احمدیت کا پودا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں سے ایک سو بتیس سال پہلے قادیان کی بستی میں لگا ،آج اس کی شاخیں دنیا کے تمام اطراف میں پھیل چکی ہیں اور سینکڑوں اقوام ہر سال اس چشمہ سے پانی پیتی ہیں۔ چنانچہ یہ سلسلہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے مختلف اقوام میں احمدیت کی سچائی کے نشان دکھاتا ہے اور جو احمدی ہوچکے ہوتے ہیں ان کے ایمان کو بڑھانے کے لیے بھی نشان ظاہر کرتا ہے۔ خاص طور پر سلسلہ کے واقفین زندگی کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے مناظر اکثر میدان عمل میں دیکھنے کو ملتے ہیں جس سے انسان خود بھی دنگ رہ جاتا ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ غیب کے دروازے کھولتا ہے ۔چنانچہ اس مضمون میں خاکسار تحدیث نعمت کے لیے کچھ دلچسپ واقعات کا ذکر کرے گا جو خاکسار کو میدان عمل میں پیش آئے یا جو الٰہی نشانات خاکسار کے سامنے جماعت کے افراد کے ساتھ پیش آئے۔
خاکسار کی پہلی تقرری 2012ء میں فادا ریجن میں ہوئی تھی چنانچہ فادا شہر کے صدر صاحب نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے چندہ دینے کی وجہ سے ان کے لیے اپنے فضل کی راہیں کھولیں۔یہ واقعہ خود حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی بیان کیا ہے چنانچہ حضور کے بابرکت الفاظ میں ہی یہ واقعہ پیش خدمت ہے۔حضور فرماتے ہیں کہ
’’فادا شہر کے صدر صاحب کہتے ہیں کہ اس سال جب عید الاضحی آئی تو میرے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ گھر کھانا بھی پک سکتا۔ اس لیے قربانی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا یعنی عید پر بکرے کی جو قربانی کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ان دنوں تحریک جدید کے بارے میں مربی صاحب بھی درس دیتے تھے۔مالی قربانی کے بارے میں بھی اور تحریک جدید کے بارے میں انہوں نے توجہ دلائی۔چنانچہ کہتے ہیں میں نے برکت کے لیے دو ہزار فرانک اس میں دے دیا اور خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ میری ضروریات پوری کر دے گا۔بہرحال ایسا معجزہ ہوا کہ اگلے دن ہی ان کے چھوٹے بھائی نے ان کو آئیوری کوسٹ سے غیر معمولی طور پر بڑی رقم بھجوائی جس کی انہیں کوئی امید نہیں تھی جس سے عید کی قربانی کا بھی انتظام ہوگیا اور ان کے گھر کے اخراجات کے لئے جو ضرورت تھی وہ بھی پوری ہوگئی۔وہ کہتے ہیں چند گھنٹے میں یہ دیکھ کر میرے ایمان میں مزید اضافہ ہوا۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 7نومبر 2014ء)
اسی طرح خاکسار جب ڈوری ریجن میں تھا تو وہاں پیگو جماعت کے امام الحاج ابراہیم صاحب جو انتہائی مخلص احمدی ہیں اور احمدی ہونے سے پہلے وہابیوں کے بڑے اماموں میں سے تھے ۔علمی لحاظ سے بھی بہت اعلیٰ معیار رکھتے ہیں انہوں نے بھی چندہ کی برکات کا ذکر کیا جس کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ میں ان الفاظ میں ذکر کیا۔ فرمایا
’’بورکینا فاسو سے مبارک منیر صاحب مبلغ لکھتے ہیں کہ پیگو جماعت کے ایک مخلص احمدی الحاج ابراہیم کے دو بچے کچھ عرصہ سے بیمار تھے۔ کافی علاج کروایا لیکن بہتری نہیں ہورہی تھی۔ ایک دن ہمارے معلم صاحب نے انہیں مالی قربانی کی تحریک کی۔ تو انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیااور دعا کی کہ اے اللہ میری قربانی کو قبول فرما اور میری اولاد کو جلد صحت یاب کردے۔کہتے ہیں کہ چند دن بعد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان بچوں کی حالت کافی حد تک بہتر ہونے لگی۔ایک بچہ تو بالکل ٹھیک ہوگیا ہے اور دوسرے بچے میں کافی حد تک بہتری ہے۔ان کو بھی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو قبول فرماتے ہوئے یہ برکت عطاء فرمائی۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 9نومبر 2018ء)
