• 27 جولائی, 2025

سورۃ النّساء اور المائدہ کا تعارف (قسط دوم)

سورۃ النّساء اور المائدہ کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
قسط دوم

سورۃ النّساء

یہ سورت ہجرت کے تیسرے اور پانچویں سال کے درمیان نازل ہوئی۔ بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو ستتر آیات ہیں۔

اس سورت کا آغاز ایک ایسی آیت سے ہوتا ہے جس میں نفسِ واحدہ سے انسانی پیدائش کے معجزانہ آغاز کا ذکر ملتا ہے۔ گویا لفظ آدم کی ایک اَور تفسیر پیش فرمائی گئی ہے۔

اس سورت کا اس سے پہلی سورت کے اختتام سے گہرا تعلق ہے۔ گزشتہ سورت کے اختتام پر صبر کی تعلیم کے علاوہ یہ تعلیم دی گئی تھی کہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین بھی کرتے رہو اور اپنی سرحدوں کی بھی حفاظت کرو۔ یہاں سورۃ النساء میں دشمن کے ساتھ ہولناک جنگوں کا ذکر ہے جس کے نتیجہ میں کثرت سے عورتیں بیوہ اور بچے یتیم رہ جائیں گے۔ جنگوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مشکلات اور بیواؤں اور یتیموں کے حقوق کے تعلق میں اس کا ایک حل ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں پیش فرمایا گیا ہے بشرطیکہ مومن انصاف پر قائم رہ سکے۔اگر انصاف پر قائم نہیں رہ سکتا تو صرف ایک شادی پر ہی اکتفا کرنی ہو گی۔

اس سورت میں اسلامی نظام وراثت کے بنیادی اصول اور ان کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

اسی سورت میں یہودیت اور عیسائیت کے باہمی رشتے کا ذکر اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ جب یہود نے اپنے سب عہدوں کو توڑ دیا اور سخت دل ہوگئے اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو صلیب پر چڑھا کر مارنے کی کوشش کی تو کس طرح اللہ تعالیٰ نے صلیب کے ذریعہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قتل کرنے کی اُن کی کوشش کو ناکام و نامراد فرما دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ان تمام الزامات سے بری ہونا ثابت فرمایا جو آپ پر اور آپ کی پاکدامن والدہ پر یہود کی طرف سے لگائے گئے تھے۔

اس سورت میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہجرت کا بھی ذکر ملتا ہے اور یہ پیشگوئی مذکور ہےکہ اہلِ کتاب میں سے کوئی فریق بھی ایسا نہیں رہے گا جو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور آپؑ کی طبعی وفات پر ایمان نہ لے آیا ہو۔ یہ پیشگوئی افغانستان کے رستے کشمیر میں آپ کی ہجرت کے ذریعہ مِن وعَن پوری ہوگئی۔

سورۃ المائدۃ

یہ سورت مدنی دور کے آخر میں نازل ہوئی تھی۔ بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو اکیس آیات ہیں۔

اس سورت میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بہت سے معجزات کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ تفاسیر میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان پر آسمان سے ظاہری طور پر خوانِ نعمت اُترا تھا اس کی حقیقت سے بھی یہ کہہ کر پردہ اٹھایا گیا ہے کہ دراصل یہ پیشگوئی تھی کہ عیسائی قوموں کو جو بے انتہا رزق عطا فرمایا جائے گا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعاؤں اور قربانیوں کے نتیجہ میں عطا ہو گا لیکن اگر انہوں نے اس رزق کی ناشکری کی،جس کے آثار بد قسمتی سے ظاہر ہو چکے ہیں،تو پھر ان کو سزا بھی ایسی ہولناک دی جائے گی کہ کبھی دنیا میں کسی کو ایسی سزا نہیں دی گئی۔

عہد توڑنے کے نتیجہ میں جو خرابیاں یہود و نصاریٰ میں پیدا ہوتی رہیں ان کے پیش نظر اس سورت کے آغاز میں ہی امت محمدیہ کو متنبّہ فرما دیا گیا ہے۔

اس سے پہلے سورۃ البقرہ میں مختلف کھانوں کی حلتّ و حرمت کا ذکر گزر چکا ہے مگر یہاں ایک نئی بات فرمائی گئی ہے جو اسلام کو ہر دوسرے مذہب سے ممتاز کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ رزق محض حلال ہی نہیں بلکہ طیّب ہونا چاہئے۔ پس بظاہر ایک رزق اگر حلال بھی ہو تو بہتر یہی ہے کہ جب تک وہ انتہائی پاکیزہ اور صحت افزا نہ ہو، اس سے پرہیز کیا جائے۔

