• 5 مئی, 2024

کسورو جھیل

کسورو جھیل
جہاں سے پاکستان کی بلند ترین چوٹیوں کا مشاہدہ ممکن ہے

پاکستان میں موجود کسورو جھیل شاید واحد جھیل ہے جس کے کناروں پر کھڑے ہوکر پاکستان و سلسلہ کوہ قراقرم کے پہلے اور دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ چھغوری المعروف بہ K-2 کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

کسورو جھیل کے بارے میں تولتی کے ایک مقامی دوست کی زبانی سنا تھا۔ یہ بھی سننے کو ملا کہ اس جھیل کا راستہ بہت ہی دشوار گزاراور بلندی کے باعث آکسیجن کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس ٹریک کی دشواری کے باعث نصر بھٹی اور خاکسار نے ہی جانے کا فیصلہ کیا۔ سکردو سے ہم نے اپنے مقامی دوستوں سے دو عدد موٹر سائیکل حاصل کیے۔ دریائے سندھ کے کناروں پر بل کھاتی نشیب و فراز سے بھرپورشاہراہِ کارگل سکردو پر موٹر سائیکل کا سفر ایک شاندار سفر رہا۔ ایک گاؤں میں خوبانی کے باغ نے ہمیں سفر معطل کرنے پر مجبور کردیا۔ زرد خوبانیاں دیکھ کر انہیں کھائے بغیر آگے بڑھ جائیں؟ یہ کیسے ممکن تھا۔ باغ کا مالک ایک نوجوان شخص تھا۔ اس نے بخوشی درخت سے توڑ کر براہ راست خوبانی کھانے کی دعوت دے ڈالی اور ہم نے یہ دعوت دل و جان سے قبول کی۔

خوبانیوں سے انصاف کرنے کے بعد ہم ضلع کھرمنگ کے اہم مقام تولتی جاپہنچے۔ یہاں سے اپنے راہنماء عباس کو ساتھ لے کر شاہراہِ کارگل سکردو کو خیر آباد کہا اور کسورو گاؤں کی طرف کچے جیپ ٹریک پر سفر کا آغاز کیا۔ یہ سفر مسلسل چڑھائی مائل تھا۔ ہم جیسے موٹر سائیکل سواروں کے لیے یہ سفر کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ کیونکہ ہم پہلی مرتبہ ان پہاڑوں میں موٹرسائیکل سفر کررہے تھے۔ نصر بھٹی کے ساتھ عباس سوار تھا جبکہ میرے ساتھ ہمارا رک سیک جس میں ہمارے سفر کا زاد راہ کپڑے،سلیپنگ بیگ اور کھانے پینے کا سامان پیک تھا۔ 14 کلومیٹر کا سفر 1گھنٹے میں طے کرکے ہم شام کوکسورو گاؤں جا پہنچے۔ یہ گاؤں 11000 فٹ کی بلندی پر واقع ایک خوبصورت گاؤں ہے۔ ہم عباس کے گھر میں ہی فروکش ہوئے۔ رات کے کھانے پر سفر کے بارے میں تفصیلات طے کرکے ہم جلد ہی سو گئے کہ پیدل سفر کے لیے بھرپور اور پوری نیند لینا انتہائی ضروری ہے۔

یہ 25؍جولائی 2021ء کا ایک خوبصورت دن تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد ناشتہ کیا اور تیاری مکمل کرکے ہم کسورو جھیل کی راہوں پر روانہ ہوگئے۔ عباس کی راہنمائی میں ہمارے ساتھ اس کا بڑا بیٹا اورایک بھتیجا بھی ہم سفر ہوگئے۔ رک سیک عباس نے اپنی کمر پر بوجھ کیا۔دعا کے ساتھ روانہ ہوئے اور جلد ہی کسورو گاؤں سے باہر نکل آئے۔ کسورو ندی پار کرتے ہی راستہ بلندی پر چڑھنے لگا۔ ابھی تو ابتداء تھی۔ ہمارے حوصلے بلند تھے لہٰذا گپ شپ کرتے ہوئے چلتے رہے۔ 800 فٹ کی بلندی چڑھنے کے بعد ایک قدرے ہموار میدان آیا۔ یہاں سے ہم نے عکس بندی کی اور پھر آگے روانہ ہوگئے۔ اس راستے پر پانی کی کوئی کمی نہیں البتہ آکسیجن کی کمی ابھی سے محسوس ہونا شروع ہوگئی تھی۔ ہم اس وقت سلسلہ کوہ قراقرم میں تھے اور قراقرم کے پہاڑوں کی ہیبت بڑے بڑوں کا پتہ پانی کردیتی ہے۔

