ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
دعویٰ سے پہلے کی پاکیزہ زندگی
قسط 33
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ
(یونس: 17)
ترجمہ: اس سے پہلے میں ایک عرصۂ دراز تم میں گزار چکا ہوں۔ کیا پھر (بھی) تم عقل سے کام نہیں لیتے۔
نبوت سے پہلے کی زندگی کو اللہ تعالیٰ نے نبی کی صداقت کا ایک نشان قرار دیا ہے۔ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے سیرت نبوی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ عبدالمطلب نے حضرت آمنہ کے چاند کا نام محمدﷺ رکھا۔ جس کا مطلب ہے نہایت ہی تعریف کیا گیا،تعریف و تحسین کے قابل۔ اور آپؐ کی پاکیزہ زندگی کا ہر لمحہ قابل تعریف ہے۔بہت چھوٹی عمر سے آپؐ کی حسین صفات اپنی طرف متوجہ کرلیتیں ۔ حلیمہ سعدیہ کے آنگن کو برکتوں سے بھرنے والا یہ بچہ فرشتوں کے سینہ چاک کرکے دل دھونے والے کشفی واقعہ سے غیر معمولی تصور ہونے لگا۔ دادا کا لاڈلا پوتا، چچا کا پسندیدہ بھتیجا سب کو پیارا لگتا۔ کیونکہ اس کی عادتیں دل لبھانے والی تھیں۔ اللہ پاک اپنے محمد کی خود تربیت فرما رہاتھا۔ بچپن کا ایک واقعہ خود آپؐ کی زبانی سنئے:
’’میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور سب بچے کھیل کے واسطے پتھر اٹھا رہے تھے جیسا کہ بچوں کا قاعدہ ہے انہوں نے اپنے تہبند کھول کر کندھوں پر رکھ لئے تھے تاکہ ان پر پتھر ڈھو ڈھو کر لائیں میں نے بھی چاہا کہ میں بھی اپنا تہبند اپنے کندھوں پر رکھ کر پتھر اٹھاؤں کہ غیب سے ایک طمانچہ میرے لگا جس سے مجھ کو نہایت صدمہ پہنچا اور غیب سے آواز آئی کہ اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لو پس میں نے اس کو مضبوط باندھ لیا اور گردن پر پتھر اٹھانے لگا حالانکہ میرے سب ساتھی اسی طرح پتھر اٹھا رہے تھے اور ان میں فقط ایک میں ہی تہبند باندھے ہوئے تھا۔‘‘
(ابن ہشام صفحہ 119)
مکہ میں رہتے ہوئے جبکہ سارا ماحول بت پرست تھا آپؐ کو بتوں کی پوجا پسند نہ تھی جاہلانہ رسوم و رواج سے نفرت کرتے تھے۔ وہاں شام کے وقت راگ رنگ، قصہ گوئی اور کھیل کود کی محفلیں سجتی تھیں۔ جس میں سب دلچسپی سے شریک ہوتے مگر آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے ان میں شمولیت سے روکے رکھا نہ بتوں کی پوجا کی نہ شراب پی نہ بےکار لہو و لعب میں شریک ہوئے خود فرماتے ہیں:
’’مجھے جوانی میں کبھی عیش پرستی اور بدکاری کی ہمت نہیں پڑی بلکہ میرے رب نے مجھے ان تمام برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھا جو جاہلیت کے زمانہ میں مکہ کے نوجوانوں میں عام تھیں۔‘‘
(بیہقی)
بارہ سال کے تھے جب آپؐ کے چچا ابو طالب شام کے سفر میں آپؐ کو ساتھ لے گئے راستے میں جرجیس بحیرہ ایک پادری نے آپﷺ کو دیکھا کے جدھر بھی جاتے ہیں سر پر بادل سایہ کرتے ہیں۔ اس نے ابو طالب کو بتایا کہ یہ بچہ مکہ والوں کا سردار ہوگا اللہ تعالیٰ انہیں رحمت عالم بنا کر بھیجے گا۔ تم لوگ اس طرف آ رہے تھے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو انہیں سجدہ کرنے کے لئے نہ جھکا ہو۔ یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہیں کرتیں اور میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچان گیاہوں اور ان کی صفات ہماری آسمانی کتب (تورات اور انجیل) میں بھی موجود ہیں۔
(خلاصہ ترمذی عن ابی موسیٰ ؓ)
جب آپﷺ کی عمر مبارک بیس سال ہوئی تو ذوالقعدہ کے مہینہ میں عکاظ (مقام) میں ایک جنگ ہوئی اس کو جنگِ فجار کہتے ہیں کیونکہ یہ حرمت والے مہینے میں ہوئی تھی اس جنگ کے فوراً بعدذو القعدہ کے مہینہ میں ہی قریش کے پانچ قبائل کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا جسے حلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپﷺ بھی اس معاہدے میں شامل ہوئے جس میں طے پایا کہ ہر مظلوم کی مدد کی جائے گی اور ظالم کو سزا دی جائے گی۔ رسول اکرمﷺنے فرمایا: ’’میں عبداللہ بن جدعان کے مکان میں ایک ایسے معاہدہ (حلف الفضول) میں شریک ہوا کہ مجھے اس کے بدلہ میں سرخ اونٹ (قیمتی سے قیمتی چیز) بھی پسند نہیں اور اگر دورِ اسلام میں بھی مجھے ایسے معاہدہ کے لئے بلایا جائے تو میں یقینا اسے قبول کروں گا۔‘‘
