چلے گی جب ہوائے فصلِ گُل سرشار گلیوں میں
کھلیں گے پھول، مہکیں گے درودیوار گلیوں میں
فضائے شہر ہو گی پھر گُل و گُلزار گلیوں میں
گلاب آنکھوں میں لے کر جب پھریں گے یار گلیوں میں
گرائی جائیں گی اس بار سب نفرت کی دیواریں
نہ میری جیت گلیوں میں نہ تیری ہار گلیوں میں
بہت تھا زُعمِ زور و زر خمارِ آگہی جن کو
انہی کا ٹوٹ کر بکھرا بُتِ پندار گلیوں میں
ابھی تک شہر کے دیوار و بام و در نہیں بھولے
مرا اقرار گلیوں میں، ترا انکار گلیوں میں
عزیز از جان و دل جو آبروئے عشق رکھتے ہیں
اُٹھا کر آ گئے کاندھوں پہ اپنے دار گلیوں میں
لہو دے کر بڑھا دی لو چراغِ حُسن کی ہم نے
تہِ تلوار گلیوں میں ، کبھی سنگسار گلیوں میں
ہماری فتح و عظمت کا نقارہ بج اُٹھے گا جب
سُنیں گے ہم عدو کا شورِ حالِ زار گلیوں
(فضل الرحمن)