ایک عمودی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم نے سفر معطل کیا۔ کھجوریں، چاکلیٹ اور بھنے چنے پیٹ کا ایندھن بنائے اور پھر آگے روانہ ہوگئے۔ سفر اب دشوار تر ہوچکا تھا۔ ہمارے حوصلے متزلزل ہونے لگے۔ 700 فٹ کی ایک عمودی چڑھائی چڑھی تو اچانک ہی ایک چھوٹے سے میدان میں داخل ہوگئے۔ اس میدان میں ندیاں بہہ رہی تھیں۔ ہم اس وقت 14000 فٹ کی بلندی پر پہنچ چکے تھے اور قراقر م کے بنجر اور خشک پہاڑوں میں اس بلندی پر بھی آکسیجن کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ کہیں کہیں خود رو جڑی بوٹیاں اپنی موجودگی ظاہر کرتی تھیں۔صاف شفاف پرسکون پانی اپنے سفر پر رواں تھے۔ دل تو چاہتا تھا کہ ان برفیلے پانیوں میں غسل کیا جائے لیکن میں غسل کے لوازمات ساتھ نہ لایا تھا۔ یہاں پر 30 منٹ کے وقفے کا فیصلہ کیا اور اس وقفہ کے دوران چائے و دیگر لوازمات سے اپنے بدنوں کی تیزی سے کم ہوتی توانائیاں بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔اس مقصد کے لیے ہم اپنا آزمودہ سٹوو ساتھ لائے تھے۔ عباس نے چائے اور نوڈلزبنانے کی ذمہ داری لی۔ اس کا بیٹا اور بھتیجا اس کی مدد کرنے لگے۔ ایک طرف ایک بڑی چٹان زمین سے ابھری ہوئی تھی۔ حیرت انگیز طور پر یہ ہموار چٹان تھی اور تھی بھی خاصی بڑی۔ میں اور نصر بھٹی تھکاوٹ سے چور اس چٹان پر لم لیٹ گئے اور لیٹتے ہی دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگئے۔

ہمیں عباس نے بیدار کیا۔ گھنٹہ بھر کی نیند نے ہمارے بدنوں سے تھکاوٹ کی بیشتر سلوٹیں سمیٹ لی تھیں۔چائے اور نوڈلز تیار تھے۔ فروٹ کیک وغیرہ نے ہمارے بدنوں میں پھر سے تونائیاں بھر دیں۔ یہاں سے روانہ ہوئے تو ہر قسم کے سبزے کا وجود ناپید ہوگیا۔ اب ہر طرف قراقرم کی خشک بلندیوں،بھوری چٹانوں اور سیاہ پتھروں کا راج تھا جن پر جولائی کے مہینے میں بھی کہیں کہیں برف موجود تھی۔ اب ہمارا سفر مسلسل بلندی مائل تھا۔ چڑھائیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ ہمارے دائیں طرف کسورو گاؤں کا بلند ترین پہاڑ ’’ڈور تغما‘‘ سربلند تھا۔ اس پہاڑ کی سطح سمندر سے بلندی 17000 فٹ سے زائد ہے۔

پتھروں اور چٹانوں پر مسلسل چڑھتے ہوئے اب ہمارے حوصلے ٹوٹنے کو تھے، ہمتیں جواب دینے کو تھیں، دشوار راہوں کے باعث سفر منسوخ کرکے واپس جانے کے صلاح مشورے شروع ہوچکے تھے کہ دفعتاً میں نے مڑ کر پیچھے دیکھ لیا اور میں وہیں پتھر کا ہوگیا۔ بچپن میں سنا کرتے تھے کہ پیچھے مڑ کردیکھنے سے انسان پتھر کا ہوجاتا ہے۔ اس محاورے کی اب سمجھ آئی۔ میرے سامنے سلسلہ کوہ قراقرم کا بلند ترین اور دنیا کے خوبصورت پہاڑوں میں سے ایک میشیئر برم سر اٹھائے کھڑا تھا۔ 7821 میٹر (25659فٹ) بلند یہ پہاڑ K-1 بھی کہلاتا ہے۔ میں نے نصر بھٹی کی اس طرف توجہ دلائی تو وہ بھی حیران رہ گیا کہ ہمیں کسی نے یہ نہیں بتایا تھا کہ یہاں سے میشیئر برم بھی نظر آتا ہے۔ کسورو جھیل معلوم نہیں کہاں تھی؟ تھی بھی یا نہیں۔ ہمیں تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ ہم ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ جھیل کا خیال دل سے مدہم ہوچکا تھا۔ ہم نے اب میشیئر برم کو واضح طور پر دیکھنے کے لیے مزید چڑھائی چڑھنے کا فیصلہ کیا۔ 15000 فٹ کی بلندی پر پہنچے تو میشیئر برم کے ساتھ لیکن اس سے بہت دور برف پوش پہاڑوں کا ایک سلسلہ نظر آیا۔ ان کی چوٹیاں قریب کے پہاڑوں سے ابھری ہوئیں تھیں۔ میں نے سوچا کہ میشیئر برم کے ساتھ یہ کون سے پہاڑ ہیں؟ ان کی پہچان کرنے کے لیے ہم نے مزید بلندی چڑھنے کا فیصلہ کیا۔15300 فٹ کی بلندی پر پہنچے تو جو منظر ہمارے سامنے آیا اس کے لیے ہم قطعی طور پر تیار نہ تھے۔