(بیہقی عن جبیر بن مطعم ؓ)
اہل مکہ کو آپؐ کی صداقت و امانت پر کو گواہ بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا خوب انتظام فرمایا۔ ابتدائے جوانی کی بات ہے تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کی تنصیب کے لئے قبائل کا باہم اختلاف ہوا اور نوبت جنگ و جدال تک پہنچنے لگی چار پانچ دن تک کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر ان میں سے ایک عقلمند شخص نے مشورہ دیاکہ اختلاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ فیصلہ کر لو کہ جو شخص کل سب سے پہلے بیت اللہ میں آئے گا وہ فیصلہ کر دے۔ اس بات پر سارے راضی ہو جاؤ۔ چنانچہ سب نے یہ تجویز مان لی اور اگلے روز منتظر لوگوں نے دیکھا کہ بیت اللہ میں سب سے پہلے محمدﷺ داخل ہوئے۔ اطمینان کی لہر دوڑ گئی بیک زبان سب نے کہا ھٰذَالْاَمِیْن یہ تو امین ہے۔ ہم خوش ہو گئے یہ محمدؐ ہیں۔ آپ ؐ کی امانت اور دیانت اور صداقت کے گواہوں کے سامنے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی ایک اور خوبی کھول کر دکھادی کہ آپؐ دانا بھی ہیں صحیح فیصلے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قریش نے حجر اسود کا جھگڑا بتایا۔ آپؐ نے ایک چادر منگوائی اس پر حجراسود رکھ دیا۔ پھر ہر قبیلہ کو اس کا ایک ایک کونہ پکڑ کر اٹھانے کو کہا جب وہ حجر اسود جہاں رکھنا تھا اپنی اس جگہ پر پہنچ گیا تو آپؐ نے اسے اٹھا کر اپنے ہاتھ سے اس کی جگہ پر نصب فرما دیا۔
(استفادہ از السیرۃ النبویۃ لابن ھشام حدیث بنیان الکعبۃ …
اشارۃ ابی امیۃ بتحکیم اول داخل فکا ن رسو ل اللّٰہ ؐ)
عین شباب کی عمر ہے والدین کا سایہ نہیں ہے صحت مند اور حسین ہیں۔ مگر حسن اخلاق کی وہ چمک ہے کہ جو دیکھتا ہے متأثر ہوئے بنا نہیں رہتا۔ مکہ کی متمول خاتون ’حضرت خدیجہؓ نے آنحضورﷺ کی صدق بیانی اور امانت داری اور اعلیٰ اخلاق کا حال سن کر اپنا مال آپ کو دے کر تجارت کے لئے آپؐ کو روانہ کیا۔ اس سفر میں حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ بھی آپ ؐ کے ساتھ تھے۔ واپسی پہ میسرہ نے سفر کے حالات بیان کئے تو حضرت خدیجہؓ نے ان سے متأثر ہو کر آنحضورﷺ کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ کہ آپؐ قرابت داری کا خیال رکھتے ہیں، قوم میں معزز ہیں، امانتدار ہیں اور احسن اخلاق کے مالک ہیں اور بات کہنے میں سچے ہیں۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام حدیث تزویج رسول اللہﷺ خدیجۃ رضی اللہ عنہا)
مرد کے اخلاق کی سب سے بڑی گواہ اس کی بیوی ہوتی ہے نزول وحی کی ابتدا تھی حضرت خدیجہؓ کو آپؐ کے ساتھ رہتے ہوئےپندرہ سال ہو گئے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے وحی کے وقت اپنی پریشانی کا ذکر کیا۔ تو انہوں نے آپؐ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’کَلاَّ أَبْشِرْ فَوَاللّٰہِ لاَ یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَصْدُقُ الْحَدِیْثَ‘‘ یعنی ویسے نہیں جیسے آپ سوچ رہے ہیں، آپؐ کو مبارک ہو۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا۔ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں اور راست گوئی اور سچائی سے کام لیتے ہیں۔
(بخاری کتاب التعبیر باب اول ما بدیٔ بہ رسول اللّٰہؐ من الوحی الرؤیا الصالحۃ)
