• 17 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

23؍مئی 2015ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کا قافلہ اٹھارہ روزہ دورہ کے لئے جرمنی روانہ ہوئے جہاں حضور انور نےجلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت اختیار فر ما کر اس کو اعزاز بخشا۔

امریکہ کے خدام کی حضور انور سے ملاقات

اس روز مجھے اپنے دو قریبی دوستوں مکرم امجد خان صاحب اور مکرم قدوس ملک صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ وہ دونوں امریکہ سے سفر کر کے جرمنی تشریف لائے تھے۔ وہ دونوں کسی موقع کی تلاش میں تھے کہ حضور انور سے اپنی واپسی سے پہلے ملاقات کر سکیں۔ لہٰذا میں نے انہیں مشورہ دیا کہ جب حضور انور مغرب اور عشاء کی نماز کے لیے اپنی رہائش گاہ سے تشریف لائیں تو وہ راستے میں کھڑے ہو جائیں۔ ممکن ہے کہ انہیں سلام پیش کرنے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب حضور انور نمازکے لیے نیچے تشریف لائے تو آپ نے انہیں دیکھا اور نہایت شفقت اور محبت سے ان سے ملاقات فرمائی۔ انہیں حضور انور کی رہائش گاہ سے جلسہ گاہ تک حضور انور کے ساتھ چلنے کی سعادت نصیب ہوئی، جہاں نماز پڑھی جانی تھی جو چند سو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ دونوں (دوستوں) امجد اور قدوس نے مجھے بعد میں بتایا کہ وہ چند لمحات ان کی زندگی کے خوشگوار ترین اور یادگار ترین لمحات میں سے تھے۔ اس ملاقات کے بارے میں مکرم قدوس صاحب نے بتایا کہ:
’’آج حضور انور کے پیچھے چلتے ہوئے میں کانپ رہا تھا اس لمحہ کے بارے میں میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور یہ میری زندگی کا خوشگوار ترین اور مبارک لمحہ تھا۔‘‘

قدوس صاحب نے مجھے بتایا کہ جب وہ نماز کی جگہ کی طرف جا رہے تھے تو حضور انور نے فرمایا کہ آپ نے اسے سامعین میں بیٹھے ہوئے دیکھا تھا اور دوران خطاب ایک موقع پر حضور انور نے دیکھا کہ قدوس مسکرایا تھا۔قدوس صاحب نے بتایا کہ انہیں حیرت تھی کہ حضور انور ایک وقت میں ہمہ جہت کام کیسے کر لیتے ہیں۔ جہاں آپ جلسے کے خطاب کے دوران ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔

حضور انور کی قربت میں گزرے ان چند لمحات کے بارے میں امجد صاحب نے کہا کہ جلسہ سالانہ جرمنی کے دوران حضور انور کی قربت کے چند لمحات کا میسر آنا اور وہ بھی اپنے گھر سے کئی ہزار میل دور یقینا اللہ تعالیٰ کا ایک ناقابل بیان فضل تھا۔

امجد نے بتایا کہ Los Angeles واپسی کی گیارہ گھنٹے کی فلائٹ کے دوران وہ حضور انور کی قربت میں گزرے ہوئے ان لمحات کے بارے میں سوچتے رہے۔

حضور انور کا امیر صاحب سانگھڑ کو طلب فرمانا

جلسہ سالانہ کے اختتامی خطاب کے لیے حضور انور جلسہ گاہ تشریف لا رہے تھے جس (خطاب) سے قبل بیعت کی تقریب تھی۔ جس دوران حضور انور بیعت لینے کے مقام کی طرف تشریف لے جا رہے تھے میں نے دیکھا کہ حضور انور نے ایک احمدی دوست کی طرف اشارہ فرمایا اور ہدایت دی کہ وہ آگے آئیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ وہ بیعت کی تقریب میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ یہ احمدی دوست امیر صاحب سانگھڑ جماعت احمدیہ پاکستان تھے۔ یہ بات حیران کن تھی کہ حضور انور نے ہزاروں کے مجمع میں انہیں پہچان لیا۔ پاکستان بھر میں احمدیوں کو مشکلات اور ظلم و تعدی کا سامنا ہے اور سانگھڑ جو سندھ کا ضلع ہے، خاص طور پر ایسی جگہ ہے جہاں احمدی خطرے میں ہیں۔ یقینا امیر صاحب سانگھڑ کو کئی مشکلات کا سامنا ہوا ہوگا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس دن خلیفہ وقت نے ان کی خدمات کے اعزاز میں انہیں خاص عزت و اکرام اور سعادت سے نوازا تھا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

شہداء کی فیملی کے لیے حضور انور کی محبت

جلسہ سالانہ کے اختتام پر حضور انور چند لمحات کے لیے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے تاہم جس دوران احمدیوں کی اکثریت نے اپنے گھروں میں واپسی شروع کی حضور انور کے فرائض چند منٹوں کے بعد ہی دوبارہ شروع ہو گئے۔ آپ نے نو مبائعین سے ملاقات فرمائی۔ جس کے بعد ایک جرمن جرنلسٹ اور کروشین ڈاکومنٹری بنانے والے نے آپ کا انٹرویو کیا۔ جب حضور انور اپنے دفتر میں تشریف لے جا رہے تھے تو آپ کا تعارف ایک احمدی فیملی سے کروایا گیا جو 28 مئی 2010ء کے سانحہ کے بلاواسطہ متاثرین میں سے تھی۔ وہ ایک احمدی خاتون تھیں جو اپنے دوچھوٹے بچوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔

نہایت مشفقانہ انداز میں حضور انور نے ہر فرد خاندان سے ملاقات فرمائی جس کے بعد آپ اپنے دفتر میں تشریف لے گئے۔ جب شہید کی بیٹی عزیزہ ھبۃ الوحید (بعمر سات سال) نے حضور انور کو دفتر کے لیے بڑھتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگی ’’حضور میں نے آپ سے کچھ باتیں کرنی تھیں‘‘۔ اس پر حضور انور نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ آپ کو چند دیگر احباب سے ملنا ہے اس لیے آپ بعد میں عزیزہ ھبۃ الوحید سے گفتگو فرمائیں گے۔ یہ بچی بہت پیاری تھی اور حضور انور نے نہایت محبت اور شفقت سے اس کو جواب عطا فرمایا۔ یقینا حضور انور اپنے وعدے کی پاسداری کرنے والے ہیں۔ یوں جب آپ کی ملاقاتیں ختم ہوئیں تو حضور انور نے اس بچی کے بارے میں استفسار فرمایا اور اس کو پوچھا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ اس پر ایک سات سال کی عمر کی بچی نے بتایا کہ وہ حضور انور کی خدمت میں اپنی فیملی کے لیے دعا کی درخواست کرنا چاہتی ہے۔ پھر کہنے لگی اور دوسری بات، آپ کا کب چکر لگ رہا ہے ہماری طرف۔

جب اس بچی نے یہ الفاظ ادا کیے تو ہم سب ہنس پڑے اور حضور انور نے بھی تبسم فرمایا اور اس بچی کے الفاظ سے خوب محظوظ ہوئے۔ خلیفہ وقت سے ایسی بے تکلفی شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے اور شاید بچوں کی معصومیت کے باعث ظہور پذیر ہوتی ہے۔ یہ ایک نہایت دلکش اور حسین منظر تھا جہاں خلیفہ وقت کی محبت ایک شہید کی بچی کے لیے اور ایک غمزدہ بچی کی اپنے خلیفہ وقت سے محبت سب پر عیاں ہو رہی تھی۔ اس دلکش ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے اس چھوٹی بچی اور اس کے بھائی کو کچھ چاکلیٹس بطور تحفہ عنایت فرمائیں۔

حضور انور کی نو مبائعات سے ملاقات

اس شام حضور انور نے نو مبائعات سے ملاقات فرمائی، بعد ازاں نو مبائعین کے گروپ میں بھی اپنے دفتر واقع Karlsruhe میں ملاقات فرمائی جس دوران نو مبائعین کو قبولِ احمدیت کے بارے میں اپنے ایمان افروز واقعات سنانے کا موقع ملا۔

فلاسفی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ انہوں نے نہایت اخلاص سے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کی اور جلد ہی انہوں نے خواب میں یہ الفاظ سنے کہ ’’احمدیت ایک نور ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی خواب نے ان پر احمدیت کی سچائی ثابت کر دی تھی اس لیے انہوں نے بیعت کر لی ہے۔

ایک جرمن نو مبائع نے اپنے جلسہ سالانہ کے تجربہ کے بارے میں ہمیں بتایا کہ ’’ان دنوں میں، میں نے حضور انور کی روشنی اور نور کو دیکھا ہے اور احمدیت کی سچائی میرے دل پر نقش ہو گئی ہے۔ ان شاءاللہ، میں اس سچائی کو جہاں تک ممکن ہو سکا پھیلاؤں گا۔‘‘

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو ایمان میں بڑھاتا چلا جائے۔‘‘

