• 20 اپریل, 2024

’’اىک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو‘‘ (حدىث نبوىﷺ)

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز مزىد فرماتے ہىں:
پھر اس حدىث مىں اىک نصىحت (باقىوں کو مىں چھوڑتا ہوں) آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے ہمىں ىہ فرمائى ہے کہ ’’اىک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو‘‘۔ اس کا مطلب صرف اتنا ہى نہىں ہے کہ سودے کو خراب کرنے کے لئے، اپنے دلى بُغض اور کىنے کا اظہار کرنے کے لئے سودا بگاڑنے کى کوشش نہ کرو۔ اپنے بہتر وسائل اور ذرائع کى وجہ سے سودا خراب کرنے کى نىت سے کسى چىز کى زىادہ قىمت نہ لگا لو۔ بلکہ اس ارشاد مىں بڑى وسعت ہے۔ بعض دفعہ دىکھنے مىں آتا ہے کہ مثلاً کسى نے اىک جگہ رشتہ کىا ہے۔ وہ بات چل رہى ہوتى ہے تو اُس پر اور رشتہ لے کر دوسرا فرىق پہنچ جاتا ہے۔ اىک تو اگر علم مىں ہو تو رشتے پر رشتہ کسى احمدى کو نہىں بھىجنا چاہئے، نہ لڑکى والے کو لے جانا چاہئے، نہ لڑکے والوں کو۔ دوسرے جس لڑکى اور لڑکے کے رشتے کى بات چل رہى ہے اُنہىں بھى اور اُن کے گھر والوں کو بھى پہلے آئے ہوئے رشتے کے بارے مىں دعا کر کے فىصلہ کرنا چاہئے اور بعد مىں آنے والے رشتے کو سوچنا بھى نہىں چاہئے، سوائے اس کے کہ دعاؤں کے بعد پہلے رشتے کى دل مىں تسلى نہ ہو۔ پھر بعض دفعہ ىہ صورتحال بھى بنتى ہے کہ اىک لڑکى کا رشتہ کسى لڑکے سے آىا ہے اور لڑکے ىا اُس لڑکى کے گھر والوں سے کسى تىسرے شخص کو رنجش ہے تو لڑکى کے گھر والوں کے پاس پہنچ جاتے ہىں کہ اُس مىں فلاں فلاں نقص ہے اور اس سے بہتر رشتہ مىں تمہىں بتا دىتا ہوں، اس کا انکار کر دو۔ اور وہ بہتر رشتہ کبھى پھر بتاىا ہى نہىں جاتا۔ اور ىوں حسد، کینے، بغض اور تقوىٰ مىں کمى کى وجہ سے دو گھروں کو برباد کىا جاتا ہے۔ پھر بعض دفعہ لڑکى والوں اور لڑکى کو بدنام کرنے کے لئے اس طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہىں اور بىچارى لڑکىوں کو بدنامى کے داغ لگائے جاتے ہىں اور ىہ سب حسد کا نتىجہ ہے۔ گوىا اىک گناہ کے بعد دوسرا گناہ پىدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ لڑکىوں پر الزام تراشى کى جاتى ہے۔ پس اللہ تعالىٰ کے رسول کے اس حکم پر عمل کرىں کہ اپنے دلوں کو تقوىٰ سے پُر کرو۔ ہر معاملے مىں تقوىٰ کا اظہار اور استعمال کرو اور تقوىٰ کا معىار تمہارے لئے وہ اسوہ حسنہ ہے جس کے بارے مىں قرآنِ کرىم مىں خدا تعالىٰ نے تمہىں بتا دىا ہے کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔(سورۃ الاحزاب: 22) ىقىنا تمہارے لئے اللہ تعالىٰ کے رسول مىں اسوہ حسنہ ہے۔ آپ نے صرف مومن کى ىہى تعرىف نہىں کى کہ اُس کے شر سے مسلمان محفوظ رہے بلکہ فرماىا مومن وہ ہے جس سے دوسرے تمام انسان امن مىں رہىں۔ اور آپ وہ ہستى تھے جو ہمدردىٔ خلق مىں بھى اپنے نمونے کے لحاظ سے انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ شفقت اور رأفت مىں بھى آپ انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ اور کوئى خُلق اىسا نہ تھا جس کى انتہائى حدود کو بھى آپ نے نہ پا لىا ہو۔ پس آج جب ہم اپنے آپ مىں پاک تبدىلىاں پىدا کرنے کے لئے جمع ہوئے ہىں تو ان نمونوں کى جگالى کرنے کى ضرورت ہے۔ اُن نصائح کو سننے کى ضرورت ہے جو آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے پاک نمونے اور آپ کے حوالے سے ہم تک پہنچىں۔ آپؐ نے فرماىا۔ ’’دىن خىر خواہى کا نام ہے۔ جب عرض کىا گىا کس کى خىر خواہى؟ تو آپؐ نے فرماىا اللہ، اُس کى کتاب، اُس کے رسول، مسلمان ائمہ اور اُن کے عوام الناس کى خىر خواہى‘‘۔

