• 4 مئی, 2024

میری پیاری امی جان محترمہ محمودہ باسط مرحومہ

پانچ دنوں کی جدائی اور ایک فون کال

یہ کال جس میں میری پیاری امی جان کے لئے لفظ ’’تھیں‘‘ بولا گیا۔ اس لفظ نے وہ سب کچھ بتا دیا جس کو کہنے کی اس وقت میرے بھائی آصف باسط میں ہمت نہ تھی اورنہ ہی مجھ میں ایسے الفاظ سننے کی۔

وہ بہت صابرہ تھیں بہت پیاری زندگی گزار کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ یہ اگلے الفاظ کہنے کی تو ضرورت ہی نہ پڑی۔

کیا معلوم تھا کہ یہی ایک کال میرے لئے میری والدہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدائی کا پیغام تھی۔ مجھے اپنی پیاری والدہ سے جدا ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے یعنی ان کی بیماری میں تقریباً ہر روز ان کو ملنے جانا، ڈیمینشیا کی وجہ سے زیادہ خاموش ہو گئی تھیں مگر جتنی بات بھی کرتیں، جو بھی اس وقت کہتیں ہم اسی پر خوشی سے نہال ہو جاتے۔

میری پیاری والدہ سے میری آخری ملاقات میں مجھے اندر آتے دیکھتے ہی جو کہا وہ یہ کہ مدثرہ مجھے یخ ٹھنڈا پانی پلا دو۔ اس ٹھنڈے پانی کی صرف طلب ہی نہیں بلکہ انہوں نے خوب شوق سے پیا حتیٰ کہ آخری پانی جو برف گلاس میں پڑے رہنے سے بنا وہ بھی اپنی پیاس بجھانے کے لئے پیا۔ میرا ان کو اپنے سفر کے بارے میں بتانا، ان کی پڑ نواسی کی آمین اور عقیقہ اور پڑ پوتی کی آمین کا بتانا اور ان کی خاموش آنکھوں سے دیر تک مجھے دیکھنا اور پھر آہستگی سے ہونٹ ہلا کر بچوں کے لئے دعائیں دینا اور پھر وہ پیارے ہونٹ جس خوبصورتی سے ہلے اور مجھے خدا حافظ کہا۔۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ خدا حافظ میرے لئے ہمیشگی کا الوداعی تھا۔خدا کی شان کہ کینیڈا اور امریکہ کی مسافت میں دونوں بچیوں کی آمین اور عقیقہ پانچ دنوں میں ہو جانا اور پھر چھٹے دن یہ اطلاع اور امی جان کو الوداع کہنے کے لئے واپسی کا سفر چھٹے دن۔

تعارف

میری والدہ محمودہ باسط چراغ دین صاحب (مرحوم) اور کریم بی بی صاحبہ (مرحومہ) کی بیٹی تھیں۔ مولانا محمدشریف صاحب (مرحوم) سابق مربی سلسلہ فلسطین اور مولانا محمد صدیق صاحب (مرحوم) سابق انچارج خلافت لائبریری کی بھانجی تھیں۔

محمودہ باسط (مرحومہ) اہلیہ عبدالباسط شاہد بہت محنتی، با ہمت و حوصلہ اس طرح کہ ابو جان بحیثیت مبلغ سلسلہ کو کئی ممالک میں خدمت دین کی توفیق ملی اور امی جان نے پاکستان میں ہی رہتے ہوئے اپنے چھ بچوں کی پرورش اللہ تعالی کے خاص فضل سے نہایت سادگی اور عزت و وقار سے کی۔ اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بن مانگے اتنے پیارے والدین کی گود میں میری پرورش کروائی۔ چھوٹے ہوتے سے ہی جماعتی پروگراموں سے منسلک رکھا۔ جب میں چھوٹی تھی تو ابو جان کی پوسٹنگ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوتی رہی اور اس طرح پاکستان کے مختلف شہروں کی سیریں بھی ہوئیں پھر جب ابو جان کو بحیثیت مبلغ افریقہ بھیجا گیا تو ہم ربوہ میں مقیم ہو گئے۔

تربیت کا نمایاں پہلو

ہر لقمہ جو کھلایا اس پر بسم اللہ کہا اور کھانا ٰختم ہوتے ہی الحمدللّٰہ کہ ہم بھی سیکھیں، ہر قدم انگلی پکڑ کر اٹھوایا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی دعائیں پڑھتی جاتیں۔۔ اگر چپلوں کا جوڑا الگ الگ پڑا ہے تو امی جان کو بالکل پسند نہ آتا، ہمیشہ ہمیں کہتیں کہ چپلوں اور جوتوں کے دونوں جوڑے ساتھ رکھیں۔ ہم سب بچوں کے سونے کے بعد ہمارے بستروں کے پاس چپلوں کا جوڑا جوڑا بنا کر رکھنا تاکہ صبح کو ہمیں ننگے پاؤں فرش پر نہ رکھنے پڑیں جس کی وجہ شاید گرمی میں گرم تپتا فرش اور سردی میں ٹھنڈا فرش جو بچوں کی صحت پر اثر انداز نہ ہو۔

