث کو درج نہیں کیا وہاں آج کے علمابھی اس حدیث کو ضعیف اور کمزور جانتے ہیں لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ جن کی طرف ان الفاظ کو منسوب کیا جاتا ہےیعنی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا اپنا عمل اس کے بالکل برعکس تھا۔ رسول کریمؐ کے اعلان نبوت کے بعد کیا کیا تکالیف اہل مکہ نے آپ کو دی تھیں۔ جادو گر کہا گیا، لوگوں کو کلام کرنے سے روکا گیا۔ آپؐ کا بائیکاٹ کیا گیا، طائف میں پتھر مارے گئے، گالیاں دی گئیں، عبد اللہ بن ابی بن سلول کی گستاخی بہت بڑی گستاخی تھی نفرت کی انتہا اس حد تک تھی کہ آپؐ کو قتل کرنے کیلئے جنگ بدر جنگ احد، جنگ خندق اور ہر ایسا موقع تلاش کرتے رہے کہ آپ کو جان سے مار دیا جائے لیکن جب آپؐ نے مکہ فتح کر لیا اور بادشاہت حاصل ہوگئی۔ توان تمام گستاخیاں کرنے والوں کو معاف فرماديا۔

حضرت مسیح موعودؑ نے تو احادیث کے متعلق نہایت ہی پیاری بات بیان فرما دی ہے کہ ہر وہ حدیث جو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہے وہ قابل قبول ہے اور ہر وہ حدیث جو قرآن کریم کی تعلیم کے بر خلاف ہے وہ قابل رد ہے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام کچھ کہتا ہو اور اس کا نبی قرآن کی تعلیم کے برخلاف کوئی تعلیم دیتا ہو۔

سوال:۔ جب ہم غیر از جماعت کے سامنے محمد مصطفیؐ کے اپنے عمل کو پیش کرتے ہیں کہ آپ نے تو تکالیف برداشت کیں اور پھر بھی معاف فرمادیا۔ تو اس پر غیر احمدی کہتے ہیں کہ یہ ظرف صرف آپؐ میں تھا ہم آپکی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔

جواب: اس بات کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ ہم اعلان تویہ کریں کہ ہم رسول کریمؐ کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں اور جب عمل کرنے کا موقع آئے تو جواب یہ ہوکہ ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ عمل محمدﷺ کا نہیں۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ گالی دینا اور بد زبانی کرنا ہی گستاخی ہے جبکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ کیا رسول کریمؐ کے ارشادات پر عمل نہ کرنا گستا خی نہیں ہے؟ کیا رسول کریمؐ نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر یہ نہیں بتایا کہ نما ز قائم کرو، زکوٰة ادا کرو، جھوٹ نہ بولو، دھوکا نہ دو، ملاوٹ نہ کرو اور بے شمارا حکامات ہیں۔ اگر ہم نماز کوہی لے لیں تو کتنے ہیں وہ لوگ جو نماز کے حکم کوجس کی ادائیگی میں بالکل بھی معافی نہیں ہے ادا نہیں کرتے ہیں؟ کیا آپؐ کے حکم کو نہ مان کر گستاخی نہیں کرتے؟ تو کیا ان سب کو قتل کردو؟

جب ایک عیسائی پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کا نام لے گا یا ہندو یا سکھ اپنے مذہب کی بات کرے گا اور چونکہ یہ تمام مذاہب رسول کریمؐ کو اللہ تعالیٰ کا نبی نہیں مانتے اورجب آپؐ پر اعتراضات کریں گے تو یہ لوگ آگے سے کہہ دیتے ہیں کہ دیکھو اس نے گستاخی کر دی اور اس کو قتل کردیا جائے۔ ایسے واقعات پاکستان میں ہو چکے ہیں اور گزشتہ دنوں حضور انور نے بھی ایک شہادت کا ذکر فرمایا ہے۔ پس یہ طرزعمل بالکل غیر اسلامی ہے۔

یہ لوگ خود اعتراضات برداشت نہ کر سکیں اور قانون بنا لیں اگر یہی حق عیسائی اپنے ممالک میں استعمال کریں کہ اگر کوئی عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا اور خدا کرکے نہ مانے گا تو ہم بھی اُس کو قتل کردیں گے کیونکہ تم نے ہمارے نبی کو عام انسان بنا کر گستاخی کی ہے۔ تو ان کا کیا حال ہوگا؟

اور ایسا ہی اصول اگر ہندو اور سکھ اور دیگر مذاہب اپنا لیں تو دنیا میں اظہار خیال اور اختلاف کرنے والے تمام لوگوں کو گستاخ کہہ کر قتل کر دیا جائے۔

اگر اسی اصول کو اپنا نا ہے تو کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کو اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے تبلیغ نہیں کر سکتا کیونکہ باقی تمام مذاہب تو محمدﷺ کو سچا نہیں مانتے۔ جب سچا نہیں مانتے تو آپ کی نظر میں گستاخی ہوگئی اور آپ کے مطابق گستاخ کی سزا قتل۔

پس جب تک ہم نے اس قسم کی احادیث کو ترک نہ کیا جو کہ نہ صرف اسلام بلکہ انسان کامل محمدﷺکی تعلیم کے بھی بر خلاف ہے۔اس وقت تک ہم دین اسلام کی صحیح رنگ میں تبلیغ نہیں کر سکتے۔

(ایاز احمد مغل)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