• 25 اپریل, 2024

دنیاوی معاملات میں حضرت یوسف علیہ السلام کافر بادشاہ کے قانون کی پابندی اور وفاداری سے اطاعت کے باوجود دینی امور میں اس کے غلط عقائد کی پابندی اور اطاعت نہیں کرتے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ (یوسف: 77) اس طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کی۔ اس کے لئے ممکن نہ تھا کہ اپنے بھائی کو بادشاہ کی حکمرانی میں روک لیتا سوائے اس کے کہ اللہ چاہتا۔ یعنی حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہِ مصر کے قانون کے مطابق اپنے حقیقی بھائی کو مصر میں روکنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تدبیر کی کہ حضرت یوسف علیہ السلام سے بھلوا کر شاہی پیمانہ جو تھا اپنے بھائی کے سامان میں رکھوا دیا اور تلاشی لینے پر اُن کے بھائی کے سامان میں سے ہی وہ پیمانہ نکل آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے کافر اور مشرک بادشاہ کے قانون کے پابند تھے۔ دنیاوی معاملات میں حضرت یوسف علیہ السلام کافر بادشاہ کے قانون کی پابندی اور وفاداری سے اطاعت کے باوجود دینی امور میں اس کے غلط عقائد کی پابندی اور اطاعت نہیں کرتے تھے۔

پھر قرآنِ کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا

(سورۃ النساء آیت: 60)

اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یعنی اللہ اور رسول اور اپنے بادشاہ کی تابعداری کرو‘‘۔ یہ شہادۃ القرآن میں فرمایا۔

(شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ332)

پھر ایک دفعہ فرمایا کہ: ’’یعنی اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو‘‘۔ بادشاہوں کی اطاعت اختیار کرو۔

(الحکم 10 فروری1901ء جلد5 نمبر5 صفحہ1)

پھر ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’اے مسلمانو! اگر کسی بات میں تم میں باہم نزاع واقع ہو تو اس امر کو فیصلے کے لئے اللہ اور رسول کے حوالے کرو۔ اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان لاتے ہوتو یہی کرو کہ یہی بہتر اور احسن تاویل ہے‘‘۔

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن۔ جلد3۔ صفحہ596)

فرمایا کہ: ’’یعنی اگر تم کسی بات میں تنازع کرو تو اس امر کا فیصلہ اللہ اور رسول کی طرف ردّ کرو اور صرف اللہ اور رسول کو حَکم بناؤ، نہ کسی اور کو‘‘۔

(الحق مباحثہ دہلی۔ روحانی خزائن جلد4۔ صفحہ 184)

اور اللہ اور رسول کا فیصلہ جیسا کہ پہلے مَیں بیان کر آیا ہوں یہی ہے کہ عام دنیاوی حالات میں ایک مومن پہ جو بھی حالات گزر جائیں تو بغاوت نہ کرو۔ اگر کفر کو دیکھو یا کفر کا حکم سنو تو اطاعت اُس حد تک واجب ہے جہاں تک اس کے علاوہ باتیں ہیں۔ اِن باتوں میں اطاعت نہیں ہے۔ لیکن بغاوت کی تب بھی اجازت نہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف میں حکم ہے اَطِیْعُوا اللّٰہَ واَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ یہاں اُوْلِی الْاَمْر کی اطاعت کا حکم صاف طورپر موجود ہے۔ اور اگر کوئی شخص کہے کہ مِنْکُم میں گورنمنٹ داخل نہیں تو یہ اُس کی صریح غلطی ہے۔ گورنمنٹ جو حکم شریعت کے مطابق دیتی ہے وہ اُسے مِنْکُم میں داخل کرتا ہے۔ مثلاً جو شخص ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے۔ اشارۃ النص کے طور پر قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئے اور اس کے حکم مان لینے چاہئیں‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ171مطبوعہ ربوہ)

فرمایا: ’’اگر حاکم ظالم ہو تو اُس کو برا نہ کہتے پھرو بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو، خدا اُس کو بدل دے گا یا اُسی کو نیک کر دے گا۔ جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بد عملیوں کے سبب آتی ہے۔ ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے، مؤمن کے لئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے۔ میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو۔ خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو۔

(الحکم 24مئی 1901ء۔ نمبر 19جلد5 صفحہ 9 کالم نمبر2)

