• 27 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت اور غیروں کا اعترافِ حقیقت

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

مَاکَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤمِنِیْنَ مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ اللّٰہُ الْخبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَشَآئُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ

(آل عمران:180)

ترجمہ: اللہ ایسا نہیں کہ مومنوں کو اس حال میں چھوڑ دے جس پر تم ہو، یہاں تک کہ خبیث کو طیب سے نتھار کر الگ کردے اور اللہ کی یہ سنت نہیں کہ تم (سب) کو غیب پر مطلع کرے بلکہ اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لئے بہت بڑا اجر ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جب بھی یہ حالات پیدا ہوں کہ پتا نہ چلے کون پاک ہے اور کون ناپاک۔کون اچھا ہے اور کون بُرا،اور کون طیب ہے اور کون خبیث۔ تو اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیجتا ہے جس پر ایمان لانے والے پاک اور طیب ہوتے ہیں۔ اس امت یعنی امتِ محمدیہ میں بھی یہی ہونے والا تھا۔ چنانچہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے آخری زمانہ کے حالات نہایت تفصیل سے بیان فرمادیئے تھے۔ آپؐ نے آخر زمانہ کے حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا تھا۔

’’عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے۔‘‘

(مشکوٰۃ، کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ 38 کنز العمال جلد 6 صفحہ 43)

اسی طرح فرمایا اے مسلمانو! تم پہلی قوموں کے حالات کی پیروی کرو گے جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے مشابہ ہوتی ہے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح تم پہلی قوموں کے نقشِ قدم پر چلو گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا یہودونصاریٰ کے نقشِ قدم پر چلیں گے؟ آپؐ نے فرمایا اور کس کے؟

(بخاری کتاب الاعتصام باب قول النبی ؐ)

نیز فرمایا تھا بنی اسرائیل کے 72 فرقے ہوگئے تھے اور میری اُمت کے 73 فرقے ہوجائیں گے۔ ان 73میں سے سوائے ایک فرقے کے باقی سب دوزخ میں جائیں گے۔

(ترمذی ابواب الایمان باب افتراق ہذہ الامۃ)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَا لْعَزِیْزُا لْحَکِیْم

(سورۃ جمعۃ :4)

ترجمہ: اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی (وہ اسے بھیجے گا) جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔

بخاری کی روایت میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ رسول کریم ﷺ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ یارسول اللہ !یہ آخرین کون ہیں؟رسول کریم ﷺ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ ِان میں سے ایک شخص ہوگا جو اُس وقت اگر ایمان ثریا سیارہ پر بھی چلا گیا ہوگا تو وہ اسے واپس زمین پر لائے گا۔

رسول کریم ﷺ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارہ میں پیشگوئی فرمائی تھی کہ امت پر ایک ایسا دور آئے گا کہ دین میں بگاڑ آجائے گا جسے امام مہدی کے سوا کوئی او ر دور نہ کرسکے گا۔

23 مارچ 1889ء کو اللہ تعالیٰ کے حکم اور آنحضور ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جماعت احمدیہ کا مبارَک آغاز کیا اور فرمایا ’’کہ میر ااس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا محض مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں تینوں قوموں کی اصلاح منظور ہے۔‘‘

وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

حضرت مسیح موعودؑنے جماعت کو یہ خوشخبری سنائی۔

’’تم خدا کے ہاتھ کا بیج ہو جو دنیا میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک درخت ہوجائے گا۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 ص 309)

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً فرمایا۔ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق حضور کی زندگی میں کثرت سے لوگ جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے ا ِس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ دنیا کے 213 سے زائد ممالک میں قائم ہوچکی ہے۔ اب دنیا بھر میں احمدیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور کے الہام کے مطابق دنیا کے کناروں تک پہنچ چکی ہے۔ جو جماعت احمدیہ کے شاندار مستقبل کی علامت ہے۔

