• 24 اپریل, 2024

شکر الہٰی

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

ایک مربی کو میدان عمل میں بے شمار اخبارات، میگزینز اور رسائل پڑھنے اور دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ ایک دفعہ میرے لاہور قیام کے دوران پندرہ روزہ ’’مہارت‘‘ نظروں سے گزرا۔ جس کے سرورق پر پاکستان کے تمام بڑے بڑے سیاستدانوں کی فوٹوز شائع کر کے لکھا تھا کہ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ۔ یہ تو ازراہِ تفنن تھا لیکن یہ آیت ایک بہت عظیم سبق اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ پس (اے جنّ و انس) تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے۔

قرآنِ کریم میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ِ کے باربار تکرار کے بعد یہ واحد آیت ہے جس کی بکثرت تکرار قرآن میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے 31 بار انسان کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بار بار ذکر کرے تا شکر الہٰی کے تمام تقاضوں کو انسان بروئے کار لاسکے۔ اگر سورۃ الرحمٰن (جو ستائیسویں پارے میں 55ویں سورت ہے) کا بغور مطالعہ کریں تو بہت سے اسباق اپنی مادی اور روحانی زندگی کو سنوارنے کے لئےملتے ہیں ۔

• اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں میزان کا ذکر کیا ہےکہ اللہ تعالیٰ کے تمام اجرام فلکی میں میزان کا ایک نظام کام کر رہا ہے ۔ اپنے وقت پر سورج طلوع و غروب ہوتا ہے۔ چاند اپنے وقت پر ظاہر ہوتا ہے۔ بارش روشنی متناسب اور مناسب طریق پر اپنا رنگ دکھلاتی ہے۔ بارش زیادہ ہونے سے تباہی اور کم ہونے سے قحط کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک مومن بندے کو توازن کے نظام کی نہ صرف حفاظت کرنی ہے بلکہ اپنے اندر بھی عادات اخلاقیات اور عبادات میں توازن پیدا کرنا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ ایک مومن بندے کو رفعتیں عطا کرتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اس سورۃ کے تعارفی نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں ’’دراصل ہر رفعت اسی توازن کی محتاج ہوتی ہے‘‘۔

( ترجمۃ القرآن صفحہ973)

آنحضور ﷺ کے زمانہ میں ایک صحابیہ اس حد تک عبادات میں مصروف رہتی تھیں کہ رات کو اپنی چٹیا میں رسی ڈال کر چھت سے باندھ دیتیں کہ اگر عبادت کے دوران اونگھ آئے تو جھٹکے سے بیدار ہو جاؤں۔ اس صحابیہ کے اس فعل کا جب آنحضور ﷺکو علم ہوا تو آپؐ نے اس فعل کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا ۔ ’’إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِاَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا فَأَعْطِ كُلِّ ذِيْ حَقٍّ حَقَّهُ‘‘۔ کہ تمہارے نفس کا تم پر حق ہے ۔ تمہارے اہل کا تم پر حق ہے۔ پس ہر ایک کا حق ادا کرو۔تو متوازن عبادات بھی ایک مومن بندے کی علامت ہے۔ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کمی بھی اللہ کو پسند نہیں۔ آنحضورﷺ بھی عبادت میں مداومت پسند فرمایا کرتے تھے۔

• پھر ایک سبق اس سورۃ میں یہ درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گیلی اور کھنکتی ہوئی ٹھیکریوں سے پیدا کیا ہے۔ اور یہی وہ مضمون ہے جو خاکسار آج ان بین السطور میں بیان کر کے ’’فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ‘‘ کے مضمون کو قارئین الفضل کے لئے اجاگر کرنا چاہتا ہے۔

• انسان کو ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے انسان بلکہ اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے۔ جانور یا کیڑہ مکوڑا نہیں بنایا اور پیدا بھی گیلی مٹی سے کیاتا انسان اپنے رب کو اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ احکام القرآن کے تابع بنا لے۔ اس پر انسان کو اپنے خالق اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔

• پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پورے اعضاء دے کر بنایا ۔ کام کر نے کے لئے ہاتھ دیئے ،چلنے کے لئے پاؤں دیئے، بصارت کے لئے آنکھ اور بصیرت کے لئے دماغ اور سوچ عطا کی۔ اس ناطے بھی ہر انسان کو ہر وقت ’’فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ‘‘ کے مضمون پر عمل پیرا رہنا چاہیے۔

• ایک مومن بندے کو اللہ تعالیٰ نے اسلام جیسی حسین اور پیاری نعمت سے نوازا ہے ۔ پیارےرسول حضرت محمدﷺ عطا فرمائے۔ جس نے ہمیں با اخلاق اور با خدا بننے کے لئے انمول اصول بیان فرمائے ۔ حتیٰ کہ اس رسول نے حاجت کرنے کے اصولوں سے آگاہ فرمایا۔ ایسا پیاراحسین اور مکمل ضابطہ حیات قرآن کریم کی صورت میں عطا فرمایا جو تا قیامت مختلف زمانوں میں آنے والی مخلوق کے لئے لائحہ عمل تجویز کرتا ہے۔ اس کتاب کی تعلیمات پر عمل کر کے ہم اپنے آپ کو جہاں امن میں پاتے ہیں وہاں دوسری اقوام کے لئے بھی امن کا پیغام بن رہے ہیں۔ ان لازوال نعمتوں کا شکر آیۃ کریمہ ’’فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ‘‘ کو سامنے رکھ کر کرنا ضروری ہے۔

اگر ہم مسلمان اس آیۃ کریمہ کے تناظر میں تشکر الہٰی نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ قرآنی اصول۔ اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَ یَاۡتِ بِخَلۡقٍ جَدِیۡدٍ (ابرہیم: 20) کہ اگر اللہ چاہے تو اے انسانو!۔ تمہیں لے جائے اور نئی مخلوق کو لے آئے کے مطابق نئی قوم کو لے آئے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس آیت کے تحت foot note میں تحریر فرمایا ہے:
’’یہاں اس بات کا احتمال ظاہر فرمایا گیا ہے کہ اگر اللہ چاہے تو بنی نوع انسان کو کلیۃً نابود کرکے ایک نئی مخلوق کو زمین کا وارث بنا سکتا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم میں مضمون اس آیت کے بعدہی بیان فرمایا۔ جس میں متعلقہ انعامات پر شکر الٰہی کا ذکرہے فرماتا ہے۔ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَ لَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ (ابراہیم :8)

’’پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان خوش نصیب لوگوں میں پیدا کیا جن کو اس آخری دور میں سیّدنا و امامنا خاتَم النبیّین حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا مبارک ’سلام‘ امام آخر الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچانے کی توفیق دی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔ اور ہم قرآنی حکم لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِه ِ کے تحت دنیا کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے بھجوائے گئےتمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں۔ انبیاء کی جو لڑی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی اور سیّدنا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی وساطت اور تعلق سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچی۔ اس لڑی اور کڑی کو مضبوطی سے پکڑ کر ہم ان سعادت مند لوگوں میں داخل ہو گئے جو یہ علی الاعلان کہہ سکتے ہیں کہ ہم تمام انبیاء پر ایمان کوسینوں پر سجائے ’سمعنا و اطعنا‘ کا نعرہ لگاتے اپنے پروردگار کی طرف سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ہم نے صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آنحضور ﷺ کا سلام ہی نہیں بھیجا بلکہ پیشگوئیوں کے مطابق قائم ہونے والی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ سے فیضیاب بھی ہو رہے ہیں۔ اور اس کے فیوض و برکات سے ایک ایسی مضبوط و مربوط لڑی میں پروئے گئے ہیں کہ حکومتوں، تنظیموں، مذہبی جماعتوں اور انفرادی طور پر لوگوں نے اس لڑی کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی جو اب بھی جاری و ساری ہے۔ لیکن اس بابرکت موعود خلافت کے بل بوتے پر پہلے سے زیادہ مضبوط و مربوط ہوتے جا رہے ہیں۔ دشمن ایک جگہ پر راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کسی اور مقام پر اس سے کہیں بڑی فتوحات کے در کھول دیتا ہے۔ جس کا اظہار خلیفہ خامس حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ 15 جنوری 2021ء میں ایم ٹی اے غانا کو Launch کرتے ہوئے فرمایا ہے۔

