• 20 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍دسمبر 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍دسمبر 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آداب دعا سے واقف ہیں اور نہ اِس زمانہ میں دعا کرنے والے اُن طریقوں سے واقف ہیں جو قبولیت دعا کے ہوتے ہیں بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت ہی سے بالکل اجنبیت ہوگئی ہے۔ ۔۔دعا کے لئے سب سے پہلے اوّل اِس اَمر کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہوجاوے

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا: دعا سے متعلق بہت لوگ سوال کرتے ہیں، آجکل تو خاص طور پر خدا تعالیٰ اور دعا کے متعلق سوال اُٹھتے ہیں جبکہ باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت دہریت کے حامی بھرپور حملہ خدا تعالیٰ کی ذات اور مذہب پر کر رہے ہیں، مختلف ذرائع سے انسان کو خدا اَور مذہب سے دُور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہمارے لوگوں پر بھی بعض دفعہ یہ شیطانی خیالات اثر ڈال دیتے ہیں

شیطان انسان سے ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر اُسے دین اور خدا تعالیٰ سے دُور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے لوگوں پر بھی بعض جگہ اور بعض دفعہ یہ شیطانی خیالات اثر ڈال دیتے ہیں یا دنیا داروں اور مذہب کے خلاف چلنے والوں کی باتیں اُنہیں مذہب، خدا تعالیٰ اور عبادت کے بارہ میں بے چینیاں پیدا کرنا شروع کر دیتی ہیں، شبہات دل میں پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔اگر کبھی کسی ابتلاء سے گزرے یا ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو کمزور ایمان اور کم علم والوں کو فورًا یہ خیال آنے لگ جاتا ہے کہ یا تو مذہب غلط ہے جس پر ہم لوگ قائم ہیں اور اصل میں اِس کی کوئی حقیقت نہیں ہے یا خدا تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں کہ رحم کرتے ہوئے دعائیں سنےاور ہمیں اِس ابتلاء اور امتحان سے نکالےیا خدا تعالیٰ نے نعوذباللّٰه! ہم پر ظلم کیا ہے جو ہم اِس حالت سے گزر رہے ہیں، باوجود دعاؤں کے ہماری پریشانیاں دُور نہیں ہو رہیں۔

مضمون دعا ارشادت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی روشنی میں

حضور انور ایدہ الله نے فرمایا: آج مَیں مضمون دعا کو ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں بیان کروں گا، جس سے حقیقت دعا ، اُس کے آداب، ہماری ذمہ داری، اُس کی ضرورت اور الله تعالیٰ پر یقین کے بارہ میں یقینی طور پر وضاحت ہوتی ہے۔

یہی سعادت کے نشان ہیں

اِس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ ہمیں اچھے حالات میں بھی الله تعالیٰ کی عبادت اور دعاؤں کی طرف توجہ رکھنی چاہئے تاکہ مشکلات میں بھی ہماری دعائیں سنی جائیں، حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: الله کا رحم ہے اُس شخص پر جو امن کی حالت میں اُسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی مصیبت کے وارِد ہونے پر ڈرتا ہے۔ جو امن کے وقت خدا تعالیٰ کو نہیں بُھلاتا، خدا تعالیٰ اُسے مصیبت کے وقت نہیں بُھلاتا اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اِس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں، جب عذاب الٰہی کا نزول ہوتا ہے تو تَوبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذاب الٰہی کے نزول سے پیشتر دعا میں مصروف رہتا ہے، صدقات دیتا ہے اور اَمر الٰہی کی تعظیم اور خلق الله پر شفقت کرتا ہے، اپنے اعمال کو سنوار کر بجا لاتا ہے۔

ہمیں کبھی اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں سست نہیں ہونا چاہئے

حضور انور ایدہ الله نے تلقین فرمائی: پس ایک حقیقی موٴمن کا کام ہے کہ اپنے اچھے حالات میں خدا تعالیٰ اور اُس کی مخلوق کے حق کو کبھی نہ بھولے اور اگر وہ یہ حق اداء کر رہا ہے تو پھر مشکلات کے دَور سے خدا تعالیٰ اُسے خود نکالتا ہے، اِس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ پس یہ بنیادی نکتہ ہے کہ ہمیں کبھی اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں سست نہیں ہونا چاہئے۔

خدا تعالیٰ سے مانگتے وقت کیا حالت ہونی چاہئے؟

پھر اِس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ سے مانگتے وقت کیا حالت ہونی چاہئے اور اِس کے کیا آداب ہیں اور یہ آداب خود الله تعالیٰ نے ہمیں کس طرح سکھائے ہیں، آپؑ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ ادب کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اِسی لئے سورۂ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اِس میں سکھایا ہے کہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ یعنی سب تعریف خدا کو ہی ہے جو ربّ ہے سارے جہان کا (سب سے پہلے الله تعالیٰ کی تعریف کرو)، اَلرَّحۡمٰنُ ہے یعنی بلا مانگے اور سوال کئے کے دینے والا، پھر اَلرَّحِیۡمُ ہے یعنی انسان کی سچی محنت پر ثمرات حسنہ مرتب کرنے والا ہے۔ حضور انور ایدہ الله نے توجہ دلائی کہ سچی محنت، یہ غور کرنے والا لفظ ہے۔ رحیم الله تعالیٰ سچی محنت پر پھل عطاء فرماتا ہے اور سچی محنت کے معیار وہ ہیں جو الله تعالیٰ نےخود بیان فرمائے ہیں کہ ایک جہاد کرنا پڑتا ہے الله تعالیٰ کی راہ میں۔ پھر فرمایا: مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ جزا ء سزاء اُسی کے ہاتھ میں ہے، چاہے رکھے چاہے مارے اور جزاء سزاء آخرت کی بھی اور اِس دنیا کی بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔۔ ۔ جب اِس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اُسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خدا ہے جو کہ ربّ ہے، رحمٰن ہے، رحیم ہے۔ اُسے غائب مانتا چلا آ رہا ہے اور اُسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے۔۔۔ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ (اَے الله! ہم تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں اِس کے لئے)۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے، اِس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کر کے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اِس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ پھر آگے صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ یعنی اُن لوگوں کی راہ جن پر تُو نے انعام کیا اور وہ وہی صراط مستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں۔ پھر غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیْھِمۡ نہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا غضب ہوا اور وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ اور نہ اُن کی جو دُور جا پڑے ہیں۔

