تبرکات
(حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ)
(قسط دوم)
محکمات و متشابہات
آ پ نے یہ آیت شریفہ پڑھی ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ
(آل عمران : 8)
میری تقریر کے دو حصے ہیں۔ اوّل وہ پیشگوئیاں جن پر مخالفوں کو اعتراض ہے۔ دوم جو بناء صداقت ہیں۔ جن میں گنجائش اعتراض نہیں۔
مولوی ثناء اللہ سے آخری فیصلہ
سب سے پہلے میں مولوی ثناء اللہ کے متعلق جو حضرت اقدس کا اشتہار ہے وہ لیتا ہوں۔ اس کا عنوان ہے ’’مولوی ثناء اللہ سے آخری فیصلہ‘‘۔ اس میں حضرت اقدسؑ نے خدا سے دعا کی تھی کہ خدایا !جو جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہواور یہ مضمون مولوی ثناء اللہ کے پاس بھیجا کہ آپ اس کو اپنے اخبار میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں ’’اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جب مضمون مولوی ثناء اللہ کے پاس گیا تو اس نے اپنے 26 اپریل 1921ء کے پرچہ اہلحدیث میں درج کیا اور اس کے نیچے لکھا کہ
’’آپ اس دعویٰ میں قرآن شریف کے صریح خلاف کہہ رہے ہیں۔ قرآن تو کہتا ہے کہ بدکاروں کو خدا کی طرف سے مہلت ملتی ہے۔
سنو! مَنْ کَانَ فِی الضَّلٰلَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا (مریم:76) اور اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًا (آل عمران:179) اور یَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ (البقرہ:16) وغیرہ آیات تمہاری اس دلیل کی تکذیب کرتی ہیں۔
اور سنو! بَلْ مَتَّعْنَا ھٰۤؤُلَآءِ وَاٰبَآءَھُمْ حَتّٰی طَالَ عَلَیْھِمُ الْعُمُرُ (الانبیاء:45)۔ جس کے صاف معنیٰ ہیں کہ خداتعالیٰ جھوٹے، دغاباز، مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تاکہ وہ اس مہلت میں اور بھی بُرے کام کر لیں‘‘ وغیرہ۔
اِدھر تو حضرت اقدسؑ نے یہ طریق فیصلہ پیش کیا اور دعا کی جو کسی الہام و وحی کے ماتحت نہ تھی بلکہ محض ایک دعا تھی ،خدا کے حضور تھی اور طریق فیصلہ تھا جو ثناء اللہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ مگر ثناء اللہ نے اس پر مندرجہ بالا الفاظ لکھے چونکہ حجت مولوی ثناء اللہ پر کرنی تھی اور وہ اُسی کے مسلّمات سے ہو سکتی تھی اس لئے جو طریق اس نے پسند کیا اسی کے مطابق خدا نے حضرت مسیح موعودؑ کو وفات دے کر اس کو نافرمان، مفسد اور بدکار ثابت کیا (مطابق اُصول پیش کردہ اخبار اہلحدیث) لیکن ایک اور بات بھی ہے وہ یہ کہ حضرت اقدس نے اپنی کتاب اعجاز احمدی کے میں لکھا تھا کہ
’’واضح رہے کہ مولوی ثناء اللہ کے ذریعہ سے عنقریب تین نشان میرے ظاہر ہوں گے
(1) وہ قادیان میں تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کے لئے میرے پاس ہرگز نہیں آئیں گے اور سچی پیشگوئیوں کی اپنے قلم سے تصدیق کرنا اُن کے لئے موت ہوگی ۔
(2)اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کاذب صادق کے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے۔
(3) اور سب سے پہلے اس اُردو مضمون اور عربی قصیدہ کے مقابلہ سے عاجز رہ کر جلد تر اُن کی رُو سیاہی ثابت ہو جائے گی۔‘‘
(اعجاز احمدی۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ148)