’’ہم اس خلافت کی برکات سے ذیلی تنظیموں کے مربوط نظام سے جڑ چکے ہیں جس کا اعتراف غیر بھی کرتے رہے ہیں۔ اور بہت سی برکتیں جن میں اسلامی تعلیمات مختلف رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو لئے ہمارے آنگن میں نہ صرف رچی بسی ہے بلکہ ہم خلافت کے بابرکت سایہ تلے اس خوشبو کو تمام دنیا میں پھیلانے کا تہیّہ کئےہوئے ہیں۔‘‘

• ہم اپنی نجی زندگیوں کو دیکھیں تو ہم میں سے ہر کوئی حسبِ توفیق اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے حصّہ پا رہا ہے۔ بعض نعمتیں ہم میں سے ہر کوئی رحمان صفت کے تحت حاصل کئے ہوئے ہے اورہم میں سے بعض رحیم صفت کے تحت حصّہ دار بنتے ہیں۔ دنیا میں خدا کی موجود سہولتوں سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کسی کے پاس گاڑی ہے۔ کوئی میڈیا کی تمام سہولتوں سے وافر اور درست فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ننگ چھپانے کے لئے لباس جیسی نعمت عطا کی۔ سر چھپانے کے لئے چھت عطا کی۔ اس ناطے ’’فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ‘‘ کے تحت تشکر الہٰی بہت ضروری ہے۔

آرٹیکل کے آخری حصّہ میں آج کے دور کی مناسبت سے ایک مصیبت و عذاب سے اپنے آپ کو محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے شکر کی ادائیگی ضروری ہے۔ سورۃ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ کی جناب سے جنّ و انس کو مخاطب ہو کر بار بار ’’فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ‘‘ کہا گیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ جنّ و انس کی پیدائش کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ ’’انسان کی پیدائش کے آغاز سے پہلے جنّ کو آسمان سے برسنے والی ایسی سخت گرم ہوا سے جو آگ کی طرح گرم تھی پیدا کیا ہے ……… نارُالسّموم سے پیدا ہونے والے جنّوں سے مراد بیکٹیریا ہیں۔‘‘

(ترجمۃ القرآن صفحہ428)

پھر سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس سورت رحمان کے تعارفی نوٹ میں تحریر فرمایا ہے۔

’’تم دونوں آخر خدا کی کس کس نعمت کا انکار کروگے اور اسی تعلق میں جن و انس کی پیدائش کا فرق بھی بیان فرمادیا کہ جنّ کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا گیا۔ فی زمانہ جنّ کے لفظ کی مختلف تشریحات کی جاتی ہیں لیکن یہاں جن کی ایک تشریح یہ ہے کہ وائرس (Virus) اور بیکٹیریا (Bacteria) بھی جنّات ہیں جو ابتدائے آفرینش میں آسمان سے گرنے والی آتشیں ریڈیائی لہروں کے نتیجہ میں پیدا ہوئے۔ فی زمانہ اس بات پر تمام سائنسدان متفق ہوچکے ہیں کہ بیکٹیریا اور وائرسز (Viruses) براہ راست آگ سے توانائی پاکر وجود پکڑتے ہیں۔‘‘

(ترجمۃ القرآن صفحہ973)

آج کل کورونا وائرس (Corona Virus) زوروں پر ہے۔ مندرجہ بالا ارشاد کے پیش نظر یہ بھی ایک جنّ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی تباہ کاریوں اور ہلاکتوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے ہمیں اس حفاظت کے حوالہ سے ’’فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ‘‘ کو سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی کوشش میں لگے رہنا چاہیے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مارچ 2021