کُل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ

فرمایا: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ سے کُل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ مراد ہے، مثلًا ایک طبیب جب کسی کا علاج کرتا ہے تو اُسے ایک صراط مستقیم ہاتھ نہ آوے علاج نہیں کر سکتا، اِسی طرح تمام وکیلوں اور ہر پیشہ اور علم کی ایک صراط مستقیم ہے کہ جب وہ ہاتھ آ جاتی ہے تو پھر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔ حضور انور ایدہ الله نے تصریح فرمائی: اِس لئے دنیاوی کاموں میں بھی صراط مستقیم کی تلاش ہونی چاہئے اور وہ اُسی صورت میں ہو سکتی ہے جب الله تعالیٰ سے تعلق ہو۔

انبیاء کو اِس دعا کی کیا ضرورت تھی؟

جس مجلس میں آپؑ یہ بیان فرما رہے تھے وہاں ایک صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ انبیاء کو اِس دعا کی کیا ضرورت تھی، نبی کریم صل الله علیہ وسلم کیوں کرتے تھے، وہ تو پیشتر سے ہی صراط مستقیم پر ہوتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا: وہ یہ دعا ترقیٔ مراتب اور درجات کے لئے کرتے ہیں بلکہ یہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ تو آخرت میں مؤمن بھی مانگیں گے، کیونکہ جیسے الله تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے اِسی طرح اُس کے درجات اور مراتب کی ترقی کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا:پس یہ ہیں وہ آداب جن کو سامنے رکھ کر نماز پڑھی جائے ، دعا کی جائے تو انسان ایک ایسی کیفیت میں سے گزرتا ہے جہاں اُسے خدا تعالیٰ کا قُرب اور اپنی حاجات بیان کرنے کا صحیح ادراک حاصل ہوتا ہے۔

مآل اندیش استقلال کے ساتھ اپنے مقصد کو پالیتے ہیں

آپؑ فرماتے ہیں: دیکھو! دعا کی ایسی ہی حالت ہے جیسے ایک زمیندار باہر جاکر اپنے کھیت میں ایک بیج بو آتا ہے، اب بظاہر تو یہ حالت ہے کہ اُس نے اچھے بھلے اناج کو مٹی کو نیچے دَبا دیا۔ اُس وقت کوئی کیا سمجھ سکتا ہےکہ یہ دانہ ایک عمدہ درخت کی صورت میں نشو ونما پاکر پھل لائیگا ۔۔۔یہی حال دعا کا ہے اور بعینہٖ اِسی طرح دعا نشو و نما پاتی اور مثمر بثمرات ہوتی ہے، جلد باز پہلے ہی تھک کر رہ جاتے ہیں اور صبر کرنے والے مآل اندیش استقلال کے ساتھ لگے رہتے ہیں اور اپنے مقصد کو پالیتے ہیں۔

غرض ساری لذت اور راحت دکھ کے بعد آتی ہے

آپؑ فرماتے ہیں: اِسی لئے قرآن شریف میں یہ قاعدہ بتایا ہے اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الانشراح: 7) اگر کسی راحت سے پہلے تکلیف نہیں تو وہ راحت راحت ہی نہیں رہتی۔ اِسی طرح پر جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو عبادت میں لذت نہیں آتی، اُن کو پہلے اپنی جگہ سوچ لینا ضروری ہے کہ وہ عبادت کے لئے کس قدر دکھ اور تکالیف اُٹھاتے ہیں، جس قدر دکھ اور تکالیف انسان اُٹھائے گا وہی تبدیلِ صورت کے بعد لذت ہو جاتا ہے۔

پس یہی ایک احمدی کی ذمہ داری اور حق بیعت اداء کرنا ہے

حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا: آجکل تمام تر توجہ مذہب اور خدا تعالیٰ کے مخالفین کی اِس طرف ہے کہ یہ دلوں میں ڈالا جائے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں کیا دیا ہے، مذہب کا کیا فائدہ ہے، مذہب سست بناتا ہے، مذہب خیالی باتیں ذہنوں میں پیدا کرتا ہے اور ایسے وقت میں ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ الله تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرے، وقتی اور ضرورت کا تعلق اور عبادت نہ ہو صرف بلکہ سکون اور آسائش کے حالات میں بھی الله تعالیٰ سے تعلق ہو، اپنی عبادتوں کی حفاظت ہو اور دعاؤں پر یقین ہو۔

مزید برآں خطبۂ ثانیہ سے قبل پاکستان، الجزائر نیز جہاں جہاں احمدی مشکلات میں ہیں، اُن کے لئے دعائیہ تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ ہر جگہ، ہر احمدی کو محفوظ رکھے، ہر پریشانی سے بچائے اور دشمن کو خائب و خاسر کرے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی