• 29 اپریل, 2024

سو سال قبل کا الفضل

20؍نومبر 1922ء دوشنبہ (سوموار) مطابق
29 ربیع الاول1341 ہجری

صفحہ اول پر مکرم عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال کی جانب سے زیرِ عنوان ’’جرمنی میں مسجد احمدیہ‘‘ درج ذیل اعلان شائع ہوا ہے جو جرمنی میں مسجد کی تعمیر سے متعلق ہے۔

’’بہت عرصہ سے جرمنی میں مسجد احمدیہ کے لیے خرید زمین و دیگر انتظام تعمیر کی کوشش کی جا رہی تھی۔اب ستمبر گزشتہ سے مولوی مبارک علی صاحب اس کام کے لیے وہاں تشریف لے گئے ہیں اور ان کا خط آیا ہے کہ بفضلہ تعالیٰ 2،ایکڑ زمین خریدنے کا انتظام کر لیا ہے۔ایکسچینج کی وجہ سے اس وقت خرید زمین اور طیاری مسجد کے لیے کُل خرچ کا ندازہ بیس ہزار روپیہ تک ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کا منشاء مبارک ہے کہ بجائے جماعت میں عام تحریک کرنے کے چند دوست بہت جلد اس رقم کو پورا کر دیں تاکہ ایکسچینج کا فائدہ حاصل ہو سکے۔ یہ چندہ مسجد احمدیہ جرمنی کے نام پر 15؍ دسمبر1922ء تک جمع ہونا چاہئے۔‘‘

2؍فروری 1923ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس مسجد کی تعمیر کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا ’’میرا یہ منشاء ہے کہ جرمنی میں مسجد عورتوں کے چندہ سے بنے کیونکہ یورپ میں لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہم میں عورت جانور کی طرح سمجھی جاتی ہے۔جب یورپ کو یہ معلوم ہو گا کہ اس وقت اس شہر میں جو دنیا کا مرکز بن رہا ہے۔اس میں مسلمان عورتوں نے جرمنی کے نو مسلم بھائیوں کے لیے مسجد تیار کروائی ہے تو یورپ کے لوگ اپنے اس خیال کی وجہ سے جو مسلمان عورتوں کے متعلق ہے کس قدر شرمندہ اور حیران ہوں گے اور جب وہ مسجد کے پاس سے گزریں گے تو ان پر ایک موت طاری ہو گی اور مسجد باآوازِ بلند ہر وقت پکارے گی کہ پادری جھوٹ بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ عورت کی اسلام میں کچھ حیثیت نہیں… پانچ ہزار کی زمین اور 45ہزار عمارت پر خرچ آئے گا… پہلے لندن والی مسجد میں عورتوں کا دس ہزار چندہ تھا…اب عورتیں 50ہزار روپیہ مسجد احمدیہ برلن کے لیے تین ماہ کے اندر دے دیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2فروری 1923ء، الفضل 8؍فروری 1923ء)

خداتعالیٰ کے فضل سے احمدی مستورات نے خلافت کے ایک اشارے پرجس طرح اس تحریک پر لبیک کہا اس نے قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کی یاد کو ایک بار پھر تازہ و زندہ کر دیا۔گو کہ اس موقع پر خواتین کی اپنے امام کے حضور پیش کی گئی قربانیوں کی تفصیلی داستان تاریخِ احمدیت حصہ بن کر قیامت تک محفوظ ہو چکی ہےا ور یہاں اس کے تفصیل ی ذکر کا موقع نہیں ہے لیکن مشتے از خروارے ایک مثال کا ذکر کردینا غیر ضروری نہ ہو گا۔

اس موقع پرجہاں قادیان کی احمدی عورتوں نے تو اپنے قیمتی اموال اور طلائی زیوراپنے آقا کے قدموں میں لا کر رکھ دیئے وہاں خلافت احمدیہ کے عشق میں مخمور بیرون از قادیان احمدی خواتین نے بھی قربانی پیش کرنے میں ذرا دریغ نہ کیا۔چنانچہ اس کا ایک معمولی سا تذکرہ تاریخ میں یوں ملتا ہے کہ ڈاکٹر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی ایڈیٹر روزنامہ ’’اتفاق‘‘ دہلی نے یوں لکھا کہ ’’جمعہ کی نماز جماعت دہلی خاکسار کے دفتر میں پڑھتی ہے جو لبِ سڑک واقعہ ہے۔گزشتہ جمعہ کو خطیب نے حضرت اقدس کا خطبہ جو الفضل میں چھپا ہوا تھا سنایا۔ یہاں سوائے میری اہلیہ کے باقی تمام مرد تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ بعد نماز بیگم سے کہوں گا کہ مسجد کے لیے آپ اپنی پازیب دے دیں کہ اتنے میں دروازہ کی کھٹکھٹاہٹ میرے کان میں آئی اور میں گھر میں گیا جہاں وہ مصلیٰ پر بیٹھی خطبہ سن رہی تھیں اور اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔کچھ بات نہیں کی اور اپنے گلے سے پنج لڑا طلائی ہار جو غالباً تین سو روپے کا تھا مجھے دے دیا جو میں نے اسی وقت خطیب صاحب کو لاکر دے دیا۔‘‘

(الفضل 26؍فروری 1923ء صفحہ9)

مشیتِ ایزدی نہ تھی کہ اس زمانہ میں برلن میں مسجد کی تعمیر ہو۔ لہٰذا بعض رکاوٹوں کی وجہ سے اس کی تعمیر نہ ہو سکی اور مستورات کے مذکورہ بالا چندہ سے لندن کی مسجد تعمیر ہوئی۔ یوں بفضلہ تعالیٰ جو کام مسجد برلن کی تحریک کے ساتھ شروع ہو اتھا وہ مسجد لندن کی شکل میں اختتام پذیر ہوا جو سارے یورپ و انگلستان میں جماعتِ احمدیہ کی پہلی مسجد تھی اور مسجد فضل لندن کے نام سے موسوم ہے۔

صفحہ نمبر2 پر حضرت سید میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی جانب سے ہفتہ وار رپورٹ لنگر خانہ شائع ہوئی ہے۔ جس میں آپؓ نے دورانِ ہفتہ لنگر خانہ تشریف لانے والے مہمانان کے اسماء اور لنگر خانہ کے اخراجات کا ذکر کیا ہے۔اسی طرح اس صفحہ پر ہفتہ واررپورٹ صیغہ محاسب و بیت المال بھی شائع ہوئی ہے۔

ازصفحہ نمبر3تا13 حضرت مصلح موعودؓ کا ایک مفصل مکتوب شائع ہوا ہے۔ حضورؓ کا یہ مکتوب دراصل مولوی محمد علی صاحب کی ایک چٹھی کا جواب ہے۔

اخبار الفضل اس مکتوب کے بارہ میں لکھتاہے کہ ’’یہ مضمون حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے 6؍نومبر کو تحریر فرمانا شروع کیا تھا جودوسری مصروفیتوں کی وجہ سے 14تاریخ کو مکمل ہوا۔ اس چند دن کی تعویق کی بناء پر ’’پیغام‘‘ نے اپنے 12؍نومبر کے پرچہ میں ’’یاددہانی‘‘ کے عنوان سے خاص حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے اس رنگ میں جواب کا مطالبہ کیا ہے کہ گویا مولوی محمد علی صاحب کی کھلی چٹھی ایسا وزنی پتھر ہے جس کا ہلانا ناممکن ہے۔ لیکن یہ جواب جو شائع ہو رہا ہے اس سے نہ صرف ’’پیغام‘‘ کو بلکہ خود مولوی محمد علی صاحب کو بھی پتہ لگ جائے گا کہ ان کا پھینکا ہوا پتھر کس طرح ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اڑ گیا ہے۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ کا یہ مکتوب آنحضرتﷺ کے مقامِ خاتمیت کے متعلق جماعتِ احمدیہ پر کئے گئے اعتراضات کا مبسوط جواب ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے مکتوب میں مولوی صاحب کے اعتراضات کا بالترتیب جواب تحریر فرمایا ہے۔

مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19221120.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی