اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔
(سورۃ الاحزاب آیت:57)
خدا اور اسکے سارے فرشتےاس نبی کریم ﷺ پردرود بھیجتے ہیں۔ اے ایماندارو! تم بھی اس پر درود بھیجو اور نہایت اخلاص اور محبت سے سلام کرو۔
(براہین احمدیہ حصہ سوم۔ روحانی خزائن جلد1 ص24)
لفظ دورد درد سے نکلا ہے جسکا مطلب ہے درد، سوزو گداز، رقت، حضورقلب اور تڑپ سے گداز ہو کر کی جانے والی دعا۔
امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں:
درود بھی درد سے ہی نکلا ہوا ہے یعنی خاص درد، سوز، گداز اور رقت سے خدا تعالیٰٰ کے حضور التجا کرنی کہ اے مولا! تو ہی ہماری طرف سے خاص خاص انعامات اور مدارج انحضرت ﷺ کو عطا کر۔ ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔اور کس طرح سے آپکے احسانات کا بدلہ دے سکتے ہیں بجز اسکے کہ تیرے ہی حضورمیں التجا کریں کہ تو ہی آپ انکو ان سچی محنتوں اور جانفشانیوں کا سچا بدلہ دے جو تو نے آپکے واسطے مقرر فرما رکھا ہے وہ آپ کو عطا فرما۔انسان جب اس خاص رقت اور حضور قلب اور تڑپ سے گداز ہو کر آپ کے واسطے دعائیں کرتا ہے تو آنحضرت ﷺ کے مدارج میں ترقی ہوتی ہے اور خاص رحمت کا نزول ہوتا ہےاور پھر اس دعا گو،درودخواں کے واسطے بھی ادھر سےرحمت کا نزول ہوتا ہے اور ایک درود کے بدلہ میں دس گنا اجر اسے دیا جاتا ہے کیونکہ آنحضرتﷺ کی روح اس درود خواں اورآپکی ترقیٔ مدارج کے خواہاں سے خوش ہوتی ہےاور اس خوشی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اس کو دس گنا اجر عطا کیا جاتا ہے۔انبیاءکسی کا احسان اپنے ذمہ نہیں رکھتے۔
(الحکم 6 اپریل 1908ء)
صَلَّ، یُصلِّی، صَلَاۃً۔ جسکے معنیٰ درود شریف کے کئے جاتے ہیں۔ اس کے متعلق قرآن کریم کی بعض آیات اورانکے معانی درج ذیل ہیں:
1۔ ھُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ
(الاحزاب:44)
وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اسکے فرشتے بھی۔
(ترجمہ از حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ)
2۔ اُولٰئِکَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ
(البقرۃ:157)
یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں ہیں اور رحمت ہے۔
(ترجمہ از حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ)
3۔ اِنَّ اللّٰهَ وَمَلَآئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ
(الاحزاب:57)
یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔
(ترجمہ از حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
صلَّ، یُصَلِّ کے معنیٰ دعا کرنے کے ہیں۔ اور الصلوٰۃ کے اصطلاحی معنیٰ ۔۔۔ اس مخصوص طریق سے دعا کرنا، جس میں رکوع و سجود ہوتے ہیں جس کو ہماری زبان میں نماز کہتے ہیں۔ اسکے علاوہ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں جو بے تعلق نہیں بلکہ سب ایک ہی حقیقت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔چنانچہ اس کے دوسرے معنٰے درج ذیل ہیں:۔۔رحمت۔ ۔شریعت۔۔۔بخشش مانگنا۔۔۔دعا۔۔۔بڑائی کا اظہار ۔۔ برکت ۔۔۔۔۔۔۔
اور صلوٰۃ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جائے تو اس کے معنیٰ رحم کرنے کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکۃ کے لیے استعمال ہو تو اس وقت اس کے معنیٰ استغفارکے ہوتے ہیں۔ اور جب مومنوں کے لیے بولا جائے تو اس کے معنیٰ دعا یا نماز کے ہوتے ہیں اورجب پرند اورحشرات کے لیے استعمال ہو تو اسکے معنیٰ تسبیح کرنے کے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور لفظ صلوٰۃ صرف نیک دعا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن لفظ دعا، بد دعا اور نیک دعا دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔۔۔ اس (لفظ صلاۃ۔ ناقل) کے (ایک) معنیٰ اللہ تعالیٰ کی طرف سےرسول کریم کی بہترین تعریف کے ہوتے ہیں ۔۔۔۔
(تفسیر کبیر جلداول صفحہ:98)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ دعائوں کی قبولیت کا مہینہ ہے اور دعائوں کی قبولیت کیلئے درودشریف بہت اہم چیزہے۔خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے اور اپنی دعائوں کو اللہ کے حضور قبولیت کا درجہ دلوانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کا وسیلہ اختیار کریں اور اس کا سب سے بہترین ذریعہ جس طرح احادیث میں آیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے، یہی ہے کہ کثرت سے درود شریف پڑھنا چاہئے۔ پس رمضان المبارک کے مہینہ سے درود شریف کا بہت گہرا تعلق ہے۔
ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
دعائوں کی قبولیت کیلئے درودشریف بہت اہم چیز ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے۔ احادیث میں بھی اس کا بہت ذکر آتا ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی درود کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس لیے ہمیں عموما ًدرود کی طرف متوجہ رہنا چاہئے اور اس مہینہ میں خاص طور پر اس طرف توجہ رکھنی چاہیے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی خاص تحریک فرمائی تھی تو میں بھی اس کا اعادہ کرتے ہوئے یاد دہانی کرواتا ہوں کہ اس مہینہ میں درود بہت پڑھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنحضرتﷺ پر بھیجا گیا یہ درود آپ کی جسمانی اور روحانی اولاد کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔ ترقیات کے نظارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں آنحضرت ﷺ کے پیاروں سے پیار کا بھی یہ ایک بہترین اظہار ہے اور اس زمانے میں آپ ﷺ کے عاشق صادق مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے مقاصد کی تکمیل میں بھی یہ درود بے انتہاء برکتوں کے سامان لیکر آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر درود پڑھنے کی،زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر یہ درود جو ہے ہماری ذات کیلئے بھی برکتوں کا موجب بننے والا ہوگا۔
(خطبات مسرور جلد8 صفحہ نمبر 636، 637)
احادیث مبارکہ و ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے واضح ہوتا ہے کہ درود شریف درحقیقت ایک ایسی دعا ہے جسمیں سب دعائیں آجاتی ہیں۔ پھر یہ ایک ایسی دعا ہے جو نہ صرف آنحضرت ﷺ تک پہنچائی جاتی ہے بلکہ پایۂ قبولیت تک پہنچتی ہے سو رمضان المبارک سے درود شریف کا گہرا رشتہ بن جاتا ہے۔خاکسار اس حقیقت کو امام الزمان حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلاۃ والسلام کے توسط سے ہی قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہے۔
(روایت حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ) ۔ ۔ ۔ ایک روز جب کہ میں قادیان آیا ہوا تھا اور مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود ؑکی خدمت میں حاضر تھا میں نے عرض کیا کہ میری یہ خواہش ہے کہ میں اپنی تمام خواہشوں اور مرادوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے درود شریف ہی کی دعا مانگا کروں۔ حضورؑنے اس پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور تمام حاضرین سمیت ہاتھ اٹھاکراسی وقت میرے لیے دعا کی. تب سے میرا اس پر عمل ہےکہ اپنی تمام خواہشوں کو درود شریف کی دعا میں شامل کرکے اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہوں اور یہ قبولیت دعا کا ایک بہت بڑا ذریعہ میرے تجربہ میں آیا ہے۔ وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم۔ محمد صادق۔18۔اپریل 1934ء
