• 18 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 65)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 65

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 20 مئی 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکائتیں نہ شکائتیں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے بتایا کہ گذشتہ دنوں جناب فیض احمد فیض صاحب کی برسی منائی گئی۔ یہ شعر انہوں نے نہ جانے کس مقصد کے لئےکہا ہوگا اور پھر شاعروں کے تخیل، فکر اور پیغام بھی قوم کے نام ہوتے ہیں۔ اگر قوم سمجھ لے، ورنہ بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہوتی ہے اور یہی کچھ آج کل پاکستان میں عوام کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ابھی ایک مسئلہ ختم نہیں ہوتا تو دوسرا مسئلہ جنم لے لیتا ہے۔ کس کےپاس شکایت کریں۔ کس کے پاس ان حکایتوں کا بیان ہو۔ چند دن ہوئے اسامہ بن لادن کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا تھا کہ چارسدہ میں 13 مئی کو صبح 6 بجے کے قریب ایف سی ٹریننگ کے سینٹر کے گیٹ پر یکے بعد دیگرے دو خودکش حملے ہوئے جن میں ایف سی اہل کاروں سمیت 8 لوگ لقمہ اجل بن گئے اور 115 زخمی ہوئے 15 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ کالعدم تحریک طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

پاکستان کے کسی شہر یا صوبہ میں بھی امن نہیں ہے۔ امن کا فقدان اور خود کش حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ پھر سیاسی لیڈروں کے بیانات بھی سننے کے قابل ہیں، کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کون کر رہا ہے؟ اگر پتہ ہے تو پھر ان کی گرفت کیوں نہیں کی جاتی؟ حکومت کے اولین فرائض میں یہ بات داخل ہے کہ وہ ملک کے ہر شہری کی عزت، جان اور مال کی حفاظت کرے۔ لیکن پاکستان میں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ جان اور نہ ہی مال۔

پھران خودکش حملوں کے نتیجہ میں کچھ دہشت گرد پکڑے بھی جاتے ہیں مثلاً 28 مئی 2010ء کو جب جماعت احمدیہ لاہور کی دو بڑی مساجد پر گرنیڈ سے حملہ کر کے 80 کے قریب لوگ شہید کر دیئے گئے اور سو سے زائد زخمی ہوئے تو احمدیوں نے دہشت گرد کو پکڑ کر پولیس کے حوالہ کیا۔ اب تک کچھ خبر نہیں کہ اس دہشت گرد کو سزا بھی ملی کہ نہیں۔ پھر اسی طرح سلمان تاثیر صاحب مرحوم گورنر پنجاب کو بھی ان کے ہی باڈی گارڈ نے ماردیا۔ اسی طرح اقلیتی امور کے وزیر کو بھی مار دیا گیا۔ ابھی چند دن پہلے ایک مزار پر بھی خود کش حملہ ہوا۔ حکومتی و سیاسی بیانات ہی آتے ہیں کہ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ تو ایک روایتی بیان ہے جو ویسے دیا جاتا ہے۔ اگر یہ بھی نہ فرمائیں تو پھر کیا فرمائیں گے؟

خاکسار نے مزید لکھا کہ مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں کئی دہائیوں سے اسلام کی تبلیغ کی توفیق مل رہی ہے اور سب سے بڑی دقت تبلیغ میں ہمیں پیش آرہی ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام امن، محبت اور رواداری کا مذہب ہے۔ تو وہ کہتے ہیں کہ دکھاؤ یہ تینوں چیزیں کس اسلامی ملک میں ہیں؟ وہاں تو خود مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے اور پھر مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مسلمان ملکوں کے کچھ قوانین ایسے بھی ہیں جو اقلیتوں کو تحفظ نہیں دیتے اور حکومت ظالموں کا ساتھ دیتی ہے، جیسا کہ احمدیوں کے ساتھ پاکستان اور انڈونیشیا میں ہو رہا ہے۔

خدا تعالیٰ نے اس بات کا جواب قرآن کریم میں دیا ہے کہ جب قوم ہنسی و استہزاء کرتی ہے اور خدا کے فرستادہ کا انکار کرتی ہے تو اس پر عذاب آتا ہے۔

خاکسار نے یہ بھی لکھا کہ خود مسلمانوں کے بیانات میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں جس کے معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی، مصلح، ریفارمر نہیں آسکتا۔ دوسری طرف ایک اسرائیلی نبی (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کی آمد کے منتظر بیٹھے ہیں اور پھر یہ دیکھیں کہ جس نبی کو قرآن یہودیوں کا نبی کہتاہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں وہ امتی ہے۔ ان لوگوں کے پاس قرآن مجید تو ہے مگر قرآن کے معانی سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس سے قبل خاکسار نے مضمون لکھا تھا کہ ’’متی حرم کے دلچسپ فتوے‘‘۔ ان فتووں سے ہی آپ ان کی قرآن دانی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ بالفرض اگر ان کی امیدوں کے مطابق امام مہدی آبھی جائیں تو یہ لوگ اس کا بھی انکار کر دیں گے کیوں کہ وہ تو ان کے عقائد کے اصلاح کریں گے اور یہ لوگ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ یہ ٖغلطی پر ہیں۔ یہی حالات اس وقت کچھ پاکستان کے بھی ہیں۔ کیا علماء اور کیا عوام ہر کسی نے جہالت کا لبادہ اوڑھ لیا ہوا ہے۔ آنکھوں پر پردے پڑگئے ہیں۔ اسلام کی غلط تشریحات کی نشاندہی جب امام مہدی علیہ السلام ہی فرمائیں گے تو یہ ان کے مخالف ہوجائیں گے۔

ان مسلمان ممالک میں جو بڑے بڑے علماء ہیں کیا وہ صحیح راستہ پر گامزن ہیں؟ اگر وہ ٹھیک ہیں اور ٹھیک راہنمائی کر رہے ہیں تو پھر امام مہدی کی کیا ضرورت ہے؟ جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزابشیر الدین محمود احمدؓ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ’’ہمیں اس بات میں شک نہیں کہ یورپ میں اسلام نہیں پھیلے گا۔ اسلام یورپ میں پھیلے گا اور ضرور پھیلے گا۔ اگر کسی بات کی فکر ہے تو یہ ہے کہ مسلمان اپنی کجروی کے باعث اسلام کی غلط تشریح اور تفسیر کر کے اسلام کا حلیہ ہی نہ بگاڑ دیں۔‘‘

؎تیرے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 20؍مئی 2011ء میں صفحہ A17 پر خاکسار کا ایک مضمون جہادیوں اور اسامہ بن لادن کی موت کے بارے میں شائع کیا۔ اس مضمون کا خلاصہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔

موجودہ تاریخ کے سب سے زیادہ مارے یا قتل کئے جانے والے دہشت گرد کی ہلاکت نہ صرف ایک شخص کی موت ہے بلکہ مغربی اور خصوصاً امریکی مخالفت جذبات کے خاتمے کی علامت بھی ہے۔ جو جہادیوں کے دل و دماغ میں ہیں۔

یہ یقینی طور پر حاصل ہونے والے نتائج میں سے ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت، القاعدہ اور طالبان (اپنی تمام شکلوں میں) کو مطمئن نہیں کرے گی اور نہ ہی انہیں آئندہ آنے والی دہشت گردی کے مرتکب ہونے سے روکے گی بلکہ اس کے بالکل برعکس ہوگا۔ ہمیں بار بار اور جلد انتقامی حملوں کو دیکھنا پڑے گا۔

ذیل میں جو کچھ اس کی موت کے ساتھ پیش آیا ہے وہ انتہاء پسند مسلمانوں کے پکے اعتقاد کا نتیجہ ہے کہ ’’کافر‘‘ اور مغرب کے غضب اور انتقام سے خدا ہمیشہ بن لادن کی حفاظت کرے گا۔ یکم مئی کو موت کی رات پاکستان میں بن لادن کے ہائی سیکیورٹی کمپاؤنڈ میں امریکی بحریہ کے خاص تربیت یافتہ اہل کاروں نے فیصلہ کن خدمات سرانجام دیں۔

اس سوال کے جواب میں ’’کیا واقعی اسامہ کا انتقال ہوگیا ہے؟‘‘ بن لادن کی قسمت سے متعلق صرف تین قابل احتمال امکانات ہیں۔

اس کی موت برسوں قبل ہوچکی ہو اور یکم مئی کو پاکستان میں صرف اس کے ایک ہم شکل کو مارا گیا ہو۔

اصلی اسامہ کو یکم مئی کو مارا گیا ہو اور اسے سمندر میں ڈالا گیا ہو تاکہ اس کی زمین پر واقع قبر کو مستقبل کے جہادیوں کے لئے مزار بننے سے روکا جاسکے۔

