• 26 اپریل, 2024

دفتر اطفال وقف جدید

حضرت مصلح موعود ؓ نے الٰہی حکم سے اپنی زندگی میں جماعت کی تعلیم و تربیت اور ترقی کیلئے جو آخری بابرکت تحریک جاری فرمائی وہ وقف جدید کے نام سے موسوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کو کامیاب کرنے کیلئے غیر معمولی جوش اور ولولہ بھی آپ کے دل میں پیدا کیاجس کا اظہار آپ کے خطبات اور خطابات میں ہوتا رہا۔چونکہ یہ تحریک اللہ تعالیٰ کے اذن و ارادہ سے ظہور پذیر ہوئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں آنے والے خلفاء کے دلوں میں اس تحریک کی برکات و فوائد اور اس کے عالمی اثرات القاء اور اس تحریک کے حقیقی مقاصد کو کما حقہ حاصل کرنے کیلئےکئی در ان پر وا کئے۔ انہی ہی میں سے ایک ’’دفتر اطفال‘‘ کا قیام ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ جنہیں حضرت مصلح موعود ؓ نے پہلا ناظم وقف جدید مقرر فرمایا اور اس بابرکت تحریک کے مقاصد اور منصوبوں سے براہ راست آپ کو آگاہ فرماتے رہے، اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍جنوری 1991ء بمقام مسجد فضل لندن میں فرماتے ہیں:۔
’’بچوں کے متعلق تو شروع سے ہی یہ تحریک بہت زور دے رہی ہے اور حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرف بہت توجہ دلائی کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس میں شامل کرنا چاہئے۔‘‘

البتہ وقف جدید میں ’’دفتر اطفال‘‘ کا باقاعدہ اجراء حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی زبان مبارک سے ان پُر شوکت الفاظ سے ہوا:
’’آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسول کے بچو! اٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پُرکر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہوگئی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍اکتوبر 1966ء مسجد مبارک ربوہ)

جس طرح کم عمر صحابہ کرام ؓ نے رسول اکرمﷺ کی جہاد کی تحریک پر والہانہ لبیک کہا اور کبھی کُشتی کا مقابلہ کرکے اور کبھی پنجوں کے بل کھڑے ہوکراپنی اہلیت اوراستطاعت ثابت کی اور پھر میدان جہاد میں وہ کار ہائے نمایاں سر انجام دیے کہ قیامت تک بڑے بڑے سورما بھی ان پر رشک کرتے رہیں گے،اسی طرح اطفال الاحمدیہ نے بھی خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہا اور کیا افریقہ اور ایشیا کے غریب بچے اور کیا امریکہ و یورپ کے امیر گھرانوں کے چشم و چراغ، بہت سوں نےاپنی ساری جمع پونجی، اپنی عیدیاں، اپنے انعامات اور اپنے جیب خرچ اس مالی جہاد میں پیش کردیے۔اس کے باوجود ہم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی اصل خواہش سے ابھی کوسوں دور ہیں۔ اُسی خطبہ میں آپ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ:۔
’’اگر خداتعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت احمدیہ کے بچے وقف جدید کا سارا بوجھ اٹھا لیں۔‘‘

پھر 22؍اکتوبر 1966ء کو لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
’’جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ میرے دل میں شدید تڑپ پائی جاتی ہے اس بات کی کہ ہمارے احمدی بچے لڑکے اور لڑکیاں مل کر وقف جدید کے مالی بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں اور دنیا کو بتائیں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں چھوٹے مسلمان بچوں نے باوجود چھوٹی عمر ہونے کے میدان جہاد میں حصہ لیا۔ جب کافروں نے تلوار سے مسلمانوں کو اور اسلام کو مٹانا چاہا تو وہ بچے تلوار لے کر میدان میں کو دے اور انہوں نے اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیں۔ تو اب جبکہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں بلکہ قلم اور تقریر کے جہاد کا زمانہ ہے اور مخالف اپنے وعظوں میں اور اپنی تقاریر میں اور اپنی تحریروں میں اسلام پر ہرنا جائز اور ہر کمینہ حملہ کر رہا ہے ہم (احمدی بچے) بھی پیچھے نہیں رہے۔ بلکہ اس جہاد میں اپنے بڑوں کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ اس وقت ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے اور کہا ہے کہ تم اٹھو اور دنیا کا مقابلہ کرو اور اسلام کو دنیا میں دوبارہ غالب کرو۔

غرض ہمارے بچوں کو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ جس طرح ہمارے پہلوں نے اپنا سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے قدموں میں نچھاور کر دیا اسی طرح ہم بچے بھی اپنا سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے قدموں میں نچھاور کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ہم رسول کریمﷺ کے زمانہ کے بچوں سے پیچھے نہیں رہے۔ ہم اپنا سب کچھ (جب بھی مطالبہ کیا جائے) خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘

اعلاء کلمتہ اللہ، جماعت کی مضبوطی، اس کی تربیت اور تعلیم کے نظام کو محکم کرنے کے لئے بچوں کی اس مالی جہاد میں بھر پورشمولیت کی حکمت و برکات بیان کرتے ہوئےحضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍اکتوبر 1966ء مسجد مبارک ربوہ میں فرمایا:
’’جس طرح آنحضرتﷺ نے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کے لئے ان کی نماز کی بلوغت سے پہلے نماز پڑھانے کی ہمیں تلقین کی ہے اسی طرح ان مالی قربانیوں کے لئے جو فرض کے طور پر ایک احمدی پر عائد ہوتی ہیں، اس فرض کے عائد ہونے سے پہلے ہمارے بچوں کی تربیت ہو جائے گی اور جب وہ فرض ان پر عائد ہو گا تو وہ خوشی اور بشاشت سے مالی جہاد میں شامل ہوں گے اور اس فرض کے ادا کرنے میں وہ کوئی کمزوری نہ دکھائیں گے کیونکہ ان کی طبیعتوں میں بچپن سے ہی یہ بات راسخ ہو چکی ہوگی کہ جہاں ہم نے خدا اور رسول کے لئے دوسری قربانیاں کرنی ہیں وہاں ہم نے خدا اور اس کے رسول کے لئے مالی قربانیاں بھی دینی ہیں۔۔۔ان کی تربیت ہوگی اس طرح ہم ان کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کر رہے ہونگے کہ جب خدا تعالیٰ کسی کو مال دیتا ہے تو وہ مال جو اس کی عطا ہے۔ بشاشت سے اسی کی طرف لوٹا دینا اور اس کے بدلہ میں ثواب اور اس کی رضا حاصل کرنا اس سے زیادہ اچھا سودا د نیا میں اور کوئی نہیں۔‘‘

وقف جدید وہ واحد الٰہی تحریک ہے جس میں ’’دفتر اطفال‘‘ قائم ہے۔ اس لئے اطفال الاحمدیہ کا فرض ہےکہ وہ اس مالی جہاد کو اولیت دیں اور مقدم رکھیں تاکہ وہ جلد از جلد اس قابل ہوجائیں کہ خدا تعالیٰ کے خلفاء کی خواہش کے مطابق وقف جدید کا سارا بوجھ ان کے مضبوط کندھے اٹھا لیں۔ جس کےعظیم الشان مقاصد میں اس دور کے روحانی جہاد کیلئے بچوں کو تیار کرنا، پہلے دن سے ہی خدمت دین و خدمت انسانیت کاجذبہ ان کے ننھے منے دلوں میں راسخ کرنا،دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی تربیت دینااور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتے ہوئے اخروی زندگی میں اعلیٰ مراتب حاصل کرنا ہے۔ بچے دراصل کسی بھی قوم اور معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں۔ بچوں کی اعلی تعلیم و تربیت اس قوم کے مقاصد عالیہ و ارفع کے حصول کی کلید ہوتی ہے۔ زندہ جاوید قومیں اپنی آئندہ نسلوں کی تعلیم وتربیت کو اپنی قومی زندگی میں بلند اوراہم مقام دیتی ہیں۔یہ بچے ہمارے پاس خدا کی امانت ہیں۔اور جب تک ان کا اپنے خالق و مالک کے ساتھ زندہ تعلق قائم نہیں ہو جاتا وہ اپنی تخلیق کے حقیقی مقصد کو حاصل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں اور نہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔اسی لئے خدا تعالیٰ کے خلفاء اس آخری روحانی جہاد کی اس عظیم فوج کی تعلیم و تربیت کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتے آئے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍ دسمبر 1987ء میں فرمایا:
’’اور آخری بات یہ ہے کہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کریں اور ان کے ذریعہ چندے دلوائیں۔ میرے پیش نظر صرف روپیہ نہیں ہے بلکہ جس مقصد کی خاطر روپیہ حاصل کیا جاتا ہے وہ مقصد بہر حال اولیت رکھتا ہے یعنی تربیت اور اللہ سے تعلق۔ چندہ دینے والے کا سب سے بڑا پھل، سب سے بڑا اجر اس دنیا میں یہ ہے کہ وہ خدا کے قریب ہو جاتا ہے اور جو بچوں سے چندے دلوائے جاتے ہیں ان کے اوپر اس قربت کا اثر ساری زندگی رہتا ہے بچپن کی نیکی ایسی چھاپ ہے جو ان کے بڑھنے کے ساتھ خود ہی بڑھتی رہتی ہے اس کا نقش مٹنے کی بجائے اور زیادہ زندگی میں گہرا جمتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے اپنے بچوں کو باشعور طور پر وقف جدید میں شامل کریں یعنی وہ بچے جو باشعور طور پر داخل ہو سکتے ہیں ورنہ تو پہلے دن کے بچے کو بھی مائیں شامل کر دیتی ہیں۔ بعض مائیں تو پیدا ہونے والے بچے کو بھی شامل کر دیتی ہیں جو ان کے پیٹ میں ہے اور وعدے لکھوادیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس روح کو اور بڑھائے لیکن جو باشعور بچے ہیں ان کے ہاتھ سے دلوانا انکی تعداد میں اضافہ کرنا آپ کیلئے دوہرے اجر کا موجب بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

بچوں کو انکی عمر کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔سات سال سے کم عمر بچے، بچیاں اور سات سے پندرہ سال کے لڑکے، لڑکیاں جو اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کا حصہ ہوتے ہیں۔عام طور پر والدین چھوٹے بچوں کی طرف سے خود ہی چندہ ادا کر دیتے ہیں اس خیال سے کہ بچے کو کیا سمجھ کہ وقف جدید کیا ہے ؟اور چندہ کیوں دینا ہے؟ یہ سوچ صحیح نہیں اور نہ ہی طریقہ درست۔اسی طرح یہ طرز عمل بچوں کی روحانی تربیت، جو کہ اس تحریک کا اصل مطمع نظر ہے، کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جون 1967ء بمقام مسجد مبارک ربوہ، اسی امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وقف جدید کی اہمیت ان پر واضح کی جائے اور احمدی بچے کی جوشان ہے اور اللہ تعالیٰ اسے جس مقام پر دیکھنا چاہتا ہے وہ شان اور وہ مقام اسے اچھی طرح سمجھایا جائے۔ اس زبان میں جس زبان میں کہ بچہ سمجھ سکتا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی اگر اس کی زبان میں بات کی جائے تو بڑی گہری باتوں کو بھی سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس کی زبان میں بات کی جائے۔ سادہ طریقہ سے اس کو سمجھایا جائے تو وہ سمجھ سکتا ہے بلکہ بعض بوڑھوں سے بعض دفعہ بعض بچے زیادہ جلدی سمجھ جاتے ہیں اور زیادہ شوق سے اپنی ذمہ داری کو نباہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نہ مائیں اس طرف متوجہ ہیں اور نہ باپوں کو کچھ خیال ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو نبھائیں۔‘‘

جبکہ بڑے بچوں کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍جنوری 1989ء بمقام مسجد فضل لندن میں یہ نصیحت فرمائی کہ:
’’نسبتاً بڑے بچوں کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے پیش کریں اور اپنے جیب خرچ میں سے پیش کریں تو پھر اس کا بہت فائدہ پہنچے گا اور روحانی لحاظ سے ان بچوں کے دل میں ہمیشہ کیلئے ایک عزم پیدا ہو جائے گا ایک خواہش پیدا ہو جائے گی کہ ہم دینی خدمات میں حصہ لیتے رہیں۔ ایک بیج بویا جائے گا جسے خدا تعالیٰ پھر بڑھائے گا تو اس پہلو سے اس طرف بہت توجہ دینی چاہیے۔‘‘

بہرحال بچوں کی اس انداز میں تعلیم و تربیت والدین کا اور خصوصاً مائوں کا اولین فرض ہے۔ اور یہی وہ سنہری گُر ہے جس سے ہمارے گھر اور احمدی معاشرہ جنت نظیر معاشرہ بنے گا۔اسی طرف توجہ دلاتے ہوئےحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 22؍اکتوبر 1966ء کو لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اگر آپ اپنے بچوں کو اس قسم کی تربیت دے دیں گی تو ایک طرف جماعت کی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی مزید رحمتوں اور فضلوں اور برکتوں کی آپ وارث ہوں گی۔ پھر ان بچوں کی دینی لحاظ سے بھی اچھی تربیت ہو جائے گی۔ یہ بچے اس دنیا میں آپ کے لئے ایک ایسی زمین اور ایسا آسمان پیدا کریں گے کہ جن میں جب آپ زندگی گزاریں گی تو آپ کہہ سکیں گی کہ محمد رسول اللہﷺ نے سچ کہا ہے کہ اگر تم چاہو تو ایسی زندگی گزار سکتی ہو کہ تمہارے قدم ہمیشہ جنت میں رہیں وہ جہنم کی طرف بڑھنے والے نہ ہوں۔‘‘

وہ ماں باپ جو بد قسمتی سے اپنے بچوں کی اس رنگ میں تربیت سے غافل ہیں انہیں جھنجھوڑتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جون 1967ء بمقام مسجد مبارک ربوہ فرمایا:
’’کیا آپ اس بات کو پسند کریں گی اے احمدی بہنو! اور کیا آپ اس بات کو پسند کریں گے اے احمدی بھائیو! کہ آپ کو تو خدا کی رضا کی جنت نصیب ہو جائے۔ لیکن آپ کے بچے اس جنت کے دروازے سے دھتکارے جائیں اور دوزخ کی طرف ان کو بھیج دیا جائے۔ یقیناً آپ میں سے کوئی بھی اس بات کو پسند نہیں کرے گا۔ جب آپ ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تو پھر آپ ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور بچوں کے دلوں میں دین کی راہ میں قربانیاں دینے کا شوق پیدا کریں۔۔۔پس اپنی نسلوں پر رحم کرو اور اپنے بچوں سے اس محبت کا اظہار کرو جو ایک مسلمان ماں اپنے بچے سے کرتی ہے اور اس پیار کا اس سے سلوک کرو جو ایک مسلمان باپ اپنے بچے سے کرتا ہے اور ان بچوں کے دل میں سلسلہ کے لئے قربانیوں کا شوق پیدا کر و اور ان کے دل میں یہ احساس پیدا کرو کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسان کو بہر حال جد و جہد اور کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے بغیر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی۔ اگر انسان خدا کی راہ میں قربانیاں نہ دے تو اس کے نتیجہ میں شیطان تو خوش ہو سکتا ہے مگر خدا خوش نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ان کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘

والدین کی ذمہ داری اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شعور رکھنے والے بچوں، نظام جماعت اور ذیلی تنظیموں پر بھی بڑی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطبہ جمعہ فرمودہ 4؍جنوری 2008ء میں اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’اب جبکہ وقف جدید کی تحریک تمام دنیا میں رائج ہے تو بچے بھی اور ماں باپ بھی اور سیکرٹریان وقف جدید بھی اس طرف خاص توجہ کریں، جماعتی نظام اور ناصرات و اطفال کی ذیلی تنظیمیں بھی اس طرف توجہ کریں کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو وقف جدید کے چندے میں شامل کریں۔ بچوں کو اسکی اہمیت کا احساس دلائیں، قربانی کی روح ان میں پیدا کریں۔‘‘

جہاں تک دفتر اطفال میں مالی قربانی کی شرح کا تعلق ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ جس خطبہ میں دفتر اطفال کا اجراء کیا اس میں فرمایا تھا کہ:
’’وہ بچے جو اپنی عمر کے لحاظ سے اطفال الاحمدیہ یا ناصرات الاحمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں یعنی ان کی عمریں سات سے پندرہ سال تک کی ہیں اگر وہ مہینہ میں ایک اٹھنی (یعنی پچاس پیسے) وقف جدید میں دیں تو جماعت کے سینکڑوں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن پر ان بچوں کی قربانی کے نتیجہ میں کوئی ایسا بار نہیں پڑے گا کہ وہ بھو کے رہنے لگ جائیں۔ رہے وہ غریب خاندان جن کے دلوں میں نیکی کرنے اور ثواب کمانے کی خواہش پیدا ہو لیکن ان کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ ان کا ہر بچہ اس تحریک میں ایک اٹھنی ماہوار دے سکے تو ان لوگوں کی خواہش کے مدنظر میں ان کے لئے یہ سہولت پیش کر دیتا ہوں کہ ایسے خاندان کے سارے بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں۔ اس طرح اس خاندان کے سارے بھائی اور بہنیں ثواب میں شریک ہو جائیں گی لیکن یہ رعایت صرف ان خاندانوں کے لئے ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں لیکن باطنی اور ایمانی لحاظ سے ان کے دل روشن اور مضبوط ہیں اور ان کے بچوں کے دلوں میں یہ خواہش ہے کہ کاش ہماری مالی حالت ایسی ہوتی کہ ہم میں سے ہر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دے سکتا اور ہم ثواب سے محروم نہ رہتے۔ ان کی ایسی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ سب بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں۔‘‘

لیکن بہر حال دفتر اطفال کیلئے خلفائے کرام کی طرف سے کوئی باقاعدہ شرح مقرر نہیں ہے۔ سب خلفائے کرام کی باربار اور تاکیدی ہدایت یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس بابرکت تحریک میں شامل کیا جائے۔ ’’چاہے ایک پیسہ دے کرکوئی شامل ہوتا ہے۔‘‘ جماعت احمدیہ جرمنی نے البتہ حضور انور سے یہ درخواست کی کہ دفتر بالغان میں صف اول و دوئم کے مجاہدین کی طرز پر دفتر اطفال میں بھی جو بچے 25 یورو سالانہ ادا کریں انہیں ’’ننھے مجاہدین‘‘ شمار کیا جائے۔ جسے حضور انور نے ازراہ شفقت منظور فرمایا۔ بہرحال یہ ضروری نہیں، اہم اور ضروری یہ ہے کہ حتی الامکان کوئی بچہ بھی اس تحریک کی برکات سے محروم نہ رہ جائے۔

اب بھی دنیا بھر کے بچوں کی ایک بھاری تعداد اس تحریک کی عظیم الشان برکات سے محروم ہے۔ اور انکے والدین بھی اپنے فرائض ادا نہ کرسکنے کی وجہ سےرحمتوں اور برکتوں سے بے نصیب ہیں۔ یہ صورتحال ہم سب کیلئے فکرمندی اور پریشانی کا باعث ہونی چاہیے۔ 31؍دسمبر کو وقف جدید کے مالی سال کا اختتام ہوتا ہے۔ ابھی چند روز باقی ہیں۔ اس لئے ہم سب کو اس تحریک کی برکات سے مستفیض ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ فیض روحانی زندگی کی ضمانت ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍جنوری 1991ء بمقام مسجد فضل لندن فرماتے ہیں:
’’اگر ہم بچوں کو شروع ہی سے خدا کی راہ میں مالی قربانی کا مزہ ڈال دیں اور اس کا چسکا ان کو پڑ جائے تو آئندہ ساری زندگی یہ بات انکی تربیت کے دوسرے معاملات پر بھی اثر انداز رہے گی اور جس کو مالی قربانی کی عادت ہو وہ خدا کے فضل سے عبادتوں میں بھی بہتر ہو جاتا ہے جماعت سے عمومی تعلق میں بھی اچھا ہو جاتا ہے اور یہ اس کی روحانی زندگی کی ضمانت کا بہت ہی اہم ذریعہ ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے بچوں کو اسلام احمدیت کا حقیقی اور سچا خادم بنائےاور وہ سب اعمال اور قربانیاں بجا لانے کی توفیق بچے جو اس کی رضا حاصل کرنے والی ہوں۔ آمین ثم آمین

(سید حسن طاہر بخاری۔ مبلغ سلسلہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی