• 28 مارچ, 2024

آسمانی بادشاہت زمین پر بھی قائم ہے

’’جیسے آسمان پر ہر یک چیز خدا کی تسبیح و تقدیس کر رہی ہے ویسے زمین پر بھی ہر ایک چیز اُس کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے۔ پس کیا زمین پر خدا کی تحمید و تقدیس نہیں ہوتی۔ … ہاں البتہ انسانی دلوں کی صلاح اور فساد کے لحاظ سے غفلت اور ذکر الٰہی نوبت بہ نوبت زمین پر اپنا غلبہ کرتے ہیں مگر بغیر خدا کی حکمت اور مصلحت کے یہ مدّوجزر خودبخود نہیں خدا نے چاہا کہ زمین میں ایسا ہو سو ہوگیا سو ہدایت اور ضلالت کا دور بھی دن رات کے دور کی طرح خدا کے قانون اور اذن کے موافق چل رہا ہے نہ خود بخود باوجود اس کے ہر ایک چیز اس کی آواز سنتی ہے اور اس کی پاکی یاد کرتی ہے مگر انجیل کہتی ہے کہ زمین خدا کی تقدیس سے خالی ہے؟ اس کا سبب اس انجیلی دعا کے اگلے فقرہ میں بطور اشارہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ابھی اُس میں خدا کی بادشاہت نہیں آئی اس لئے حکومت نہ ہونے کی وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے خدا کی مرضی ایسے طور سے زمین پر نافذ نہیں ہو سکی جیسا کہ آسمان پر نافذ ہے مگر قرآن کی تعلیم سراسر اس کے بر خلاف ہے وہ تو صاف لفظوں میں کہتا ہے کہ کوئی چور، خونی ،زانی ،کافر، فاسق، سرکش، جرائم پیشہ، کسی قسم کی بدی زمین پر نہیں کر سکتا جب تک کہ آسمان پر سے اُس کو اختیار نہ دیا جائے۔ پس کیونکر کہا جائے کہ آسمانی بادشاہت زمین پر نہیں کیا کوئی مخالف قبضہ زمین پر خدا کے احکام کے جاری ہونے سے مزاحم ہے سبحان اللّٰہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ خدا نے خود آسمان پر فرشتوں کے لئے جدا قانون بنایا اور زمین پر انسانوں کے لئے جدا اور خدا نے اپنی آسمانی بادشاہت میں فرشتوں کو کوئی اختیار نہیں دیا بلکہ اُن کی فطرت میں ہی اطاعت کا مادہ رکھ دیا ہے وہ مخالفت کر ہی نہیں سکتے اور سہوونسیان اُن پر وارد نہیں ہو سکتا لیکن انسانی فطرت کو قبول عدم قبول کا اختیار دیا گیا ہے اور چونکہ یہ اختیار اوپر سے دیا گیا ہے اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ فاسق انسان کے وجود سے خدا کی بادشاہت زمین سے جاتی رہی بلکہ ہر رنگ میں خدا کی ہی بادشاہت ہے ہاں صرف قانون دو ہیں۔ ایک آسمانی فرشتوں کے لئے قضاو قدر کا قانون ہے کہ وہ بدی کر ہی نہیں سکتے اور ایک زمین پر انسانوں کے لئے خدا کے قضاء وقدر کے متعلق ہے اور وہ یہ کہ آسمان سے اُن کو بدی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے مگر جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہگار ہو چکے ہیں تو استغفار اُن کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی ۔‘‘

(کشتی نوح ؑ، روحانی خزائن جلد19 صفحہ33تا34)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 نومبر 2020