• 20 اپریل, 2024

آنحضرت ﷺ کی بلند شان اور مقام ارفع کا ذکر

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
تشھدو تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا

{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ}

(آل عمران:32)

{اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}

(الاحزاب:57)

یہ پہلی آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ تو کہدے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اور دوسری آیت کا ترجمہ ہے کہ یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔

یہ دو آیات ایک آل عمران کی ہے اور دوسری سورۃ احزاب کی۔ جیسے کہ ترجمے سے آپ نے سن لیا آل عمران کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کو آنحضرتﷺ کے ذریعے سے یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ اب تمام گزشتہ اور آئندہ نمونے ختم ہو گئے اب اگر کوئی پیروی کے قابل نمونہ ہے تو آنحضرتﷺ کا نمونہ ہے اور یہ پیروی کے نمونے کس طرح قائم ہوں گے۔ اس طرح قائم ہوں گے جس طرح ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی پسند اور ناپسند کو اپنی پسند اور ناپسند بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس طرح تم آنحضرتﷺ کی پیروی کرو گے تو پھر ہی مَیں تمہارے گناہ بھی بخشوں گا اور تمہارے سے محبت کا سلوک بھی کروں گا۔ تمہاری دینی اور دنیاوی بھلائیوں کے سامان بھی پیدا کروں گا۔ تو گویا اب اللہ تعالیٰ تک پہنچے کے تمام راستے بند ہو گئے اور اگر کوئی راستہ کھلا ہے تو آنحضرتﷺ کی کامل اتباع کرکے آپ کے پیچھے چل کر ہی خداتعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے، یہی ایک راستہ ہے جو کھلاہے۔ پھر اس اسوئہ حسنہ کی پیروی کرنے کے لئے اور آپﷺ کی محبت دل میں بڑھانے کا طریق جو اگلی آیت مَیں نے تلاوت کی ہے سورۃ احزاب کی اُس میں بتایاہے اور وہ یہ ہے کہ یہ نبی کوئی معمولی نبی نہیں ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا سب سے پیارا وجود ہے۔ زمین و آسمان اس کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی اسی کام پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ کے اس پیارے نبی پر رحمت بھیجتے رہیں اور دعائیں کرتے رہیں۔ پس اے لوگو جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو تمہارا بھی یہ کام ہے کہ اس نبی سے محبت پیدا کرو۔ اس پر درود بھیجو اور بہت زیادہ سلامتی بھیجو۔ جب تم اس طرح اس نبی پر درود و سلام بھیجو گے تو تم پر اس کی پیروی کے راستے بھی کھلتے چلے جائیں گے اور جیسے جیسے یہ راستے کھلیں گے جس طرح تم اس کی پیروی کرتے چلے جاؤ گے اتنی ہی زیادہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والے بھی بنتے چلے جاؤ گے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ: ’’قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں۔ اول اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ (آل عمران:32)۔ دوم۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب:57)۔ اور تیسرا موہبت الٰہی‘‘۔ (حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پرایک خط صفحہ 23)۔ یعنی دعائیں قبول کروانا چاہتے ہو تو جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس کی پیروی کرو، آپ ؐ سے محبت کرو اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرو۔ پھر رسول اللہﷺ پر درود بھیجو تاکہ اس محبت میں خود بھی بڑھو اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت بھی حاصل کرو۔ اور پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو، اس سے بخشش طلب کرو، اس کی عبادت کرو۔، سب غیراللہ کو چھوڑ دو۔ تو یہ تین چیزیں ہیں اگر پیدا ہو جائیں گی تو سمجھو کہ تم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے۔ اور دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ: ’’ان کو کہہ دو اس بارہ میں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الٰہی بن جاؤ اور تمہارے گناہ بخش دئیے جائیں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو‘‘۔

فرمایا کہ: ’’…… میری پیروی ایک ایسی شئے ہے جو رحمت الٰہی سے ناامید ہونے نہیں دیتی۔ گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے‘‘۔ یعنی جو حقیقی پیروی کرنے والے ہوں وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔ ان میں ایک یقین کی کیفیت ہوتی ہے کہ اس پہلو سے ہم نے یقیناً اللہ تعالیٰ کا قرب پا لینا ہے اور اس کی محبت حاصل کرلینی ہے تو فرمایا کہ میری پیروی گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے ’’اور تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اسی صورت میں سچا اور صحیح ثابت ہو گا کہ تم میری پیروی کرو‘‘۔

پھر فرمایا کہ ’’اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرز ریاضت اور مشقت اور جپ تپ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قرب الٰہی کا حقدار نہیں بن سکتا۔ انوار و برکات الٰہیہ کسی پر نازل نہیں ہو سکتیں جب تک وہ رسول اللہﷺ کی اطاعت میں کھویا نہ جاوے۔ اور جو شخص آنحضرتﷺ کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے‘‘ یعنی یہ پیروی اور محبت مومن بندے کو اتنی زیادہ ہونی چاہئے کہ اس کوباقی سب چیزوں سے بے نیاز کر دے، کسی غیر کے آگے جھکنے والے نہ ہوں۔ جیسے بھی حالات ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے آستانے پر ہی جھکنے والے ہوں۔ اب یہی شان ہے جو ایک احمدی کی ہونی چاہئے۔ فرمایا ’’کہ آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے اس کو وہ نور ایمان، محبت اور عشق دیا جاتا ہے جو غیر اللہ سے رہائی دلا دیتا ہے اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کا موجب ہوتا ہے۔ اسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے اور نفسانی جوش و جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے نکال دیا جاتاہے۔ اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اَنَاالْحَاشِرُالَّذِیْ یُحْشَرُالنَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ۔ یعنی مَیں مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں‘‘۔

(الحکم جلد5 نمبر3 مورخہ 24؍ جنوری 1901 صفحہ2)

(خطبہ جمعہ 10؍ دسمبر 2004ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 دسمبر 2020