اسی مضمون کی ایک حدیث شریف ترمذی ابواب صفۃ القیامہ میں یوں بیان ہوئی ہے:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰٰ بیان کرتے ہیں کہ جب رات کا تہائی حصہ گذرجاتا تو حضرت نبی کریم ﷺ اٹھ کھڑے ہوتے اور فرماتے اے لوگو! اللہ کو یاد کرو۔ اللہ کی یاد میں مشغول ہوجاؤ۔ صور کا وقت آگیا ہے۔ پھر اسکے بعد دوسری مرتبہ بھی پھونکا جائےگا۔پھر موت بھی اپنی سختیوں کے ساتھ آن پہنچی ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میں اپنی دعا کے وقت کا اکثر حصہ حضور ﷺ پر درود بھیجنے میں صرف کرتا ہوں۔ بہترہوکہ حضور ﷺ ارشاد فرمائیں کہ میں اپنی دعا کے وقت میں سے کس قدر حصہ حضور ﷺ پر درود بھیجنے کے لیے مخصوص کردوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جتنا چاہو۔ میں نے عرض کی کہ کیا ایک چوتھائی وقت؟ فرمایا جتنا چاہو۔اگر اس میں اضافہ کرلو تو تمہارے لیے اور بھی بہتر ہے۔ میں نے عرض کی کیا نصف وقت؟ فرمایا جتنا چاہو۔ اگر اس میں اضافہ کرلو تو اور بھی بہتر ہے۔ میں نے عرض کی کہ کیا دوتہائی وقت؟ فرمایا جتنا چاہو۔اگر اس میں اضافہ کرلو تواوربھی بہترہے۔میں نے عرض کی کہ آئندہ مَیں اپنی دعا کا ساراوقت حضور ﷺ پردرود کے لیے مقررکرتا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا تو اس صورت میں تمہارے تمام ہمّ و غم دور ہوجائیں گے اور تمہارے سب گناہ معاف ہوجائیں گے۔
(ترمذی ابواب صفۃ القیامۃ)
یعنی درود شریف ہم و غم دور کرنے اور گناہوں کی بخشش کا بہترین ذریعہ ہے۔
امام آخرالزمان حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے کیا خوب اپنا ذاتی عمل ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
؎ہر کسے اندر نماز خود دعائے میکند
من دعا ہائے بروبار تو اے باغ و بہار
یعنی دوسرے لوگ تو اپنی نماز میں اپنے ذاتی مطالب کے لیے دعائیں کرتے ہیں مگر میں محض آنحضرت ﷺ کے مقاصد کے پورا ہونے کے لیے اور حضور ﷺ کے رفع درجات کے لیے دعائیں کیا کرتا ہوں۔
درود شریف کی اہمیت وبرکات اور فضائل
عاجز اپنے اس مضمون کو چند احادیث نبویہ ﷺ اور بعض ارشادات امام الزمان سے مزین کرنا چاھتا ہے۔
1۔ آنحضور ﷺ فرماتے ہیں ۔جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
(صحیح مسلم)
سیدنا احمد علیہ السلام فرماتے ہیں:
اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت۔ بشو از دل ثناخوان محمد
یعنی اگر تم چاھتے ہوکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہاری مدح و ثنا ہو تو تم سچے دل سے آنحضرت ﷺ کے ثناخواں بن جاؤ۔اللہ تعالیٰ تمہاری مدح و ثناء کرے گا اور کرائے گا۔
یہ کم از کم اجر ہے جو ہر اس درود پڑھنے والے کو ملے گا جس کے درود کو اللہ تعالیٰ کی ستاری و کرم سے شرف قبول بخشا جائےگا۔جس قدر زیادہ محبت واخلاص اور پابندئ شرائط کے ساتھ درود بھیجا جائے گا اسی قدر اجر زیادہ ہوگا۔
2۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ جو شخص آنحضرت ﷺ پر عمدگی سے ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ستر مرتبہ درود بھیجیں گے اب کوئی چاھے تو اس میں کمی رکھے اور چاھے تو زیادہ کرے۔
(جلاء الافہام بحوالہ مسند امام احمد)
ایک دوسری حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں :
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جو مسلمان بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے، تو وہ جب تک مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے اس وقت تک فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں،اب چاہے تو اس میں کمی کرے اور چاہے تو اسے زیادہ کرے۔
3۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضرت ﷺ جب صبح کو تشریف لائے تو آپ ﷺ کے چہرہ پر خاص طور پر بشاشت تھی۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا یا رسول اللہ !آج آپ کے چہرہ پر خوشی کے آثارنمایاں ہیں فرمایا: ہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتے نے آکر مجھے کہا ہے کہ تمہاری امت میں سے جو شخص تم پر ایک بارعمدگی سے درود بھیجے گا اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ اس کی دس نیکیاں لکھے گا۔اس کی دس بدیاں معاف فرمائے گا اور اسے دس درجے بلند کرے گا اور ویسی ہی رحمت اس پر نازل کرے گا (جیسی اس نے تمہارے لیے مانگی ہوگی)۔
[جلاء الافہام موٗلفہ حافظ ابن قیم رح]
اس حدیث سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر درود پوری توجہ ،عقد ہمت ،حقیقی محبت اور دلسوزی کے ساتھ بھیجنا چاہئے ۔
