• 18 مئی, 2024

اسلامی عقائد

اسلامی عقائد
(توحید رسالت، آسمانی کتب، فرشتے اور آخرت)

توحید: خدا کا عقیدہ یوں تو ہر مذہب میں ملتا ہے لیکن اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کے ماننے والوں نے کسی نہ کسی رنگ میں مخلوق اور غیر مخلوق کی عبادت بھی شروع کر دی ہے جو سراسر شرک اور توحید کا تضاد ہے۔ صرف اسلام ہی واحد مذہب ہے جس نے خالص توحید کا پیغام دیاہے۔توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماننا اور یہ یقین رکھنا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے اور اس کا ہمسر اور ہم مرتبہ کوئی نہیں اور وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔اسے کسی کے برے یا اچھے عمل سے کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچتا۔وہ نہ تو کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا ہے۔وہ ہر کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے تنہاء ہی کافی ہے۔اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔تندرستی اور بیماری، زندگی اور موت،آرام اور تکلیف سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور کائنات کی ہر چیز اُسی کی ہے۔ خدا کو ایک اور صرف ایک ماننے اور اس کی صفات میں کسی کو شریک نہ کرنے کا نام توحید ہے۔یہی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔

لَا اِلٰہَ اِلَا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ الرَّسُوْلُ اللّٰہِ اس کے دو پارٹ ہیں۔ لا الہ الا اللّٰہ کے معنی ہیں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ اس کلمہ میں پہلے تمام معبودوں کی نفی کی گئی ہے اور یہ اعلان کیا گیا ہے کہ کوئی مخلوق اور غیر مخلوق عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے۔اگر یہ کہا جاتا کہ اللہ تعالیٰ معبود ہے تو یہ جواز پیدا کیا جا سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بھی کوئی معبود ہو سکتا ہے اور اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ میں لا الہ کہہ کر تمام غیر حقیقی معبودوں سے انکار فرما دیا اور پھر اپنی معبودیت کا اقرار کرایا اور جب اللہ تعالیٰ کی معبودیت کا اقرار ہو گیا تو پھر فرمایا کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔اس طرح حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے والے کے لئے فرض ہوجاتی ہے اس لئے جو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوا ہے اسے قیل وقال یا حیل وحُجت کےبغیرمان لینا ہی ایمان ہے۔اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ تعالیٰٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔

جب انسان توحید پر ایمان لے آتا ہے اور یہ عقیدہ اس کی زندگی کا لازمی حصہ اور اس کی فطرت بن جا تا ہے تو اسے یقین ہو جا تا ہے اس کائنات کا خالق و مالک صرف اللہ ہی ہے اور اسی کا حکم اس کائنات کو پالنے کے لئے کافی ہے اسی لئے کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے میں انسان کی اپنی مرضی کا کوئی دخل عمل نہیں۔صرف اللہ کی ذات ہی قابل عبادت ہے۔ وہی اپنے بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے اور مشکلوں کو دور کرنے والا ہے۔ زندگی اور موت، نفع و نقصان، عزت و ذلت، سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہ احساس انسان کی عملی زندگی کو سدھارنے اور سنوارنے کے کام میں آتا ہے۔ عقیدہ توحید پر ایمان رکھنے والا کبھی کسی کے آگے دست سوال نہیں پھیلاتا۔ اس لئے کہ اس کا یقین کامل ہے کہ رزق دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ایسا شخص مشکلات و مصائب سے کبھی نہیں گھبرا تا بلکہ ان کا جرأت، ہمت اور صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہےکیونکہ وہ جانتا ہے کہ پریشانیاں جس نے دی ہیں وہی ان کا دور کرنے والا بھی ہے۔ عقیدہ توحید پر یقین رکھنے والا بہادر اور دلیر ہوتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے موت اور زندگی اللہ کے اختیار میں ہے۔جو موت کا وقت معین ہے۔اس سے ایک لمحہ پہلے یا ایک لمحہ بعد موت نہیں آ سکتی۔ اس لئےموت کا خوف اس کے دل میں قطعی نہیں ہوتا اور وہ حق بات کہنے سے کبھی گریز نہیں کرتا۔ عقیدہ توحید پر ایمان رکھنے والا قناعت پسند ہوتا ہےکیونکہ اسے خبر ہے کہ نفع اور نقصان عزت و ذلت سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر مکمل طور پر ایمان لانے والا ایک مکمل انسان ہوتا ہے جس میں دنیاوی عیوب تلاش کرنے پر بھی نہیں مل سکتے۔

