• 18 مئی, 2024

وقف زندگی پر ایک گہری نظر

جماعت احمدیہ میں وقف کی روح کو اجاگر کرنے کے لئے کئی طرح کے وقف ہیں۔ وقف عارضی 15 دن سے 3 ماہ، 3 سال، 5 سال حسب توفیق مختلف ماہرین وقف کر کے جماعت کی خدمت کرتے ہیں۔ بعد از ریٹائرمنٹ وقف یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی زبردست سکیم چلی۔ اپنی اپنی سروس پوری کرنے کے بعد اپنی بقیہ زندگی وقف کر دی اور اس طرح اللہ تعالیٰ عمر میں برکت ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح وقف نو کی سکیم ساری دنیا میں جاری ہے۔ میں اس وقت جس وقف کی بات کرنا چاہتا ہوں وہ وقف زندگی ہے اور خاص طور پر جامعہ احمدیہ میں آنے سے پہلے وہ معاہدہ وقف زندگی کا جو کیا جاتا ہے اس پر بات کرنی ہے۔ 1974ء کی بات ہے میرے والد صاحب محترم چوہدری نذر محمد نذیر مرحوم واقف زندگی بعد از ریٹائرمنٹ مجھے خانیوال سے ربوہ لائے اور وکیل التعلیم صاحب کے سامنے پیش کیا۔ مکرم وکیل التعلیم صاحب نے میرا رزلٹ دیکھا تو کہا اسے ریلوے میں بھرتی کروا دیں چونکہ میری معاشرتی علوم میں کمپارٹ تھی جو بعد میں سپلیمنٹری امتحان دینے کے بعد پاس کر لیا تھا۔ میرے والد صاحب محترم کو دھچکا لگا وہ تو شروع سے اپنے بڑے بیٹے کو وقف کرنے کا ارادہ کر چکے تھے میرا بڑا بھائی نصیر احمد نذیر بعمر 16 سال عین اس وقت جب کہ جامعہ میں جانا تھا اچانک وفات پا گیا اس کے بعد مجھے کہا کہ اب تم تیار ہو جاؤ۔ اس وقت میں چھٹی میں تھا بہرحال والد صاحب مجھے لے کر مکرم سید میر مسعود احمد صاحب مرحوم والد محترم ڈاکٹر سید میر مشہود احمد صاحب کے گھر لے گئے جو ان دنوں کمر کی درد کی وجہ سے صاحب فراش تھے۔ انہوں نے والد صاحب محترم کی بات کو بڑے غور سے سنا اور ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر دیا۔ وہ کاغذ والد صاحب محترم لے کر جامعہ احمدیہ پہنچے میں بھی ساتھ تھا۔ مکرم ملک سیف الرحمٰن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ تھے انہوں نے کاغذ پڑھا اور مجھ سے صرف اتنا پوچھا دوڑ لگا سکتے ہو میں نے کہا جی فرمایا چلو تمہارا داخلہ ہوگیا یوں میں جامعہ میں داخل ہوا اللہ تعالیٰ ان دونوں بزرگوں کو جنت میں اعلیٰ علین مقام عطا فرمائے اور جو فارم معاہدہ وقف زندگی پر کیا تھا وہ یہ تھا۔

میں اپنی ساری زندگی برضاء و رغبت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بغیر کسی قسم کی شرط کے وقف کرتا ہوں۔

  1. میں ہر قسم کی خدمت کو جو میرے لئے تجویز کی جائے گی بغیر کسی معاوضہ کے ان ہدایات کے مطابق بجا لاؤں گا جو میرے لیے تجویز ہوگی۔
  2. میں کسی وقت بھی نظام سلسلہ کے خلاف عملاً یا قولاً کوئی حرکت نہیں کروں گا بلکہ ہمیشہ جملہ ہدایات مرکزیہ کی پابندی کروں گا اسی طرح نظام وقف تحریک جدید کا بھی پورا احترام کروں گا اور لفظاً اور معناً اس کی اتباع کروں گا۔
  3. اگر میرے لیے یا میرے اہل و عیال کے گزارہ کے لیے کوئی رقم دفتر تحریک جدید کی طرف سے منظور کی جائے گی تو اسے بطور اپنے حق کے شمار نہیں کروں گا بلکہ اسے انعام سمجھتے ہوئے قبول کروں گا۔
  4. جو صورت میری تعلیم یا تربیت کے لئے تجویز کی جائے گی اس کی پورے طور پر پابندی کروں گا۔
  5. کسی ادنیٰ سے ادنیٰ کام سے جو میرے لئے تجویز کیا جائے گا روگردانی نہیں کروں گا۔ بلکہ نہایت خندہ پیشانی اور پوری کوشش سے سر انجام دوں گا۔
  6. اگر میرے لئے کسی وقت کوئی سزا تجویز کی جائے گی تو بلا چون و چرا اور بلا عذر اسے برداشت کروں گا۔
  7. جب مجھے تحریک جدید کی طرف سے خواہ اندرون پاکستان یا بیرون پاکستان جہاں بھی مقرر کیا جائے گا وہاں بخوشی دفتر کی ہدایات کے مطابق کام کروں گا۔
  8. اگر کسی وقت مجھے کسی وجہ سے وقف سے علیحدہ کیا جائے گا تو اس میں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن مجھے یہ اختیار نہ ہو گا کہ کسی وقت بھی اپنی مرضی سے اپنے آپ کو ان فرائض سے علیحدہ کر سکوں جو میرے سپرد کئے گئے ہوں گے۔
  9. میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں گا خواہ وہ مالی ہو یا جانی ہو، عزت کی ہو یا جذبات کی ہو۔
  10. جس شخص کے ماتحت مجھے کام کرنے کے لیے کہا جائے گا اس کی کامل تابعداری کروں گا۔
  11. میں نے فارم معاہدہ وقف زندگی کی جملہ شرائط کو خوب سمجھ کر اور ان کی پابندی کا پورا عزم کر کے پر کیا ہے۔

یہ معاہدہ کی شرائط میں نے مکرم ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب آف لندن کی کتاب وقف زندگی کی اہمیت اور برکات صفحہ 337 میں سے لی ہیں۔ ہو سکتا ہے ان شرائط میں کمی بیشی ہو جو وقت کے ساتھ ساتھ اس معاہدہ میں ہوئی ہو۔

وقف راہ کنم گر جان دھندم صد ہزار

کہ اگر ایک لاکھ دفعہ بھی مجھے جان دی جائے تو اسی راہ میں وقف کر دوں۔

آج بعمر 65 سال جبکہ خدمت دین کرتے 48 سال ہو گئے اب جب دوبارہ پڑھا تو جان نکل گئی کہ کتنی سخت شرائط کو بڑی آسانی سے مان کر دستخط کر دیے اور پھر بخوشی اللہ کے فضل سے اپنی کاغذی سروس بھی پوری کرلی۔

اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا
ترک رضائے خویش پئے مرضی خدا

خاص طور پر مجھے نئے آنے والے طلباء کو عرض کرنا ہے کہ وقف زندگی کرنا بظاہر آج کے دور میں مشکل نظر آتا ہے لیکن توکل، صبر، شکر کے ساتھ انسان زندگی گزارے تو زندگی نہایت آسان، پر امن، باعزت گزرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام ضرورتوں کو خود پوری فرما دیتا ہے۔

اب تو ایک دو نہیں سینکڑوں مثالیں دنیا کے ہر ملک میں پھیلی پڑی ہیں جب 14 جامعات سے نکلنے والے واقفین زندگی دنیا کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں تو ہر ایک کی زندگی توکل، صبر، شکر سے مزین نظر آتی ہے بعض دفعہ بعض لوگ ہمت ہار جاتے ہیں اور راستے میں ہی تھک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب ایسی اکا دکا مثالوں پر غور کرتے ہیں انجام کار یہی ہوتا ہے کہ اگر وہ ہمت کرتے یقیناً اعلیٰ مقامات کے وارث بنتے۔

میرا خیال ہے یہ معاہدہ کبھی کبھی واقفین زندگی کی نظر سے گزرتا رہنا چاہئے تاکہ کمی بیشی کو ساتھ ساتھ دور کرتے رہیں اور تا دم واپسی اس معاہدہ کی ہر شق پر عمل ہوتا رہے۔ اللہ تعالیٰ تمام واقفین زندگی کے انجام بخیر فرمائے، قربانیاں قبول فرمائے اور نیک نتائج پیدا فرمائے آمین۔ اب میں معاہدے کی سب سے اہم شق کی طرف آتا ہوں۔ اصل میں یہ شقیں اسی پہلی شق کی تفصیل و تفسیر ہیں۔