ان میں سے ایک بچہ جس کا نام مائیگا اسماعیل ہے، اب جماعت احمدیہ کے معلم کے طور پر سلسلہ کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
برکینا فاسو میں جماعت کے سالانہ پروگراموں میں ایک اہم پروگرام جلسہ سالانہ کا ہوتاہے جس کے لیے احباب جماعت کو تیار کیا جاتاہے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی جلسہ سالانہ پر کوئی احمدی آجاتا ہے تو وہ اگلے پورے سال کے لیے ایک خاص روحانیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ اور جماعت کےساتھ بھی اس کا مضبوط تعلق پیدا ہوجاتاہے اس طرح کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی جماعت کا مخالف ہو اور وہ کسی طرح جلسہ سالانہ میں شامل ہوجائے تو اس کا رویہ جماعت کے کے بارہ میں یکسر تبدیل ہوجاتاہے اور اکثر احمدی بھی ہوجاتے ہیں اس لیے جلسہ سالانہ پر لانے کے لیے خاص طور پر کوشش کی جاتی ہے۔
خاکسار جب فادا ریجن میں تھا تو وہاں سے 150کلومیٹر دور کنچاری شہر کے ایک غیر احمدی جن کا نام ووبا عبد الرحمٰن ہےکو جلسہ سالانہ پر آنے کی دعوت دی گئی جس کو انہوں نے قبول کر لیا اورجلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کی ۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سال اپنی زندگی کا بہت بڑا معجزہ دیکھا۔ ان کے ذمہ تین سال سے قرض واجب الادا تھا جو کہ بہت کوشش کے باوجود بھی ادا نہیں ہورہا تھا۔ لیکن اس سال 2016ء کے جلسہ سالانہ پر جب وہ واگا ڈوگوآئے تو انہوں نے جلسہ کے پہلا دن امیر صاحب کے خطبہ میں سنا کہ ان ایام میں کثرت سے دعائیں کریں۔ یہ مبارک دن ہیں اور تمام لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دعاؤں کو ضرورسنے گا۔ چنانچہ انہوں نے کثرت سے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے دعا شروع کردی۔
ووبا عبد الرحمن کہتے ہیں کہ جب وہ جلسہ سے واپس آئے تو ان کو کسی جگہ نوکری مل گئی جس سے انہوں نے چند ماہ میں ہی اپنا قرض اتار دیا جو کہ تین سال سے واجب الادا تھا۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت دی کہ کچھ بھیڑیں بھی خریدنے کی توفیق ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے سمجھ آگئی ہے کہ یہ جلسہ سالانہ کی برکات ہیں اور جماعت احمدیہ الٰہی جماعت ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک
بچپن میں اکثر پرانے بزرگان کے واقعات سنتے تھے کہ انہوں نے عظیم قربانیاں دیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی عجیب رنگ میں ان کی تائید و نصرت کے نظارے دکھائے۔ خاکسار نے بھی یہ بات نوٹ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ میدان عمل میں بعض دفعہ معجزانہ طور پر کام بناتا ہے اور ایسی جگہوں سے مدد فراہم کرتاہے کہ بندہ خود حیران رہ جاتا ہے۔