سونے سے پہلے ہمارا ہوم ورک چیک کرنا کہ ہم نے سب ختم کر لیا ہے اور پھر پہاڑے یاد کروانے پر اتنی توجہ تھی کہ جب بھی امی جان کو بتانا کہ یاد کر لیا ہے تو ان کا فقرہ جو ہم سب بہن بھائیوں کو یاد ہے وہ یہ ہوتا کہ 5 دفعہ، 7دفعہ بلکہ 10 دفعہ اور کہہ لو تب سونے کی اجازت ملتی اور اسی طرح دعائیں، بلکہ ہمیں ناصرات الاحمدیہ اور بھائیوں کو اطفال الاحمدیہ کے سیلیبس یاد کرواتیں اور اجتماعات کے مقابلہ جات میں ہر مقابلے میں شامل ہونے کے لئے خود تیاری کرواتیں۔

امی جان اور ابوجان نے ہمیں بہت چھوٹی عمر سے ہی قرآن پاک سے بے انتہا محبت سکھائی۔ نمازوں میں باقاعدگی اور وقت پر پڑھنے کی تلقین، امی جان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہم سب بہن بھائیوں کو سکول کی تعلیم شروع ہونے سے پہلے قرآن پاک ناظرہ کا پہلا دور مکمل کروایا جائے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہیں 4 اور 5 سال کی عمر تک قرآن پاک کا پہلا دور مکمل کر وا دیتی تھیں۔ وہ ہمیں بھی یہ نصیحت کرتی تھیں کہ بچوں کو قرآن کی تعلیم سکولوں کی تعلیم شروع ہونے سے پہلے دلوائی جائے تاکہ پیچھے نہ رہ جائے کیونکہ اسکولوں کے ہوم ورک اتنے زیادہ ہوتے ہیں یہ نہ ہو کہ بچے کو قرآن پاک پڑھنے کے لئے کم وقت ملے۔

سکول کے ہوم ورک ہمیں ہماری پہلی فرصت میں کرواتیں اور یہ کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم ربوہ سے کراچی جاتے کیونکہ کراچی میں ہمارا ننہال ہوتا تھا۔ہم سب بہن بھائیوں سے کہتیں کہ چھٹیوں کے پہلے ہفتے میں اپنا سارا ہوم ورک ختم کر لو گے تو تب ہی کراچی جائیں گے۔

خلافت اور خلیفہ وقت سے محبت
اور جماعتی خدمات

خلافت اور خلیفہ وقت سے محبت اور پیار ہم میں کوٹ کوٹ کر بھر دیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے کہ ہم ربوہ میں رہے اور ہمارے گھر کےتقریباً سامنے مسجد نصرت تھی جس کا فائدہ یہ رہا کہ پیاری والدہ محترمہ ہمیں فجر کی نماز پر ساتھ لے کر جاتیں اور پھر صبح کی سیر کا پروگرام ہوتا، پھر خلیفہء وقت سے ملاقات کروانا، ہر طرح کے مشورے کے لئے کوشش یہی ہونی کہ حضور سے لیا جائے۔امی جان باقاعدگی سے ہمیں خاندان حضرت مسیح موعود ؑ کی معزز خواتین سے ملوانے لے کر جاتیں۔ امی جان کوا للہ تعالیٰ کے خاص فضل و احسان سے دار الرحمت وسطی حلقہ ربوہ کی بحیثیت صدر لجنہ اماء اللہ 1976سے لے کر 1982ء تک خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ اس دوران سیدہ آپا ناصرہ بیگم صاحبہ (مرحومہ) صدر لجنہ ربوہ کی طرف سے آنے والا ہر سرکلر امی جان کے لئے بہت اہم ہوتا اور جیسے ہی ملتا نہ صبح دیکھتیں اور نہ شام یا رات، اسی وقت خود بھی اور اپنے حلقے کی لجنات سے کام شروع کروا دیتیں۔ جنگ کے دوران صدر یاں خود بھی سیں اور حلقے کی لجنات کو سکھا کر سب کے ذمہ یہ کام لگادیا۔ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے رضائیاں اور تکیے وغیرہ تیار کرتیں اور کرواتیں۔ مجھے یاد ہے کہ اللہ تعالی کے خاص فضل سے دارالرحمت وسطی لجنہ اماء اللہ کو فرسٹ پرائز ملتا رہا اور مجھے یاد ہے کہ ایک کتاب جو امی جان کو فرسٹ پرائز کے لئے آپا ناصرہ بیگم صاحبہ سے ملی اس پر آپ نے لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے یہ اعزاز مبارک کرے اور آپ کو مقام محمود عطا فرمائے مجھے یاد ہے کہ ان الفاظ پر میری پیاری امی جان کتنی خوش ہوئی تھیں کیونکہ یہ الفاظ سیدہ آپا ناصرہ بیگم صاحبہ کی طرف سے تھے۔

