• 1 مئی, 2024

ہم کہ ٹھہرے اجنبی

ہم نے پلکوں سے ہر خارِ رہ کو چُنا
زخم کھائے ، مگر مسکراتے رہے
خونِ دل میں ڈبوئی ہیں خود انگلیاں
گیت ہم نے وفاؤں کے ہر پل لکھے

کیوں ملامت کے ، ہر ہاتھ میں سنگ ہیں؟
پیرہن پیار کے سب لہو رنگ ہیں
آشنا ،اب تو ٹھہرے ہیں سب اجنبی
آج اہلِ وفا کے یہی ڈھنگ ہیں؟

سوچتے ہیں اندھیرے نگر میں یہاں
ہے بصارت سے محروم سارا جہاں
راہ تاریک ہے ایک جگنو نہیں
روشنی پیار کی ہو گئی بے نشاں

اپنے حصے کے ہم ہی جلائیں دئیے
روشنی گرچہ مدھم ہے پر غم نہیں
ظلمتِ شب کا جو چاک سینہ کرے
اُس اجالے کا ہم کو ہے عین الیقیں

(انور ندیم علوی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 دسمبر 2019