• 23 جولائی, 2025

تربیت اولاد

تربیت اولاد
قرآنی مثالوں کی روشنی میں

دور حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ کی وجہ سے سوشل میڈیا رابطے تو بہت بڑھ گئے ہیں لیکن حقیقی رشتوں میں دوریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات نے والدین اور اولاد کے پیار و محبت کےتعلقات میں ایک خلیج حائل کردی ہے۔ جس کے نتیجے میں جہاں والدین اپنے بچوں کی تربیت میں عدم توجہی برت رہے ہیں وہاں بچے اپنے والدین کی عدم اطاعت اورنافرمانی کا رویہ اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ یوں باہمی قرب تعلق کا فقدان ہوتا جارہا ہے جو تربیت اولاد کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اور اگر کوئی قوم دیر تک زندہ رہنا چاہتی ہے تو وہ آئندہ نسل کی اچھی تربیت کے نتیجہ میں ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تربیت اولاد کے اصولوں اور والدین اور اولاد کے باہمی قرب تعلق کوبڑی شاندار مثالوں سے بیان فرمایا ہے جو تمام والدین کے لئے مشعل راہ ہے جن سے وہ اپنی اولاد کے ساتھ ایسا تعلق پیدا کرسکتے ہیں، جس کے نتیجہ میں ان کی اولاد تابع وفرمانبردار بن سکتی ہے اور انکی احسن رنگ میں تربیت ہوسکتی ہے۔

ذہنی و قلبی ہم آہنگی ہونا

قرآن کریم میں سب سے پہلی مثال جو بیان ہوئی ہے وہ تعمیر بیت اللہ کے وقت کی ہے جب ایک ضعیف العمرباپ حضرت ابراہیمؑ اپنے جواں سال بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ کی بنیادیں استوار کر رہے تھے۔ باپ بیٹے کو توحید پر تادم آخرقائم رہنے کی عملی نصیحت کر رہا تھا اور دونوں میں ذہنی اور قلبی ہم آہنگی کا یہ عالم تھا کہ یک زبان ہو کر ایک ہی الفاظ پر مشتمل دعائیں کررہے تھے:

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

(البقرة 128-129)

اے ہمارے ربّ! ہمارى طرف سے قبول کر لے ىقىنا تو ہى بہت سننے والا (اور) دائمى علم رکھنے والا ہے ۔اور اے ہمارے ربّ! ہمىں اپنے دو فرمانبردار بندے بنادے اور ہمارى ذرىّت مىں سے بھى اپنى اىک فرمانبردار اُمّت (پىدا کردے) اور ہمىں اپنى عبادتوں اور قربانىوں کے طرىق سکھا اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جُھک جا ىقىناً تُو ہى بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

باپ بیٹے کی یہ قرآنی مثال ہمیں سبق دیتی ہے کہ اگر والدین اپنی اولاد کے ساتھ قرب و محبت اورشفقت کا تعلق رکھیں گے تو ذہنی و قلبی ہم آہنگی پیدا ہوجائے گی اور ہر کام خواہ چھوٹا ہو یابڑا،اس میں اولاد اپنے والدین کے ساتھ خوشی اور فرمانبرداری سے شریک ہوسکےگی۔

خودداری پیدا کرنا

دوسری قرآنی مثال بھی انہی دونوں بابرکت وجودوں کی ہے۔ اس عظیم باپ کا اپنے سعادتمند بیٹے سے محبت و قرب کا ایسا تعلق تھا کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھا تو بلا تأمل حضرت اسماعیلؑ سے فرمایا: یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی (الصافات 103) کہ اے مىرے پىارے بىٹے! ىقىناً مىں سوتے مىں دىکھا کرتا ہوں کہ مىں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس غور کر تىرى کىا رائے ہے؟

مذکورہ بالا آیت میں یہ بات نہایت اہم اورقابل غور ہے کہ باپ نے اپنا حکم بیٹے پرتھوپا نہیں کہ میں نے خواب دیکھا ہے تو بس اب ذبح ہونے کے لیے لیٹ جاؤ۔بلکہ نہایت شفقت و محبت سے اپنا خواب بیٹے سے بیان فرما کر اس کی مرضی بھی جاننا چاہی۔ اس کو حق خود ارادیت دیا تا کہ اس میں قوت فیصلہ اورخودداری پیدا ہو اور اس الہٰی حکم کی تعمیل برضا و رغبت ہو۔

چنانچہ بیٹے نے اپنے باپ کی بات کا پاس رکھتے ہوئے اور کمال فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتے ہوئے اپنے پدرمحترم کی خواب کو پورا کرنے کے لیے اپنی گردن کو قربانی کے لیے پیش کرنےکا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: يٓا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِيْ إِنْ شَآءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (الصافات 103) کہ اے مىرے باپ! وہى کر جو تجھے حکم دىا جاتا ہے ىقىناً اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنے والوں مىں سے پائے گا۔

باپ بیٹے کی محبت و اطاعت کی اس مثال کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے قرآن کریم میں محفوظ کر دیاتا والدین اور اولاد کے لیے ایک نمونہ ہو۔ اسی محبت واطاعت و قربانی کے جذبہ کی یاد میں عید الاضحی منائی جاتی ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’تربیت کے بغیر دنیا میں نہ اولاد ترقی کر سکتی ہے اور نہ قوم ترقی کر سکتی ہے۔ قرآن کریم نے بھی تربیت کے اصول نہایت عمدگی سے بیان کئے ہیں۔ چنا نچہ سب سے پہلے اولادکی تربیت کا سوال آتا ہے اولاد کی تربیت کے متعلق قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کا واقعہ آتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں۔ اِس پر انہوں نے اپنے بیٹے کو حکم نہیں دیا کہ مَیں نے خواب میں یوں دیکھا ہے اِس لئے تم ذبح ہونے کے لئے تیار ہو جا ؤ بلکہ آپ نے اپنے بیٹے کو بُلایا اور کہا اے میرے بیٹے! مَیں نے رات کو خواب میں دیکھا ہے کہ مَیں تم کو ذبح کر رہا ہوں۔ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی اَب تُو سوچ کر مجھے اپنی رائے دے۔ یہ نہیں کہا کہ مجھے خواب آئی ہے تُو لیٹ جا، تاکہ مَیں تجھے ذبح کروں بلکہ فرمایا کہ تو مجھے اپنی رائے دے۔ اِس سے معلوم ہو تا ہے کہ اولاد کے اندر خود داری کی رُوح پید ا کرنا قرآنی اصول ہے۔ جو لوگ اپنی اولاد کے اندر خودداری کی رُوح پیدا نہیں کرتے وہ اپنی اولاد کو ہی نہیں بلکہ قوم کو بھی ترقی سے روک دیتے ہیں کیونکہ قوم کی آئندہ ترقی اولاد کے اندر خودداری کی رُوح قائم رکھنے پر منحصر ہے۔‘‘

(تقریر فرمودہ 28دسمبر 1958ء برموقع جلسہ سالانہ ربوہ ،سیر روحانی نمبر12 صفحہ789)

قرب و فکرمندی کا تعلق

تیسری قرآنی مثال والدین اور اولاد کے باہمی تعلق کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورة یوسف میں بیان فرمائی ہے۔ جب بیٹے حضرت یوسفؑ نے ایک عظیم خواب دیکھا تو اسے نہ اپنی ماں سے بیان کیا اور نہ ہی اپنے بھائیوں سے۔ اس خواب کا ذکر کیا تو صرف اپنے بزرگ والد حضرت یعقوبؑ سے۔ جس کی وجہ ان کا باہمی قرب و محبت کا پختہ تعلق تھا۔ چنانچہ حضرت یوسفؑ نے فرمایا:

يٓا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِيْ سَاجِدِينَ

(يوسف 5)

اے مىرےوالد محترم! ىقىناً مىں نے (رؤىا مىں) گىارہ ستارے اور سورج اور چاند دىکھے ہىں (اور) مىں نے انہىں اپنے لئے سجدہ رىز دىکھا۔

