ایک بہادر لڑکی کی داستان
مکرم عبدالرحمٰن صاحب دہلوی،حضرت ڈاکٹر عبدالرحمٰن دہلویؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے فرزند تھے۔ آپ قادیان سے مولوی فاضل کے ڈپلومہ ہولڈر تھے۔ اُن کے بیٹے محترم فضل الرحمٰن عامر حال کینیڈا نے اپنے والدین کی زندگی پر ایک کتاب بعنوان ’’آئی جو اُن کی یاد‘‘ تحریر کی ہے جس میں انہوں نے اپنی والدہ محترمہ نسیمہ رحمان دہلوی (مرحومہ) کے حوالے سے کچھ ایمان افروز واقعات اور باتیں تحریر کی ہیں۔ گو کہ خاکسار محترمہ موصوفہ سے ربوہ کے زمانہ سے ہی واقف تھیں۔ لیکن ناروے میں بھی ان کے ساتھ ملاقات ہوئی جب وہ اپنی چھوٹی ہمشیرہ محترمہ اقبال خاتون مرحومہ (والدہ عبدالرحمٰن محمود) کے پاس ناروے تشریف لائیں۔ مذکورہ کتاب پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ کم ازکم ان کی بیعت کا واقعہ تحریر کر کے افادہ عام کے لئے ضرور بھیجنا چاہئے۔ تاکہ ممبرات لجنہ اماء اللہ کو معلوم ہو سکے کہ حق اور سچائی قبول کرنے کے لئے ابتدائی خواتین نے کتنی جرات اور بہادری کے نمونے دکھائے ہیں۔ خاکسار نے کتاب کے مصنّف سے اپنی خواہش کا اظہار کر کے اس کی اجازت لی ہے۔ اب یہ ایمان افروز داستان جو ایک چودہ سالہ لڑکی کی ہے ان کی زبان میں حاضر ہے۔
محترمہ نسیمہ بیگم کے خاندان کا مختصر ذکر ان کی اپنی زبانی
موصوفہ فرماتی ہیں ’’میرے والد صاحب کے جدِّ امجد اٹاوہ (یوپی) کے رہنے والے تھے جو ترکِ وطن کر کے اناؤ (یوپی) میں آباد ہوگئے تھے۔ یہ علاقہ لکھنؤ اور کانپور کے درمیان پڑتا ہے۔ ہمارے جدِّ امجد راجہ داہر کے خاندان سے تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ پتہ نہیں کس مناسبت سے خانزادے کہلاتے تھے۔ ہمارے محلّے کا نام بھی خانزادہ ہے اور آج تک ڈاک وغیرہ اسی ایڈریس پر جاتی ہے۔ہمارے جدِّ امجد وہاں کے رئیس تھے اور یہ لوگ حسب ونسب میں باقی ساری آبادی سے اعلیٰ سمجھے جاتے تھے اور کافی اثر ورسوخ کے مالک تھے۔ چونکہ ہندو مسلم دونوں آبادیاں ملی جلی تھیں اس وجہ سے جب ہندو ہمارے محلّہ سے بارات یا کسی اور موقعہ پر بینڈ باجے بجاتے ہوئے نکلتے اور ہماری مسجد کے سامنے سے گزرتے تو احتراماً باجا بجانا بند کر دیتے تھے۔
میری والدہ صاحبہ پٹنہ شہرِ، بہار کی رہنے والی تھیں اور وہابی عقیدہ رکھتی تھیں۔ نماز روزہ کی پابند، مخیّر و نیک خاتون تھیں اور وہابی عقیدہ رکھتی تھیں۔ گو کہ میرا گھرانہ غیر احمدی تھا مگر والدہ صاحبہ کی وجہ سے ہمارے گھر میں کوئی شرک و بدعت نہیں تھی۔
احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے آشنائی
ہمارے خاندان میں احمدیت میرے دو پھوپھی ذاد بھائیوں کی وجہ سے آئی ہمارے اور ان کے گھر کے درمیان اندر سے راستہ بھی تھا اس لئے میل جول میں آسانی تھی۔ ان کے گھر میں الفضل، بدر، مصباح اور احمدیت کی دیگر کتب وغیرہ ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ مولوی صاحبان کا آنا جانا بھی تھا۔ میرے پھوپھی زادبھائی تاجر پیشہ اچھے متموّل انسان تھے۔ لکھنؤ سے جو بھی مبلغ آتے تھے وہ انہیں ضرور اپنے یہاں اناؤ میں بلواتے اور جلسہ کرواتے۔ مجھے یاد نہیں کہ کب مجھے پہلی مرتبہ احمدیت کا علم ہوا۔ الغرض بچپن سے احمدیت کی تعلیم دل میں راسخ ہوتی گئی اور لاشعوری طور پر یہ تناور درخت بن گیا۔
خلافت ِ ثانیہ کی سلور جوبلی
