• 18 مئی, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کے انداز تربیت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت کا انداز نہایت دلکش تھا آپ نے عملی نمونہ سے ہمارے لئے تربیت کا سامان مہیا کیا کہ کس قدر انداز تربیت اولاد کی اور جماعت کی کہ وہ لوگ ہمارے لیے نمونہ ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے آپ کی زبان میں معجزانہ اثر تھا اپنا بات بات پر کہتے ہیں نہ شوخیوں پر رکھتے بلکہ انتہائی نرمی سے فرماتے کہ یوں نہ کرو اور پھر وہ بات کبھی نہیں بھولتی۔حضرت مسیح موعودؑ کی وہ پیار بھری زبان کہ ایک بار منع فرمایا اور پھر عمر بھر اس بات سے طبیعت بیزار ہو گئی ہو تم صحیح محمود اشارہ کنایہ میں بات سمجھ آیا کرتے تھے غلطی پر شرمندہ نہ کرتے بلکہ اس طرح بات کرتے ہیں کہ کان تک بات پہنچ جائے اور اصلاح بھی ہوجاتی ۔حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں ایک دفعہ حضور کی طبیعت ناساز تھی اور حضور بستر پر بیٹھ کر نماز ادا فرما رہے تھے دوسرے دن میں نے بھی بستر پر بیٹھ کر نماز پڑھی اسی دوران آپ نے مجھے دیکھا تو ہنس پڑی اور فرمایا بچہ ہے اس نے مجھے بستر پر نماز پڑھتے دیکھا ہے لیکن اس کو یہ علم نہیں ہوسکا کہ ایسا تو بیماری کی حالت میں میں نے کیا تھا اس طرح میرے کان سے بات گزار دی۔ حضور کا انداز تربیت لاریب تھا لیکن آپ کی دعائیں جو اپنے علاج کے حق میں کیں وہ آپ کے انداز تربیت کا معراج تھی چنانچہ آپ فرماتے ہیں ہیں۔ ’’اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ آزاد کی تربیت ان کی عمدہ اور نیک فال سیلنگ بنانے اور خدا تعالی کے فرمانبردار بنانے کی صحیح فکر کریں نہ کبھی دعا کرتے ہیں نا مراتب تربیت کو مدنظر رکھتے ہیں میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا‘‘

آپ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے کئی مرتبہ الہام میں ابراہیم بھی کہا ’’اے ابراہیم نزدیک مرزا صاحب مرتبہ اور امانتدار اور العقل ہے اور دوست خدا ہے خلیل اللہ ہے‘‘

حضرت مسیح موعود اپنی اولاد کے لیے اس طرح دعائیں کرتے تھے آپ کی نظم و نثر اس بات کی گواہی دیتی ہے اور یہ دعائیں ابراہیمی دعاؤں کی یاد دلاتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود اپنی اولاد کے لئے اللہ تعالی سے عرض کرتے ہیں

تیری قدرت کی آگے روک کیا ہے
وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے

حضرت مرزا محمد اسماعیل بیگ صاحب اسی قسم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دن کچھ حساب کے ساتھ سیرکو تشریف لے گئے گئے گئے راستہ میں ایک کیکر کا درخت گرا ہوا تھا بعض دوستوں نے اس کی شاخوں سے مسواک بنا لیں صاحبزادہ مرزا محمود احمد بھی ساتھ تھے مجھے چھوٹے عمر تھی ایک مسواک کسی نے ان کو بھی دے دیں انہوں نے ایک دو دفعہ حضور کو بھی کہا کہ ابا مسواک لے لیں مگر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا میاں پہلے ہمیں یہ تو بتاؤ کہ، ’’کس کی اجازت سے مسواک لے گئی ہیں‘‘ سنتے ہیں سب نے مسواکیں زمین پر گرا دی یہ باقی ایک انوکھا انداز دلکشی لیے ہوئے ہے اور اس لائق ہے کہ اصول تربیت کے مضمون میں سے سنہری حروف میں رقم کیا جائے گا سڑک پر گرے ہوئے کیکر کے درخت سے چند مسواک کاٹ لینا کوئی ایسا اخلاقی جرم نہیں کہ اسے چوری کی حدود میں داخل سمجھا جائے بچے کے مقرر سوال کے جواب میں ایک چھوٹا سا سوال کر دیتے ہیں کہ میاں یہ تو بتاؤ یہ مسواک کس کی دعوت سے لی گئی یہ بات سنتے ہیں سب نے مسواک زمین پر گرا دیں. دراصل آپ کی تربیت کا انداز بالکل منفرد تھا اور نہایت دلکش تھا بعض مواقع پر آپ اپنے بچوں سے سختی سے بھی پیش آتے رہے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ جہاں تک ان امور کا تعلق ہے جن کا اثر کا دائرہ آپ کی ذات تک محدود تھا آپ نے سختی نہ کی اور نہایت حلم اور بردباری سے معاملہ رکھا کرتے مگر جہاں تک امور دینیہ کا تعلق ہے یا ایسی غلطیوں کا سوال ہے جس کے نتیجے میں اخلاق پر برا اثر پڑنے کا خطرہ ہو سکتا تھا وہاں آپ نے موقع محل کے مطابق کبھی نرمی سے کبھی سختی سے اس کی طرف توجہ دلائیں یہ فرق بہت اہم اور تربیت کرنے والوں کے لئے اس میں بڑا گہرا سبق ہے ہے کہ حلم کی حدود کہاں جا کر ختم ہوتی ہیں اور سختی کے تقاضے کہاں سے شروع ہوتے ہیں.

آئیے آج ہم اس بات کا عہد کریں کہ تربیت کے جو یہ کہہ رہے ہیں ان کو مضبوطی سے تھام لیں اور ان پر عمل کریں اور ان کے اچھے نتائج حاصل کریں آمین۔

(مرسلہ: شہزاد احمد اشفاق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