• 10 دسمبر, 2024

ایضاً کا استعمال

پرانے وقتوں میں جب کاتب، کسی مضمون کی کتابت کرتا تھا یا مضمون نگار اپنا وقت بچانے کی خاطر کسی اقتباس کا حوالہ دیتے وقت ایک حوالہ لکھ دیتا اور اگر اس کے بعد اسی متعلقہ کتاب کے حوالے دینے مقصود ہوتے تو وہ پورا حوالہ لکھنے کی بجائے ’’ایضاً‘‘ لکھ دیتا کہ وہی حوالہ جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔

آج کل کمپیوٹر کا دور ہے۔ اگر ایک حوالہ کمپوز ہو گیا ہے تو اسے بآسانی کاپی کر کے نیچے لکھا جا سکتا ہے مگر ہمارے بعض کرم فرما مضمون نویس بھی ’’ایضاً‘‘ کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی قاری یا مضمون نویس نے پورے ارشاد کو کاپی کر کے اپنی کسی تحریر میں Adjust کرنا ہے تو وہ حوالہ کی بجائے ایضاً بھی لکھا آجاتا ہے۔

گزشتہ دنوں کسی مضمون میں ایضاً لکھا دیکھ کر خاکسار نے مضمون نویس کو فون کر کے حوالہ طلب کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اس ارشاد کو کسی جگہ سے Pick کیا تھا وہاں حوالہ میں ایسے ہی لکھا ہوا تھا۔ مجھےتو اب اصل حوالہ کا علم نہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں نقل کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔

لہذا میں تمام مضمون نویسوں اور کمپوزر حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ الفضل آن لائن کے لیے ہر اقتباس کے ساتھ پورا حوالہ دیا کریں۔ کَانَ اللّٰہُ مَعَکُمْ۔

(ایڈیٹر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