(صحىح مسلم کتاب الاىمان باب بىان أن الدىن النصىحۃ حدىث: 196)

پس اىک حقىقى مومن کے لئے کوئى راہِ فرار نہىں ہے۔ عوام الناس کى خىر خواہى کے مقام کو بھى اُس مقام تک پہنچا دىا جس کى ادائىگى کے بغىر نہ خدا تعالىٰ کا حق ادا ہو سکتا ہے، نہ اُس کى کتاب کا حق ادا ہو سکتا ہے، نہ اُس کے رسول کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ اس بات کو حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام نے بھى بىان فرماىا ہے جس کا مفہوم ىہ ہے کہ حقىقى تقوىٰ صرف اىک قسم کى نىکى سے حاصل نہىں ہوتا جبتک کہ تمام قسم کى نىکىوں کو بجا لانے کى کوشش نہ ہو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد2 صفحہ680۔ اىڈىشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر دىکھىں ہمارے آقا و مطاع صلى اللہ علىہ وسلم کے اعلىٰ اخلاق کے حصول کے لئے عاجزى کى انتہائى حدوں کو پہنچى ہوئى دعا۔ وہ نبى جو ہر وقت اپنى جان کو دشمنوں کے لئے بھى ہمدردى کے جذبے کے تحت ہلکان کر رہا تھا، جس کا رُواں رُواں اپنوں کے لئے سراپا رحمت و شفقت تھا، اپنے رب کے حضور عاجزى اور بىقرارى سے ىہ دعا کرتا ہے کہ اے مىرے اللہ! مَىں بُرے اخلاق اور برے اعمال سے اور برى خواہشات سے تىرى پناہ چاہتا ہوں۔

(سنن الترمذى ابواب الدعوات۔ باب دعاء امّ سلمۃؓ)

پس ىہ وہ تقوىٰ ہے جس کے بارے مىں آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے اپنے دل کى طرف اشارہ کر کے فرماىا تھا کہ وہ ىہاں ہے اور ىہ وہ کامل اسوہ ہے جس کى پىروى کا اللہ تعالىٰ نے ہمىں حکم فرماىا ہے۔ پس ہمىں کس قدر اس دعا کى ضرورت ہے۔ کس قدر اپنے جائزے لىنے کى ضرورت ہے۔ کس قدر ہمىں اپنے گرىبان مىں جھانک کر شرمندہ ہونے کى ضرورت ہے۔

پھر آپؐ فرماتے ہىں ’’جس شخص نے کسى مسلمان کى دنىاوى بے چىنى اور تکلىف کو دور کىا اللہ تعالىٰ قىامت کے دن اُس کى بے چىنى اور تکلىفوں کو اُس سے دور کر دے گا اور جس نے کسى تنگدست کو آرام پہنچاىا اور اُس کے لئے آسانى مہىا کى، اللہ تعالىٰ آخرت مىں اُس کے لئے آسانىاں مہىا کرے گا۔ جس نے کسى مسلمان کى پردہ پوشى کى، اللہ تعالىٰ آخرت مىں اُس کى پردہ پوشى کرے گا۔ اللہ تعالىٰ اُس بندے کى مدد کے لئے تىار رہتا ہے جو اپنے بھائى کى مدد کے لئے تىار ہو‘‘۔

(مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار باب فضل الاجتماع على تلاوۃ القرآن وعلى الذکر حدىث: 6853)

پس کون ہے جو ىہ دعوىٰ کرے کہ مىں قىامت کے دن تمام قسم کى بے چىنىوں سے پاک رہوں گا۔ کون ہے جو اپنے عمل پر نازاں ہو کہ مىں نے بہت نىک اعمال کو کما لىا ہے، بہت نىک عمل کر لئے ہىں۔ پس ىہ دنىا تو بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہر دم، ہر لمحہ اس فکر مىں اىک مومن کو رہنا چاہئے کہ اللہ تعالىٰ کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے نىکىوں کى توفىق پاؤں۔ پتہ نہىں کونسى چىز مجھے خدا تعالىٰ کے قرىب کر دے۔ مىرى بخشش کا سامان کر دے۔ کتنا پىارا ہمارا خدا ہے اور کتنا پىارا ہمارا رسول ہے جس نے ہر عمل کے بارے مىں کھول کر بتا دىا۔ کسى عمل کو بھى کم اہمىت نہىں دى۔ پس کتنے خوش قسمت ہىں وہ جو اپنے خدا کو راضى کرنے اور اپنى عاقبت کو سنوارنے کى کوشش مىں لگے رہتے ہىں۔ اس کوشش مىں لگے رہتے ہىں تا کہ خدا تعالىٰ اُن کى بے چىنىوں کو دور فرمائے، تا کہ اللہ تعالىٰ اُن کے لئے آسانىاں پىدا فرمائے۔ آمىن

 (خطبہ جمعہ ىکم جون 2012ء بحوالہ الاسلام وىب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہونے والا بزدل ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 نومبر 2021