اصلی اسامہ کو یکم مئی کو زندہ گرفتار کیا گیا ہو اور سی آئی اے کے ذریعہ مفید معلومات کے لئے خفیہ طور پر پوچھ گچھ کی جارہی ہو۔ جو بھی صورت حال سچ ہو وہ دن کی روشنی نہیں دیکھے گی اور نہ ہی کبھی کسی کو نظر آئے گی۔ بالآخر بن لادن منظر سے ختم ہوگیا ہے۔

جو بات یکساں طور پر ناقابل تردید ہے وہ یہ ہے کہ ان گمراہ کن انتہاء پسندوں نے اپنی مشہور شخصیت کے پوسٹر بوائے کو جذباتی جہاد کی بنا پر کھو دیا ہے اور کوئی بھی اس کی جگہ لینے کے قابل نہیں ہوا ہے۔ کوئی بھی طالبان اور القاعدہ کا رکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے کہ خدا نے اسامہ بن لادن کو کافروں سے محفوظ نہیں رکھا۔ وہ اب جنگ اور سیاسی خلافت کے ذریعہ عالم اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت اور دنیاوی سلطنت کی بحالی کے لئے اہل مغرب کے خلاف جہاد میں رہنمائی نہیں کر رہا۔ خواب مر گیا ہے اور کبھی حقیقت نہیں ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ اسلام اسامہ بن لادن کی پیش کردہ ہر چیز سے منع کرتا ہے۔

قرآن مجید میں خدا کا فرمان ہے کہ جو لوگ جنگ میں جارحیت کرتے ہیں وہ ظالم ہیں اور یہ کہ جو لوگ زمین میں فساد کرتے ہیں اور بے گناہوں کا قتل کرتے ہیں وہ بھی سزا کے مستحق ہیں۔ ایک بے قصور شخص کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو تو یہاں تک حکم ہے کہ وہ اپنے ہی قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف پولیس میں سب سے پہلے پیش ہوں، اگر وہ خوفزدہ ہوں یا ایسا کرنے میں ناکام ہوجائیں تو جیسے پاکستان میں ایساہی ہورہا ہے جہاں دہشت گردی اور دہشت گردوں کا تحفظ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے اور یہ ذمہ داری دوسروں پر عائد کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں خدا بار بار مسلمانوں کو متقی، شائستہ، مشفق، معاف کرنے والا، پُرامن اور بردباررہنے کی تاکید کرتا ہے۔ نادانستہ طور پر برائی کرنے کی صورت میں ان کو ان کے کاموں کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو اسی طرح انتباہ کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ خدا کو بھول جاتے ہیں اور تقویٰ کو چھوڑتے ہیں اور شیطان کی طرف رجوع کرتے ہیں خود غرضی سے عیش اور برائیوں کی زندگی کا انتخاب کرتے ہیں تو ان کو جہالت، غربت، بدکاری اور ظلم و بربریت کی سزا دی جائے گی۔ شریر بدعنوان اور دنیاوی رہنماؤں کی صورت میں۔ کیا آج مسلمانوں کی اکثریت کا یہی افسوسناک حال نہیں ہے؟ پھر آخر کار اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل ایک ایسے اسلام کو اپنانے میں مضمر ہے۔ جو روشن خیال، پرامن، روادار، عدم تشدد، عقلی اور خدا اور انسانیت، تعلیم، انسانی حقوق، انصاف اور سب کے مذہبی اظہار کی آزادی کے لئے پرعزم ہو۔ چاہے وہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں۔ قرآن مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اسلام کے عقیدے کو قبول کرنے کے لئے کوئی جبر نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کو چھوڑنے کی کوئی دنیاوی سزا ہوگی۔ اسلام جو ان سچائیوں کے ذریعے زندہ رہنے کا اعلان اور جدوجہد کر رہا ہے۔ آج وہ دنیا میں 120 سالوں سے موجود ہے۔ یہ احمدیہ مسلم جماعت ہی اصل اسلام ہے۔ جو جماعت 40 ممبروں پر مشتمل 1889ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس وقت جس میں قریباً 200 ممالک میں لاکھوں ’’امن پسند مسلمان‘‘ ہیں۔ جو قادیان کے مسیح مرزا غلام احمد علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا مقصد ’’محبت سب کے لئے ،نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ یہ وہی اسلام ہے جو القائدہ کے اسلام کو شکست دے گا اور احمدیت ہی وہ واحد اسلام ہے جو اسلام کو اپنے جہادی اغوا کاروں سے بچا سکتا ہے۔

