• 29 اپریل, 2024

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 28)

بنیادی مسائل کے جوابات
قسط 28

سوال:۔ ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کسی احمدی نے اپنے یو ٹیوب چینل پرایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ خاتم، رسول پاکﷺ کا نام ہے، اس لئے کلمہ طیبہ میں محمدرسول اللہ کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔احمد رسول اللہ بھی لکھا جا سکتا ہے اور مزمل اور مدثر بھی حضورﷺ کے نام ہیں وہ بھی لکھے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب موٴرخہ 20 اکتوبر 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔

جواب:۔ آپ نے اپنے خط میں کسی احمدی کی طرف منسوب کر کے جو بات لکھی ہےاگر انہوں نے اسی طرح کہی ہے تو انہوں نے غلط کہا ہے۔ جماعت احمدیہ کا ہر گز یہ موقف نہیں کہ کلمہ طیبہ میں اس قسم کی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ احادیث نبویہﷺمیں جہاں پر بھی کلمہ طیبہ کے الفاظ آئے ہیں ہر جگہ حضورﷺکا ذاتی نام ہی آیا ہے۔ حضورﷺیا صحابہ نے کسی جگہ بھی کلمہ میں حضورﷺکے ذاتی نام کی بجائے آپ کے کسی صفاتی نام کو استعمال نہیں کیا۔ پھر اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی تحریرات و ارشادات میں ہر جگہ اسی کلمہ طیبہ کوبیان فرمایا ہے اور ہر جگہ حضورﷺکے صرف ذاتی نام کو کلمہ طیبہ میں تحریر فرمایا ہے۔

پس اس قسم کی تبدیلی جہاں مرکزیت کے خلاف ہے وہاں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ اس لئے ہر احمدی کو اس قسم کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔

سوال:۔ والد کی اولاد کے حق میں دعا اور بد دعا ہر دو کی قبولیت پر مبنی احادیث کے بارہ میں نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ ربوہ کے ایک استفسار کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب موٴرخہ 10 نومبر 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل راہنمائی فرمائی:

جواب:۔ کتب احادیث میں مروی دونوں قسم کی احادیث اپنی اپنی جگہ پر درست اور ہماری راہنمائی کر رہی ہیں۔ دونوں قسم کی احادیث کو سامنے رکھیں تو مضمون یہ بنے گا کہ جس شخص کی دعا قبولیت کا درجہ رکھتی ہے اس کی بد دعا بھی قبول ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دعا تو قبول کروں گا اور بد دعا قبول نہیں کروں گا۔

والد کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطاء فرمایا ہے اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے اور بد دعا بھی سنتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والدین کے متعلق خاص طور پر فرمایا ہے کہ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡہَرۡہُمَا وَقُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۴﴾ وَاخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَقُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿۲۵﴾ (بنی اسرائیل: 24-25) یعنی تیرے رب نے (اس بات کا) تا کیدی حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (نیز یہ کہ اپنے) ماں باپ سے اچھا سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آجائے ،تو انہیں (ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) اُف تک نہ کہہ اور نہ انہیں جھڑک اور ان سے (ہمیشہ) نرمی سے بات کر اور رحم کے جذبہ کے ماتحت ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کر اور (ان کے لئے دعا کرتے وقت) کہا کر (کہ اے) میرے رب! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی۔

پس ان احادیث میں حضورﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ والد کی دعاؤں سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کی بد دعا سے بچو۔

سوال:۔ ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ صفا و مروہ کی سعی کے دوران جہاں ہم مرد دوڑتے ہیں، عورتیں کیوں نہیں دوڑتیں حالانکہ حضرت ہاجرہ اس جگہ دوڑی تھیں۔اس کی کیا وجہ ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب موٴرخہ 22 نومبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔

جواب:۔ حج اور عمرہ کے موقعہ پر صفا ومروہ کے درمیان سعی جہاں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی قربانی کی یاد میں کی جاتی ہے، وہاں کتب احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے عمرۂ قضاء کے موقعہ پرکفار مکہ پرمسلمانوں کی قوت کے اظہار کیلئے اپنے صحابہ کو طواف بیت اللہ کے پہلے تین چکروں اور صفا و مروہ کی سعی کے دوران دوڑنے اور سینہ تان کر تیز چلنے کا ارشاد فرمایا تھا اور خود بھی یہی عمل فرمایا، کیونکہ کفار مکہ کا خیال تھا کہ مدینہ سے آنے والے مسلمانوں کو وہاں کے بخار نے بہت کمزور کر دیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الحج) پس حضورﷺ کے اس ارشاد اور فعل کے تحت حج اور عمرہ کرنے والے مردوں (جو اس کی طاقت رکھتے ہوں) کیلئے طواف بیت اللہ کے پہلے تین چکروں اور سعی بین الصفا والمروہ میں دوڑنا سنت رسولﷺ ٹھہرا۔ لیکن جو اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کیلئے دوڑنا ضروری نہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے (جبکہ وہ اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے سعی میں دوڑنے کی بجائے چل رہے تھے) کسی شخص کے اعتراض کرنے پر فرمایا کہ میں جو سعی کے دوران دوڑا ہوں تو میں نے حضورﷺ کو سعی کے دوران دوڑتے دیکھا ہے اور اب جبکہ میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں اورسعی کے دوران چل رہا ہوں تو میں نے حضورﷺ کو سعی کے دوران چلتے بھی دیکھا ہے۔