یہ ایک پیشگوئی تھی جو 1902ء میں کی گئی۔ مگر دیکھو 1907ء میں وہ لکھتا ہے کہ یہ طریق فیصلہ مجھے منظور نہیں کہ کاذب صادق کے پہلے مرے۔ اس لئے خدا نے اس کو زندہ رکھا اور حضرت مسیح موعودؑ کو وفات دے دی۔
قادیان میں طاعون کی پیشگوئی
دوسری پیشگوئی قادیان میں طاعون کے متعلق تھی۔ مولوی ثناء اللہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے شائع کیا تھا کہ قادیان میں مطلق طاعون نہیں آئے گی مگر یہ غلط ہے۔ حضرت اقدسؑ کا کوئی الہام نہیں جس میں لکھا ہو کہ قادیان میں مطلق طاعون نہیں آئے گی۔ ہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ قادیان میں طاعون جازف یعنی جھاڑو پھیر دینے والی طاعون نہیں آئے گی اور ایسی نہ ہو گی جو انسانی برداشت سے باہر ہو۔ سو ایسا ہی ہوا۔
دیکھو حضرت صاحبؑ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آپؑ کے گھر میں اور آپؑ کے خاک و خشت کے گھر میں رہنے والے کلیۃً اس ہلاکت سے بچائے جائیں گے۔ چنانچہ آج تک کہ بیس بائیس سال طاعون کو آئے ہوئے گزر گئے۔ ایک کیس بھی طاعون کا اس مکان میں نہیں ہوا۔ درآ نحالیکہ اردگرد طاعون آتی رہی لیکن یہ بالکل محفوظ رہا۔ خداتعالیٰ نے نوحؑ نبی کی کشتی کو دنیا کے لئے حضرت نوحؑ کی صداقت کا نشان ٹھہرایا۔ حالانکہ سیلاب سے بچنے کا سامان کشتی ہی ہوتی ہے مگر یہ دنیا میں کوئی ذریعہ تسلیم نہیں کیا گیا کہ طاعون سے بچنے کا ذریعہ کوئی گھر ہو۔ پس کس طرح اس نشان کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی صداقت کا نشان نہ مانا جائے۔
محمدی بیگم والی پیشگوئی
محمدی بیگم والی پیشگوئی پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ مگر جیسا کہ میں نے قرآن کریم سے بتایا تھا کہ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا (بنی اسرائیل : 60)۔ یہ نشان بھی انذاری تھا۔ وہ لوگ بے دین تھے۔ ان کے لئے یہ نشان ظاہر کیا۔ اس پیشگوئی کی دو ٹانگیں تھیں ۔
(1) یہ کہ اگر محمدی بیگم کا والد احمد بیگ حضرت مسیح موعودؑ سے نکاح اس کا نہ کرے تو تین سال میں فوت ہو گا۔ چنانچہ احمد بیگ تو ابھی چند ہی مہینے محمدی بیگم کے نکاح پر گزرے تھے، ہوشیارپور میں فوت ہو گیا۔
(2) اور سلطان محمد نے اپنی حالت سے رجوع کیا اور خوف کھایا۔ اس لئے اس پر سے عذاب ٹل گیا۔ اگر کہا جائے کہ سلطان محمد بیعت میں داخل ہونا چاہئے تھا تب ہم اس کا رجوع مانیں گے۔ یہ غلط ہے کیونکہ رجوع کے لئے بیعت میں داخل ہونا شرط نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَقَالَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِاٰیٰتِنَاۤ اِذَا ہُمۡ مِّنۡہَا یَضۡحَکُوۡنَ ۔ وَ مَا نُرِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ اِلَّا ہِیَ اَکۡبَرُ مِنۡ اُخۡتِہَا ۫ وَ اَخَذۡنٰہُمۡ بِالۡعَذَابِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ۔ وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَ السّٰحِرُ ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ ۚ اِنَّنَا لَمُہۡتَدُوۡنَ ۔ کَشَفۡنَا عَنۡہُمُ الۡعَذَابَ اِذَا ہُمۡ یَنۡکُثُوۡنَ
(الزخرف:51-47)
اور ضرور ہم نے بھیجا موسٰی ؑکو اپنی آیات کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف۔ پس موسٰی ؑنے کہا کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ پس جب وہ ان کے پاس ہماری نشانیوں کے ساتھ آیا، وہ اس سے ہنستے تھے۔ ہم ان کو کوئی نشان نہ دکھاتے تھے مگر وہ جو پہلے سے بڑا ہوتا تھا۔ اور پکڑا ہم نے ان کو عذاب کے ساتھ تاکہ وہ رجوع کریں۔ مگر ان کا رجوع کیسا تھا۔ اس کے لئے فرمایا۔ وہ کہتے تھے کہ اے جادوگر! ہمارے لئے دعا کر اس چیز کے ساتھ جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کیا ہے۔ ہم اس سے ہدایت پائیں گے۔ پس جب ہم نے عذاب دور کر دیا وہ اپنے عہد سے پھر گئے۔
اب یہاں دیکھو کہ ان کے رجوع کا حال بیان کیا کہ ان کا رجوع یہ تھا کہ انہوں نے موسیٰؑ سے دعا کرائی۔ اگرچہ جادوگر ہی کہتے تھے۔ وہ ایمان نہیں لاتے تھے۔ بیعت نہیں کرتے تھے۔ پس اس آیت سے ثابت ہوا کہ رجوع کے لئے ایمان لانا شرط نہیں۔ ایسا ہی ان لوگوں نے رجوع کیا۔ اپنی بدزبانی سے رُک گئے۔ بلکہ آپ کے متعلق لکھا کہ ہم ان کو نیک، متقی اور اسلام کا خدمت گزار پہلے بھی اور اب بھی سمجھتے ہیں۔ جب ان کی یہ حالت تھی تو خدا نے ان پر سے عذاب کو ٹال دیا۔ ہاں حضرت صاحب کا اعلان ہے کہ اگر وہ پھر شوخی کریں گے تو مورد عذاب ہوں گے۔
اب میں صداقت کی چند دلیلیں پیش کرتا ہوں:
(1) مولوی ثناء اللہ نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کی دلیل یہ لکھی ہے۔
مولوی ثناء اللہ کے مُسلمات سے مسیح موعود کی صداقت
نظام عالم میں جہاں اور قوانین الٰہی ہیں یہ بھی ہے کہ کاذب مدعی کی نبوت کی ترقی نہیں ہوتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے۔
’’اس سے یہ نہ کوئی سمجھے کہ جو نبی قتل ہوا وہ جھوٹا ہے۔ بلکہ ان میں عموم و خصوص مطلق ہے۔ یعنی یہ ایسا مطلب ہے جیسا کوئی کہے کہ جو شخص زہر کھاتا ہے مر جاتا ہے۔ اس کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ ہر مرنے والے نے زہر کھائی ہے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ جو کوئی زہر کھائے گا وہ ضرور مرے گا اور اگر اس کے سوا بھی کوئی مرے تو ہو سکتا ہے گو اس نے زہر نہ کھائی ہو۔ یہی تمثیل ہے کہ دعویٰ نبوتِ کاذبہ مثل زہر کے ہے۔ جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہو گا۔ اگر اس کے سوا بھی کوئی ہلاک ہو تو ممکن ہے۔ ہاں یہ نہ ہو گا کہ زہر کھانے والا بچ رہے۔‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ
’’حالانکہ بقول اہل کتاب پیغمبر اسلام کاذب تھے۔معاذ اللہ۔ پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا وجہ آپ کے گلے پر تلوار نہ پھری۔ آخر ہوا تو کیا جو اس (قانون الٰہی) کے مطابق حضور اقدس نہ مارے گئے۔ اگر یہ کلام سچ ہے تو آپ کی نبوت بھی بلا کلام حق ہے۔‘‘
(تفسیر ثنائی جلد اوّل صفحہ 17-16)
اب دیکھنا چاہئے کہ جب مولوی ثناء اللہ صاحب کے مسلّمات میں قرآن کریم کے رُو سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جھوٹا نبی مارا جاتا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اہل کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا نبی مانتے ہیں۔ مگر یہ قانون بجائے آپ کو مجرم ثابت کرنے کے سچا ثابت کرتا ہے۔ اب میرا سوال مولوی ثناء اللہ سے ہے کہ جب وہ حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا مدعی نبوت مانتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ان کے بیان کردہ قانون الٰہی کے مطابق وہ مارے نہیں جاتے۔ پس ان کے مسلمات کے رُو سے ثابت ہو گیا کہ حضرت مرزا صاحب اپنے دعویٰ میں سچے ہیں۔