یہ نیکی کے نمونے ہیں جو احمدیوں کو بھی قائم کرنے چاہئیں بلکہ احمدیوں کو ہی قائم کرنے چاہئیں۔ اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُم سے مراد صرف مسلمان حکمران نہیں۔ اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’بعض مسلمان غلطی سے اس آیت کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم صرف مسلمان حکاّم کے حق میں ہے کہ اُن کی اطاعت کی جاوے۔ لیکن یہ بات غلط ہے اور قرآنِ کریم کے اصول کے خلاف ہے۔ بیشک اس جگہ لفظ مِنْکُم کا پایا جاتا ہے۔ مگر مِنْکُم کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ جو تمہارے ہم مذہب ہوں بلکہ اس کے یہی معنیٰ ہیں کہ جو تم میں سے بطور حاکم مقرر ہوں۔ مِنْ ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کفار کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اَلَمْ یَاتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ (الانعام: 131)۔ اس آیت میں مِنْکُم کے معنیٰ اگر ہم مذہب کریں تو اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ نعوذ باللہ من ذالک، رسول کفار کے ہم مذہب تھے۔ پس ضروری نہیں کہ مِنْکُم کے معنی ہم مذہب کے ہوں۔ یہ اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس جگہ اس کے یہی معنیٰ ہیں کہ وہ حاکم جو تمہارے ملک کے ہوں یعنی یہ نہیں کہ جو حاکم ہو اُس کی اطاعت کرو بلکہ اُن کی اطاعت کرو جو تمہارا حاکم ہو۔ اور فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَیْ اللّٰہِ وَالرَّسُوْل کے یہ معنی ٰنہیں کہ قرآن و حدیث کی رُو سے فیصلہ کرلو۔ بلکہ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ اگر حکام کے ساتھ تنازع ہو جائے تو خدا اور اُس کے رسول کے احکام کی طرف اُس کو لوٹا دو۔ اور وہ حکم یہی ہے کہ انسان حکومتِ وقت کو اُس کی غلطی پر آگاہ کر دے۔ اگر وہ نہ مانے تو پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ کو چھوڑ دے۔ وہ خود فیصلہ کرے گا اور ظالم کو اُس کے کردار کی سزا دے گا‘‘۔

جیسا کہ حضرت یوسفؑ کے واقعہ میں بیان کر آیا ہوں، آپ بھی یہی دلیل دے رہے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’قرآنِ کریم میں حضرت یوسف کا واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے وہ بھی دلالت کرتا ہے کہ حاکم خواہ کسی مذہب کا ہو اُس کی اطاعت ضروری ہے۔ بلکہ اگر اُس کے احکام ایسے شرعی احکام کے مخالف بھی پڑ جاویں جن کا بجا لانا حکومت کے ذمہ ہوتا ہے تب بھی اُس کی اطاعت کرے۔ چنانچہ حضرت یوسفؑ کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اُن کے بھائی اُن کے پاس چھوٹے بھائی کو لائے تو وہ اُن کو وہاں کے بادشاہ کے قوانین کی رو سے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے اس لئے خدا نے اُن کے لئے خود ایک تدبیر کر دی‘‘۔ اسی طرح آپ آگے جا کر فرماتے ہیں کہ ’’یہ جو آیت ہے اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَ رْضِ (یوسف: 56) اس کے نیچے تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے۔ اس نے اس کی تفسیر بیان کی ہے۔ یعنی اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ ’’ظالم بلکہ کافر بادشاہ کی طرف سے عُہدوں کا قبول کرنا اس شخص کے لئے جائز ہے جو اپنی جان پر اعتبار رکھتا ہے کہ وہ حق کو قائم رکھ سکے گا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ حق کے قیام سے یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی شریعت کو چلا سکے۔ کیونکہ جیسا کہ حضرت یوسف کے بھائی کے معاملہ سے ظاہر ہے، کافر کی ملازمت کے لئے یہ شرط نہیں کہ مومن اپنا ذاتی خیال چلا سکے۔ پس حق کی حفاظت سے یہی مراد ہے کہ ظلم کی باتوں میں ساتھ شامل نہ ہو جائے۔ پس حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملہ سے بھی ظاہر ہے کہ خواہ گورنمنٹ کافر ہی کیوں نہ ہو، اُس کی وفا داری ضروری ہے۔

(ترک موالات اور احکام اسلام، بحوالہ انوارالعلوم جلد5 صفحہ259، 260)

(خطبہ جمعہ یکم اپریل 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اپریل 2021