(سنن ترمذی کتاب الحج)

فقہاء کے نزدیک طواف بیت اللہ اور سعی کے دوران دوڑنا مردوں کیلئے سنت ہے، عورتوں کیلئے نہیں۔ کیونکہ عورتوں کیلئے ستر یعنی پردہ ضروری ہے جس کا حکم عورتوں کے دوڑنے سے قائم نہیں رہ سکتا۔

جہاں تک حضرت ہاجرہ کے پانی کی تلاش میں دوڑنے کی بات ہے تو وہ ایک اضطراری کیفیت تھی جس میں حضرت اسماعیل شدت پیاس کی وجہ سے جان کنی کی حالت کو پہنچے ہوئے تھے۔نیز روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ بعض جگہ وہ تیز تیز چلتی تھیں، بعض جگہ دوڑتی تھیں جس طرح کوئی بے چینی سے بعض دفعہ کسی خاص جگہ جلدی پہنچنے کیلئے تیز تیز قدم بھی اٹھاتا ہے اور دوڑ بھی پڑتا ہے۔ جبکہ حج اور عمرہ کے موقعہ پرعورتوں کیلئے ایسی کوئی اضطراری کیفیت نہیں ہوتی نیز حج اور عمرہ کے موقعہ پر عورتوں کے ساتھ مرد بھی ہوتے ہیں، اس لئے عورتوں کا اس موقعہ پر مناسب رفتار سے تیز چلنا ہی کافی سمجھا گیا ہے، تا کہ اس طرح وہ حضرت ہاجرہ کی سنت کی پیروی بھی کر لیں اور ان کے پردہ کا حکم بھی قائم رہے۔

سوال:۔ اہل تشیع کے ماتمی جلوس کیلئے خدمت خلق کے جذبہ کے تحت اہل جلوس کو پانی وغیرہ پیش کرنے کی بابت محترم ناظم صاحب دارلافتاء ربوہ کی ایک رپورٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب موٴرخہ 22 نومبر 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا۔

جواب:۔ میرے نزدیک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات اس بارہ میں بڑے واضح ہیں کہ اس قسم کےکاموں کیلئے دن اور وقت مقرر کرنا بدعت ہے۔ ہاں اگر کوئی احمدی خود یا کوئی جماعت سارا سال خدمت خلق کے جذبہ کے تحت لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام کرتی ہو اور مختلف مذاہب اور تنظیموں کے پُر امن جلوسوں کیلئے سارا سال ہی خدمت خلق کے تحت اس قسم کے سٹال لگاتی ہو تو اہل تشیع کے ماتمی جلوس کیلئے بھی اس قسم کا سٹال لگانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر یہ کام صرف اہل تشیع کے ماتمی جلوس کیلئے کیا جاتا ہے اور سارا سال ایسا کوئی سٹال نہیں لگایا جاتا تو پھر یقیناً یہ بدعت ہے۔ اور احمدیوں کو اس قسم کی بدعات سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے جن ارشادات کا ذکر فرمایا ہے، وہ قارئین کے استفادہ کیلئے ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔(مرتب)

ارشاد حضرت مسیح موعودؑ

حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکملؓ نے سوال کیا کہ محرم دسویں کو جو شربت و چاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ للہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا۔
ایسے کاموں کیلئے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم و بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔ پس اس سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں۔ ابتداء میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے اس لئے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے۔

(اخبار بدر نمبر 11 جلد 6 موٴرخہ 14 مارچ 1907ء صفحہ6)

ارشاد حضرت مصلح موعودؓ

ایک صاحب نےسوال کیا سنّی لوگ محرم کے دنوں میں خاص قسم کے کھانے وغیرہ پکاتے اور آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے متعلق کیا ارشاد ہے۔ فرمایا کہ۔
یہ بھی بدعت ہیں اور ان کا کھانا بھی درست نہیں اور اگر ان کا کھانا نہ چھوڑا جائے تو وہ پکانا کیوں چھوڑنے لگے۔ بارہ وفات کا کھانا بھی درست نہیں اور گیارھویں تو پورا شرک ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے وَمَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ (البقرہ: 174) یہ بھی ان میں داخل ہے کیونکہ ایسے لوگ پیر صاحب کے نام پر جانور پالتے ہیں۔