معجزانہ کلام
قرآن کریم کہتا ہے۔
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰئہُ ط قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَO فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰہِ
(ھود:15-14)
کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ باندھ لیا تو کہہ دے کہ تم اس کی مانند دس سورتیں ہی جھوٹ موٹ کی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اَوروں کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔ پس اگر یہ قبول نہ کریں پس جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل کیا گیا ہے۔
اسی کے مطابق آپ نے خداتعالیٰ کی تائید اور اس کے دیئے ہوئے علم سے کتابیں لکھیں اور تمام دنیا کے علماء کو چیلنج کیا مگر وہ جواب نہ لا سکے۔ اس سے ثابت ہے کہ وہ خدا کے علم کے ماتحت لکھی گئی ہیں اور یہ آپ کی صداقت کی نشانی ہے۔
پھر آپ نے خدا سے علم پا کر پیشگوئیاں شائع کیں جو ایسی ہیں کہ انسانی قیاس میں آ ہی نہ سکتی تھیں۔ ان میں سے دو یہ ہیں۔
تقسیم بنگالہ
لارڈ کرزن (نے) بنگالہ تقسیم کیا۔ بنگالیوں نے ایجی ٹیشن پھیلایا جس کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ پارلیمنٹ تک میں اس کے متعلق فیصلہ کر دیا گیا کہ یہ فیصلہ منسوخ نہیں ہو سکتا۔ اگر ظاہری قیاس سے کوئی بات کہی جا سکتی تھی تو یہی کہ اب اس معاملہ کو یہیں چھوڑ دیا جائے کیونکہ اس میں کچھ ترمیم تنسیخ نہیں ہو سکتی۔ مگر آپ نے خدا سے خبر پا کر شائع کی کہ بنگالیوں کے متعلق جو حکم پہلے شائع کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی کی جائے گی اور ان کی دلجوئی اسی وقت ہو سکتی تھی کہ تقسیم میں ترمیم کر دی جائے۔ چنانچہ 1911ء میں بادشاہ دلّی میں آیا اور اس نے اس میں ترمیم کر دی اور خدا کی بات پوری ہوئی۔ پارلیمنٹ میں اعتراض ہوا مگر پھر اس معاملہ کو چھوڑ دیا گیا۔ کیا یہ آپ کی صداقت کی دلیل نہیں؟
عبدالرحمن و حضرت عبداللطیف کی شہادت
دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے براہین احمدیہ میں خدا سے علم پاکر پیشگوئی کی کہ شَاتَانِ تُدْبَحَانِ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ610)۔ علم تعبیر سے ثابت ہے کہ جو شخص ظلم سے مارا جائے اور وہ کچھ مقابلہ نہ کرے اس کی موت بکری کی موت ہوتی ہے۔ جب آپ نے دعویٰ کیا افغانستان سے دو شخص آپ کے سلسلہ میں ابتداءً داخل ہوئے۔ اوّل میاں عبدالرحمن صاحب اور دوسرے شاہزادہ عبداللطیف صاحب اور دونوں وہاں شہید کئے گئے اور دونوں نے ظالموں کا کچھ مقابلہ نہ کیا اور بکری کی طرح ذبح کئے گئے۔
رسول کریمؐ نے بھی دیکھا تھا کہ کچھ گائیں ذبح ہوئی ہیں اور اس سے مراد صحابہؓ تھے۔ اب دونوں پیشگوئیوں میں حکمت یہ ہے کہ مسیح موعود کے دو صحابی تو بغیر مقابلہ کے مارے گئے اور یہی ان کی حالت بتائی گئی تھی مگر آنحضرتؐ کے صحابہؓ کو گائے کی شکل میں دکھایا گیا اور گائے مارتی بھی ہے مرتی بھی ہے۔ چنانچہ انہوں نے قَاتَلُوْا وَ قُتِلُوْا کے ارشاد کے ماتحت دشمنوں کو مارا بھی اور مر بھی گئے۔ یہ ہے عظیم الشان پیشگوئی کہ جس پر کوئی شخص انگلی نہیں رکھ سکتا۔
(الفضل قادیان 7اپریل 1921ء)