’’ہمارے سیدومولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق ووفا دیکھئے۔ آپؐ نے ہرایک قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب وتکالیف اٹھائے لیکن پروا نہ کی۔ یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا (الاحزاب: 57) …… اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسولؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم درود و سلام بھیجو نبیؐ پر۔
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے۔ یعنی آپؐ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔ اس قسم کی آیت کسی اَور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپؐ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ37-38 ایڈیشن 1984ء)