میں وہ پانی ہوں جوآیا آسماں سے وقت پر
میں ہوں وہ نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کو خبر دی تھی کہ وہ اس الہٰی سلسلہ کو بہت ترقی دے گا۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔ اے تمام لوگو سن رکھو! کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا۔

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 66)

اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے آثار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی دیکھ لئے تھے۔ جن سے آپ کا دل خدا تعالیٰ کی حمدوثناء سے بھر گیا اور آپ کی زبانِ مبارک نے یہ اقرار کیا۔

اک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا

قرآن کریم قیامت تک کے لئےایک جامع اور کامل شریعت ہے جس میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسائل کا حل بتایا گیاہے۔ ہر مسئلہ کے بارہ میں نہ صرف ہدایت دی ہیں بلکہ اس کے دلائل اورحکمتیں بھی بیان کر دی گئی ہیں۔ایک نبوت کے دعوے دارکی صداقت کو پہچاننے کا مسئلہ بھی نہایت ضروری اور اہم مسئلہ ہے۔ اس لئے سب سے پہلے خاکسار قرآن کریم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت کرے گا۔

آنحضورﷺ کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اے نبی تو ان سے کہ دے فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ (یونس:17) اس سے پہلے میں ایک عرصہ دراز تم میں گزار چکا ہوں کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ میں دعویٰ نبوت سے قبل تم میں ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں کیا تم نے مجھے کبھی جھوٹ بولتے دیکھا ہے۔ اگر میں نے اپنی چالیس سالہ زندگی میں جو دعویٰ نبوت سے قبل کی ہے کسی ایک معاملہ میں بھی جھوٹ نہیں بولا تو کیا تمہاری عقل اس بات کو تسلیم کرے گی کہ آج اچانک میں خدائے تعالیٰ کے بارے میں جو احکم الحاکمین ہے جھوٹ اور افترا سے کام لینے لگا ہوں۔

انسانی فطرت تو یہ ہے کہ ہر عادت خواہ نیکی کی ہو یا بدی کی آہستہ آہستہ پڑتی ہے یہ تو فطرت کے ہی خلاف ہے کہ چالیس سال تک انسان سچ بولتا رہا ہو اور اچانک ایسا تغیر پیداہو جائے کہ انسان خدا کے بارے میں جھوٹ بولنے لگ جائے۔

رسول کریم ؐنے اپنا دعویٰ نبوت پیش کرنے سے پہلے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے دریافت کیا کہ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر جرار چھپا ہوا ہے تو کیا تم اس بات کو مان لو گے ؟تو انہوں نے کہا اَجَرَّبْنَاعَلَیْکَ اَلاَّصِدْقًا یعنی ہم نے آپ سے سوائے سچ کے کسی اور چیز کا تجربہ نہیں کیا۔تب آپ نے فرمایا کہ میں خدا کی طرف سے نبی ہو کر آیا ہوں اور ایک خطرناک عذاب سے تمہیں ڈراتا ہوں۔ یہ بات سن کر حاضرین میں سے ابو لہب اٹھا اور اس نے کہا تَبّاًلَکَ یعنی تیرے لئے ہلاکت ہو تو نے یہ کیا بات کہی ہے۔

اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی دوست اور دشمن سب کے تجربہ کی رو سے نہایت پاک اور صاف ہوتی ہے اوروہ جھوٹ بولنے کا قطعاً عادی نہیں ہوتا۔ درحقیقت اس کی دعویٰ نبوت سے بعد کی زندگی بھی پاک اور صاف ہوتی ہے لیکن دلیل ہے جو فطرت ِانسانی کے عین مطابق ہے اور جاہل سے جاہل بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ اسی دلیل کے مطابق حضرت مرزاغلام احمد صاحب قادیانی سچے قرار پاتے ہیں۔ دیکھئے حضور اپنی پاکیزہ زندگی کے بارہ میں کیسی تحدی سے فرماتے ہیں۔ ‘‘اب دیکھو خدا تعالیٰ نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پورا کر دیا کہ میرے دعویٰ پرہزار دلائل قائم کر کے تمہیں موقع دیا تاکہ تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے خود کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افترا یا دغا کا یا جھوٹ کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اورافتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ ہی بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے مجھے ابتداء سے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لیے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘

اس چیلنج کو پیش کئے آج سو سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے لیکن کوئی شخص حضورکی دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر نکتہ چینی نہیں کر سکا۔

پس اگر دعویٰ نبوت سے قبل کی پاکیزہ زندگی حضور ؐکی صداقت کی دلیل ہے تو یقیناحضرت مسیح موعو ؑکی صداقت کی بھی دلیل ہے کیونکہ آپ نے بھی دنیا کے سامنے خدائی مرسل ہونے کا دعویٰ پیش کیا تھا۔

وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آیا ہوتا توکوئی اورہی آیا ہوتا

کسی نے کیا خوب کہا ہے اَلۡفَضۡلُ مَا شَہِدَتۡ بِہِ الۡاَعۡدَاءُ ۔ فضیلت تو وہ ہوتی ہے جس کی گواہی دشمن بھی دینے پر مجبور ہوجائے۔

حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیؑہ کے دعویٰ سے پہلے کی پاکیزہ زندگی کے متعلق کئی غیروں کی شہادتیں ملتی ہیں۔ چنانچہ مشہور اہلحدیث لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ ’’اشاعۃ السنہ‘‘ حضرت اقدس کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ پر ریویو کرتے ہوئے آپ کے متعلق لکھتا ہے۔ ’’مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (وَاللّٰہُ حَسِیۡبُہٗ) شریعت محمدؐیہ پر قائم و پرہیز گار و صداقت شعار ہیں۔‘‘

(رسالہ ’’اشاعتہ السنہ‘‘ جلد نمبر7 ص 6)

مشہورصحافی جناب منشی سراج الدین بانی ’’زمیندار‘‘ اخبار لاہور نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے حق میں اپنی چشم دید گواہی دی کہ
’’ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا عوام سے کم ملتے تھے۔ 1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے یہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی ان دنوں میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو و مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے۔‘‘

(اخبار ’’زمیندار‘‘ 8 جون 1908ء)

مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں۔ ’’کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پرسیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بلحاظ اخلاق و عادات اور کیا بلحاظ خدمت و حمایت دین مسلمانان ہند میں ان کو ممتازو برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا۔‘‘

(اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر30 مئی 1908ء)

حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف نے فرمایا:۔
’’حضرت مرزا غلام احمد قادیانی حق پر ہیں اور اپنے دعویٰ میں راست باز اور صادق ہیں اور آٹھوں پہر اللہ تعالیٰ حق سبحانہٗ کی عبادت میں مستغرق رہتے ہیں۔ اور اسلام کی ترقی اور دینی امور کی سربلندی کے لئے دل و جان سے کوشاں ہیں میں ان میں کوئی مذموم اور قبیح چیز نہیں دیکھتا۔ اگر انہوں نے مہدی اور عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ بھی ایسی بات ہے جو جائز ہے۔‘‘

(اشارات فریدی جلد نمبر3 ص 79۱ ترجمہ از فارسی)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی صداقت اور سچائی کے جو بھی معیار بیان فرمائے ہیں وہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کو بھی اظہر من الشمس کی طرح ثابت کر رہے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

کَتَب اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ

(المجادلہ:22)

اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر فرض کردیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے وہ قوت والا اور غالب ہے۔

اسی طرح فرمایا اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْھَادُ

(المومن: 52)

ترجمہ: ہم ضرور اپنے رسولوں کی اور اُن لوگوں کی جو ہمارے رسولوں پر ایمان لائے ہیں دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی مددکیا کرتے ہیں اور اگر مدعی کا دعویٰ جھوٹا ہو تو اللہ تعالیٰ سزا بھی دیتا ہے جیسے کہ فرمایا

لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلَ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بَالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزیْنَ

(الحاقۃ: 45 تا 48)

ترجمہ: اگر یہ رسول جان بوجھ کر ہم پر جھوٹ باندھ رہا ہوتا تو ہم اس کادایاں ہاتھ پکڑ لیتے اوراس کی رگِ جان کاٹ ڈالتے اور تم میں کوئی اسے بچا نہ سکتا۔


ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قانون جاری ہیں ایک یہ کہ وہ اپنے رسولوں کی نصرت کرتا ہے اُن کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے اور دوسرا یہ کہ جو لوگ جانتے بوجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر افتراء کررہے ہوتے ہیں اور ایک بات کو جھوٹ بنا کر پیش کرتے ہیں تو اُن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نہیں ملتی۔ بلکہ وہ ہلاک کئے جاتے ہیں۔

اب آپ ان آیات کے مطابق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کو ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تھا کہ آپ اللہ کی طرف سے ہیں۔ اگر آپؑ اس دعویٰ میں مفتری ہوتے اور جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہوتے توآپ کو ہلاک ہوجانا چاہئے تھا کہ اللہ تعالیٰ کی سُنت ہے کہ وہ مفتری کو ہلاک کرتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ کو محفوظ رکھا بلکہ باوجود شدید مخالفت کے آپ کامیاب ہوئے۔ اپنے دعویٰ کو لوگوں سے منوایا، دشمنوں کے حملوں سے بچ گئے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات آپ ؑ کے لئے نازل ہوئیں۔

کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولا سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو

قرآن کریم کے بعد ہم اپنے پیارے آقا کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کی احادیث سے کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی پر روشنی پڑتی ہے۔

ہمارے آقاومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اسلام کے آخری دور میں ضعفِ اسلام کے وقت اسلام کی نشاۃ ِ ثانیہ کے لئے مسیح موعود ؑ کی بعثت کی خبر دی اور مسیح موعود کی شناخت اورپہچان کے لیے بھی قدم قدم پر رہنمائی فرمائی۔ کہیں زمانے کی نشاندہی فرمائی، کہیں مسیح موعود کا حلیہ بیان فرمایا، کہیں آپ کی خاطر رونما ہونے والے معجزات کی پیشگوئیاں فرمائیں اورکہیں آپ ؑ کے مقابل آنے والی اقوام کے حالات اوردجال اور یاجوج ماجوج کی خبر یں دیں۔ غرض ہر انداز اور ہر جہت سے آپ ؐ نےحضرت مسیح موعودؑ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت فرمائی۔

حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کا ایک عظیم المرتبت اور بلند شان نشان جوہر انسانی دخل کے بغیر اور قدرت الٰہی کا شاہکار نشان ہے اور جورسول اللہ ﷺ نے بہت روشن اورواضح بیان فرمایاہے۔ آپؐ فرماتے ہیں۔

إِنَّ لِمَهْدِيِّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ یَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَّمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِى النِّصْفِ مِنْهُ

(دارقطنی صفحہ 188)

یعنی ہمارے مہدی کی صداقت کے لئے دو ایسے عظیم الشان نشان ظاہر ہوں گے کہ زمین وآسمان کی تخلیق سے لے کر آج تک کبھی ایسے نشان کسی کے لئے رونما نہیں ہوئے۔اور وہ نشان یہ ہیں کہ مہدی موعودکے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کو اس کی گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات کو گرہن لگے اور اسی رمضان میں سورج بھی امام مہدی کی صداقت کے لیے گہنا یا جائے گااور اسے اس کی گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانے دن گرہن لگے گا۔