4۔ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ صلّوا علیّ فَاِنَّ صَلٰوتَکم عَلیّ زَکٰوۃ لّکم۔
(جلاء الافہام)
حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ مجھ پر درود بھیجا کرو ۔تمھارا مجھ پر درود بھیجنا خود تمھاری پاکیزگی اور ترقی کا ذریعہ ہے۔ یہ حدیث مبارک بلا شبہ اس قرآنی آیت کی تفسیر ہے کہ :۔ ھُوالَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ ۔(الاحزاب: 44)
وہی ہے جو تم پر درود (رحمت) بھیجتا ہے اور اسکے فرشتے بھی تاکہ وہ تمھیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے۔ یعنی جس شخص پر اللہ تعالیٰ درود بھیجتا ہے وہ دم بدم ظلمات سے نکلتا چلا جاتا ہے اور انوار الہیہ میں داخل ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ رحمت اس پر بار باراپنا فیضان کرتی ہے حتی کہ ایک وقت اس پر ایسا آجاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا خاص مقرب ہو جاتا ہے۔
امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی ایک پاک وحی بھی یہ مضمون بیان کرتی ہے جسکے الفاظ یہ ہیں کہ: وصلّ علی محمد و آلِ محمد اَلصّلاۃ ھوالمربِّی۔ یعنی آنحضرت ﷺ اور آپ کی آل پر درود بھیجو کیونکہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر درود بھیجنا ہی اخلاقی وروحانی تربیت کا ذریعہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک مکتوب بنام چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں درود شریف کا تنویر باطن اور استقامت کا ذریعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یہی درود شریف (جو نماز میں پڑھتے ہیں۔ناقل) پڑھیں اس کی دلی ذوق اورمحبت سے مداومت کی جائے تو زیارت رسول کریم بھی ہوجاتی ہے۔اور تنویر باطن اور استقامت دین کے لئے بھی بہت مؤثر ہے۔
(مکتوبات احمدیہ جلد۵ نمبر۳ ص۷)
5۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں مسجد میں نماز نفل پڑھ رہا تھا اور آنحضرت ﷺ وہیں تشریف رکھتے تھے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضور کی خدمت میں حاضر تھے جب میں آخری تشھد کے لئے بیٹھا تو میں نے اپنے لیے دعا شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی پھر آنحضرت ﷺ پر درود بھیجا اور اس کے بعد اپنے لیے دعا کرنے لگا اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اب خدا تعالیٰ سے جو مانگنا ہو مانگو تمھیں دیا جائے گا۔ مانگو تمھیں دیا جائے گا۔
(جامع ترمذی جلد۱)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء اور آنحضورﷺ پر درود بھیجنا قبولیت دعا کا ذریعہ ہے۔
6۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفا مروی ہے کہ جب تک دعا میں آنحضرت ﷺ پر درود نہ بھیجا جائے اس وقت تک وہ آسمان پر نہیں پہنچتی۔
(ترمذی کتاب الوتر)
7۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تمھیں کوئی مشکل اور حاجت پیش آئے اور اس کے لیے دعا کرنے لگو تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرو پھر آنحضرت ﷺ پر درود بھیجو اور اسکے بعد اپنی ضرورت کے لیے دعا کرو،ایسے طور پر دعا کرنا حاجات کے پورا ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
(جلاء الافہام)
8۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جس نے مجھ پر درود بھیجنا چھوڑا۔اس نے جنت کی راہ کو چھوڑدیا۔
(سنن ابن ماجہ)
9۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ بکثرت درود پڑھنے والا اسی زندگی میں جنت کے اندر اپنا مقام دیکھ لیتا ہے۔
(جلاء الافہام)
10۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ پر درود بھیجنا اس سے بھی کہیں بڑھ کر گناہوں کو مٹاتا ہے جتنا کہ ٹھنڈا پانی پیاس کو۔ اور آپ پر سلام بھیجنا گردنوں کو آزاد کرنے سے بھی زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔اور آپ کی محبت اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے یا جہاد کرنے سے بھی افضل ہے۔
(تفسیر درمنثور)
11۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے: قیامت کے روز میرے ساتھ تمام لوگوں سے زیادہ تعلق اور قرب رکھنے والا شخص وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا
(جامع ترمذی کتاب الوتر)
12۔۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا ہے جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا۔ قیامت کے روز میں اس کی شفاعت کرونگا۔
(جلاء الافہام)
13۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔ کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور مجھ پردرود بھیجنا فقر(تنگی و غربت) کے دور ہونے کا ذریعہ ہے۔
(جلاء الافہام بحوالہ حلیہ ابی نعیم)
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جو درود شریف پڑھنے کی اس قدر تاکید فرمائی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا آنحضرت ﷺ کوہماری دعائوں کی حاجت ہے۔ نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں یہ طریق سکھایا ہے کہ اے میرے بندو! تم جب اپنی حاجات لیکر میرے پاس آئو،میرے پاس حاضر ہو،تو اپنی دعاؤں کو قبول کروانے اور اپنی حاجات کو پوری کرنے کا اب ایک ہی ذریعہ ہے اوروہ یہ ہے کہ میرے نبی ﷺ کے ذریعہ سے مجھ تک پہنچو۔ اگر تم نے یہ وسیلہ اختیار نہ کیا تو پھر تمہاری سب عبادتیں رائیگاں چلی جائیں گی۔کیونکہ میں نے یہ سب کچھ، یہ سب کائنات، اپنے اس پیارے نبی ﷺ کے لیے پیدا کی ہے۔
(خطبات ِ مسرور جلد1 صفحہ288)
سب سے بہتر اور افضل درود شریف
اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
درودشریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے نکلاہے اور وہ یہ ہے:۔
اَللّٰهمَّ صَلِّ علي محمد و علي آل محمد كما صليت علي ابراهِيم وعلي آل ابراهِيم انك حميد مجيد. اللهم بارك علي محمد و علي آل محمد كما باركت علي ابراهيم و علي آل ابراهيم انك حميد مجيد.
ترجمہ: اے اللہ محمد رسول اللہ ﷺ پر اور محمد رسول اللہ ﷺ کی آل پر درود بھیج جیساکہ تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ابراہیم کی آل پردرود بھیجا ہے۔تو بہت ہی تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ محمد رسول اللہ ﷺ پر اور محمد رسول اللہ ﷺ کی آل پربرکات نازل فرما جیساکہ تونے حضرت ابراھیم پر اور حضرت ابراھیم کی آل پر برکات نازل کیں۔ تو بہت ہی تعریف والا اور بزرگی والاہے
آپ علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ:
جو الفاظ ایک پرہیزگار کے منہ سے نکلتے ہیں ان میں ضرور کسی قدربرکت ہوتی ہے۔ پس خیال کرلینا چاہئے کہ جو پرہیزگاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے ۔اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درور شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا ورد ہے۔
درود شریف پڑھنے کا وقت
درود شریف ایک نہایت اہم ،عظیم الشان اورنہ صرف شرف قبول پانے والی ایک دعا ہے۔ بلکہ ایسی جامع دعا ہے جس میں سب دعائیں آجاتی ہیں، تمام انسانی حاجات و ضروریات اور مشکلات کا حل اس کے اندر پایا جاتا ہے۔ درحقیقت اس دعا کے بعد کسی اور دعا کے مانگنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس دعا کو دوسری دعائوں کی طرح کسی بھی وقت پڑھا جاسکتا ہے۔ صبح، دوپہر اور شام کو۔ رات کو سونے سے قبل، سو کر اٹھنے کے بعد، تہجد کے وقت، کسی بھی نماز کے اندر، نمازسے قبل اور نماز کے بعد پڑھ سکتے ہیں البتہ اگر کوئی شخص کوئی وقت مقرر کرکے پڑھنا چاھے تو اس کے لیے یہ اقتباس راہنما ہے۔
حضرت مسیح پاک علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں
بعد نماز مغرب و عشاء جہاں تک ممکن ہو ، درود شریف بکثرت پڑھیں۔ اور دلی محبت و اخلاص سے پڑھیں۔ اگر گیارہ سو دفعہ روز مقرر کریں یا سات سو دفعہ ورد مقرر کریں تو بہتر ہے۔
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلٰي محمد وَ عَلٰي آلِ محمد كما صَلَّيتَ علي ابراهِيم وعلي آل ابراهِيم انك حميد مجيد. اللهم بَارِك علي محمد وعلي آلِ محمد كما بَارَكتَ علي اِبراهيم و علي آلِ ابراهيم انك حميد مجيد.