ایسے ہی ایک دفعہ 2014ء میں خاکسار دو معلمین کے ساتھ فادا شہر سے گائیری شہر دورہ پر گیا جو کہ تقریباً 80کلومیٹر ہے۔ چنانچہ تین دن کا دورہ تھا جاتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے پہنچ گئے لیکن واپسی پر گاڑی خراب ہوگئی اور کسی وجہ سے گاڑی کاگیئر نہیں لگ رہا تھا چنانچہ گاڑی راستہ میں ہی رک گئی جنگل کا علاقہ تھا اور جہاں گاڑی رکی وہاں ہی دو دن پہلے کچھ ڈاکوؤں نے ایک گاڑی کو لوٹا تھا اور دو آدمی بھی قتل کر دیے تھے۔ مغرب کا وقت بھی ہونے والا تھا اور شام کو اس رستہ پر کسی دوسری گاڑی کے آنے کی امید نہیں تھی کیونکہ کچا راستہ ہونے کی وجہ سے اس راستہ پر عام طور پر دن میں چند ہی مسافر گاڑیاں چلتی تھیں۔ اسی پریشانی میں کھڑے تھے کہ اب کیا کیا جائے اور لبوں پر دعا بھی تھی کہ یا اللہ کوئی راہ نکال دے۔ اے اللہ تیری راہ میں نکلے ہیں تو ہی کوئی معجزہ کر کہ رات ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے معجزہ دکھایا کہ ایک موٹر سائیکل پر تین لڑکے اس طرف آنکلے۔جب وہ قریب پہنچے تو انھوں نے ہمیں دیکھ کر کہا کہ کیا مسئلہ ہے کیوں کھڑے ہیں۔ان میں سے ایک لڑکا گھانا کا تھا اور انگلش بھی بولتا تھا۔اسے خاکسار نے بتایا کہ اس طرح گاڑی نہیں چل رہی۔اس نے کہا کہ وہ گھانا میں ایک گاڑیوں کی ورکشاپ پر کام کرتا رہا ہے اور مکینک ہے۔ اس نے گاڑی کے نیچے گھس کر دیکھا تو بتایا کہ گاڑی کے گیئر باکس کے ایک طرف کے تمام پیچ گر گئے ہیں جس کی وجہ سے گئیرباکس ایک طرف لٹک گیا ہے اورگئیر نہیں لگ رہا۔اس پراس نے گاڑی کے نیچے گھس کر گیئر باکس کو ایک رسی کے ساتھ باندھا اورہم آہستہ آہستہ سفر طے کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت سے فادا پہنچ گئے۔ اس طرح شام کے وقت ان لڑکوں کا اس راستہ پر آنا معجزہ سے کم نہیں تھا اور پھر یہ بھی ایک بڑا معجزہ تھا کہ ان میں سے ایک لڑکا مکینک تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ہرشر سے بھی محفوظ رکھااور منزل مقصود تک پہنچایا ۔الحمدللہ علی ذالک
فادا شہر سے 150کلومیٹر دور کنچاری شہر کے سب سے بڑے امام جن کا نام ووبا سالیف ہے اکثر ہمارے لوکل مشنری کے پاس آتے رہتے تھے اور اسلام کے بارے میں سوال و جواب کرتے رہتے تھے۔ یہ برملا اکثر کہتے تھے کہ
جو اسلام کی تصویر احمدیت دکھا رہی ہے وہی اصل اسلام ہے۔ اس اسلام پر عمل کر کے ہم رضاء الٰہی حاصل کر سکتے ہیں اور مسلمان دنیا میں ترقی کر سکتے ہیں۔
چنانچہ جب بھی ان کو احمدیت قبول کرنے کا کہا گیا تو ان کا صاف جواب ہوتا تھا کہ
’’میں لوگوں سے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے میری امامت کے عہدے سے اتا ردیں گے۔ اور میں اپنی حیثیت کھو بیٹھوں گا۔‘‘
برکینا فاسو کے مختلف ریجنز میں ہر سال بعض میلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں دور و نزدیک سے تاجر اپنی اشیاء فروخت کرنے کے لیے لاتے ہیں اسی طرح فادا ریجن میں اپریل 2014ء میں فادا شہرمیں ایک میلہ لگا اس موقع پر جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی بک سٹال لگایا گیا اور قرآن کریم کے مختلف تراجم کی نمائش بھی کی گئی۔چنانچہ ایک دن ایک پادری صاحب بھی ہمارے سٹال پر آئے۔ جن کے ساتھ تفصیلی بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ میں نے کئی دفعہ مسلمانوں کے علماءکے سامنے قرآن کریم کے بارے بعض سوالات کیے ہیں لیکن ہر دفعہ وہ بھاگ جاتے ہیں اس پرا نہیں بتایا گیا کہ ہم مسیح ومہدی علیہ السلام کے ماننے والے ہیں اور آپ نے ہمیں وہ علم کا خزانہ دیا ہے جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخوبی اسلام کادفاع کرسکتے ہیں۔ چنانچہ پادری صاحب کی طرف سے کئی اعتراضات قرآن پر کیے گئے جس کے انہیں مدلل جوابات دیے گئے۔ اس کے علاوہ الوہیت مسیح پر بھی بات ہوئی۔یہ سلسلہ دو اڑھائی گھنٹے جاری رہاآخر کار پادری صاحب خود ہی یہ بہانہ بنا کر بھاگ گئے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔
اس بات چیت کا ایک یہ فائدہ ہوا کہ ارد گرد کے مسلمان جو کہ احمدیت کے مخالف تھے وہ بھی کہنے پر مجبور ہوگئے کہ جیسا اسلام کا دفاع جماعت احمدیہ نے کیا ہے، ان کے مولوی حضرات نہیں کرسکتے تھے۔ ہمارے سٹال کے ساتھ بعض وہابی لوگ بھی تھے جو جماعت کے شدید مخالف تھے، جب انہوں نے ہماری گفتگو سنی تو وہ بھی آگئے اور گفتگو کے بعد ان کا برتائو ہمارے ساتھ بہت اچھا ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ بعض دفعہ خوابوں کے ذریعہ احمدیت کی صداقت ظاہر کرتا ہے اور احمدیوں کو ایمان میں بڑھاتا چلا جاتا ہے اس طرح ایک دفعہ فادا شہر سے اسی کلومیٹر دور گائری جماعت کے ایک شخص جن کا نام ڈیکو سلیمان ہے، نے ہمارے معلم ڈیکو موسیٰ صاحب سے بیان کیا کہ ایک دفعہ وہ بازار میں بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں لوگ بھی شامل تھے۔اس دوران بعض افراد نے احمدیت کے خلاف باتیں شروع کر دیں کہ احمدیت ایک جھوٹا مذہب ہے اور انکی نماز بھی مختلف ہے اور اسلام سے الگ ان کے احکامات ہیں۔چنانچہ ڈیکو سلیمان صاحب کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ جھوٹ مت بولو میں نے احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔ وہ تم لوگوں سے بہت اچھی نماز پڑھتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ کیا تم احمدی ہو؟ اس پر ڈیکوسلیمان صاحب نے کہا کہ جی میں اللہ کے فضل سے احمدی ہوں اور میرا ایک کزن جماعت احمدیہ کا معلم بھی ہے اس لیے میں بہت اچھی طرح سے جماعت کو جانتا ہوں۔ اس کے بعد وہ گھر آگئے۔
ڈیکو صاحب کہتے ہیں کہ رات کو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کے پاس حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آئے ہیں اور انہوں نے اچکن اور پگڑی پہنی ہوئی ہے اور فرمایا کہ جو تم نے احمدیت کے بارے میں کہا ہے وہ بالکل صحیح کہا ہے۔ یہی اصل اسلام ہے۔ پس تم احمدیت کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ ہوجاؤ۔اس پر ان کی آنکھ کھل گئی۔ڈیکو صاحب کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ان کا ایمان احمدیت پر مزید پختہ ہوگیا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ہمیں علم کلام دیا ہے بعض دفعہ اس کی چھوٹی سی دلیل بھی مخالف کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اسی طرح کا واقعہ فادا ریجن میں پیش آیا۔ ایک دفعہ دورہ پر جاتے ہوئے ایک چرچ کے پاس سے گذر ہوا۔خاکسار اور ہمارے معلم ڈیکو موسی ٰصاحب نے پروگرام بنایا کہ پادری صاحب سے ملاقات کی جائے اور جماعت کا پیغام پہنچایا جائے۔ چنانچہ ہم وہا ں پہنچے اور پادری صاحب سے تعارف ہوااور جماعت کا پیغام پہنچایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی خوش خبری دی۔ اس طرح بات چیت چلتی رہی اور پادری صاحب نے حضرت آدمؑ والا قصہ سنایا اور اپنی تبلیغ کرتا رہا۔ اس پر خاکسار کے ذہن میں حضرت مسیح موعود ؑ کا بیان فرمودہ نقطہ ذہن میں آیاکہ پوری بائیبل میں تثلیث کا لفظ نہیں ہے۔ چنانچہ خاکسا رنے پادری صاحب سے پوچھا کہ کیا پوری بائیبل میں تثلیث کا لفظ ہے؟ اس پر اس نے کہا کہ جی موجود ہے۔ خاکسار نے پوچھا کہ کیا حوالہ ہے؟ تو اس کا جواب تھا کہ ابھی میرے ذہن میں نہیں ہے اگلی دفعہ آؤگے تو میں بتاؤں گا۔اس طرح اور باتیں ہوتی رہیں اور وہ کہتے میں نے کبھی ایسا مسلمان نہیں دیکھا جس کو بائیبل آتی ہو خاکسار نے کہا کہ یہ سب علم حضرت مسیح موعود ؑکا دیا ہوا ہے۔ چنانچہ خاکسار اور معلم صاحب کچھ دنوں کے بعد پھر گئے تو پادری صاحب کہتے کہ مجھے وقت نہیں ملا اس لیے میں نہیں دیکھ سکا کچھ دن بعد آنا۔ کچھ دنوں کے بعد پھر گئے تو کہتے کہ میں اس وقت اپنی عبادات میں مصروف ہوں پھر آنا۔ ایک دفعہ پھر ہم گئے تو باہر کچھ لوگوں نے کہا پادری صاحب سفر پر گئے ہوئے ہیں۔اس طرح کافی دفعہ ہوا کہ وہاں کے لوگ کوئی نہ کوئی بہانا بنا دیتے کہ پادری صاحب نہیں ہیں۔ آخر ایک دن ہمارا پھر وہاں سے گزر ہوا تو ایک عورت اور بچہ چرچ کے باہر بیٹھے تھے۔ خاکسار نے پوچھاکہ پادری صاحب کہاں ہیں؟ ان سے ملنا ہے تو عورت نے وہی جواب دیا کہ وہ سفر پر گئے ہیں۔چنانچہ بچہ جو پاس بیٹھا تھا، اس نے کہاکہ پادری صاحب تو اندر گھر میں ہیں۔ اس پر عورت نے بچہ کو ہاتھ کے اشارہ سے منع کیا کہ چپ کرو نہ بتاؤ۔اور ہم سمجھ گئے کہ پادری صاحب کو حوالہ نہیں ملا اس لیے وہ نہ ملنے کے بہانے کررہے ہیں۔بعد میں پتا چلا کہ انہوں نے وہاں کہا ہوا تھا کہ اگر یہ غیر ملکی ادھر آئے تو ہمیشہ یہی کہنا کہ میں گھر نہیں ہوں۔ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی ایک چھوٹی سی دلیل سے کسر صلیب ہوتی خود ہم نے دیکھ لی۔ الحمد للہ علی ذالک
فادا ریجن میں تقرری کے دوران ایک افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی بڑے صدمے سے بچا لیا۔اپریل 2014ء میں خاکسار واگہ ڈوگو اجتماع خدام الاحمدیہ کے لیے گیا ہوا تھا اورفیملی فادا میں اکیلی تھی۔چنانچہ صبح پونے چار بجے کے قریب خاکسار کی اہلیہ کی آنکھ کھلی تو اپنے پلنگ کے سرہانے کوئی آدمی نظر آیا جو غالباًدراز وغیرہ سے چوری کررہا تھا۔جب خاکسار کی اہلیہ اٹھیں تو وہ چور باہر بھاگا اور دو چور اسلحہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوگئے اور خاکسار کی اہلیہ سے مطالبہ کیا کہ پیسے دو۔ خاکسار کی اہلیہ نے جتنے پیسے تھے اسے دے دیے اور وہ پیسے اور لیپ ٹاپ وغیرہ لے کرچلے گئے۔ انہوں نے اہلیہ سے موبائل بھی لے لیا لیکن جاتے ہو ئے ان کے ذہن میں کیا آیا کہ موبائل واپس کر دیا چنانچہ ان کے جانے کے بعد اہلیہ نے فون کیا اور خاکسار کیپیٹل واگہ ڈوگو سے فادا پہنچا۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا کہ چوروں نے کسی قسم کا جانی نقصان نہیں کیا۔اس وقت خاکسارکی بیٹی دوسال کی تھی جو ساتھ سوئی ہوئی تھی۔ خاکسار نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خط لکھا اور اس واقعہ کا ذکر کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے انتہائی پیار بھرا خط موصول ہوا جس میں بہت سی دعائیں تھیں۔اس سے خاکسار اور اہلیہ کو بہت تسلی ہوئی۔الحمد للہ علی ذالک
اگست 2016ء میں خاکسار کا تبادلہ فادا سے ڈوری ہوگیا ۔ چنانچہ ڈوری ریجن کے ایک مخلص احمدی ڈیکو حمیدو صاحب نے اپنا ایک واقعہ مجھ سے بیان کیا کہ وہ سوناڈھونڈنے کا کام کرتے ہیں۔ اسی پر وہ گزر بسر کرتے ہیں۔بعض دفعہ بہت دنوں کی محنت کے بعد بھی سونا نہیں ملتا۔اسی طرح کچھ مہینوں سے ان کے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ سونا نہیں مل رہا تھا۔بے انتہا محنت کے باوجود کچھ عرصہ سے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ اسی اثناء میں معلم صاحب کی طرف سے جلسہ سالانہ پر جانے کی تحریک کی گئی۔اس پر ان کا کہناتھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی سبب بنا دیا تو ضرور جاؤں گا۔ جلسہ سالانہ میں تین دن رہ گئے تھے کہ ان کوسونا مل گیا جس کی مالیت تقریباً ایک لاکھ فرانک تھی۔ چنانچہ یہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ جلسہ پر گئے۔ اور اپنا موٹر سائیکل بھی ٹھیک کروایا جو کہ کچھ عرصہ سے خراب تھا۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ ایک معجزہ ہے کہ جب الٰہی سلسلہ کا کام تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے پیسو ں کا انتظام کر دیا اور ہمیں جلسہ میں شمولیت کی توفیق مل گئی۔