بیوی کے بعد بے تکلف دوست ہوتے ہیں جن سے انسان کی کوئی بات نہیں چھپتی۔ حضرت ابو بکرؓ جن کے ساتھ بچپن سے کھیلے پلے بڑھے یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے دوست ہمیشہ ہر حالت میں سچ کہتے اور سچ کی تلقین کرتے ہیں۔ کبھی جھوٹ بول ہی نہیں سکتے یہی وجہ تھی کہ جب آپؐ کے دعویٰ کے بارے میں سنا تو آپؐ کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہی۔آ پؓ نے آنحضرتﷺ سے صرف یہی پوچھا کہ کیا آپؐ نے دعویٰ کیا ہے؟ آنحضرتﷺ نے وضاحت کرنی چاہی تو ہر بار یہی عرض کی کہ مجھے صرف ہاں یا نہ میں بتا دیں۔ اور آنحضورﷺ کے ہاں کہنے پر عرض کیا کہ میرے سامنے تو آپؐ کی ساری سابقہ زندگی پڑی ہوئی ہے۔ مَیں کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ بندوں سے تو سچ بولنے والا ہو اور اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہو اور خدا پر جھوٹ بولے۔
(دلائل النبوۃ للبیھقی جماع ابواب المبعث باب من تقدم اسلامہ من الصحابۃؓ …)
دشمن کی گواہی اس لحاظ اہم ہوتی ہے کہ وہ تو وار کرنے کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ مگر آپﷺ کا کردار اس قدر شفاف تھا کہ اس پر داغ لگانا مشکل تھا۔ ایک مرتبہ سرداران قریش جمع ہوئے جن میں ابوجہل اور اشد ترین دشمن نضربن حارث بھی شامل تھے۔ تو حضورﷺ کے بارے میں جب کسی نے یہ کہا کہ انہیں جادوگرمشہور کر دیا جائے یا جھوٹا قرار دے دیا جائے تو نضر بن حارث کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ اے گروہ قریش! ایک ایسا معاملہ تمہارے پلّے پڑا ہے جس کے مقابلے کے لئے تم کوئی تدبیر بھی نہیں لا سکے۔ محمدﷺ تم میں ایک نوجوان لڑکے تھے اور تمہیں سب سے زیادہ محبوب تھے۔ سب سے زیادہ سچ بولنے والے تھے۔ تم میں سب سے زیادہ امانتدار تھے۔ اب تم نے ان کی کنپٹیوں میں عمر کے آثار دیکھے اور جو پیغام وہ لے کر آئے تم نے کہا وہ جادوگر ہے۔ ان میں جادو کی کوئی بات نہیں۔ ہم نے بھی جادوگر دیکھے ہوئے ہیں۔ تم نے کہا وہ کاہن ہے۔ ہم نے بھی کاہن دیکھے ہوئے ہیں۔ وہ ہرگز کاہن نہیں ہیں۔ تم نے کہا وہ شاعر ہیں، ہم شعر کی سب اقسام جانتے ہیں وہ شاعر نہیں ہے۔ تم نے کہا وہ مجنون ہے، ان میں مجنون کی کوئی بھی علامت نہیں ہے۔ اے گروہ قریش! مزید غور کر لو کہ تمہار اواسطہ ایک بہت بڑے معاملے سے ہے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام مادار بین رسول اللہﷺ وبین رؤساء قریش …
نصیحۃ النصر لقریش بالتدبر …)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابو جہل نے نبیﷺکو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے۔ البتہ ہم اس تعلیم کو جھوٹا سمجھتے ہیں جو تم پیش کرتے ہو۔ جب عقل پر پردے پڑ جائیں، کسی کی مت ماری جائے تو تبھی تووہ ایسی باتیں کرتا ہے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کچھ تو عقل کرو۔ کیا ایک سچا آدمی جھوٹی تعلیم دے سکتا ہے۔ سچا آدمی تو سب سے پہلے اس جھوٹی تعلیم کے خلاف کھڑا ہو گا۔
پھر ایک اور موقع پر آپؐ کے صادق ہونے پر دشمن کی گواہی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہیں ابو سفیان بن حرب نے بتایا کہ جب وہ شام کی طرف ایک تجارتی قافلے کے ساتھ گیا ہوا تھا تو ایک دن شاہ روم، ہرقل نے ہمارے قافلے کے افراد کو بلا بھیجا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت وہ کچھ سوالات پوچھ سکے۔ شہنشاہ روم کے دربار میں ہرقل سے اپنی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بیان کیا کہ اس نے مجھ سے کچھ سوال کئے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ کیا دعویٰ سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے تھے؟ مَیں نے جواباً کہا کہ نہیں۔ اس پر ہرقل نے ابوسفیان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب تو نے میرے اس سوال کا جواب نفی میں دیا تو مَیں نے سمجھ لیا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ باندھنے سے باز رہے مگر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے۔ ہرقل نے کہا مَاذَا یَاْمُرُکُمْ محمدؐ آپ کوکس چیز کا حکم دیتے ہیں۔ ابو سفیان نے کہا وہ کہتا ہے، اللہ کی عبادت کرو جو اکیلا ہی معبود ہے اور اس کا کسی چیز میں شریک نہ قرار دو اور ان باتوں کو جو تمہارے آباؤ اجداد کہتے تھے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز قائم کرنے، سچ بولنے، پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتا ہے۔ تب ہرقل نے کہا کہ جو تو کہتا ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر عنقریب میرے قدموں کی اس جگہ کا بھی وہی مالک ہو جائے گا۔
(بخاری کتاب بد ء الوحی حدیث نمبر7)
قریش نے ایک دفعہ سردار عتبہ کو قریش کا نمائندہ بنا کر رسول کریمﷺ کی خدمت میں بھجوایا۔ اس نے کہا آپ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے ہیں اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں۔ آپؐ کی جو بھی خواہش ہے ہم پوری کر دیتے ہیں، آپ ان باتوں سے باز آئیں۔ حضورؐ تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ سب کہہ چکا تو آپ نے سورۃ حٰمؔ فُصِّلَتْ کی چند آیات تلاوت کیں۔ جب آپؐ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد و ثمود جیسے عذاب سے ڈراتا ہوں تو اس پر عتبہ نے آپؐ کو روک دیا کہ اب بس کریں اور خوف کے مارے اٹھ کر چل دیا۔ اس نے قریش کو جا کر کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ محمدﷺ جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آ جائے جس سے وہ ڈراتا ہے۔ تمام سردار یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
(السیرۃ الحلبیۃ از علامہ برہان الدین باب عرض قریش علیہؐ
اشیاء من خوارق العادات وغیر العادات …)
عزیز رشتے داروں اور اہل مکہ کی گواہی کا سامان اس طرح ہوا کہ:
’’جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے’’ وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (الشعراء: 215) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار اور بیدار کر کے احکام اترے تو آنحضرتﷺ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے پکار کر اور ہر قبیلہ کا نام لے لے کر قریش کو بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپؐ نے فرمایا اے قریش! اگر مَیں تم کو یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پہ حملہ کرنے کو تیار ہے۔ تو کیا تم میری بات کو مانو گے۔ بظاہر یہ ایک بالکل ناقابل قبول بات تھی مگر سب نے کہا کہ ہاں ہم ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ صادق القول پایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تو پھر سنو، مَیں تم کو خبر دیتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کا لشکر تمہارے قریب پہنچ چکا ہے۔ خدا پر ایمان لاؤ تا اس عذاب سے بچ جاؤ۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم۔ اے صفحہ 128)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’اور دوسری خوبی جو شرط کے طور پر مامورین کے لئے ضروری ہے وہ نیک چال چلن ہے کیونکہ بدچال چلن سے بھی دِلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اوریہ خوبی بھی بدیہی طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ قرآن شریف میں فرماتا ہے: فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ یعنی ان کفار کو کہہ دے کہ اِس سے پہلے میں نے ایک عمر تم میں ہی بسر کی ہے پس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کس درجہ کا امین اور راستباز ہوں۔ اب دیکھو کہ یہ دونوں صفتیں جو مرتبہ نبوت اور ماموریت کے لئے ضروری ہیں یعنی بزرگ خاندان میں سے ہونا اور اپنی ذات میں امین اور راستباز اور خدا ترس اور نیک چلن ہونا قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کمال درجہ پرثابت کی ہیں اور آپ کےاعلیٰ چال چلن اور اعلیٰ خاندان پر خود گواہی دی ہے۔ اور اِس جگہ میں اِس شکرکے ادا کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اپنی وحی کے ذریعہ سے کفار کو ملزم کیا اور فرمایا کہ یہ میرا نبی اس اعلیٰ درجہ کا نیک چال چلن رکھتا ہے کہ تمہیں طاقت نہیں کہ اس کی گذشتہ چالیس برس کی زندگی میں کوئی عیب اور نقص نکال سکو باوجود اس کے کہ وہ چالیس برس تک دن رات تمہارے درمیان ہی رہا ہے۔ اور نہ تمہیں یہ طاقت ہے کہ اس کے اعلیٰ خاندان میں جو شرافت اور طہارت اور ریاست اور امارت کا خاندان ہے ایک ذرہ عیب گیری کرسکو۔ پھر تم سوچو کہ جو شخص ایسے اعلیٰ اور اطہر اور انفس خاندان میں سے ہے اور اس کی چالیس برس کی زندگی جو تمہارے روبروئے گذری۔ گواہی دے رہی ہے جو افترا اور دروغ بافی اِس کا کام نہیں ہے تو پھر ان خوبیوں کے ساتھ جبکہ آسمانی نشان وہ دِکھلا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی تائیدیں اس کے شامل حال ہو رہی ہیں اور تعلیم وہ لایا ہے جس کے مقابل پر تمہارے عقائد سراسر گندے اور ناپاک اور شرک سے بھرے ہوئے ہیں تو پھر اس کے بعد تمہیں اس نبی کے صادق ہونے میں کونسا شک باقی ہے۔ اسی طور سے خدا تعالیٰ نے میرے مخالفین اور مکذّبین کو ملزم کیا ہے۔ چنانچہ براہین احمدیہ کے صفحہ512 میں میری نسبت یہ الہام ہے جس کے شائع کرنے پر بیس برس گذر گئے اور وہ یہ ہے وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ یعنی ان مخالفین کو کہہ دے کہ میں چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں اور اس مدّت دراز تک تم مجھے دیکھتے رہے ہو کہ میرا کام افترا اور دروغ نہیں ہے اور خدا نے ناپاکی کی زندگی سے مجھے محفوظ رکھا ہے تو پھر جو شخص اِس قدر مُدت دراز تک یعنی چالیس برس تک ہر ایک افترا اور شرارت اور مکر اور خباثت سے محفوظ رہا اور کبھی اس نے خلقت پر جھوٹ نہ بولا توپھر کیونکر ممکن ہے کہ برخلاف اپنی عادت قدیم کے اب وہ خدا تعالیٰ پر افترا کرنے لگا۔’’
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ281-283)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
آپؐ کے عکس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس دلیل کو اپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش کیا ہے۔ فرمایا:
’’تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اُس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ64)
تاریخ نے آپؑ کے ماموریت سے پہلے کے سب حالات محفوظ رکھے ہیں۔ بہت چھوٹی عمر سے آپ کی خوبیاں دوسروں کو متأثر کرنے لگی تھیں۔ ایک دفعہ جبکہ ابھی آپؑ بچہ تھے مولوی غلام رسول صاحبؒ قلعہ میاں سنگھ کے پاس گئے جو ولی اللہ و صاحب کرامات تھے۔ اس مجلس میں کچھ باتیں ہورہی تھیں۔ باتوں باتوں میں مولوی صاحبؒ نے فرمایا:
’’اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے۔‘‘
انہوں نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہی۔
(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ53)
حضرت مسیح موعودؑ کے مشاغل عام بچوں سے مختلف تھے۔ ان کے والد صاحب کو فکر رہتا کہ یہ ملاں اور مسیتڑ بیٹا دنیا کے جھمیلوں سے کیسے نبٹے گاانہیں دنیا داری سکھانے کی کوشش کرتے تو جواب ملتا:
’’ابا بھلا بتاؤ تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مال کا مالک احکم الحاکمین کا ملازم ہو اور اپنے رب العالمین کا فرماں بردار ہو اس کو کسی ملازمت کی کیا پرواہ ہے‘‘
(تاریخ احمدیت جلد1صفحہ52)
آپ کے والد صاحب اس نتیجے پر پہنچے ہے تو یہ نیک صالح مگر اب زمانہ ایسوں کا نہیں چالاک آدمیوں کا ہے پھر آبدیدہ ہوکر کہتے کہ ’’جو حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں یہ شخص زمینی نہیں آسمانی (ہے) یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے۔‘‘
(تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ302)
آپ تنہا رہ کر مطالعہ کرنا پسند فرماتے زیادہ ملنا جلنا نہیں رکھتے تھے خود فرماتے ہیں:
’’یہ وہ زمانہ تھا جس میں مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا نہ کوئی موافق تھا نہ مخالف۔ کیونکہ مَیں اُس زمانہ میں کچھ بھی چیز نہ تھا اور ایک احدٌ مِّن النّاس اور زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا‘‘
(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 460)
میں تھا غریب و بے کس و گمنام بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
اللہ تعالیٰ کی اپنی تقسیم اوقات ہوتی ہے۔ اس نے آپؑ کے طلوع سے پہلے افق پر روشنی پھیلنے کا وقت 19ویں صدی کا آخری ربع مقرر کیا تھا۔ اخبارات میں آپ کے رشحات قلم جگہ پانے لگے۔ مسلم امہ چونک کر بیدار ہوئی سب محسوس کرنے لگے کہ باغ احمد میں کوئی گلِ رعنا کھلا ہے براہین احمدیہ کے ذریعے علم کی خوشبو ہر طرف پھیلنے لگی علم دوست، مذہبی رجحان رکھنے والے حیرت اور خوشی سے سرشار آپؑ سے رابطے کرنے لگے۔ خطوط لکھ کر آپؑ کے خیالات کو سراہنے اوراپنے مسائل کا حل پوچھنے لگے۔
اہلِ حدیث فرقہ کے معروف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں براہینِ احمدیہ پر ریویو تحریر کیا جس میں حضرت اقدسؑ کی زندگی کی پاکیزگی اور بے عیب ہونے کی گواہی دی نیز خاندانی شرافت اور بزرگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
’’بالآخر ہم اس قدر کہنے سے بازہرگز نہیں رہ سکتےکہ اگر یہ معاملہ گورنمنٹ تک پہنچتا تو یقین تھا کہ ہماری زیرک اور دانشمند گورنمنٹ ایسے مفسدوں کو جنہوں نے بحق ایسے شریف خاندانی کےجو ایک معزز نیک نام و خیر خواہ سرکار کا بیٹا ہے اور خود بھی سرکار کا دلی خیر خواہ وشکر گزار و دعا گو ہے اور درویشی و غربت سے زندگی بسر کرتا ہے ایسا مفسدانہ افترا کیا اور بہت لوگوں کے دلوں کو آزار پہنچایا ہے، سخت سزا دیتی۔‘‘
(اشاعۃ السنہ نمبر7 جلد7 صفحہ 193)
نیز دعا کی: ’’اے خدا! اپنے طالبوں کے رہنما ان پر ان کی ذات سے ان کے ماں باپ سے تمام جہانوں کے مشفقوں سے زیادہ رحم فرما۔ تو اس کتاب کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے اور اس کی برکات سے ان کو مالا مال کردے اور کسی اپنے صالح بندے کے طفیل اس خاکسار شرمسار گنہگار کو بھی اپنے فیوض و انعامات اور اس کے آب کی اخص برکات سے فیض یاب کر آمین۔‘‘
(اشاعۃ السنہ نمبر 11 جلد7 صفحہ 348)
مولوی صاحب (مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی) دلی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب واپس بٹالہ آئے تو اگرچہ ایک عالم کی حیثیت سے ہندوستان بھر میں مشہور ہوگئے اور ہر جگہ ان کا طوطی بولنے لگا۔ مگر اس وقت بھی ان کی حضورؑ سے عقیدت کایہ عالم تھاکہ حضورؑ کا جوتا آپ کے سامنے سیدھا کرکے رکھتے اور اپنے ہاتھ سے آپ کا وضو کرانا موجب سعادت قرار دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی کا چشم دید واقعہ ہے کہ: ’’دعویٰ سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان واقعہ بٹالہ پر تشریف فرماتھے۔ میں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ کھانے کا وقت ہوا تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ہاتھ دھلانے کے لئے آگے بڑھے۔ حضورؑ نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں مگر مولوی صاحب نے باصرار حضورؑ کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 124طبع اوّل)
اخبار زمیندار کے ایڈیٹر مولوی ظفر علی خاں صاحب کے والد اور اخبار زمیندار کے بانی منشی سراج الدین احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں لکھا: ’’ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعۂ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ 1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی۔ ان دنوں میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو و مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے۔‘‘
(اخبار زمیندار مئی 1908ء بحوالہ بدر 25 جون 1908ء صفحہ 13 کالم نمبر 1-2)
اخبار وکیل امرتسر نے لکھا: ’’کیریکٹر کے لحاظ سے ہمیں مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا ایک چھوٹا سا دھبّہ بھی نظر نہیں آتا۔ وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی۔ غرض کہ مرزا صاحب کی زندگی کے ابتدائی پچاس سالوں نے کیا بلحاظ اخلاق و عادات اور پسندیدہ اطوار، کیا بلحاظ مذہبی خدمات و حمایتِ دین مسلمانانِ ہند میں اُن کو ممتاز برگزیدہ اور قابلِ رشک مرتبہ پر پہنچایا۔‘‘
(اخبار وکیل 30 مئی 1908ء صفحہ 1 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 563 جدید ایڈیشن)
…میں حضرت مسیح موعودؑ نے ایک اشتہار شائع فرمایاجس میں نشان نمائی کی دعوت تھی۔ ریاست جموں کے شاہی طبیب حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیرویؓ اس اشتہار کو دیکھتے ہی حضرت اقدسؑ کی زیارت کے لئے قادیان تشریف لے آئے۔ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میری بیعت لے لیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر اس معاملہ میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اس پر حضرت مولاناؓ نے عرض کیا کہ پھر حضور وعدہ فرمائیں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم آجائے تو سب سے پہلے میری بیعت لی جائے۔ آپؑ نے فرمایا ٹھیک ہے۔
(حیاتِ نوراز عبدالقادر سوداگر مل صفحہ117)
حضرت مسیحِ موعودؑ کے اسلام کے دفاع کے مداح ایک بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانویؓ تھے۔ براہین احمدیہ کے تین حصوں پر پرتبصرے میں والہانہ عقیدت کا انداز نظر آتا ہے۔ ’’ایک ایسی کتاب اور ایک ایسے مجدد کی بے شک ضرورت تھی جیسی کہ کتاب براہین احمدیہؐ اور اس کے مؤلف جناب مخدومنا مولانا میرزا غلام احمدؐ صاحب دام فیوضہ ہیں۔ جو ہر طرح سے دعویٔ اسلام کو مخالفین پر ثابت فرمانے کے لئے موجود ہیں۔ جناب موصوف عامی علماء اور فقرا میں سے نہیں بلکہ خاص اس کام پر منجانب اللہ مامور اور ملہم اور مخاطب الٰہی ہیں۔ صدہا سچے الہام اور مخاطبات اور پیشگوئیاں اور رؤیاء صالحہ اور امر الٰہی اور اشارات وبشارات اجراء کتاب اور فتح و نصرت اور ہدایات امداد کے باب میں زبان عربی، فارسی، اردو وغیرہ میں جو مصنف صاحب کو بہ تشریح تمام ہوئے ہیں،مشرح و مفصل اس کتاب میں درج ہیں اور بعض الہامات زبان انگریزی میں بھی ہوئے ہیں۔ حالانکہ مصنف صاحب نے ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں پڑھا۔ چنانچہ صدہا مخالفین اسلام کی گواہی سے ثابت کرکے کتاب میں درج کئے گئے ہیں،جن سے بخوبی صداقت پائی جاتی ہے۔ اور یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے، کہ مصنف صاحب بے شک امر الٰہی سے اس کتاب کو لکھ رہے ہیں۔ اور صاف ظاہر ہوتا ہے بموجب حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ فِیمَا اَعْلَمُ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وآلِہٖ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَاْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَّنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا (رواہ ابو داؤد) جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہرصدی کے شروع میں ایک مجدد منجانب اللہ پیدا ہوتا ہےتو تمام مذاہب باطلہ کے ظلمات کو دور کرتا ہے اور دین محمدی ؐکو منور اور روشن کرتا ہے۔ ہزار ہا آدمی ہدایت پاتے ہیں اور دین اسلام ترو تازہ ہو جاتا ہے۔ مصنف صاحب اس چودھویں صدی کے مجدّد اور مجتہد اور محدث اور کامل مکمل افراد امت محمدیہ میں سے ہیں۔ اور دوسری حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآءِ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ اسی کی تائید میں ہے۔‘‘
حضورؑ کے ذکرِ خیر میں آپؓ مزید تحریر فرماتے ہیں:
اے ناظرین! میں سچی نیت اور کمال جوش صداقت سے التماس کرتا ہوں کہ بے شک و شبہ جناب میرزا صاحب موصوف مجدد وقت اور طالبان سلوک کے واسطے کبریت احمر اور سنگ دلوں کے واسطے پارس اور تاریک باطنوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لئے خضر اور منکران اسلام کے واسطے سیف قاطع اور حاسدوں کے واسطے حجۃ بالغہ ہیں۔ یقین جانوکہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا۔ آگاہ ہوکہ امتحان کا وقت آ گیا ہے۔ اور حجت الٰہی قائم ہو چکی ہے۔ اور آفتاب عالم تاب کی طرح بدلائل قطعیہ ایسا ہادی کامل بھیج دیا ہےکہ سچوں کو نور بخشے اور ظلمات ضلالت سے نکالے۔ اور جھوٹوں پر حجت قائم کرے،تاکہ حق و باطل چھٹ جائے۔ اور خبیث و طیب میں فرق ّبین ظاہر ہو جائے۔ اور کھوٹا کھرا پرکھا جائے۔‘‘ نیز آپ نے اپنی خداداد فراست سے یہ بھی پہچان لیا کہ یہ شخص مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرے گا۔ لہذایہ شعر کہا:
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
(اخبار الفضل 23جون 1931ء صفحہ5-7)
آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’انبیاء وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی کامل راستبازی کی قوی حجت پیش کرکے اپنے دشمنوں کو بھی الزام دیا جیسا کہ یہ الزام قرآن شریف میں ہے حضرت خاتم الانبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے جہاں فرمایا ہے فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ (یونس: 17) یعنی میں ایسا نہیں کہ جھوٹ بولوں اور افتراء کروں۔ دیکھو مَیں چالیس برس اس سے پہلے تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا کبھی تم نے میرا کوئی جھوٹ یا افتراء ثابت کیا؟ پھر کیا تم کو اتنی سمجھ نہیں یعنی یہ سمجھ کہ جس نے کبھی آج تک کسی قسم کا جھوٹ نہیں بولا وہ اب خد اپر کیوں جھوٹ بولنے لگا۔ غرض انبیاء کے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہےکہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت ان کے واقعات سے ہی روشن ہو رہی ہے۔ مثلاً اگر کوئی منصف اور عاقل ان تمام براہین اور دلائل صدق نبوت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اس کتاب میں لکھی جائیں گی، قطع نظر کر کے محض ان کے حالات پر ہی غور کرے تو بلاشبہ انھیں حالات پر غور کرنے سے ان کے نبی صادق ہونے پر دل سے یقین کر ے گا اور کیوں کر یقین نہ کرے وہ واقعات ہی ایسے کمال سچائی اور صفائی سے معطر ہیں کہ حق کے طالبوں کے دل بلا اختیار ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 107-108)
اِبتدا سے گوشۂ خلوت رہا مُجھ کو پسند
شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار
پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا
میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار
انبیاء کے طور پر حجّت ہوئی ان پر تمام
ان کے جو حملے ہیں ان میں سب نبی ہیں حصہ دار
تھا برس چالیس کا مَیں اس مسافر خانہ میں
جبکہ مَیں نے وحیِ ربّانی سے پایا افتخار
اِس قدر یہ زندگی کیا افترا میں کٹ گئی
پھر عجب تر یہ کہ نُصرت کے ہوئے جاری بِحار
ہر قدم میں میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں
ہر عدو پر حجّتِ حق کی پڑی ہے ذوالفقار
(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)