امی جان نے ہمیں بھی قرآن پاک خود پڑھایا اور بہت سے بچے اور بچیاں امی جان کے پاس قرآن پاک پڑھنے کے لئے آتے پھر قرآن مجید ناظرہ کا پہلا دور ختم کرنے پر ان کی آمین اپنے گھر میں کرواتیں اور سب کو تحفہ جات دئیے جاتے اس موقعہ پر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معزز خواتین بھی مدعو ہوتیں جن میں حضرت چھوٹی آپا صاحبہ، سیدہ امة الباسط (بی بی باچھی) صاحبہ اور آپا ناصرہ بیگم صاحبہ بھی شامل ہوتیں۔

مہمان نوازی

امی جان انتہائی مہمان نواز تھیں۔ امی جان ہر سال جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمان رشتہ داروں کے لئے نئے بستر، نئی رضائیاں اور تکیے بناتیں اورپچھلے سال والی رضائیوں کو میری امی جان ہرسال ادھیڑ تی تھیں، پھر روئی نگندواتی، دوبارہ رضائیوں میں بھرتیں اور پھر رضائیاں واپس سیتیں اور اس عمل میں کچھ دن لگ جاتے مگر بہت ہی خوشی سے یہ سب کیا جاتا۔ جیسا کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں لنگر حضرت مسیحِ موعود ؑ سے ناشتہ اور کھانا مل جاتا تھا مگر اس کے باوجود ہر صبح ایک نیا سالن تیار کرتیں اور شامی کباب بھی اور اچار اتنا ڈالتی تھیں کہ مرتبان بھرے ہوتے تھے جبکہ آج کل کے زمانے میں شامی کباب بنانا اتنا مشکل نہیں رہا مگر اس زمانے میں شامی کباب تو بنتے ہی سِل وٹے پر قیمہ پیس کر تھے اور یہ خاصا محنت طلب کام ہوا کرتا تھا۔

جب بھی کوئی مہمان گھر پر آتا کبھی اس کو چائے اور ریفریشمنٹ کے بغیر جانے نہ دیتیں اسی طرح جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے میری امی جان پہلے سے سب تیاریاں کر کے رکھتی تھیں اس کے علاوہ صبح صبح اٹھ کر ان کے لئے پانی گرم کر کے دینا کہ وہ وضو وغیرہ کریں تو ان کو ٹھنڈ نہ لگے پھر سب کے کپڑے خود دھو کر ان کے مہمانوں کے اٹھنے سے پہلے سوکھنے کے لئے ڈال دیا کرتی تھیں اگلے دن بھی یہی روٹین ہوتی اور ان کے آرام کا ہر طرح خیال رکھتی تھیں کہ یہ ہمارے نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے غرض ہر کام کے لئے ہر وقت تیار اور چاک و چوبند ہوتیں۔

الحمدللّٰہ کہ امی جان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ساری اولاد کی طرف سے سرخرو کیا۔ طویل عمر عطا کی بے حد صابر شاکر مثالی ماں تھیں۔ اللہ تعالیٰ اس مشفق ماں کو اپنے پیاروں کے قدموں میں جنت کے اعلیٰ درجے عطا فرمائے ہمیں اور ہماری نسلوں کو ان کی دعاؤں کا وارث اور اپنا حقیقی عبد بنائے۔ پیاری والدہ کو غریق رحمت فرمائے۔ آمین یارب العالمین

دنیا بھی اک سرا ہے، بچھڑے گا جو ملا ہے
گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جُدا ہے

اے میرے پیارے خدا! توہماری والدہ سے رحمت اور مغفرت کا سلوک فرما اورمیرے ابو جان اور ہم سب بہن بھائیوں کو بھی اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹے رکھنا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اُن کی آئندہ نسلوں کو بھی اپنی رضا کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

(مدثرہ عباسی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