ڈوری ریجن کے ایک اور مخلص احمدی جن کا نام عمرصاحب ہےمجھ سے بیان کیا کہ جلسہ سالانہ2018ء کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے بھائی جو کہ مالی میں کام کرتے ہیں اور ان کا کاروبار بھی سونا ڈھونڈنا ہے، کو فون کیا کہ میری مدد کریں کیونکہ میں جلسہ پر جانا چاہتا ہوں۔اس پر ان کے بھائی نے کہا کہ میں اس وقت کام کے لیے جارہا ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میرے پاس کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔اس لیے میں آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔چنانچہ عمر صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گھر سے کچھ جانوروں کا چارہ وغیرہ بیچا اور جلسہ میں شمولیت اختیار کی۔جب جلسہ سے واپس آئے تو ان کو ان کے بھائی جو کہ مالی میں تھے کا فون آیا کہ جیساکہ انہوں نے مدد مانگی تھی اور اس وقت ان کے پاس کوئی پیسے نہیں تھے۔ لیکن الحمدللہ اب ان کو سونا ملا ہےاور وہ کچھ پیسے بھیج رہے ہیں تاکہ اس سے موٹر سائیکل خرید لیں۔ چنانچہ انہوں نے پانچ لاکھ بھیجا جس سے انہوں نے موٹر سائیکل بھی خریدا اور باقی کام بھی کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جلسہ کی برکات ہی ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے غائبانہ مالی مدد کی اور سب کام آسان بنا دیے۔
اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ اس نے ہماری جماعت کو خلافت کی نعمت سے نوازا ہے جس کی دعاؤں سے ہماری ساری پریشانیاں دور ہوتی ہیں اور امن نصیب ہوتا ہے۔اسی طرح خاکسار کے سامنے بھی خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی قبولیت کا نشان ظہورپذیر ہوا۔ ڈوری شہر سے ایک سو کلومیٹر دور سیبا شہر کی طرف ایک گاؤں ہے جس کا نام وینڈے علی ہے۔ہمارے معلم صاحب نے مجھے بتایا کہ میں وینڈے علی دورہ پر گیا تو گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ تقریباً تیس سالوں سے ہم پانی نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں ۔دس سے زائد دفعہ بور کیا گیا ہے لیکن پانی نہیں نکلتا جس کی وجہ سے شد ید پریشانی کا سامنا ہے۔ معلم صاحب نے ان کو توجہ دلائی کہ خلیفۂ وقت کو خط لکھیں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے گا اور پانی نکل آئے گا۔چنانچہ گاؤں والوں نے حضور کو خط لکھا کہ دعا کیجیئے کہ ہمارے گاؤں میں پانی نکل آئے۔ اس کے بعد دوبارہ پانی کی تلاش کی گئی اورایک جگہ دعا کر کے بور کیا گیا تو معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی مقدار میں پانی نکل آیا ہے۔اور پانی کا مسئلہ جو کہ ایک لمبا عرصہ سے چلا آرہا تھا، وہ ختم ہوگیا ہے۔ گاؤں میں احمدی افراد کے علاوہ غیر احمدی افراد بھی بہت خوش ہیں اور سب کا برملا کہنا ہے کہ ان کا مسئلہ خلیفۂ وقت کو خط لکھنے کے بعد ہی حل ہوا ہے۔ اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں سے ان کے گاؤں میں پانی نکل آیا ہے۔ الحمد للہ علی ذالک
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم اس کی پاکیزہ راہوں پر چلنے والے ہوں اور جماعت احمد یہ کے افراد ایمان اور تقویٰ میں ترقی کرتے چلے جائیں۔ آمین
(مبارک احمد منیر مربی سلسلہ برکینا فاسو)