(نوٹ: یہ مضمون اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا تھا۔)

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 20تا 26 مئی 2011ء صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکائتیں نہ شکائتیں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ نفس مضمون وہی ہے جو اس سے قبل پاکستان ایکسپریس کے حوالہ سے اوپر گذر چکا ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 20؍مئی 2011ء میں صفحہ 7 پر 3 چھوٹی تصاویر کے ساتھ ہماری ایک خبر اس عنوان سے شائع کیا ہے۔ ’’مسجد بیت الحمید میں سیرالیون کا یوم آزادی منایا گیا۔‘‘ سیرالیون کے تقریباً 50 باشندوں کی تقریب میں شرکت۔

کیلی فورنیا۔ (پ۔ر) مغربی افریقہ کے ملک سیرالیون کے تقریباً 50 باشندوں نے گذشتہ ہفتے اپنے ملک کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ چینو کی مسجد بیت الحمید میں منائی۔ اس تقریب کا اہتمام امام شمشاد احمد ناصر نے کیا تھا۔ اس موقعہ پر مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے امام شمشاد ناصر نے بتایا کہ 1980ء کا عشرہ انہوں نے مغربی افریقہ میں گذارا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقہ کے باشندوں سے مجھے خصوصی محبت ہے۔ تقریب کے آغاز میں عبدالقاسم نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور بتایا کہ سیرالیون میں جماعت احمدیہ کس نوعیت کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ ان کے بعد شیخ سبحان نے قرآن کریم کی چند آیتوں کی تلاوت کی جن کا ترجمہ لاس اینجلس کی سیرالیون کی کمیونٹی کے صدر مسٹر حمید حمیدو نے کیا۔ امام شمشاد نے اس موقعہ پر حاضرین کو سیرالیون میں اپنے قیام کے دوران پیش آنے والے تجربات بیان کئے۔ امام شمشاد ناصر سیرالیون میں 1982ء تا 1986ء تک خدمات بجا لاچکے ہیں۔

اس موقعہ پر سیرالیون کی دیگر شخصیات نے بھی خطاب کیا اور جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہا۔ نیز واشنگٹن میں سیرالیون کے۔۔۔ سفیر مسٹر بوکاری سٹوینز نے بذریعہ فون خطاب کیا اور جماعت احمدیہ کے اس پروگرام کو سراہا۔ اس موقعہ پر سیرالیون اور امریکہ کے قومی ترانے بھی گائے گئے۔ آخر میں مہمانوں کی تواضع پاکستانی اور سیرالیونی کھانوں سے کی گئی۔

ویسٹ سائیڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 26 مئی 2011ء میں رنگین اور بڑی تصاویر کے ساتھ یہ خبر شائع کی کہ ’’جماعت احمدیہ کی مسجد میں سیرالیون کا یوم آزادی منایا گیا‘‘

ایک تصویر میں خاکسار سیرالیون کے مقامی باشندوں اور آفس ہولڈر کو لٹریچر پیش کر رہا ہے۔ ایک تصویر میں سیرالیون کے مقامی صدر جناب حمید حمیدو صاحب تقریر کر رہے ہیں جس میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہا۔ اس طرح ایک اور سپیکرDr. Leslic Cross تقریر کر رہےہیں۔ ایک تصویر میں مختلف احباب بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں اور لوکل جماعت چینو کے برادر علیم نمایاں نظر آرہے ہیں۔ خبر کا متن وہی ہے۔ جو اوپر دوسرے اخبار کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 27 مئی 2011ء میں صفحہ 21 پر خاکسار کا ایک مضمون اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے موقعہ پر شائع کیا ہے۔ اس مضمون کا متن وہی ہے جو اس سے قبل ڈیلی بلٹن میں شائع ہوچکا ہے اور اوپر گذر چکا ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 27مئی 2011ء میں صفحہ 7 پر ہماری ایک خبر اس عنوان سے شائع کی ہے۔