رسالت: حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک جو پاک ہستیاں دنیا میں تشریف لائی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عام انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے دنیا میں بھیجی گئیں۔ان کو نبی یا رسول کہتے ہیں۔ نبی کے لغوی معنی خبر دینے والے کےہیں اور رسول کےمعنی بھیجے گئےکےہیں۔لیکن اصطلاح میں رسول اُس پاک ہستی کو کہا جا تا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کتابی شکل میں کوئی شریعت عطا کی ہوئی ہو جبکہ نبی اس کو کہتے ہیں جو اپنے ہم عصر رسول یا رسول کی شریعت کی پیروی کرتا ہو اور اس کی تبلیغ کرتا ہو۔اگرچہ نبی اور رسول دونوں کا کام بنی نوع انسان کو حق کا راستہ دکھانا ہے لیکن ہر نبی کو رسول نہیں کہا جاسکتا اور ہر رسول نبی کہلانے کا حقدارہے۔

اللہ تعالیٰ جن بندوں کو نبوت یا رسالت کے منصب سے سرفراز فرما تا ہے ان کو تمام اوصاف حمیدہ اور حسن اخلاق سے بھی مزیّن کرتا ہے۔ رسالت اور نبوت کسی شخص کی ریاضت اور کوشش سے حاصل نہیں ہوسکتی اس کا انحصار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی پر منحصر ہے۔ وہ جسے چاہے نبی یا رسول کا منصب عطاء کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں اور آپ پر آخری شریعت نازل ہوئی اور اب قیامت تک کوئی دوسرا رسول یا کوئی دوسری شریعت نہیں۔

اللہ تعالیٰٰ نے جب اس دنیا کو انسانوں سے آباد کیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو پہلے انسان کی شکل میں بھیجا تو زندگی گزارنے کے لئے کچھ اصول بھی مقرر فرمائے اور اس زمین پر کچھ مادّی وسائل بھی پیدا کئے۔انسان نے تجربہ اورعقل کی بنیاد پر مادّی وسائل میں ترقی کی اور جسمانی نشوونماء کے اسباب بھی مہیا کر لئے۔لیکن روحانی تعلیم و تربیت پر انسان کا اختیار نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے نبی اور رسول بھیجے اور بالواسطہ خود انسان ان کے اخلاق و عادات کی ذمہ داری کو قبول فرمائی۔انسان کو اچھی اور کامیاب زندگی گزارنے کے قواعد و ضوابط مرتب کئے۔اگر رسول اور نبی دنیا میں نہیں بھیجے جاتے تو انسان اور جانور کی تفریق ختم ہوجاتی اور انسان حسن تہذیب سےہمکنار نہ ہوتا۔

انسان کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے یا کون سی چیز اللہ کی مرضی کے موافق ہے اور کون سی چیز نا موافق ہے۔کون سا عمل اللہ کو پسند ہے اورکون ساعمل ناپسند ہے۔انسان کو بغیر کسی کے بتائے ہوئے علم نہیں ہوسکتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ چیزوں اور باتوں کے مفید اور مضر اثرات سے واقف ہے اس لئے اس نے بعض چیزوں کو حلال اور بعض چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ان تمام باتوں کو جاننے کے لئے رسول اور نبی کی پیروی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نبی اور رسول کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے۔وہ جو کچھ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کہتے ہیں۔اس لئےنبی اور رسول کی پیروی کے بغیر کوئی بھی انسان اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر نہیں چل سکتا اور صرف نبی اور رسول کا بتایا ہوا راستہ ہی حق کا راستہ ہے۔جس پر چل کر انسان کی زندگی کو مکمل طور پر عروج و کمال حاصل ہو سکتا ہے۔