(اخبارالفضل قادیان دارلامان جلد10 نمبر 32 موٴرخہ 23 اکتوبر 1922صفحہ 6-7)

سوال:۔ ایک خاتون نے خاوند بیوی کے حقوق و فرائض کے سلسلہ میں دو احادیث حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھجوا کر دریافت کیا کہ کیا ان احادیث کا اطلاق خاوند پر بھی ہوتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب موٴرخہ 22 نومبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔

جواب:۔ پہلی حدیث جس میں بیان ہوا ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی کسی ناراضگی کی وجہ سے انکار کر دے تو فرشتے اس بیوی پر ساری رات لعنت بھیجتے ہیں۔یاد رکھیں اس کا اطلاق صرف بیوی پر نہیں ہوتا بلکہ برعکس صورت میں خاوند پر بھی اس حدیث کا اطلاق ہوگا۔

اس حدیث سے اگر کوئی پہلو نکل سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے مرد کی جنسی خواہش کیلئے بے صبری کی وجہ سے بیوی کو کسی جائز عذر کے بغیر انکار کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے۔ ورنہ جس طرح بیوی پر لازم ہے کہ وہ خاوند کے دیگر حقوق کے ساتھ اس کی جنسی ضرورت کو بھی پورا کرے اسی طرح خاوند کا فرض ہے کہ وہ بیوی کی دیگر ضروریات کے ساتھ اس کے جنسی حقوق بھی ادا کرے۔لہٰذا اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کی خواہش پر بغیر کسی مجبوری کے اس کے جنسی حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی طرح قابل گرفت ہو گا جس طرح ایک بیوی بغیر کسی جائز عذر کے اپنے خاوند کی جنسی خواہش کی تکمیل سے انکار کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی مستوجب ہو تی ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بیوی حضورﷺ کی ازواج کے پاس آئیں۔ازواج مطہرات نے ان کی بُری حالت دیکھ کر ان سے دریافت کیا کہ انہیں کیا ہوا ہے کیونکہ قریش میں ان کے خاوند سے زیادہ امیر آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہمیں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرے خاوند کا دن روزہ سے اور رات نماز پڑھتے گزرتی ہے۔ پھر جب حضورﷺ اپنی ازواج کے پاس تشریف لائے تو ازواج مطہرات نے اس بات کا ذکر حضورﷺ سے کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضورﷺ حضرت عثمان بن مظعونؓ سے ملے اور ان سے (ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے) فرمایا کہ کیا تمہارے لئے میری ذات اسوہ نہیں ہے؟ اس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں بات کیا ہے؟ جس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ تم رات نماز پڑھتے ہوئے اور دن روزہ رکھ کر گزار دیتے ہو، جبکہ تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔لہٰذا نماز پڑھا کرو لیکن سویا بھی کرو اور کبھی روزہ رکھو اور کبھی چھوڑ دیا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد یہی عورت دوبارہ ازواج مطہرات کے پاس آئیں تو انہوں نے خوب خوشبو لگائی ہوئی تھی اور دولہن کی طرح سجی سنوری ہوئی تھیں۔ ازواج مطہرات نے انہیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واہ کیا بات ہے! جس پر انہوں نے بتایا کہ اب ہمیں بھی وہ سب میسر ہے جو باقی لوگوں کے پاس ہے۔

(مجمع الزوائد کتاب النکاح باب حق المرأة على الزوج)

پھر مذکورہ بالا زیر نظر حدیث کے حوالہ سے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جائز عذر یا مجبوری کی بناء پر اس فعل سے انکار کی صورت میں کوئی فریق اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد نہیں ہوگا۔جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ جب غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے تو ایک صحابی جو سفر پر گئے ہوئے تھے، اور حضورﷺ کے غزوہ کیلئے کوچ کر جانے کے بعد مدینہ واپس آئے۔ اور اپنی بیوی کی طرف پیار کرنے کیلئے بڑھے، جس پر اس بیوی نے یہ کہتے ہوئے انہیں پیچھے دھکیل دیا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ حضورﷺ تو اس قدر گرمی میں دشمن سے جنگ کیلئے تشریف لے گئے ہیں اور تمہیں پیار کرنے کی اور میرے پاس آنے کی پڑی ہوئی ہے۔

(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ343-344 مطبوعہ 1948ء)

پس اگر کوئی فریق کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے انکار کرتا ہے تو وہ کسی سزا کا مستوجب نہیں ہو گا۔ لیکن اگر کوئی خاوند یا بیوی دوسرے فریق کے قریب آ کر اس کے جذبات بھڑکانے کے بعد اسے تنگ کرنے کی غرض سے اس سے دور ہو جاتا ہے تو یقیناً ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی نارضگی کا مورد ہو گا۔