ہمارے سامنے سلسلہ کوہ قراقرم اور پاکستان کے بلند ترین پہاڑ ایک قطار کی صورت میں کھڑے تھے۔ میں اتنی دور سے بھی یہ چوٹیاں پہچان سکتا تھا۔ ہمارے سامنے پاکستان اور سلسلہ کوہ قراقرم کا بلند ترین پہاڑچھغوری اپنے پورے وقار اور رعب و دبدبے کے ساتھ کھڑا تھا۔ پہاڑوں کا بادشاہ کہلانے والا یہ پہاڑ 8611 میٹر (28251 فٹ) بلندی کے ساتھ دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے۔ چھغوری Karakoram کے پہلے حرف ’’K‘‘ کے مخفف سے K-2 کہلاتا ہے۔K-2 کے ساتھ ہی بالترتیب براڈ پیک (8047 میٹرK-3)، گیشیئربرم4 (7825میٹر)، گیشیئر برم3 (7952میٹر)، گیشیئر برم 2(8035میٹرK-4)، چوغولیزا (7665میٹر) اور گیشیئر برم1 (8068میٹرK-5) دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ ان کے ساتھ ہی سیہ کانگری اور بالتورو کانگری کی چوٹیاں بھی اپنی موجودگی ظاہر کررہی تھیں۔

ان پہاڑوں کو دیکھنے کے لیے کوہ نورد ایک بھاری رقم خرچ کرکے 10دن کا پیدل سفر کرکے کنکارڈیا جاتے ہیں لیکن ہم جیسے کوہ نوردوں پر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا کہ معمولی رقم خرچ کرکے یہ منظر ہماری آنکھوں میں سما گیا تھا۔ اگرچہ اس منظر کے لیے ہمیں مسلسل اور دشوارچڑھائیاں چڑھنا پڑیں تھیں۔ بلند پہاڑوں کا یہ اس قدر سحر انگیز نظارہ تھا کہ ہم دم بخود رہ گئے۔بھول گئے تھے کہ ہم ایک جھیل کی تلاش میں یہاں آئے تھے۔ مطلع صاف تھا۔ گہرے نیلے آسمان میں برف پوش سفید چوٹیاں اپنے جلوے بکھیر رہی تھیں۔ ہم گھنٹہ بھر یہیں بیٹھے رہے۔ ہم تب اٹھے جب عباس نے آکر یہ خبر سنائی کہ جھیل یہاں سے محض مزید 300 قدم کے فاصلے پر موجود ہے۔

یہ 300 قدم نہیں 300 چٹانیں تھیں جنہیں ہم نے چڑھنا تھا۔ بلند پہاڑوں کو دیکھ کر ہمارے حوصلے بھی بلند ہوگئے تھے۔ یہ 300 قدم کی بلندی اب ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ جلد ہی ہم کسورو جھیل پر اتر چکے تھے۔ اس جھیل سے K-2، براڈ پیک اور میشیئر برم نظر آرہی تھیں۔ دیگر چوٹیاں قریبی پہاڑوں کی اوٹ میں چلی گئیں تھیں۔

کسورو جھیل 15585 فٹ کی بلندی پر واقع ایک الپائن جھیل ہے جو رقبے کے اعتبار سے بھی ایک بڑی جھیل ہے۔ قراقرم کی خشک بلندیوں کے بیچ واقع نیلے پانیوں کی یہ جھیل کم و بیش 1.5کلومیٹر لمبائی اور 800 میٹر چوڑائی کی حامل ہے۔ کسورو گاؤں سے اس کا فاصلہ تقریباً 16 کلومیٹرہے۔ یہ ایک دشوار گزار پیدل سفر ہے جو مسلسل چڑھائی مائل ہے۔ کسورو گاؤں سے جھیل تک ہمارا یہ سفر ساڑھے 5 گھنٹے میں طے ہوا۔

کسورو جھیل پر 3گھنٹے قیام کے بعد ہم واپس کسورو گاؤں اور یہاں سے موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہوئے واپس سکردو پہنچ گئے۔ یہ سفر ہماری کتاب زندگی کے باب کوہ نوردی کا خوبصورت ترین صفحہ ہے۔ بلا شبہ یہ دن ہماری زندگی کا ایک یادگار دن تھا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ

(سید ذیشان اقبال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی