• 19 مئی, 2024

آج کل بھی جو آفات آتی ہیں یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس وقت کے مولوی اگر دیانت اور دین پر قائم ہو کر سوچیں تو اُنہیں ضرور اقرار کرنا پڑے گا کہ چودھویں صدی کے مجدد کا کام کسرِ صلیب ہے اور چونکہ یہ وہی کام ہے جو مسیح موعود سے مخصوص ہے اس لئے بالضرورت یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود چاہئے اور اگرچہ چودھویں صدی میں فسق و فجور بھی مثل شراب خوری و زنا کاری وغیرہ بہت پھیلے ہوئے ہیں‘‘۔ یعنی بہت سارے فسق و فجور پھیلے ہوئے ہیں، مثلاً شراب خوری، زنا کاری ’’مگر بغور نظر معلوم ہوگا کہ ان سب کا سبب ایسی تعلیمیں ہیں جن کا یہ مدّعا ہے کہ ایک انسان کے خون نے گناہوں کی بازپرس سے کفایت کر دی ہے‘‘۔ یہ جو اتنی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظریہ قائم ہو گیا ہے، یہ تعلیم ہے کہ حضرت عیسیٰ کے کفّارہ کی وجہ سے اُن سے اُن کے گناہوں کی بازپرس نہیں ہوگی، پوچھا نہیں جائے گا۔ فرمایا ’’اسی وجہ سے ایسے جرائم کے ارتکاب میں یورپ سب سے بڑھا ہوا ہے‘‘۔ اس میں سارے مغربی ممالک شامل ہیں اور دوسرے ممالک بھی جہاں چھوٹ ہے، اب تو ہر جگہ یہ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ فرمایا ’’پھر ایسے لوگوں کی مجاورت کے اثر سے‘‘ یعنی اُن کی ہمسائیگی سے، اُن کے ساتھ بیٹھنے اُٹھنے سے ’’عموماً ہر ایک قوم میں بے قیدی اور آزادی بڑھ گئی ہے‘‘۔ اب صرف یہ یورپ کے ساتھ نہیں رہا، بلکہ جہاں بھی یہ پھیل رہے ہیں، جا رہے ہیں، یا آجکل ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع سے آزادی پہنچ رہی ہے، وہاں بھی ہر قسم کی قید سے آزاد ہو رہے ہیں اور بے حیائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ فرمایا ’’اگرچہ لوگ بیماریوں سے ہلاک ہو جائیں اور اگرچہ وبا اُن کو کھا جائے مگر کسی کو خیال بھی نہیں آتا کہ یہ تمام عذاب شامتِ اعمال سے ہے۔‘‘ بہت سارے عذاب جو آ رہے ہیں، طوفان ہے، زلزلے ہیں، یہ لوگوں کی شامتِ اعمال ہے، کوئی سوچتا نہیں۔ ’’اس کی کیا وجہ ہے؟یہی تو ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو گئی ہے اور اُس ذوالجلال کی عظمت دلوں پر سے گھٹ گئی ہے‘‘

پس آجکل بھی جو آفات آتی ہیں یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے اور ہمیں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے اور جو نہ ماننے والے ہیں اُن کو بھی سوچنا چاہئے۔

فرمایا: ’’غرض جیسا کہ کفّارہ کی بے قیدی نے یورپ کی قوموں کو شراب خواری اور ہر ایک فسق و فجور پر دلیر کیا۔ ایسا ہی اُن کا نظارہ دوسری قوموں پر اثر انداز ہوا۔ اس میں کیا شک ہے کہ فسق و فجور بھی ایک بیماری متعدی ہے۔ ایک شریف عورت کنجریوں کی دن رات صحبت میں رہ کر اگر صریح بدکاری تک نہیں پہنچے گی تو کسی قدر گندے حالات کے مشاہدہ سے دل اس کا ضرور خراب ہو گا‘‘۔ کیونکہ صحبت اثر ڈالتی ہے، حالات اثر ڈالتے ہیں، ماحول اثر ڈالتا ہے۔

پھر فرمایا: ’’خدا تعالیٰ کی غیرت اور رحمت نے چاہا کہ صلیبی عقیدے کے زہرناک اثر سے لوگوں کو بچاوے اور جس دجّالیت سے انسان کو خدا بنایا گیا ہے، اُس دجّالیت کے پردے کھول دیوے اور چونکہ چودھویں صدی کے شروع تک یہ بَلا کمال تک پہنچ گئی تھی‘‘ یعنی یہ مصیبت اور بلا جو ہے یہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی ’’اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت نے چاہا کہ چودھویں صدی کا مجدد کسرِ صلیب کرنے والا ہو۔ کیونکہ مجدد بطور طبیب کے ہے اور طبیب کا کام یہی ہے کہ جس بیماری کا غلبہ ہو اُس بیماری کی قلع قمع کی طرف توجہ کرے۔ پس اگر یہ بات صحیح ہے کہ کسرِ صلیب مسیح موعود کا کام ہے تو یہ دوسری بات بھی صحیح ہے کہ چودھویں صدی کا مجدد جس کا فرض کسرِ صلیب ہے مسیح موعود ہے‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ303-305 حاشیہ)

پھر کسرِ صلیب کس طرح ہو گی؟ اس بارہ میں آپ فرماتے ہیں:۔ ’’اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو کیونکر اور کن وسائل سے کسرِ صلیب کرنا چاہئے؟ کیا جنگ اور لڑائیوں سے جس طرح ہمارے مخالف مولویوں کا عقیدہ ہے؟ یا کسی اور طَور سے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مولوی لوگ، (خدا اُن کے حال پر رحم کرے،) اس عقیدہ میں سراسر غلطی پر ہیں۔ مسیح موعود کا منصب ہرگز نہیں ہے کہ وہ جنگ اور لڑائیاں کرے بلکہ اُس کا منصب یہ ہے کہ حُجَجِ عَقْلِیَّہ‘‘ یعنی عقلی دلائل سے ’’اور آیاتِ سماویہ‘‘ آسمانی نشانات سے ’’اور دعا سے اس فتنہ کو فرو کرے۔ یہ تین ہتھیار خدا تعالیٰ نے اُس کو دئیے ہیں اور تینوں میں ایسی اعجازی قوت رکھی ہے جس میں اُس کا غیر ہرگز اس سے مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ آخر اسی طور سے صلیب توڑا جائے گا۔ یہاں تک کہ ہر ایک محقق نظر سے اُس کی عظمت اور بزرگی جاتی رہے گی‘‘۔ جو بھی تحقیق کرنے کی نظر سے دیکھے گا، اس پر غور کرے گا، اُس پر صلیب کی عظمت اور بزرگی اور جو اثر پڑا ہوا ہے، وہ ختم ہو جائے گا ’’اور رفتہ رفتہ توحید قبول کرنے کے وسیع دروازے کُھلیں گے۔ یہ سب کچھ تدریجاً ہو گا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے سارے کام تدریجی ہیں۔ کچھ ہماری حیات میں اور کچھ بعد میں ہوگا۔ اسلام ابتدا میں بھی تدریجاً ہی ترقی پذیر ہوا ہے اور پھر انتہا میں بھی تدریجاً اپنی پہلی حالت کی طرف آئے گا‘‘۔

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ305حاشیہ)

(خطبہ جمعہ 22؍ مارچ 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تربیتی سیمینار مجلس خدام الاحمدیہ یونان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اپریل 2022