1۔ جہاں تک خاوند کے گھر میں موجود ہونے کی صورت میں اس کی اجازت سے بیوی کے نفلی روزہ رکھنے کی حدیث کا تعلق ہے تو اس میں حکمت یہ ہے کہ اسلام نے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا ہر موقعہ پر خیال رکھا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کی تقسیم میں گھر سے باہر کی تمام تر ذمہ داریوں کی ادائیگی اور بیوی بچوں کے نان و نفقہ کی فراہمی وغیرہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کے سپرد کی ہے اور گھریلو ذمہ داریاں (جن میں گھرکے مال کی حفاظت، خاوند کی ضروریات کی فراہمی اور بچوں کی پرورش وغیرہ شامل ہیں) اللہ تعالیٰ نے بیوی کو سونپی ہیں۔

پس جب خاوند اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے گھر سے باہر جائے تو بیوی کو گھریلو فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نفلی عبادت بجا لانے کی کھلی چھٹی ہے۔ لیکن خاوند کی موجودگی میں چونکہ اس کی ضروریات کی فراہمی بیوی کے فرائض میں شامل ہے۔ اس لئے فرمایا کہ خاوند کے حقوق کی ادائیگی میں سے اگر بیوی کچھ رخصت چاہتی ہو تو اسے خاوند کی اجازت سے ایسا کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس حکم کی حکمت حدیث میں بیان ایک واقعہ سے بخوبی معلوم ہوجاتی ہے۔

حضرت ابو سعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت صفوان بن معطلؓ (جو رات بھر کھیتوں پر کام کرتے تھے اور دن کے وقت گھر پر ہوتے تھے)کی بیوی نے حضورﷺ کی خدمت میں شکایت کی کہ جب میں نفلی روزہ رکھتی ہوں تو میرا خاوند میرا روزہ تڑوا دیتا ہے۔ حضورﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت صفوانؓ نے عرض کیا کہ جب یہ روزے رکھتی ہے تو رکھتی چلی جاتی ہے اور چونکہ میں جوان آدمی ہوں اس لئے صبر نہیں کرسکتا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس دن حضورﷺ نے فرمایا کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصوم)

پس خلاصہ کلام یہ کہ اسلامی تعلیمات میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے تمام حقوق جن میں جنسی تعلقات بھی شامل ہیں کی پوری دیانتداری کے ساتھ ادائیگی کی تلقین فرمائی گئی ہے اور کسی فریق کو یہ اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ عبادت کو وجہ بنا کر دوسرے کے ان حقوق کو تلف کرے۔لہٰذا جو فریق کسی بھی رنگ میں دوسرے فریق کی حق تلفی کا مرتکب ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قصور وار متصور ہو گا۔

سوال:۔ ایک خاتون نے دریافت کیا کہ دیوالی پر ہندؤوں کی طرف سے جو کھانے آتے ہیں، کچھ لوگ تو یہ بتا کر جاتے ہیں کہ وہ پوجا سے الگ رکھ کر یہ کھانا دے رہے ہیں اور بعض کچھ بتائے بغیر ڈبہ پکڑا کر چلے جاتے ہیں۔ کیا ہم یہ کھانا کھا سکتے ہیں ؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب موٴرخہ 13 دسمبر 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایت فرمائی۔

جواب:۔ جو کھانا حلال اشیاء سے صاف ستھرے برتنوں میں حفظان صحت کے اصولوں پر تیار ہوا ہو اور اس میں شرک کی کوئی ملونی نہ ہو تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ایسے معاملات میں زیادہ باریکیوں میں پڑنا بھی پسندیدہ بات نہیں۔ البتہ ایسا کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لی جائے تا کہ اگر اس کھانے میں کوئی کمی بیشی ہو تو اللہ تعالیٰ کے نام کی برکت سے اس کا مداوا ہو جائے۔ صرف وہم کی بناء پر بلا وجہ کسی کی دل شکنی سے بھی اسلام نے منع فرمایا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندؤوں کے ہاں سے آنے والا کھانا کھا لیا کرتے تھے اور ان کے ہاں سے تحفہ کے طور پر آنے والی شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے اور کھا بھی لیتے تھے۔ چنانچہ ایک شخص کے سوال پر کہ کیا ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ آپ نے فرمایا۔
’’شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے۔ ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا پر زور دیا ہے۔ آنحضرتﷺ آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گذارہ بھی تو نہیں ہوتا۔‘‘

(الحکم نمبر19 جلد8، موٴرخہ 10جون 1904صفحہ3)

(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اگست 2022