اس سے پہلے انصاف پر ہر حال میں قائم رہنے کی تعلیم گزر چکی ہے۔ اب اس سورت میں شہادت کا مضمون شروع ہوتا ہے اور شہادت میں کلیۃ ًانصاف پر قائم رہنے کی تلقین اس شاندار طریق پر بیان ہوئی ہے کہ اگر کسی قوم سے دشمنی بھی ہو تب بھی اس کے حقوق کا خیال رکھو اور اس کے ساتھ اپنے قضیے چکاتے ہوئے انصاف کا دامن ہاتھ سے ہر گز نہ چھوڑو۔

اس سورت میں مِیْثَاق کا ایک دفعہ پھر ذکر ملتا ہے کہ کس طرح یہود نے جب میثاق کو توڑا تھا تو آپس میں بغض و عناد کا شکار ہو گئے اور بہتّر فرقوں میں بٹ گئے۔ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوئی جنہوں نے ایک تہترویں ناجی فرقہ کی بنیاد ڈالی۔ لیکن پیش گوئی کے رنگ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ آپؑ کی قوم نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھائے گی اور گروہ در گروہ بٹتی چلی جائے گی اور خود ان کے درمیان بھی حسد،بغض اور خود غرضی کے نتیجہ میں بڑی بڑی عالمی جنگوں کی بنیاد پڑے گی جن میں خود عیسائی قومیں عیسائی قوموں کے خلاف نبرد آزما ہوں گی۔

اس سورت میں جہاں قوموں کے باہمی جدال اورقتل و غارت کا ذکر ہے وہاں ایک ایسے گروہ کا بھی ذکر ہے جو ظلم اور سفّاکی میں حد سے بڑھ جائے گا (آیت نمبر34) جیسا کہ آج کل چھوٹے چھوٹے بچوں پر بہیمانہ مظالم کا ذکر مغربی دنیا میں بھی ملتا ہے اور مشرقی دنیا تو اس سے بھری پڑی ہے۔اور ایسے بھیانک جرائم بھی ہیں جن کی سزا انتہائی سنگین ہونی چاہئے تاکہ فَشَرِّدْبِھِمْ مَّنْ خَلْفَھُمْ کا مضمون پورا ہو اور ان کے نہایت خوفناک انجام کو دیکھ کر باقی مجرمین جرم سے باز رہیں۔

یہ سورت ہر قسم کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔اسی تعلق میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جبر سے کسی کا دین بدلانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر انتہائی جبر کے نتیجہ میں بعض لوگ مرتد بھی ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے بدلہ عظیم الشان قومیں عطا فرمائے گا جو تعداد میں ان مرتدین سے بہت زیادہ ہوں گے اور مومنوں سے بہت محبت کرنے والے اور کفار پر بہت سخت ہوں گے۔

اس سورت میں قرآنی تعلیم کے عدل و انصاف کا ایک ایسا ذکر ملتا ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب میں موجود نہیں اور یہ فرمایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے علاوہ بھی دیگر مذاہب کے پیرو کار جو اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے میں سچے ہوں، نیک عمل کرنے والے ہوں اور آخرت یعنی اپنے اعمال کی جوابدہی کے عقیدے پر مضبوطی سے قائم ہوں،اللہ تعالیٰ ان کو اُن کے نیک اعمال کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ ان کو چاہئے کہ وہ اپنے انجام کے بارہ میں کوئی خوف اور حزن نہ کریں۔

باہمی بغض و عناد کا جو ذکر اس سورت میں چل رہا ہے اس میں مزید وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں جو شدید بغض و عناد پیدا کرنے کا موجب بنتی ہیں۔ ان میں ایک شراب اور دوسری جوا ہے۔ اگرچہ ان میں بعض معمولی فوائد بھی ہیں مگر ان کے نقصانات ان فوائد کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہیں۔

اس سورت کے آخر پر حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کا صراحتاً ذکر ہے اور آپ کو ایک کامل موحدِ رسول کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے جس نے کبھی بھی اپنی قوم کو تثلیث یا شرک کی تعلیم نہیں دی اور نہ ہی یہ فرمایا کہ مجھے اور میری والدہ کو خدا کے سوا دو سرامعبود بنا لو۔

(عائشہ چوہدری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اگست 2021