ایک عرب نو مبائع جو بیلجیئم میں مقیم ہیں، نے جلسہ کے موقع پر پہلی مرتبہ حضور انور کو دیکھنے پر کہا کہ ’’جونہی میں نے حضور انور کو دیکھا ایک منفرد روحانی کیفیت میرے دل میں پیدا ہوئی۔ میرے ذہن میں بس یہی خیال تھا کہ خلیفہ ایک سچا شخص ہے۔ جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے آنسو بہہ نکلے اور میں خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں کوئی نیا وجود بن چکا ہوں۔‘‘

بوسنیا کے وفد سے ملاقات

حضور انور کی اگلی ملاقات احمدی اور غیر احمدی مہمانوں کے وفد سے ہوئی جو بوسنیا سے جلسہ میں شمولیت کی غرض سے تشریف لائے تھے۔ حضور انور کی مختلف وفود سے ملاقاتیں نہایت مؤثر تھیں تاہم بوسنیا کے وفد سے ملاقات نے مجھے بہت زیادہ جذباتی کر دیا۔ احمدی اور غیر احمدی احباب سے حضور انور اور جماعت کے بارے میں اس قدر محبت بھرے الفاظ کا سننا بہت زبردست اور جذباتی کر دینے والا تھا۔

ایک نوجوان بوسنیئن دوست جن کا نام Maid Ormanovic ہے، نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ روز تقریبِ بیعت کے دوران بیعت کی ہے اور یہ بھی بتایا کہ احمدیت قبول کرنے سے پہلے وہ ایک غیر احمدی مولوی تھے۔ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا:
’’جب میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور انور کو پہلی مرتبہ دیکھا تو اس لمحے میرے جملہ سوالات و خدشات کا جواب مل گیا تھا کیونکہ حضور انور کو دیکھنے کے بعد میں پوری طرح اطمینان اور سکون حاصل کر چکا تھا۔ حضور انور کے چہرے کی زیارت نے ہی مجھے بتا دیا تھا کہ جماعت احمدیہ کی خلافت ہی سچی خلافت ہے۔‘‘

حضور انور نے ان کے لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایمان میں بڑھاتا چلا جائے۔ حضور انور سے ملاقات کے بعد مکرم Maid Ormanovic صاحب نے بتایا کہ
’’خلیفہ کو ملنے کے بعد میں اپنی کیفیت کو بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس جلسے پر آنے اور حضور انور کو مل کر میں نے اپنے ایمان کی تکمیل کی ہے۔ جب میں نے حضور انور کے ہاتھ کو چوما تو مجھے ایسا لگا کہ اسی وقت اور اسی لمحے میں نے ایک نور دیکھا ہے۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح ایک مردِ خدا ہیں۔‘‘

بوسنیا کے ایک بزرگ کے جلسہ سالانہ
اورحضور انور سے ملاقات کے متعلق جذبات کا اظہار

بوسنیا سے تشریف لائے ہوئے ایک بزرگ حضور انور کو مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ ’’میری عمر ستر سال سے زیادہ ہےلیکن جب میں نے آپ کو پہلی مرتبہ دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ یہ میری زندگی کا سب سے عظیم الشان لمحہ تھا۔ جب میں نے آپ کو دیکھا تو میں نے محسوس کیا کہ میری زندگی کے جملہ مقاصد پورے ہو گئے ہیں اور اگر میں آج کے دن مر جاؤں تو میں ایک خوش قسمت انسان کے طور پر مروں گا کیونکہ میں نے آپ سے مل لیا ہے۔‘‘

بعد ازاں ہمارے بوسنیا کے مربی صاحب مکرم حفیظ الرحمان صاحب نے مجھے بتایا کہ واپسی کے سفر کے دوران اس بزرگ نے کئی دفعہ ان الفاظ کو دہرایا کہ اب وہ مرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ انہوں نے حضور انور کو مل لیا ہے۔ ایسے الفاظ ایک غیر احمدی سے سننا یقیناً بہت حیران کن ہے اور یہ اس بات کو خوب عیاں کر دیتا ہے کہ حضور انور کی شخصیت کا غیروں پر بھی کیسا اثر ہوتا ہے۔ اس بزرگ کے الفاظ سن کر حضور انور نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی اور صحت والی عمر عطا فرمائے۔ میری نظر میں آپ ابھی جوان ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ نے اچھے کام کو جاری رکھیں اور اپنے لوکل معاشرے میں اپنے کام کو جاری رکھیں۔‘‘

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی-جون 2015 حصہ سوم اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