حضرت مسیح موعود و مہدی موعودؑ کی صداقت کی جانچ کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ کا بیان فرمودہ یہ نشان بہت بلند اورروشن معیار صداقت ہے۔ جو کسی انسان کے بس میں نہیں کہ اسے ظاہر کرسکے۔حضرت مسیح موعود ؑ نے 1882ء میں ماموریت کا دعویٰ فرمایا۔ 1889ء میں لوگوں نے آپ پر ایمان لانا شروع کیا کچھ لوگ یقینا چاند اور سورج گرہن کے اس نشانِ صداقت کے رونما ہونے کے منتظر بھی تھے۔ چنانچہ خدا کی تقدیر نے جلوہ نمائی کی اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی یہ پیشگوئی 1894ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کی خاطر پوری ہوئی۔ جب 1894ء کے رمضان کی 13 تاریخ کو چاند کا حسن مسیح موعودؑ کی خاطر ماند پڑا اور اسی رمضان کی 28 تاریخ کو آپ کے واسطے سورج بھی گہنا گیا اور آپ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر گیا۔

آپ کیا خوب فرماتے ہیں۔

آسمان میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ
چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار

میرے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ نے وَلَیُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعیٰ عَلَیْھَا کی پیشگوئی فرما کے مسیح موعودؑ کے زمانے کی بھی خبر دی۔ اور حضرت سلمان فارسی ؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر امام مہدی کی قوم کی نشاندہی بھی فرما دی۔ پھر دجال اور یاجوج ماجوج کے واقعات و نشانات اور ان سے مسیح موعود ؑکے مقابلہ کا ذکر فرما کے آپ نے مسیح موعود ؑکے زمانے کی پہچان کو ہمارے لیے آسان تربنا دیا۔

صاف دل کو کثرت ِاعجاز کی حاجت نہیں
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف ِکردگار

آپ اپنے روحانی مشن کے لحاظ سے انتہائی کامیاب زندگی گزار کر26 مئی 1908ء بروز منگل لاہور میں وفات پا کر اس دارفانی سے کوچ کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اور 27 مئی 1908ء کو قادیان ضلع گورداسپور میں بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ علیہ السلام کی رحلت جہاں ہر احمدی کے لئے ایک دل سوز واقعہ تھی وہاں غیرازجماعت لیکن اہل عقل و دانش کے لئے بھی کسی صدمہ سے کم نہ تھی۔ آپ کے وصال پر بہت سے اہل قلم نے غم و اندوہ کا اظہار کرتے ہوئے آپ علیہ السلام کے فضائل کا بھی ذکر کیا۔ چنانچہ جناب مولانا ابوالکلام آزاد ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر حضور کی وفات پر ’’موت عالم‘‘ کے عنوان سے رقمطراز ہیں۔ ’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر اور زبان جادو…… وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنا رہا جو شور قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اٹھ گیا…… مرزا غلام احمد قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے۔

ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تودنیا میں ایک انقلاب پیدا کرکے دکھا جاتے ہیں۔ مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ،ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کر ا دیا ہے کہ ان کا ایک بہت بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا۔ ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہیں مجبورکرتی ہے کہ اس احسان کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے…… میرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابل پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے…… آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو۔‘‘

(اخبار وکیل امرتسر30 مئی 1908ء)

جناب مولانا ابوالنصر غلام یٰسین برادر مولانا ابوالکلام آزاد۔ اپریل 1905ء میں قادیان تشریف لائے اور واپسی پر اپنے تأثرات اخبار وکیل امرتسر میں بدیں الفاظ میں شائع فرمائے۔ ’’میرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے آنکھوں میں خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے۔ طبیعت منسکر مگر حکومت خیز، مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا برد باری کی شان نے انکساری کی کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے۔ گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا متبسم ہیں۔ رنگ گورا ہے بالوں کو حنا کا رنگ دیتے ہیں۔ جسم مضبوط اور محنتی ہے۔ سر پر پنجابی وضع کی سفید پگڑی باندھتے ہیں پائوں میں جراب اور دیسی جوتی ہوتی ہے۔ عمر تقریباً 66 سال کی ہے۔ مرزا صاحب کے مریدوںمیں مَیں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں خوش اعتقاد پایا۔‘‘

