• 29 اپریل, 2024

تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے چندے تمام کے تمام وہ چندے ہیں جو مرکزی چندے ہوتے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
یہاں مَیں ایک بات کی وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں کہ تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے چندے تمام کے تمام وہ چندے ہیں جو مرکزی چندے ہوتے ہیں۔ ان کا خرچ مقامی یا نیشنل اخراجات پر نہیں ہو رہا ہوتا۔ یا اگر بعض غریب ملکوں میں وہیں رکھے بھی جاتے ہیں تو اُن کی صوابدید پر نہیں ہوتے بلکہ مرکز سے پوچھ کر خرچ کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ بعض امیر ملکوں کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ جب یہ مرکزی چندے ہیں اور ہم پر خرچ بھی نہیں ہوتے تو پھر ہم اس میں اتنا بڑھ چڑھ کر کیوں حصہ لیں؟ ہمارے اپنے پراجیکٹس ہیں (جیسا کہ میں نے کہا لوکل پراجیکٹس بھی چل رہے ہوتے ہیں، نیشنل پراجیکٹ بھی چل رہے ہوتے ہیں) پہلے ہم اپنے اخراجات پورا کریں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر دے رہے ہیں تو پھر ایسے سوال ہی غلط ہیں۔ دوسرے مرکز کے بھی بہت سارے اخراجات ہیں۔ بہت سارے پراجیکٹس ہیں۔ غریب ملکوں میں جن میں افریقن ممالک بھی شامل ہیں، ایشین ممالک بھی شامل ہیں، بشمول ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ، بلکہ یورپ کے وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں جماعت کی تعداد تھوڑی ہے۔ ان پر یہ مرکز کی طرف سے خرچ ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو ہمارے ہونہار طلباء ہیں، طالب علم ہیں، اُن کی تعلیم کے اخراجات بھی مرکز خرچ کر رہا ہوتا ہے۔ تو اُن رقموں سے یہ اخراجات پورے ہوتے ہیں جو جماعتوں سے مرکز کو آتی ہیں۔ پھر فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَاتِ کی روح بھی یہ ہے کہ اپنے غریب بھائیوں کو، چھوٹی جماعتوں کو، کمزور جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہوں کہ ہم اپنے کمزوروں کو بھی اپنے ساتھ چلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے آگے یہ بھی فرماتا ہے کہ اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَأتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا۔ تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اکٹھا کرکے لے آئے گا۔ یعنی جب اکٹھے ہو کر حاضر ہوں گے تو جو تو نیکیوں میں مسابقت کی روح قائم رکھے رہے وہ تو سرخرو ہوں گے اور جو سستیاں کرتے رہے، دوسروں کی مدد سے کتراتے رہے، سوال اُٹھاتے رہے کہ ہم دوسروں کے لئے کیوں خرچ کریں، اُنہیں جواب دینا پڑے گا۔ پس چاہے یہ سوال اِکّا دُکّا ہی اُٹھائیں یا اُن کی طرف سے اُٹھ رہے ہوں، اُس روح کے خلاف ہیں جس کی تعلیم ایک احمدی کو دی گئی ہے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔

مرکز کے خرچوں کا مَیں نے ذکر کیا ہے، ان کا مختصر خاکہ بھی مَیں آج آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں تاکہ آپ کو علم ہو کہ دنیا کی ہر جماعت اپنے آپ کو اپنے وسائل سے نہیں سنبھال رہی بلکہ بہت سا خرچ مرکز کی گرانٹ کی صورت میں دنیا کو دیا جاتا ہے اور وہ انہیں رقموں سے دیا جاتا ہے جو مرکز کا حصہ بن کر آتی ہیں۔ مثلاً افریقہ اور دیگر غیر خود کفیل ممالک جو ہیں، یہ اڑسٹھ (68) ممالک ہیں جس میں افریقہ کے ستائیس ممالک، یورپ کے اٹھارہ ممالک، ایشیا اور مشرق بعید کے پندرہ ممالک، جنوبی امریکہ کے چھ ممالک اور شمالی امریکہ کے دو ممالک شامل ہیں۔ اور اس سال ایک بڑی رقم صرف وہاں کی مساجد اور مشن ہاؤسوں کی تعمیر پر خرچ بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کلینکس، سکولز، ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز پر کوئی تقریباً تین ملین پاؤنڈ خرچ ہو گا۔ پھر اس کے علاوہ بھی معمول سے ہٹ کے بہت بڑے تعمیری پراجیکٹس بعض جگہ چل رہے ہیں اور جہاں ہمارے مشنز ہیں، مثلاً افریقہ میں جہاں گرانٹ جاتی ہے، وہاں پینتیس ممالک میں ایک سو اٹھہتر (178) مرکزی مبلغین ہیں، دس سو اٹھہتر (1078) مقامی معلمین ہیں۔ ان کے خرچ کا کافی بڑا حصہ جو ہے مرکز پورا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اکیالیس (41) ممالک میں مرکز سے گرانٹ جاتی ہے۔ ان میں بھی ہمارے مبلغین کی تعداد دو سو تینتالیس (243) ہے اور مقامی معلمین کی تعدادنو سو اٹھائیس (928) ہے۔ پھر مساجد زیرِ تعمیر ہیں۔ آئر لینڈ میں مسجد تعمیر ہورہی ہے۔ اس میں گو آئر لینڈ کی جماعت نے کافی بڑی کنٹری بیوشن (Contribution) کی ہے لیکن کچھ نہ کچھ حصہ تقریباً نصف کے قریب مرکز کو بھی دینا پڑا۔ سپین میں ویلنسیا میں مسجد بن رہی ہے۔ وہاں تقریباً اسّی فیصد مرکز خرچ کر رہا ہے۔ یوگنڈا میں کمپالہ کی مسجد میں توسیع ہو رہی ہے، وہ تقریباً سارا مرکز خرچ کر رہا ہے۔ آئیوری کوسٹ میں مرکزی مسجد کی تعمیر ہو رہی ہے۔ پھر افریقہ کے انیس (19) مختلف ممالک ہیں جن میں ننانوے (99) مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور چھیالیس (46) مشن ہاؤس تعمیر ہوئے۔ اور ان ننانوے (99) میں سے پینسٹھ (65) مساجد کا خرچ مرکز نے دیا ہے۔ اسی طرح مشن ہاؤسز کا خرچ دیا۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک ہیں جن میں چھبیس (26) مساجد کی تعمیر ہوئی۔ ستر (70) مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا۔ ان میں سے تقریباً بنگلہ دیش میں دو (2)، انڈیا میں چالیس (40)، فلپائن ایک، نیپال تین (3)، گوئٹے مالا اور مارشل آئی لینڈ وغیرہ میں مرکز نے خرچ کیا۔ پھر طلباء کے لئے جو ٹیلنٹڈ (Talented) سٹوڈنٹ ہیں اُن کے لئے تقریباً چار ہزار پانچ سو سٹوڈنٹس کو کئی لاکھ پاؤنڈ کی صورت میں جماعت نے وظیفہ یا بعض کو قرضۂ حسنہ دیا۔ اور ان میں سے ساڑھے تین سو (350) سٹوڈنٹس ایسے ہیں جو اعلیٰ تعلیم ایم ایس سی یا پی ایچ ڈی وغیرہ کر رہے ہیں اور جماعت ان کا خرچ برداشت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ افریقہ میں پانی، بجلی، ریڈیو سٹیشن وغیرہ کے پراجیکٹس ہیں۔ یہ سب کام مرکزی گرانٹ سے ہوتے ہیں۔ پس یہ جو کام ہیں یہ جماعت کی ترقی کے لئے ہیں۔ دنیا کو اسلام کی تعلیم سے روشناس کرانے کے لئے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کے لئے یہ کام ہیں۔ اور یہ سب کام ایسے ہیں جو ان کاموں میں شامل ہونے والوں کو، جو براہِ راست تو ان میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن چندوں کی صورت میں شامل ہو رہے ہیں اور اس کا حصہ بن کر اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر پانے والے لوگوں میں شامل ہورہے ہیں۔ بہرحال یہ خیال نہ کریں کہ یہ جو افریقن ممالک ہیں ان کا انحصار شاید سب کچھ مرکز پر ہی ہے اور وہ خود کچھ نہیں کرتے۔ بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کافی پراجیکٹس انہوں نے خود بھی کئے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 9؍نومبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 31)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2022