اُس وقت میں چودہ سال کی تھی۔ اخبار الفضل میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی سلور جوبلی کے بارہ میں مضامین شائع ہونے لگے۔ جوں جوں جلسہ قریب آتا گیا جوبلی کی دھوم مچ گئی۔ جوبلی کے بارہ میں مضامین پڑھ پڑھ کر شدّت سے میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی قادیان جاؤں اور جوبلی میں شامل ہوں۔ اس بات کا تذکرہ میں نےاپنے پھوپھی زاد بھائی (ممتاز علی خان) سے کیا انہوں نے میرے والد صاحب کے خوف کی وجہ سے مجھے چپ کروادیا۔
میں نے دو دن اور دو راتیں روتے اور دعائیں کرتے گزاریں، مجھے معلوم ہوا کہ لکھنؤ سے جلسہ کے لئے قافلہ جا رہا ہے۔ اکیس دسمبر کی رات کو اپنے پھوپھی زاد بھائی کو پھر کہا کہ مجھے ساتھ لے جائیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے مجھے بیعت کا خط لکھنے کا مشورہ دیا۔ خط تو میں نے لکھ دیا لیکن گھر آکر بہت روئی اور ایک رات اور دودن میں اپنے ارادوں کو مکمل کر لیا۔ اپنی ایک سہیلی کو رازدار بنایا اس کے گھر آئی وہ اپنے بھائی کے ساتھ مجھے لکھنؤ تک چھوڑنے آئی لیکن امرتسر جانے والی ٹرین چھوٹ چکی تھی۔ اس کے بھائی نے مجھے لاہور کی ٹکٹ خرید کر ایک اور ٹرین پر چڑ ھا دیا۔ ہم تینوں میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ قادیان جانے کے لئے لاہور کے رستے نہیں جاتے۔ اس گاڑی میں بھوکے پیاسے، خوف اور جلسہ تک پہنچنے کی بے چینی اور اضطراب میں سفر کا تیسرا دن تھا۔ جب میرے سامنے بیٹھے ایک بزرگ نےمجھے نماز پڑھتے دیکھ کر کہا کہ ’’تمہیں نماز پڑھتے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے تم کہاں جارہی ہو؟‘‘ میں نے جوش سے کہا قادیان جہاں ہمارا جلسہ سالانہ ہو رہا ہے۔ یہ بزرگ ڈاکٹر محمد عبداللہ خان صاحب کوئٹہ والوں کے چھوٹے بھائی رحیم اللہ خان صاحب تھے۔جو کسی وجہ سے لیٹ ہوگئے تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ قدرت نے ان کو میری وجہ سے لیٹ کیا تھا۔ کہنے لگے۔ تمہارے ساتھ کون ہے؟ میں بولی کوئی نہیں۔ انہوں نے پوچھا! اسٹیشن پر کوئی لینے آئے گا؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر سچ سچ اپنی ساری کیفیت اُن کو بتا دی۔ وہ سخت حیرت زدہ ہوئے۔ میری ٹکٹ کے متعلق پوچھا وہ تو لاہور کی نکلی۔ پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ لاہور نہیں جانا امرتسر اترکر بٹالہ اور پھر قادیان جانا ہے۔
حق کی متلاشی قادیان میں
امرتسر اتر کر ان بزرگ نے میرا بھی ٹکٹ لیا۔ الغرض رات کو قادیان پہنچ گئے، میرے محسن بزرگ جہاں خود ٹھہرے تھے مجھے بھی ساتھ ڈاکٹر صاحب کے گھر لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی بیگم اور بیٹیاں بہت خندہ پیشانی سے ملیں۔ صبح ناشتے سے فارغ ہو کر جب سب جلسہ کے لئے نکلے تو ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے مجھے اپنے ہمراہ لیا اور جلسہ گاہ جاکر اسٹیج پر مجھے حضر ت سیّدہ اُمِّ طاہر رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا یہ کہتے ہوئے کہ یہ لڑکی اپنے والدین سے چھپ کر لکھنو سے احمدی ہونے اور جلسہ جوبلی دیکھنے آئی ہے۔
آپا جان رضی اللہ عنہا نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور بہت پیار سے میرے سب حالات پوچھے۔ جلسہ کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ گھر بھیج دیا کیونکہ خود انہوں نے لجنہ اماء اللہ کا جھنڈا لہرانا تھا۔ کچھ دیر بعد آپا جان بھی تشریف لے آئیں۔ میں آپ کے کمرے میں تھی۔ گھر اوپر نیچے مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ آپا جان رضی اللہ عنہا کی طرف جب حضور رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو حضرت آپا جانؓ مرحومہ نے میری ملاقات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ کہتے ہوئے کروائی کہ یہ لڑکی خداوند تعالیٰ نے آپ کو جوبلی کے موقع پر عنایت فرمائی ہے۔ اگلے روز میں نے حضرت مرزا طاہر احمدؒ صاحب جو اس وقت گھر پر موجود تھے سے دو لفافے منگوائے اور دو خط لکھے ایک اپنی سہیلی کو جس نے میری مدد کی تھی اور دوسرا اپنی والدہ کے نام اور دونوں خط پوسٹ کرنے کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب کو دے دیئے۔
جوبلی جلسہ کے بعد دیارِ مسیح میں قیام اور بزرگ ہستیوں سے ملاقات
جلسہ کے بعد دیارِ مسیح میں ہی میرا قیام تھا۔ آپا جان رضی اللہ عنہا نے ہر طرح سے میرا خیال رکھا۔ محترمہ آپا اقبال بیگم جو حضرت آپا جان رضی اللہ عنہا کی سہیلی تھیں مجھ سے کمال محبت سے پیش آتیں۔ پہلے روز محترمہ استانی مریم سے ملایا۔ دوسرے روز حضرت امّاں جان اُمّ الموٴمنین رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئیں۔ بہت سے بزرگ بھی مجھ سے ملنے آئے جن میں حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ، حضرت علّامہ حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوریؓ نیز کانپور کے امیر جماعت محترم سراج الدین صاحب اور بہت سے بزرگ تشریف لائے جنہیں میں جانتی بھی نہ تھی۔ ان سب حضرات نے مجھ سے میرے والد کا پتہ لے کر ان کو مبارک باد کے خطوط لکھے۔ نیز لکھا کہ وہ اپنی بیٹی کو قادیان رہنے دیں تا یہ یہاں دین ِ اسلام سیکھ لے۔
والدین کا ردِّ عمل
ایک ہفتہ کے بعد میری والدہ کا خط آگیا ’’کہ جب تک تمہارا خط نہیں ملا تھا ہم یہاں بہت پریشان تھے ہر جگہ معلوم کیا۔بیٹا! اس طرح بغیر بتائے چپکے سے چلے جانے سے ہماری بہت سبکی ہوئی ہے۔‘‘
لیکن میں بخوبی سمجھتی تھی کہ اس بدنامی کے بدلے احمدیت جیسی نعمت مجھے مل گئی جو ہفت اقلیم بادشاہت سے کسی طور کم نہیں تھی۔ الحمد للّٰہ۔ اس کے بعد میرے والد صاحب مجھے لینے آئے ’’کہ اب میں اسے اپنے گھر لے جاؤں گا تاکہ وہاں لوگوں کو یقین ہو جائے کہ یہ قادیان احمدی ہونے گئی تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم پر میرے والد صاحب کو سارے قادیان کی سیر کروائی گئی اور تمام بزرگانِ دین سے بھی ملاقات کروائی گئی۔ حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ موجد یسّرناالقرآن نے میرے والد صاحب سے قول لیا کہ وہ لڑکی کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دیں گے۔ والد صاحب نے وعدہ کیا اور الحمد للّٰہ اپنا وعدہ نبھایا بھی۔
قادیان سے واپسی کی حسین یادیں
قادیان سے واپسی کے وقت اہلِ قادیان نے مجھے اجتماعی دعاؤں سے رخصت کیا اس حال میں کہ میرے محسنوں کے بھی آنسو رواں تھے اور میرا بھی رو رو کر برا حال تھا۔ بہت سی بہنوں اور بھائیوں نے بیش قیمت تحائف دئے۔ جن میں بعض تحائف تو بہت ہی انمول تھے اور جو میرے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔جیسے حضرت اقدس مسیح ِ موعود علیہ السلام کی ریشِ مبارک کے بال۔ آپؑ کی اور آپ کے خلفائے مبارک کی کتب اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا میز پوش۔
میں اپنی کن کن محسنات اور محسنوں کا ذکر کروں بجز دعا کے میں ان مقدس ہستیوں کے حسن ِ سلوک کا کوئی اجر نہیں دے سکتی۔
اللہ تعالیٰ ان کو اپنی جناب سے اجر دے آمین آج جبکہ ان واقعات کو ساٹھ سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے آج تک ان سب کے لئے خلوصِ دل سے دعائیں کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر انوار وانعام کی بارش برساتا رہے۔ آمین۔
(ماخوذ۔ کتاب ’’آئی جو ان کی یاد‘‘ صفحہ 30…39 مصنف فضل الرحمٰن عامر ایڈیٹر زکریا ورک)
(نبیلہ رفیق فوزی۔ ناروے)