حضرت یعقوبؑ نےاپنے بیٹے کی یہ خواب سنی تو خداداد بصیرت وفراست کی بناء پر اس کی تعبیرپا کر اپنے محبوب بیٹے سے پیار کے تعلق کی وجہ سے فکر مندی کی یہ کیفیت ہوئی کہ فرمایا : يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلٓى إِخْوَتِكَ فَيَكِيْدُوْا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (يوسف 6)

اے مىرے پىارے بىٹے! اپنى رؤىا اپنے بھائىوں کے سامنے بىان نہ کرنا ورنہ وہ تىرے خلاف کوئى چال چلىں گے ىقىناً شىطان انسان کا کھلاکھلا دشمن ہے۔

یہ قرآنی مثال اس طرف خاص توجہ دلاتی ہے کہ والدین کا اولاد سےقرب و فکرمندی کا مضبوط تعلق ہونا چاہیے۔ جس کا آج کے دور میں بہت فقدان ہے۔ اگر والدین و اولاد میں ایسا تعلق قائم ہو تو تبھی اولاد اپنی تمام باتیں والدین سے شیئر کرسکے گی اور والدین انہیں آنے والے خطرات سے آگاہ کرکے انہیں محفوظ رکھ سکیں گے۔

مل جل کر مسائل کا حل ڈھونڈنا اور صائب رائے کو ماننا

چوتھی مثال جو قرآن کریم کی سورةالانبیاء آیات 79-80 میں بیان ہوئی ہے۔ اس کی منظر کشی کچھ یوں ہے کہ عدالت میں ایک معمر باپ حضرت داؤدؑ اور ایک جواں سال بیٹا حضرت سلیمانؑ ایک قضیہ میں عدل وانصاف کے قیام کے لیے مصروف عمل تھے۔ بیٹا (حضرت سلیمانؑ) معاملہ کی تہہ تک پہنچ گیا اور نہایت احترام اور ادب سے اپنی رائے کو اپنے والد محترم کے گوش گزار کیا۔ جس پر باپ (حضرت داؤدؑ) جو بزرگی و شرف میں بیٹے سے بہرحال اولیٰ تھے، نے اپنے بیٹے کے صائب فیصلے کو بلاجھجھک قبول فرمالیا۔ بحث و تکرار ہوئی نہ کوئی اصرار۔ باپ نے اپنے بیٹے کی درست بات کو مان کر عدل و انصاف کو قائم کیا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن کریم کی آیات میں یوں بیان ہے:

وَدَاوٗدَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ

(الأنبياء:79)

اور داؤد اور سلىمان (کا بھى ذکر کر) جب وہ دونوں اىک کھىت کے متعلق فىصلہ کر رہے تھے جبکہ اس مىں لوگوں کى بھىڑ بکرىاں رات کو چر گئى تھىں اور ہم ان کے فىصلے کى نگرانى کر رہے تھے۔

فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا

(الأنبياء:80)

پس ہم نے سلىمان کو وہ بات سمجھا دى اور ہر اىک کو ہم نے حکمت اور علم عطا کئے ۔

پس یہ محبت وقربت کا تعلق ہی تھا جس نے باپ کو بھی بیٹے کی درست بات منوادی۔اس مثال سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ مل کر مسائل کے حل تلاش کرنے چاہئیں اور اپنی اولاد کی درست رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ اور اولاد کو بھی اپنی صائب رائے احترام اور ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے والدین کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔اگر کسی معاملہ میں والدین کو درست بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہو تو ادبکو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ضرور توجہ دلادی جائے جیسے حضرت ابراہیمؑ نے بھی اپنے والدمحترم کوتوجہ دلائی:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

(الانعام:75)

اور (ىاد کر) جب ابراہىم نے اپنے باپ آزر سے کہا کىا تو بتوں کو بطور معبود پکڑ بىٹھا ہے ىقىناً مىں تجھے اور تىرى قوم کو کھلى کھلى گمراہى مىں پاتا ہوں۔

اس قرآنی مثال سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ انا،ہٹ دھرمی،ضد وغیرہ جیسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ ان سے بچنا ہی باہمی قرب کے تعلق میں مضبوطی کا باعث ہوتا ہے۔اس لیے والدین اور اولاد دونوں کو ہی ان مذعومہ باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اعتماد کا تعلق