’’جماعت احمدیہ جنوبی کیلی فورنیا کا مارمن چرچ کے اعزاز میں عشائیہ‘‘

مہمانوں کو تختی پیش کی گئی جس پر قرآنی آیت درج تھی۔

کیلی فورنیا۔ جماعت احمدیہ جنوبی کیلی فورنیا کی چار ذیلی تنظیموں نے مارمن مذہب کے ماننے والوں کی طرف سے خیر سگالی کے اظہار پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس ضمن میں گذشتہ ہفتے جماعت احمدیہ کے زیر انتظام مسجد بیت الحمید کے قریب واقع ’’چرچ آف جیزز کرائسٹ آف لیٹر ڈیز‘‘ کے اراکین کے اعزاز میں دیئے گئے ایک عشائیہ میں مارمن چرچ کے اراکین کی ہمسائیگی، دوستی اور حمایت کا اعتراف کیا گیا۔

عشائیہ کے بعد چینو کے مشنری و امام شمشاد ناصر نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور انہیں ایک تختی پیش کی گئی جس پر قرآنی آیت کا ترجمہ درج تھا جس کے نیچے جماعت احمدیہ کی طرف سے دونوں جماعتوں کے درمیان پُرخلوص تعلقات کا اعتراف کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا گیا تھا۔

مارمن چرچ کے صدر مسٹر سٹیونس نے کہا کہ دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا انہیں 19 ویں صدی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ آپ کو (یعنی جماعت احمدیہ کو) اب بھی تشددکا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جیسا کہ پاکستان اور انڈونیشیا میں ہو رہا ہے۔

دنیا انٹرنیشنل نے اپنی اشاعت 27 مئی 2011ء میں صفحہ 7 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’ہمیں کچھ کِیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ‘‘ اپنے اداریہ میں شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے حالات پر روشنی ڈالی ہے اور اقلیتوں کے ساتھ جو مظالم ہو رہے ہیں ان کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً یہی کہ دہشت گردی کے ضمن میں جن مجرموں کو پکڑا جاتا ہے۔ پھر پتہ نہیں لگتا کہ ان کے ساتھ عدالتی کارروائی میں کیا ہوا۔ بہت سے مجرموں کو تو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ حکومت ملاں سے خوف زدہ رہتی ہے۔ خاکسارنے چند واقعات کا بھی ذکر کیا۔ مثلاً لاہور میں جماعت احمدیہ کی دو بڑی مساجد پر حملہ جو 2010ء میں کیا گیا۔ شہباز بھٹی کا قتل، گورنر سلمان تاثیر کا قتل، ایک مزار پر بم دھماکہ پھر ملک میں دوسری ابتریوں کا ذکر۔ بے ایمانی، رشوت، قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ وغیرہ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسرے کی جان لے لینا کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی۔ کسی کی عزت و آبرو، مال، جان کی حفاظت نہیں ہے۔ عوام الناس بے وجہ ریلیاں اور جلوس نکال کر، سڑکوں کو بند کر دیتی ہے۔ جس سے عوام الناس کو تکلیف ہوتی ہے۔ عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جارہا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ لاالہ الا اللہ کے لئے پاکستان کا حصول ہوا ہے۔

خاکسار نے چند قرآنی آیات بھی درج کیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ظلم کو پسند نہیں کرتا۔ خاکسار نے لکھا کہ ہماری جماعت کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے نہ ہی سیاست سے کوئی سروکار ہے۔ ہمیں تو 1984ء سے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود ہمارا کوئی شکوہ کسی سے بھی نہیں ہے۔ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ بس یہی ہے کہ اے عزیزو! اے دوستو، بھائیو اور بہنو! آپ اللہ تعالیٰ سے اپنا سچا تعلق پیدا کریں۔ خدا تعالیٰ سےمحبت پیدا کریں۔

امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے آج کے خطبہ جمعہ میں بھی توجہ دلائی ہے کہ پانچ وقت کی نمازیں ادا کریں یہ نمازیں حضور قلب، رقت اور درد سے پُر ہوں پھر خدا تعالیٰ کے حضور بہت دعائیں کریں اور دعائیں بھی صرف رسمی نہ ہوں بلکہ تمہارے اعمال میں اس کا اثر ہو۔

حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ تمام احمدیوں کو اپنے ملک وطن عزیز پاکستان کے لئے بھی بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ خاکسار نے لکھا کہ ’’اے ہمارے پاکستانی وطن عزیز کے ساتھیو! اور اے دوستو! ہم دعاؤں سے تمہاری مدد کررہے ہیں لیکن آپ کا بھی فرض ہے کہ جیسا کہ حضرت امام الزماں نے فرمایا ہے ہمارے دوستوں کو لازم ہے کہ ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچاویں‘‘ اگر ہم تو دعائیں کریں لیکن آپ اپنے اخلاق میں ذرہ بھی تبدیلی پیدا نہ کریں تو ہماری دعائیں ضائع جائیں گی۔ جیسا کہ خاکسار نے لکھا کہ ہماری جماعت کے قیام کا مقصد خدا تعالیٰ کی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کرنا ہے۔ بانیٔ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھیجا گیا ہے تا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ دنیا میں قائم کروں اور لوگوں کا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کروں۔

خاکسار نے ملفوظات جلد نہم صفحہ 101-103 سے اقتباس بھی درج کیا جس میں انسانوں کو خدا تعالیٰ کومقدم رکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی اور آخر پر یہ لکھاہے کہ
’’پس ہمیں ان باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور توجہ کے لئے ضروری ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں اور پیروی میں یہ بات ضروری ہے کہ ہم درحقیقت خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق پیدا کریں۔ اگر ہمارے دل میں کسی کے خلاف نفرت، برائی، کینہ، بغض ہوگا تو ہماری دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی۔‘‘

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 27 مئی 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون خاکسار کی تصویر کے ساتھ اس عنوان کے ساتھ ’’بھائیو نصیحت ہے غریبانہ‘‘ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالے سے پہلے گذر چکا ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 27 مئی 2011ء میں اس عنوان سے خبر شائع کی ہے اور خاکسار کی تصویر بھی لگائی ہے کہ ’’بیت الحمید مسجد اعلان کرتی ہے‘‘ کہ آج ایک سال ہونے والا ہے جب کہ جماعت احمدیہ کی دو بڑی مساجد واقع لاہور میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ آج ہم اس موقعہ پر خون کے عطیات اکٹھے کریں گے اور ضرورت مندوں کی زندگی بچانے کے لئے سامان کریں گے۔ دوسرے اعلان میں بتایا گیا ہے کہ خدام الاحمدیہ کے ریجنل اجتماع 28 اور 29 مئی 2011ء کو ہو رہا ہے اور خبر کے نیچے جماعت احمدیہ مسجد بیت الحمیدکا ایڈریس، فون نمبر اور دیگر معلومات بھی شائع کی ہوئی ہیں۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 3 جون 2011ء صفحہ اول پر ایک رنگین تصویر کے ساتھ ایک خبر شائع کی ہے۔ اس تصویر میں علامہ طاہر القادری کو خطاب کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور ساتھ ہی سامعین کی ایک تعداد بھی ہے۔ خبر کا عنوان اس طرح ہے۔

’’علامہ طاہر القادری نے جہاد پر مرزا غلام احمد قادیانی کا مؤقف اپنا لیا‘‘

’’مسلمانوں کو مغرب کی مسلط کردہ لڑائی میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں۔ نیویارک اور نیوجرسی میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب‘‘

نیویارک خصوصی رپورٹ: تحریک منھاج القرآن کے بانی علامہ طاہر القادری نے اسلام کے ایک رکن ’’جہاد‘‘ کی از سر نو تشریح کے لئے ایک نیا فتویٰ جاری کیا ہے جس میں انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کا مؤقف اختیار کیا ہے۔ گذشتہ ہفتے کوئنز میں ایک بڑے اجتماع سے انہوں نے اپنے فتویٰ کی تفصیلی وضاحت کی اور کہا کہ جہاد اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے جسے اب دہشت گرد لے اُڑے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ نظریہ معصوم لوگوں کی ہلاکت، قتل اور انتقامی کارروایوں میں استعمال ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور معصوم لوگوں کے قتل کو جہاد قرار دینا نامناسب بات ہے۔ علامہ طاہر القادری کے فتویٰ کا امریکہ محکمہ خارجہ نے خیر مقدم کیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے اسلام کو دہشت گردوں سے واپس لینے میں آسانی ہوگی۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 3 تا 29 جون 2011ء میں صفحہ12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ھدیٰ یہی ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے بتایا کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ یہ مضمون اس وقت لکھا گیا تھا۔ جب پاک بحریہ کی مہران بیس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ گویا ملک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اس دہشت گردی کے یہ سب لوگ ذمہ دار ہیں خصوصاً سابقہ حکومت اور جنرل ضیاء الحق نے جب ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کی اور ملک میں بڑے ہی ظالمانہ قوانین رائج کئے جن سے اقلیتوں کے حقوق پامال ہوئے اور ان قوانین سے ملک میں فساد خون خرابہ کو مزید تقویت ملی اور اس نے اب سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس پر سب سے بڑی مصیبت یہ ہےکہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جارہا ہے۔ یورپ میں اسی وجہ سے اسلام کی تصویر دہشت گردی سے تعبیر کی جاتی ہے اور یہ کہ اسلام ہے ہی صرف خون خرابے کا نام۔ حالانکہ اسلام اور پیارے مذہب امن و شانتی والے مذہب کے نام کے ساتھ خون خرابہ اور قتل و غارت کا نام جب ہم سنتے ہیں تو ہمیں رونا آتا ہے۔ اب میں اس مضمون میں اسلام کی بعض خصوصیات کا ذکر کرتا ہوں جس سے اسلام کی حسین تعلیم ابھر کر سامنے آئے گی۔ ان شاء اللہ۔

