• 28 اپریل, 2024

نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آنا ایک جماعت کا نظارہ پیش کرتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اسی طرح یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ جماعت کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ اس میں آپس میں بھی نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے بڑھ کر اظہار پایا جائے۔ آپس کے تعلقات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس طرح بنایا جائے کہ ہر دیکھنے والا کہے کہ یہ آپس کی محبت اور بھائی چارہ اس جماعت کا ایک خاص وصف اور خاصہ ہے۔

نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آنے کے حکم کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ایک جماعت کا نظارہ پیش ہو۔ سب ایک وجود بن جائیں اور آپس کی محبتیں بڑھیں اور رنجشیں دور ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’یہ دستور ہونا چاہیے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔ یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں۔ ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں۔ تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے؟ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔ اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے: تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی (المائدۃ: 3) کمزور بھائیوں کا بار اُٹھاؤ۔ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ۔ بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔ کوئی جماعت، جماعت نہیں ہو سکتی جبتک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے۔ اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے۔ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو، کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضرور ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے۔‘‘

پھر فرماتے ہیں: ’’دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور اُن کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا ہر گز نہیں چاہیے بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں۔ …… کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے۔ اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے۔ اور تمام عادتوں پر رحم اور ہمدردی، پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے۔ ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں۔ …… جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے۔ پردہ پوشی کی جاوے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ …… خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و نعمت اخوّت یاد دلائی ہے۔ اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوّت ان کو نہ ملتی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی۔ اسی طرح پر خدائے تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ263 تا265۔ ایڈیشن 2003ء)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ انقلاب پیدا کرنے کے لئے آئے تھے کہ تقویٰ کو دنیا میں دوبارہ قائم کریں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے عبادالرحمٰن کا خالص گروہ بنائیں۔ پس ہماری خوشی صرف مسجد کی تعمیر کے ساتھ نہیں ہے بلکہ مسجدوں کی تعمیر کے ساتھ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ پر عمل کرتے ہوئے حقیقی عبد بننے میں ہے۔ اس مادی دور میں جبکہ ہر طرف مادیت کے حصول کے لئے، دنیا داری کے لئے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، یہ معیار حاصل کرنا یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے والا بناتا ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے حقیقی اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔ جہاں غیر مسلم بھی اسلام قبول کر کے عبادالرحمٰن بن رہے ہیں وہاں مسلمان بھی بدعتوں سے دور ہٹ کر حقیقی اسلام کو سمجھ رہے ہیں اور آپ کی بیعت میں شامل ہو رہے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 24؍ فروری 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اگست 2021