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صرف باپ بیٹے کے باہمی قرب کے تعلق کا ہی ذکر نہیں فرمایا بلکہ ماں اور بیٹی کے قربت و اعتماد اور محبت و اطاعت کےتعلق کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ پانچویں مثال سورةالقصص آیت8 تا13 میں مفصل بیان ہوئی ہے۔

جب فرعون بنی اسرائیل پر ظلم کرتے ہوئے ان کے بیٹوں کو قتل کروادیتا تھاتاکہ کوئی اس کی حکومت کے زوال کا باعث نہ بنے۔ تو حضرت موسیٰؑ کی پیدائش پر ان کی والدہ نے وحی الہیٰ کے تحت اپنے بیٹے کو ایک صندوق میں ڈال کر سمندر میں ڈال دیااور اپنی بیٹی پر اعتماد کرتے ہوئے کہا:

قُصِّيهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

(القصص:12)

اس کے پىچھے پىچھے جا پس وہ دُور سے اُسے دىکھتى رہى اور انہىں کچھ پتہ نہ تھا ۔

پس اس بیٹی نے اپنی والدہ کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے اپنی اس ذمہ داری کو خوب نبھایا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ (القصص:13)

اور پہلے ہى سے ہم نے اُس (ىعنى موسى) پر دودھ پلانے والىاں حرام کر دى تھىں پس اُس (کى بہن) نے کہا کہ کىا مىں تمہىں اىسے گھر والوں کا پتہ دوں جو تمہارے لئے اس کى پرورش کر سکىں اور وہ اس کے خىرخواہ ہوں۔

پس حضرت موسیٰؑ کی بہن نے اپنی ذمہ داری خوب نبھائی اور یوں ان کی وجہ سے حضرت موسیٰ ؑدوبارہ اپنی والدہ کے پاس لوٹ آئے:

فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

(القصص:14)

پس ہم نے اُسے اس کى ماں کى طرف لَوٹا دىا تاکہ اس کى آنکھىں ٹھنڈى ہو جائىں اور وہ غم نہ کرے اور تاکہ وہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لىکن اُن مىں سے اکثر نہىں جانتے تھے۔

نصیحت

قرآن کریم میں والدین اور اولاد کے باہمی تعلق کے قیام کےلیے نصیحت کرنے کو بھی ایک ذریعہ بیان کیا ہے۔ جیساکہ قرآن کریم میں حضرت لقمانؑ کا اپنے بیٹے کو کی گئی دس نصائح کاسورة لقمان آیات14تا20 میں ذکر ہے۔ چنانچہ آپؑ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (1)شرک سے مجتنب رہو۔ (2)والدین سے حسن سلوک کرو سوائے حکم شرک کے ان کے سب حکم مانو۔ (3)نماز قائم رکھو۔ (4)علم الٰہی پر ایمان رکھو کہ وہ تمہاری ہر حرکت سے واقف ہے۔ (5)بھلی بات کا حکم دو۔ (6)بری باتوں سے منع کرتے رہو ۔ (7)لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آؤ۔ (8)زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔ (9)ہر ایک معاملہ میں میانہ روی اختیار کرو۔ (10)اپنی آواز کو دھیما رکھو۔

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے مندرجہ بالا دس نصائح ذکر کر کے پھر فرمایا کہ
’’اس میں دوسرا حکم والدین کے ساتھ سلوک کرنے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت ہی تاکیدی ہے اور شرک سے اجتناب کے بعد سب سے زیادہ ضروری حکم یہی ہے۔اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اس وصیت نامہ میں اس حکم کو خاص اپنی طرف منسوب کیا ہے اور اس کے دلائل بیان کیے اور دوسرے احکام کی نسبت اس کی زیادہ تفصیل کی ہے۔چونکہ یہ وصیت نامہ حضرت لقمان کا صرف اپنے بیٹے کے لیے تھا اور بیٹا ہی اس وقت مخاطب تھا اس واسطے ممکن ہے کہ حضرت لقمان نے ان حقوق کا ذکر چھوڑ دیا ہو جو خود انہی کے متعلق تھے اور پسند نہ کیا ہو کہ اپنے بیٹے کو یہ کہیں کہ تو میری ایسی اطاعت کر اور ایسی خدمت کر لیکن اللہ تعالیٰ نے جب یہ وصیت تمام دنیا کی ہدایت کے واسطے اپنی پاک کتاب میں درج فرمائی تو یہ ضروری حکم بھی اس کے اندر درج فرمایا۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ363)

قرآن کریم میں جہاں والدین کو اپنی اولاد کو بطور ناصح نصیحت کرنے کی طرف توجہ دلائی وہاں بطور منصوح اولاد کو نصیحت پر غور کرکے اس پر عمل کرنے کو مفید بیان کیا ہےچنانچہ فرمایا:

أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى

(عبس:5)

ىا نصىحت پر غور کرتا تو نصىحت اُسے فائدہ پہنچاتى۔

پس والدین کو اپنی اولاد کو نصیحت کرتے رہنا چاہیے اور اولاد کو اپنے والدین کی نصائح پر غور کرنا چاہیے کیونکہ والدین اولاد کے فائدہ کےلیے ہی نصیحت کرتے ہیں اور نصیحت ہمیشہ فائدہ مند ہی ہوتی ہے۔

تربیت اولاد اور دعا

تربیت اولاد میں سب سے اہم دعا ہے جس کے بغیر تربیت ممکن ہی نہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ عطا فرمائے۔ حضرت ابراہیمؑ اپنی اولاد کے لیے یہ دعا فرمایا کرتے تھے:

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

(ابراھیم:41)

اے مىرے ربّ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور مىرى نسلوں کو بھى اے ہمارے ربّ! اور مىرى دعا قبول کر۔

اور پھر اولاد کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے والدین کے لیے بھی دعا فرمایا کرتے تھے:

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ

(إِبراهيم:42)

اے ہمارے ربّ! مجھے بخشش دے اور مىرے والدىن کو بھى اور مومنوں کو بھى جس دن حساب برپا ہوگا ۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرماں بردار بنانے کی سعی اور فکر کریں ۔ نہ کبھی ان کے لئے دعاکرتے ہیں اور نہ مراتبِ تربیت کو مدنظر رکھتے ہیں ۔میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بُری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتدا ء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہہ نہیں کرتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہو تے ہیں ۔۔۔۔ لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگر نہ اس لیے کہ وہ خادم ِدین ہو بلکہ اس لئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا ۔نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے۔یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا۔ جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیا ہوسکتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان:75) یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما وے اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق وفجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عباد الرحمٰن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں۔ اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اولاد اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام ہی ہو گا ۔اس سے گویا متقی ہو نے کی بھی دعا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ560۔563)

پس ان قرآنی مثالوں کی روشنی میں تربیت اولاد کی خاطر ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنی اولاد کے لیے خصوصی دعا کریں اور ان کے ساتھ قربت کا تعلق رکھیں جو آج کے دور میں ازبس ضروری ہے۔ یہ پیار و محبت اور اعتماد کا تعلق ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ اولاد اپنے والدین کی ہرکام میں اطاعت کریں اور اپنے خواب و خیالات کا بلا جھجک اظہار کر سکیں۔والدین جہاں نصیحت کرنا مناسب سمجھیں تووہاں نصیحت کریں۔ لیکن حضرت لقمانؑ کی طرح جیسے انہوں نے اپنے بیٹے کو حکمت، پیار اور محبت کے ساتھ نصائح کیں جن کا ذکر قرآن کریم کی سورہ لقمان میں موجود ہے۔

اولاد کو بھی چاہیے کہ وہ کامل اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے والدین کی نصیحت پرعمل کریں۔ اور اگر کہیں ایسا محسوس ہو کہ والدین کی کسی بات کی وجہ سے کوئی نقصان کا اندیشہ ہو تو احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انہیں مناسب طریق پر بتادیا جائے لیکن والدین کو اُف تک نہ کہاجائے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کی تعلیمات اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشادات پر عمل کرنے اوران کی روشنی میں اولاد کی تربیت احسن رنگ میں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 دسمبر 2020