یہی درود شریف پڑھیں۔
فرمایا: اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جائے تو زیارت رسول کریم بھی ہوجاتی ہے۔ اور تنویر باطن اور استقامت دین کے لیے بہت مؤثر ہے۔
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۳ ص ۶،۷)
تعداد کی پابندی
بہت سے لوگ سوال کرتے رہتے ہیں کہ درود شریف کتنی مرتبہ پڑھنا چاہئے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں کہ:
کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں۔ اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے۔ اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے۔
(مکتوبات احمدیہ جلد اول ص ۱۸)
یاد رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض صحابہ کرام کو کئی سو مرتبہ بلکہ گیارہ سو مرتبہ تک بھی درود شریف پڑھنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی بعض احادیث میں بھی ایسا آیا ہے مگر خاکسار کی ادنی رائے میں وہ ایک ذاتی معاملہ ہے اور کوئی شخص چاہے تو اپنے ذاتی حالات کے تابع کسی تعداد کی پابندی اختیار کر سکتا ہے۔ دوسرے خاص تعداد (مثلا ۱۰۰۔۲۰۰۔۳۰۰۔۷۰۰۔یا ۱۱۰۰ روزانہ) جو بتائی ہے اس سے اصل غرض بکثرت پڑھنا ہی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
درود شریف کے طفیل ۔۔۔۔۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت ﷺ کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جاکر آنحضرت ﷺ کے سینہ میں جذب ہوجاتے ہیں۔ اور وہاں سے نکل کر انکی لا انتہاء نالیاں ہوجاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں۔ یقینا ًکوئی فیض بدوں وساطت آنحضرت ﷺ دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درودشریف پڑھا کرے تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو۔
(الحکم بتاریخ ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحہ۷)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام درود شریف کی برکات کا ذاتی تجربہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ:
ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہواکہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استدراک رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلۂ نبی کریم ﷺ کے مل نہیں سکتیں۔ جیساکہ خدا بھی فرماتا ہے (وابتغوا الیہ الوسیلۃ) تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ دو سقّے یعنی ماشکی آئے ایک اندرونی راستے سے اورایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے اور انکے کاندھوں پر نور کی مَشکیں ہیں اور کہتے ہیں’ ھٰذا بِمَاصَلَّیتَ عَلٰی محمدِ۔
(حقیقۃ الوحی حاشیہ ص۱۲۸)
یعنی یہ برکات اس درود کی وجہ سے ہیں جو تونے محمد ﷺ پربھیجا تھا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل کلمات طیبات اس مضمون کے حوالہ سے نہایت اہم ہیں،آپؑ فرماتے ہیں:
انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے۔ غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے، اسے قبول کرے۔ اسی طرح اگر تم چاہتے ہوکہ آنحضرت ﷺ کے فیض حاصل کرو توضرور ہے کہ اس کے غلام ہوجائو۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل یاعبادیَ الذینَ اَسرَفوا علٰی اَنفسھِم۔ اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق۔ رسول کریم ﷺ کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ ﷺ پر درود پڑھو اورآپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو،سب حکموں پرکاربند رہو۔
(البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ بتاریخ ۲۴ اپریل ۱۹۰۳ ص ۱۰۹)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ اس درود پاک پراس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ:
اللٰھم صَلِّ و سَلِّم وبَارِک عَلیہِ و آلِہِ بِعَدَدِ ھَمِّہ و غَمِّہ و حزنہ لِھذِہِ الامّۃِ و انزِل علیہ انوار رحمتک الی الابد ۔
[۔برکات الدعاء۔روحانی خزائن جلد۶ ص:۱۱]
ترجمہ: اے اللہ درود اور سلام اور برکتیں بھیج آپ اور آپ کی آل پر۔ اتنی زیادہ رحمتیں اور برکتیں جتنے ہم و غم اور حزن آپ کے دل میں اس امت کے لیے تھے اور آپ پر اپنی رحمتوں کے انوار ہمیشہ نازل فرماتا چلا جا۔ آمین
(کریم الدین شمس، مبلغ سلسلہ تنزانیہ)