رسول کا مرتبہ کسی قوم یا کسی ملک کے بادشاہ اور سربراہ سے کہیں زیادہ بلند ہوتا ہے۔رسول حق کی تبلیغ کرتا ہے۔ انسا نیت کی تعلیم دیتا ہے۔ہدایت کے نور سے گمراہی اور جہالت کے اندھیروں کو دور کرتا ہے اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نبی اور رسول کی زندگی عام انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہوتی ہے۔رسول اورنبی کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہوتا۔جس چیز کا حکم دیتا ہے پہلے اس پر وہ خود عمل کر کے دکھا تا ہے۔رسول یا نبی اللہ تعالیٰ کے پیغام کو من وعن لوگوں تک پہنچا تا ہے اور اللہ کی مرضی سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان نعمتوں کے بارے میں بھی بتاتا ہے جو انسان کو مرنے کے بعد حاصل ہوں گی اور جو انسان کی نظر سے پوشیدہ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اُن عزابوں سے بھی باخبر کرتا ہے جو لوگوں کو آخرت میں بُرے اعمال کی سزا کے طور پر حاصل ہوں گے۔

آسمانی کتب: مسلمان کے لئے توحید اور رسالت کے بعدآسمانی کتب پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہر قوم اور ہر جگہ پر مختلف زبانوں میں بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے نبی اور رسول بھیجےاوران کو کتابی شکل میں شریعتیں بھی عطا فرمائیں۔ان آسمانی کتابوں میں سے چار کا ذکر قرآن کریم میں خاص طور پر ملتاہے:

  1. توراۃ: حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ناز ل ہوئی۔
  2. زبور: حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
  3. انجیل: حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
  4. قرآن پاک: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔

مذہب اسلام میں قرآن پاک کے علاوہ ان تمام کتابوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جن کا ذکر قرآن پاک میں ملتا ہے۔کوئی شخص اس وقت تک مکمل مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا جب تک کہ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان نہ لے آئے۔ وہ تمام کتابیں جن کی شہادت قرآن پاک دیتا ہےاس لئے مکمل نہیں ہیں کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اُس زمانے میں حالات اور اقوام کی ضرورتوں کے پیش نظر اپنے رسولوں پر نازل فرمایا۔ قرآن پاک ساری دنیا کے انسانوں کے لئے اور قیامت تک کے لئےہے اور ہر زمانے کے مسائل کا حل اس میں موجودہے۔ دوسرا اہم فرق قرآن پاک اور دیگر آسمانی کتب میں یہ ہے قرآن پاک کے علاوہ تمام آسمانی کتابوں میں لوگوں نے اپنی مرضی اور آسانی کے مطابق تبدیلیاں کرلی ہیں۔ آج جو دیگر آسمانی کتابیں ہمارے سامنے موجود ہیں ان کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ وہی ہیں جو اس زمانے میں رسولوں پر نازل ہوئی تھیں۔ لیکن قرآن پاک آج بھی صرف اور صرف وہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہےاور اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے:

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۱۰﴾

(الحجر: 10)

یعنی ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہےاور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔

یہاں پر صرف ظاہری طور پر اس کی حفاظت کا وعدہ نہیں ہےبلکہ معنوی طور پر بھی اس کی حفاظت کاوعدہ کیا گیا ہےجو چودہ سو سال سے پورا ہوتا ہوا آ رہا ہے۔

فرشتے: ہر مسلمان کو اس بات پر بھی ایمان لانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق فرشتے بھی ہیں۔ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے بنایا ہے وہ خاص قسم کا لطیف جسم رکھتے ہیں جو روح کی طرح ہے وہ نہ تو دیوی دیوتا ہے نہ ہی اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے کسی بھی طریقے سے مدد گار ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں۔ وہ اس کے حکم کو ہمیشہ بجا لاتے ہیں اور کبھی نافرمانی نہیں کرتے جیسا کہ قرآن پاک میں بھی ان کے متعلق آیا ہے:

وَیَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ

(النحل: 51)