ساری زندگی

انسان کتنی زندگی پاتا ہے اس کا کسی کو علم نہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ (اٰل عمران: 103) ہر حال میں فرمابرداری آج بھی میں جب بھی ایسے مبلغین کو دیکھتا ہوں ہو جو ہل بھی نہیں سکتے مختلف عوارض میں مبتلا ہیں نظر کمزور ہے لیکن پھر بھی جماعت کی خدمت میں مصروف ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی رضا تو چھوٹی سے چھوٹی نیکی میں پنہاں ہے۔ ہر آن قرآن کریم ہمیں ان تمام نیکیوں سے تمام نیک اعمال سے تمام نیک عملوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ اور ہر قسم کی برائی سے جس سے خدا ناراض ہوتا ہے مطلع کرتا ہے تو گویا خدا تو اس دن راضی ہو گیا جب ہم نے اس کی رضا کو پانے کے لئے عہد کر لیا اور اس صراط مستقیم پر چل پڑے۔ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کا ایسا آسان راستہ بتا دیا اور ہماری زندگیاں دنیا کے جھمیلوں سے آزاد کر دیں اس معاہدہ کی وجہ سے معاشرہ میں تکریم ملی۔ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ایسی تکریم کوئی انسان مال خرچ کر کے بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ جب مکرم نسیم مہدی صاحب جامعہ میں پڑھتے تھے کہ یہ ایک دن کینیڈا کے لوگوں کی تقدیر بدلیں گے اور ان کی وفات پر ملک کا پرچم سرنگوں ہو گا۔ کون اس وقت کہہ سکتا تھا کہ مکرم سعید الرحمٰن صاحب سیرالیون میں اس قدر مقام پائیں گے کہ ان کو گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا اور فوجی دستے ان کے سامنے مارچ پاسٹ کریں گے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ گھانا کے امیر مولانا عبدالوہاب آدم صاحب سے ملک کا سربراہ مشورہ لیا کرے گا کہ کس طرح ملک کی ترقی ہوگی۔ مجھے علم نہیں تھا کہ ایک دن میں بینن میں بادشاہوں کے بادشاہ کو قرآن مجید کا تحفہ پیش کروں گا۔ مولانا حنیف محمود صاحب کو علم نہ تھا کہ ایک دن الفضل آن لائن لندن کے ایڈیٹر بنیں گے اور پانچ لاکھ آدمی اسے پڑھیں گے۔ اور اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ مولانا محمد الیاس منیر صاحب اس قدر بہادری دکھائیں گے کہ پھانسی کی کوٹھڑی تک جائیں گے اور ان کے قدم ثبات میں ذرا لغزش نہیں آئے گی۔ یہ چند مثالیں ہیں ورنہ دفتر چاہئے اس کام کے لئے۔ ہر ایک کے ساتھ خدا تعالیٰ کا اعجازی سلوک ہے جس کی کوئی حدوبست نہیں۔ یہ ہے وقف جو خدا کی خاطر کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو قبول کر کے اسی دنیا میں دینی اور دنیوی انعامات عطا کرتا ہے۔

شق نمبر 1 میں ہے کہ میں ہر قسم کی خدمت کو جو میرے لیے تجویز کی جائے گی بغیر کسی معاوضہ کے ان ہدایات کے مطابق بجا لاؤں گا جو میرے لیے تجویز ہوگی۔ جماعتی خدمات تو اتنی سخت نہیں جتنی بھی سخت ہوں ان سختیوں سے کم نہیں جو اپنی ظاہر کی دنیا میں دیکھتے ہیں۔ مزدوروں کو دیکھتے ہیں کس طرح سارا دن محنت کرتے ہیں اور پھر جا کر انہیں دو وقت کی روٹی میسر آتی ہے۔ کسانوں کو دیکھتے ہیں زندگی کے کسی شعبہ پر نظر ڈالیں اور واقفین زندگی اپنے کام کو دیکھیں محض خدا کے فضل سے جماعتی کام آرام دہ ہے۔

شق نمبر 3 ہے کہ میرے لئے یا میرے اہل و عیال کے گزارا کے لیے کوئی رقم دفتر تحریک جدید کی طرف سے منظور کی جائے گی تو اسے بطور حق کے شمار نہیں کروں گا بلکہ اسے انعام سمجھتے ہوئے قبول کروں گا۔ دیکھیں کہ جماعت کس قدر اپنے مربیان اور واقفین کا اور ان کی فیملی کا خیال رکھتی ہے۔ دنیا کی کوئی گورنمنٹ بھی اتنا خیال نہیں رکھتی۔ انکی رہائش کھانا پینا میڈیکل سفر ہر لحاظ سے جماعتی نظام کے تحت واقفین زندگی اس دنیا میں جنت میں رہ رہے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ جب میں نے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے، میرے دل و دماغ میں بھی نہیں تھا کہ مجھے نیا مکان دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ہر اس نعمت سے وافر حصہ دے گا جو د نیا والوں کو زندگی گزارنے کے لئے بعد کوشش ملتی ہے۔ اللہ نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔

شق نمبر 5 ہے کہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ کام سے بھی جو میرے لئے تجویز کیا جائے گا روگردانی نہیں کروں گا بلکہ نہایت خندہ پیشانی اور پوری کوشش سے سر انجام دوں گا۔ ادنیٰ سے ادنیٰ کام کون سا دنیا میں ہو سکتا ہے میرے خیال میں کوئی کام ادنیٰ نہیں ہوتا۔ کام کام ہوتا ہے کوئی بھی ہو۔ جو محنت سے سمجھ کر دیانت سے امانت سے کام کرتا ہے وہ اللہ کی رضا پاتا ہے۔ جماعت کا کوئی کام ادنیٰ نہیں ہوتا۔ جو کام خلیفۃ المسیح کی طرف سے دیا جائے وہ ادنیٰ ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں اگرچہ سڑک صاف کرنے کا کام ہو۔ بس نمونہ بننا پڑتا ہے۔ اللہ اس میں بھی عزت عطا فرما رہا ہوتا ہے۔

شق نمبر 8 اگر کسی وقت مجھے کسی وجہ سے وقف سے علیحدہ کیا جائے گا تو اس میں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن مجھے یہ اختیار نہ ہو گا کہ کسی وقت بھی اپنی مرضی سے اپنے آپ کو ان فرائض سے علیحدہ کر سکوں جو میرے سپرد کئے گئے ہوں گے۔

یہ شق بھی بہت غور طلب ہے اور بہت ہی کم مواقع آتے ہیں کہ وقف سے الگ کیا جائے۔ اس میں بھی واقف کی اپنی ہی کوئی کمزوری ہوتی ہے ورنہ ہمیں علم ہے کہ واقف زندگی کو الگ کرتے وقت کس قدر عہدیداروں کو تکلیف ہوتی ہے اور کتنی مجبوری میں یہ فیصلہ کرتے ہیں۔ اللہ جانتا ہے لیکن جو خود الگ ہو جاتے ہیں ان کو سو بار سوچنا چاہئے۔

شق نمبر 10 ہے کہ جس شخص کے ماتحت مجھے کام کرنے کے لیے کہا جائے گا اس کی کامل تابعداری کروں گا۔

اطاعت کے بغیر تو نظام بھی نہیں چل سکتا للٰہی اطاعت کا تو رنگ ہی اور ہوتا ہے اور اس کے دور رس نتائج نکلتے ہیں جو نکل رہے ہیں۔

شق نمبر 11 ہے کہ میں نے فارم معاہدہ وقف زندگی کی جملہ شرائط کو خوب سوچ کر ان کی پابندی کا پوراعزم کر کے پُر کیا ہے۔

میٹرک پاس بچے کی کتنی سوچ اور سمجھ ہو گی ہر کسی کو علم ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی کیسی شان ہے کہ اس وقت جب کہ سوچ سمجھ بظاہر زیادہ نہیں تھی مگر ایک جذبہ تھا کہ میں نے زندگی وقف کر کے دین کی خدمت کرنی ہے۔ خدا تعالیٰ نے نیک جذبہ کو قبول فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں

جانم فدا شود برہ دین مصطفیٰ
این است کام دل اگر آید میسرم

پس اے احمدی! ذرہ توجہ کر

احمدی اٹھ کہ وقت خدمت ہے
یاد کرتا ہے تجھ کو رب عباد
خدمت دیں ہوئی ہے تیرے سپرد
دور کرنا ہے تو نے شر و فساد
تجھ پہ ہے فرض، نصرت اسلام
تجھ پہ واجب ہے دعوت و ارشاد
فتح تیرے لئے مقدر ہے
تیری تائید میں ہے رب عباد
قصر کفر و ضلالت و بدعت
تیرے ہاتھوں سے ہو گا برباد

(کلام محمود)

اور اے واقفین زندگی!

وقف کرنا جاں کا ہے کسب کمال
جو ہو صادق وقف میں ہے بے مثال
چمکیں گے واقف کبھی مانند بدر
آج دنیا کی نظر میں ہیں ہلال
دھیرے دھیرے ہوتا ہے کسب کمال
بوبکرؓ کو بننا پڑتا ہے بلالؓ
شمس پہلے دن سے کہلاتا ہے شمس
بدر ہوتا ہے مگر پہلے ہلال

(کلام محمود)

(صفدر نذیر جاوید گولیکی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