پہلی خصوصیت: اسلام جو خدا پیش کرتا ہے وہ رب العالمین ہے تمام جہانوں کا رب ہے۔ تمام جہانوں کا خالق و مالک ہے۔ جب کہ دوسرے مذاہب نے اللہ کو صرف اپنے تک محدود رکھا ہے۔ جیسے ’’بنی اسرائیل کا خدا‘‘ وغیرہ۔ قرآن شریف فرماتا ہے:اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ (البقرۃ)

دوسری خصوصیت: اسلام سے قبل جتنے بھی انبیاء آئے اسلام ان سب کو سچا جانتا ہے اور یہی اس کی تعلیم ہے۔ ایک مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ سب رسولوں پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل دنیا میں تشریف لائے انہیں سچا جانے۔ بلکہ ان پر بھی ایمان لانے کی تلقین کرتا ہے۔

تیسری خصوصیت: دوسرے مذاہب کے لیڈروں کی عزت و تکریم کرتا ہے خواہ وہ کسی قوم کے کسی ملک کے اور کوئی زبان بولتے ہوں جیسا کہ بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام نے فرمایا ’’یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے، خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی‘‘ (تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد نمبر12 صفحہ نمبر 259)

چوتھی خصوصیت: قرآن کریم کی حفاظت۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ جیسا کہ فرمایا: ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہ دعویٰ کسی اور الہامی کتاب نے نہیں کیا۔ خدا تعالیٰ نے اس کی لفظی حفاظت کا بھی انتظام فرمایا کہ دنیا میں بے شمار حفاظ موجود ہیں اور معنوی حفاظت کا سامان بھی جو مجددین /ریفارمرز کے ذریعہ ہوا۔ کسی اور مذہب کو یہ خصوصیت نہیں۔

پانچویں خصوصیت: سیاسی امور میں بھی اسلام راہنمائی کرتا ہے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں جو نصیحت کرتا ہے وہ بہت عمدہ ہے‘‘۔ (النساء: 59)

اس میں لیڈروں کے انتخاب کے لئے زریں اور سنہری اصول بیان کردیئے گئے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں جو اس وقت خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ ارباب حل و اقتدار میں تقویٰ کی کمی ہے۔ کسی میں بھی خوف خدا نہیں ہے۔ ہر ایک نے مولوی کو اپنی گردن پر سوار کرایا ہوا ہے۔ جس کا اترنا اب ناممکن ہے اور ان سب نے مل کر دہشت گردی کو جنم دیا ہے۔ جب تک مولوی حکومت کی گردن پر سوار رہے گا یہ کیفیت اسی طرح رہے گی اور پھر عمال اور حکومت کے کارندے ہر جگہ دیانتداری سے کام کریں ہر ایک شہری کو آزادی حاصل ہو۔ پھر حکومت ان کے یعنی شہریوں کے جان و مال کی بلا امتیاز مذہب و ملت حفاظت کرے۔

یورپ دہشت گردی کی خبریں سن سن کر تمام مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھنے لگا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ پس

؎اسلام سے نہ بھاگو راہ ھدیٰ یہی ہے
اے سونے والو جاگو شمس الضحیٰ یہی ہے

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