یعنی وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا۔

اللہ تعالیٰ نے کچھ کام فرشتوں کے سپرد کر دیئے ہیں جو وہ ایک فرمانبردار مخلوق کی طرح تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ فرشتے درجات کے اعتبار سے مختلف ہیں اور اللہ تعالیٰ نے درجات کے اعتبار سے ہی ان کو مختلف ذمہ داریاں سونپی ہیں جن میں چار فرشتے بہت مشہور ہیں:

  1. حضرت جبرئیل علیہ السلام: ان کا کام اللہ تعالیٰ کے احکام نبیوں اور رسولوں تک پہنچانا ہے۔
  2. حضرت میکائیل علیہ السلام: ان کا کام مخلوق کو رزق پہنچانا ہے۔
  3. حضرت عزرائیل علیہ السلام: ان کا کام دنیا والوں کی روحیں قبض کرنا ہے۔
  4. حضرت اسرافیل علیہ السلام: ان کا کام قیامت کے دن صور پھونکنے کا ہے۔

ہر مسلمان کو بغیر کسی پس و پیش کے فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا چاہئے ورنہ ایمان مکمل نہیں ہوگا۔فرشتے اللہ تعالیٰ کے نور سے خلق کئے گئے ہیں نہ وہ انسانی ضروریات رکھتے ہیں، نیز اپنی نسل کو بڑھانے اور گناہ کرنے کی صلاحیت ان میں موجود نہیں ہے۔ ان کو انسانوں کی طرح کھانے، پینے، سونے اور جاگنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ مختلف شکلیں بھی اختیار کرسکتے ہیں اور جس شکل میں چاہیں ہمارے پاس اور سامنے آ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح کے علاوہ اس کے احکام کی تعمیل فرشتوں کے فرائض میں شامل ہے۔ ان سے ان امور میں کبھی کوتاہی نہیں ہوتی۔ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطے کا فرض بھی ادا کرتےہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا نفاذ اس کی کائنات میں کرتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق اس دنیا کو چلاتے ہیں۔

آخرت: آخرت کے لفظی معنی انجام کے ہیں اور مذہب اسلام میں آخرت کے اصطلاحی معنی قیامت کے ہیں۔ قیامت وہ دن ہے جب ساری دنیا ختم ہو جائے گی کوئی انسان اس میں باقی نہیں رہے گا۔پہاڑ روئی کی طرح گالوں کی شکل میں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گے اور پھر تمام مردہ انسانوں کو زندہ کیا جائے گا۔ یہ سارے لوگ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش ہوں گے۔ ان کے اعمال کا حساب کتاب پیش ہوگا۔ اگر ان کے اعمال اچھے ہیں تو وہ جنت کے حقدار ہوں گے اور اگراعمال خراب ہیں تو دوزخ ان کا مقدر بن جائے گا۔ یوم آخرت کی ہماری زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ اگر آخرت کے عقیدے کو عملی زندگی سے ہٹا دیا جائے تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔ انسان بغیر کسی خوف اور ڈرکے اپنی خواہشات کوپوراکرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقوں کو اختیار کرے گا۔

عقیدہ آخرت کا انسانی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہر وہ شخص جس کا ایمان اور یقین آخرت پر ہے تو ایسا شخص ہمیشہ ایسے کام کرنے کی کوشش کرے گا جس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی شامل ہو۔ وہ گناہوں سے یقینی پرہیز کرے گا اور نیک کاموں کی طرف راغب ہو گا۔ والدین اور بزرگوں کی عزت کرے گا۔ چھوٹوں سےمحبت اور نرمی سے پیش آئے گا۔ اپنے اہل و عیال، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے گا۔ اساتذہ کا ادب و احترام کرے گا اور ایسے کام کرے گا جو انسانیت کے متقاضی ہوں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی انہی باتوں پر عمل کرنے سےحاصل ہو سکتی ہے۔ جو لوگ عقیدہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ صرف اپنے نفس کے غلام ہوتے ہیں کیونکہ اپنے کاموں کے بدلہ میں مرنے کے بعد نہ تو کسی انعام کی امید ہوتی ہے اور نہ کسی سزا کا خوف ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اپنےمقاصدکی تکمیل کےلئے جائز و ناجائز حربہ اختیار کرتے ہیں اس سے دوسروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

(محمد عمر تماپوری۔ کوآرڈینیٹر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، انڈیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