آنحضورؐ نے فرمایا ہے کہ دنیا میں بسنے والی تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال یعنی خاندان ہے اور مخلوق میں سے اللہ کے نزدیک بہترین وہ ہے جو اس کے خاندان کے ساتھ احسان کرتا ہے۔
اس حدیث میں بہت اچھے انداز میں انسانیت کے ساتھ پیار و محبت کی تلقین کی گئی ہے۔ یہاں انسانیت سے مراد تمام دنیا میں بسنے والے انسان ہیں۔ جس طرح ہم اپنے ایک چھوٹے سے خاندان میں پیا رو محبت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تا گھر کا ماحول پُرسکون رہے۔ ہم اس چھوٹے سے خاندان کے سربراہ یعنی ابو، دادا وغیرہ کا کہا مانتے ہیں بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے پیار کرتے ہیں اسی طرح دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں خواہ ان کا تعلق کسی ملک و ملت اور رنگ و نسل سے ہو وہ خاندان ہیں اور اللہ تعالیٰ اس خاندان کا سربراہ ہے اس لیے ہر انسان سے محبت کرنی ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
آنحضور ؐ نے اس مضمون کو جسم کی مثال دے کر مزید واضح کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمام انسان جسم کی مانند ہیں اگر جسم کا ایک عضو معمولی درد محسوس کرتا ہے تو باقی اعضاء بھی درد محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح تمام انسانیت ایک جسم کی طرح ہے۔ اگر ایک انسان کسی تکلیف میں ہے تو یہ تکلیف دنیا بھر کے انسانوں کو محسوس کرنی چاہیے۔ جیسے آج کل ساری دنیا ایک مہلک اور موذی وائرس کی وجہ سے تکلیف محسوس کررہی ہے۔ اور تمام دنیا اس کرونا وائرس کی وجہ سے ایک ہوتی نظر آرہی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک، ساری انسانیت کو بچانے کے لیے اپنے اپنے اللہ کے حضور جھک کر معافی مانگ رہا ہے۔ یہودی اپنے رنگ میں، عیسائی اپنے رنگ میں، دہریہ اپنے انداز میں، ہندو اپنے رنگ میں اور مسلمان سجدوں میں گر کر اپنے اللہ کے حضور گڑگڑا کر معافی کے طلب گار ہیں اور ساری دنیا انسانیت کو بچانے کے لیے خدا کے آستانہ پر جھکی ہوئی ہے۔
آنحضور ؐ کے درج ذیل دو اقوال بھی اس مضمون کو مزید واضح کرتے ہیں۔ فرمایا
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہِ وَیَدِہِ
(صحیح بخاری کتاب الایمان)
کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہیں۔ یہ دنیا میں بسنے والے انسانوں کا ایک چھوٹا خاندان ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر تمام دنیا کے انسانوں کے متعلق فرمایا
اَلْمُوْ مِنُ مَن آمَنہُ النَّاسُ عَلٰی دِمَاءِھِمْ وَ اَمْوَالِھِمْ
(سنن نسائی کتاب الایمان)
کہ مومن وہ ہے جس سے دوسرے تمام انسانوں کے خون اور اموال امن میں رہیں۔ اِسی لیے تو آنحضور ؐ نے ہر نماز کے بعد اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ دائیں اور بائیں کہنے کی تلقین فرمائی۔ جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو دائیں طرف السلام علیکم کہہ کردائیں طرف والوں کو سلامتی اور پیار کا اظہار کرتے ہیں اور پھر بائیں جانب اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر بائیں طرف کے انسانوں کو سلامتی اور امن کا پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی اسی اصول کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم آپس میں مت جھگڑو مبادا کہ تم کمزور ہو جاؤ اور تمہاری ہوا نکل جائے۔
مندرجہ بالا بیان شدہ امور میں بعض سبق ہمیں ملتے ہیں ان میں سب سے بڑا سبق ہے کہ ہم انسانیت کی خاطر اپنے نفس کو مار کر اپنے اندر دوسروں کے لیے ایثار پیدا کریں۔ قربانی کرنا سیکھیں۔ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیں۔
آنحضرت ؐ کے دور میں دو صحابہ کے درمیان زمین پر جھگڑا ہو گیا۔ یہ دونوں صحابہ نو مبائع تھے۔ ابھی ایمان کامل طور پر ان کے دلوں میں راسخ نہ ہوا تھا۔ آنحضور ؐ کے پاس یہ کیس آیا۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ جو دوسرے کے لیے قربانی کرے گا اور اپنا حصہ زمین کا دوسرے کے لیے چھوڑ دےگا تو میں اُسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ مگر دونوں نو مبائع صحابہ اپنا اپنا حصہ چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے کہ ایک تیسرے صحابی جو قریب کھڑے یہ باتیں سن رہے تھے آگے بڑھے اور آنحضور ؐ کو مخاطب ہو کرعرض کی کہ حضور! یہ جنت کی بشارت مجھے مل سکتی ہے اگر ان دونوں کے درمیان میں قضیہ کرا دوں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زبان مبارک سے اثبات میں جواب پا کر وہ صحابی بولے کہ مدینہ کے فلاں حصہ میں میرا کھجوروں سے لدا باغ موجود ہے۔ میں وہ تم میں سے ایک کو دیتا ہوں تا یہ جھگڑا ختم ہو۔
اسی طرح ایک جنگ میں تین صحابی شدید زخمی ہوئے اور نزع کی سی کیفیت تھی کہ پانی لایا گیا۔ ایک کو دیا اس نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا کہ اسے پہلے پلاؤ اس کو میرے سے زیادہ ضرورت ہے۔ دوسرے نے تیسرے کی طرف اشارہ کیا کہ اسے پہلے پلاؤ اور جب پانی پلانے والا پہلے کے پاس واپس آیا تو وہ جان خدا کے حوالے کر چکے تھے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے بھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ آپ ایسے ہو جائیں جیسے ماں کے پیٹ سے نکلے دو بھائی۔۔ ایک جگہ آپ ؐ نے فرمایا ’’نفرت کرنے سے نفرت رفع نہیں ہوتی بلکہ اور بھی بڑھتی ہے۔ محبت نفرت کو ٹھنڈا کر کے رفع کر دیتی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ جلد پنجم ،روحانی خزائن جلد21 صفحہ424)
انگریزی میں کہتے ہیں
If you wish to be loved, love.
ہر انسان دوسرے سے پیار لینے کا بھوکا ہوتا ہے۔ اگر پیار لینا چاہتے ہو تو پہلے پیار کرنا سیکھو اسی مضمون کو ایک اور محاورہ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ Give and take۔ پہلے دو پھر لو۔
آج دنیا بھر میں جو احتجاج جلوس اور ہنگامے ہوتے ہیں اور عالمی طاقتیں جنگیں کرتی نظر آتی ہیں وہ اس اصول کو اگر سمجھ لیں تو امن ہو سکتا ہے۔ انسان کو انسان سے محبت پیدا ہوسکتی ہے۔ انسان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ دراصل اُنسان تھا یعنی دو اُنس دو محبتیں۔ ان میں سے ایک محبت اللہ کے لیے اور دوسری اس کی مخلوق کے ساتھ ہے۔
آج بعض قومیں اپنے آپ کو Superior سمجھتی ہیں دوسری قوموں سے نفرت کرتی ہیں۔ لیکن اگر یہ نفرتیں ختم ہو جائیں تو دنیا پر امن ہو سکتی ہے کیونکہ آج پیارو محبت کی جس قدر ضرورت ہے اس سے قبل نہ تھی۔ جماعت احمدیہ عالمگیر کا یہ سلوگن جو عالمی مقام اختیار کر گیا ہے اسے اپنانے اور عام کرنے کی ضرورت ہے.
Love for All, Hatred for None
(ابو سعید)