(اخبار وکیل امرتسر 1905ء)

(علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ1908ء بحوالہ تشحیذ الاذہان جلد3 نمبر8صفحہ322۔ 1908ء)

حضرت اقدس بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے مشہور لیکچر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے متعلق اخبار جنرل و گوہر آصفی کلکتہ نے جلسہ مذاہب عالم لاہور 1896ء کے اختتام پر لکھا:۔ ’’حق تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر اس جلسہ میں حضرت مرزاصاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلت و ندامت کا قشقہ لگتا ہے۔ مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا۔ بلکہ اس کو مضمون کی بدولت فتح نصیب ہوئی۔‘‘

(اخبار جنرل وگوہر آصفی کلکتہ مورخہ24 جنوری 1897ء صفحہ 7)

اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافتِ خامسہ کے بابرکت دَور میں جماعتِ احمدیہ خیرِ اُمت بنتے ہوئے دنیا بھر میں تبلیغِ اسلام، مساجد کی تعمیر، قرآن کریم کے مختلف زبانوںمیں تراجم، ہسپتالوں اور سکولوں کا قیام کررہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب تمام دنیا پر احمدیت کا جھنڈا لہرائے گا اُ س وقت ایک خدا ،ایک رسول اور ایک قِبلہ ہوگا ۔تب ایک نیا آسمان ہوگا اور نئی زمین ہوگی۔یہی جماعتِ احمدیہ کا شاندار مستقبِل ہے۔

جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا۔ اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھادے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ مَیں تجھے برکت پربرکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔

سو اے سُننے والو! اِن باتوں کو یاد رکھو۔ اور اِن پیش خبریوں کو اپنے صندوقوںمیں محفوظ کرلو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔‘‘

(تجلیاتِ الٰہیہ روحانی خزائن جلد20 صفحہ409)

علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ نے لکھا۔ ’’مرحوم ایک مانے ہوئے مصنف اور مرزائی (احمدی) فرقہ کے بانی تھے آپ کی پیدائش 40-1839 میں ہوئی آپ نے علوم شرقیہ میں کمال حاصل کیا۔ اپنی زندگی کے آخری دن تک کتابوں کے عاشق رہے اور دنیوی پیشوں سے پرہیز کرتے رہے۔ 1874ء تا 1876ء عیسائیوں، آریوں، برہموں کے خلاف شمشیر قلم خوب چلایا۔ آپ نے 1880ء میں تصنیف کا کام شروع کیا۔ آپ کی پہلی تصنیف (براہین احمدیہ) اسلام کے ڈیفنس میں تھی جس کے جواب کے لئے آپ نے دس ہزار روپے کا انعام رکھا۔ آپ نے انیسویں صدی کے لئے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔ 1889ء میں بیعت لینی شروع کی… آپ نے اپنی تصنیف کردہ اسی 80 کتابیں پیچھے چھوڑیں جن میں سے بیس 20 عربی زبان میں ہیں بے شک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا۔‘‘

چودھری افضل حق صاحب صدر جمیعۃ الاحرار رقمطراز ہیں۔

’’آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا جس میں تبلیغی حِس مفقود ہو چکی تھی۔ سوامی دیانند کی مہذب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہو گئی…… مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ہاں ایک دل (حضرت مسیح موعودؑ مرادہیں۔ ناقل) مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشرو اشاعت کے لئے بڑھا اور اپنی جماعت میں اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام جماعتوں کے لئے نمونہ ہے۔‘‘

(فتنۂ ارتداد اورپولیٹیکل قلا بازیاں ص46)

خواجہ حسن نظامی دہلوی صاحب کا بیان اخبار ’’منادی‘‘ میں یوں شائع ہوا۔ ’’مرزا غلام احمدصاحب اپنے وقت کے بہت بڑے فاضل بزرگ تھے …… آپ کی تصانیف کے مطالعہ اور آپ کے ملفوظات کے پڑھنے سے بہت فائدہ پہنچ رہا ہے اور ہم آپ کے تبحر علمی اور فضیلت و کمال کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘

(اخبار ’’منادی‘‘ 27 فروری 4 مارچ 1930ء)

مولوی عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں۔ ’’مرزا صاحب تو بہرحال اپنے تئیں مسلمان اور خادم اسلام کہتے ہیں اور مسیحیوں، آریوں، ملحدوں کے جواب میں سینکڑوں ہزاروں صفحے لکھ گئے ہیں۔‘‘

(اخبار “سچ” بحوالہ پیغام صلح22 جنوری 1926ء)

اخبار ’’جیون تت‘‘ میں دیو سماج کے سیکرٹری نے لکھا۔

’’وہ اسلام کے مذہبی لٹریچر کے خصوصیت سے عالم تھے، سوچنے اور لکھنے کی اچھی طاقت رکھتے تھے۔ کتنی ہی بڑی بڑی کتابوں کے مصنف تھے۔‘‘

(بحوالہ البدر 2 جولائی 1908ء)

شاعرمشرق علامہ اقبال نے اپنے بعض انگریزی مضامین میں حضرت اقدس کی زندگی میں صاف صاف لکھا کہ

’’آپ جدید ہندی مسلمانوں میں سب سے بڑے دینی مفکر ہیں۔‘‘

(انڈین انکوائری جلد29ستمبر1900ء ص237 بحوالہ الفرقان جون 1955ء)

شمس العلماء سید میرمہدی حسن مرحوم استاد علامہ اقبال اپنے ایک مکتوب میں حضورکے زمانہ قیام سیالکوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’ادنٰی تأمل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہو جاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔‘‘

(بحوالہ سیرۃ المہدی حصہ اول ص270)

پھر ایک ملاقات میں چشم پُر آب ہو کر فرمایا۔ ’’افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی۔ ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کر سکتا۔ ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی بلکہ وہ ان لوگوںمیں سے تھے جو خداتعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی کبھی آتے ہیں۔‘‘

(الحکم 17۔اپریل 1934ء ص 3)

علامہ اپنے ایک بیان میں لکھتے ہیں۔

’’آپ عزلت پسند اور پارساراور فضول و لغو سے مجتنب اور محترز تھے۔‘‘ نیز لکھا۔ ’’کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے۔ بیٹھ کر کھڑے ہو کر ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار و قطار رویا کرتے تھے۔ ایسی خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیرنہیں ملتی۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اول ص272 ,270)

دعویٰ نبوت کرنے کے بعدلوگ اس کے دشمن ہوجاتے ہیں اور اس پر طرح طرح کے الزامات لگا دیتے ہیں۔ پس ایک مدعئی نبوت کی صداقت پرکھنے کے لیے اس کی دعویٰ سے پہلی زندگی کو دیکھنا چاہیے۔ اگر وہ ہر پہلو سے صاف ہو تو بلاشبہ وہ سچاہے یہ ایسی چودھری افضل حق صدر جمیعۃ الاحرار رقمطراز ہیں۔

’’آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسدبےجان تھا جس میں تبلیغی حِس مفقود ہو چکی تھی۔ سوامی دیانند کی مہذب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہو گئی…… مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ہاں ایک دل (حضرت مسیح موعودؑ مرادہیں۔ ناقل) مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشرو اشاعت کے لئے بڑھا اور اپنی جماعت میں اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام جماعتوں کے لئے نمونہ ہے۔‘‘

(فتنۂ ارتداد اورپولیٹیکل قلا بازیاں ص46)

خواجہ حسن نظامی دہلوی صاحب کا بیان اخبار ’’منادی‘‘ میں یوں شائع ہوا۔ ’’مرزا غلام احمد صاحب اپنے وقت کے بہت بڑے فاضل بزرگ تھے …… آپ کی تصانیف کے مطالعہ اور آپ کے ملفوظات کے پڑھنے سے بہت فائدہ پہنچ رہا ہے اور ہم آپ کے تبحر علمی اور فضیلت و کمال کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘

(اخبار ’’منادی‘‘ 27 فروری 4 مارچ 1930ء)

مولوی عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں۔ ’’مرزا صاحب تو بہرحال اپنے تئیں مسلمان اور خادم اسلام کہتے ہیں اور مسیحیوں، آریوں، ملحدوں کے جواب میں سینکڑوں ہزاروں صفحے لکھ گئے ہیں۔‘‘

(اخبار ’’سچ‘‘ بحوالہ پیغام صلح 22 جنوری 1926ء)

اخبار ’’جیون تت‘‘ میں دیو سماج کے سیکرٹری نے لکھا۔

’’وہ اسلام کے مذہبی لٹریچر کے خصوصیت سے عالم تھے، سوچنے اور لکھنے کی اچھی طاقت رکھتے تھے۔ کتنی ہی بڑی بڑی کتابوں کے مصنف تھے۔‘‘

(بحوالہ البدر 2 جولائی 1908ء)

شاعرمشرق علامہ اقبال نے اپنے بعض انگریزی مضامین میں حضرت اقدسؑ کی زندگی میں صاف صاف لکھا کہ

’’آپ جدید ہندی مسلمانوں میں سب سے بڑے دینی مفکر ہیں۔‘‘

(انڈین انکوائری جلد 29 ستمبر 1900ء ص237 بحوالہ الفرقان جون 1955ء)

نواب محسن الملک۔ آپ سر سید مرحوم کے سیاسی جانشین اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے جنرل سیکرٹری تھے۔ حضورؑ کی خدمات کو سراہتے ہوئے 2۔اکتوبر 1895ء کو بمبئی سے مندرجہ ذیل مکتوب لکھا۔ ‘‘درحقیقت دینی مباحثات و مناظرات (میں) جو دل شکن اور جیسی درد انگیزی باتیں لکھی اور کہی جاتی ہیں وہ دل کو نہایت بے چین کرتی ہیں اور اسے ہر شخص کو جسے ذرا بھی اسلام کا خیال ہو گا روحانی تکلیف پہنچتی ہے۔ خدا آپ کو اجر دے کہ آپ نے ایک دلی جوش سے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہا ہے۔ یہ کام بھی آپ کا منجملہ او ربہت سے کاموں کے ہے جو آپ مسلمانوں کے بلکہ اسلام کے لئے کرتے ہیں۔‘‘

(الحکم 7۔اگست 1934ء ص 9)

شمس العلماء سیدمیرمہدی حسن مرحوم استاد علامہ اقبال۔ اپنے ایک مکتوب میں حضورکے زمانہ قیام سیالکوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’ادنیٰ تأمل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہو جاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔‘‘

(بحوالہ سیرۃ المہدی حصہ اول ص270)

پھر ایک ملاقات میں چشم پُر آب ہو کر فرمایا۔
’’افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی۔ ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کر سکتا۔ ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی بلکہ وہ ان لوگوںمیں سے تھے جو خداتعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی کبھی آتے ہیں۔‘‘

(الحکم 17۔اپریل 1934ء ص 3)

علامہ اپنے ایک بیان میں لکھتے ہیں۔
’’آپ عزلت پسند اور پارساراور فضول و لغو سے مجتنب اور محترز تھے۔‘‘ نیز لکھا۔ ’’کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے۔ بیٹھ کر کھڑے ہو کر ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار و قطار رویا کرتے تھے۔ ایسی خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیرنہیں ملتی۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اول ص 270۔272)

(عبدالقدیر قمر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