• 1 مئی, 2024

آخری عشرہ رمضان ’’آگ سے نجات‘‘

آخری عشرہ رمضان ’’آگ سے نجات‘‘
کا ایک ذریعہ- اعتکاف

رمضان کی جملہ برکتوں اور خصوصاً آخری عشرہ رمضان سے فائدہ اٹھانے کا ایک طریق اعتکاف بھی ہے۔ جس کا قرآن شریف میں مجملاً اور احادیث میں تفصیلاً ذکر آتا ہے۔ مسنون اعتکاف یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں جامع مسجد میں دن رات قیا م کیا جائے، اور سوائے ضروری حوائج انسانی کے مسجد سے باہر نہ نکلا جائے، اور یہ دس دن رات خصوصیت کے ساتھ نماز اورتلاوت قرآن اور ذکر اور دعا وغیرہ میں گزارے جائیں۔ گویا انسان ان ایام میں دنیا سے کٹ کر خدا کے لئے کلیۃً وقف ہوجائے۔ اعتکاف فرض نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے حالات اور توفیق پر موقوف ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ جس شخص کے حالات اجازت دیں اور اسے اعتکاف کی توفیق میسّر آئے اس کے لئے یہ طریق قلب کی صفائی اور روحانی ترقی کے واسطے بہت مفید ہے لیکن جس شخص کو اعتکاف کی توفیق نہ ہو یا اس کے حالات اس کی اجازت نہ دیں تو اس کے لئے یہ طریق بھی کسی حد تک اعتکاف کا مقام ہوسکتا ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنے اوقات کا زیادہ سے زیادہ حصہ مسجد میں گزارے اور یہ وقت نماز، تلاوت و تدبر قرآن اور ذکر اور دعا وغیرہ میں صَرف کرے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ نےبندہ مؤمن کی ایک خوبی یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ: قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ جس کا دل مسجد میں آویزاں اور چمٹا رہتا ہے۔ (بخاری کتاب الاذان،بابُ مَنْ جَلَسَ فِي المَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ) اس لئے یہ طریق بھی اگر حسن نیت سے کیا جائے تو فائدہ سے خالی نہیں ہوسکتا۔

جب ہم آپﷺ کا عملی نمونہ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آنحضورﷺ بسا اوقات رات کا اکثر حصہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر گزار دیتے تھے۔ ایک روایت میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ایک رات حضور ﷺ کی باری میرے گھر میں تھی اور رات کو میں نے محسوس کیا کہ حضورؐ اپنے بستر پر نہیں ہے لمبا انتظار کرنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ حضورؐ کسی اور بیوی کے پاس نہ چلے گئے ہو، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے جب باہر نکل کر آپ ؐ کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو میں نے دیکھا کہ آپ ایک ویرانے میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہیں اور آپؐ کے سینے سے اس طرح گریازاری کی وجہ سے آواز آرہی ہے جیسے ہنڈیاں اُبل رہی ہے۔

(مسلم کتاب الصلاۃ)

یہ عام دنوں کی بات ہے۔ رمضان المبارک میں اور بالخصوص آخری عشرہ کی بابت، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آخری عشرہ میں نبی کریمؐ اپنی کمر ہمت کس لیتے تھے۔ اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور عبادت الہٰی میں گزارتے تھے۔ اور گھر والوں کو بھی جگا کر عبادت کے لئے تحریک فرماتے تھے۔ اور اتنی محنت اور مجاہدہ آخری عشرہ میں فرماتے تھے کہ اتنا اہتمام کسی اور زمانہ میں نہیں ہوتا تھا۔

(مسلم کتاب الاعتکاف باب الاجتہاد فی اللّٰہ)

آنحضورﷺکی مستقل سنت تھی کہ فرائض کی تکمیل کے علاوہ نوافل کے قیام کو بھی بہت اہمیت دیا کرتے تھے۔ اعتکاف دراصل ایک نفلی عبادت ہے، جس میں ایک مومن ایک معین وقت کے لیے اپنی ہرقسم کی مصروفیات کو ایک طرف رکھ کر محض اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک قسم کا انقطاع اختیار کرلیتا ہے۔ اس طرح اسے خاص یکسوئی میسر آجاتی ہے، دعاؤں اور عبادات کا خاص موقع میسر آجاتا ہے، جو اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں ممدہوتاہے۔ آنحضورﷺ ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں خصوصاً اس نفل عبادت کی ادائیگی کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔

اعتکاف کے لغوی معانی:۔ اعتکاف کا لفظ۔ عَكَفَ يَعْكُفُ ويَعْكِفُ۔ سے مأخوذ ہے جس کے معنے ہیں کسی جگہ سے چمٹ جانا اور ’’عکوف‘‘ سے مراد ہے کسی چیز اور جگہ پر اقامت اختیار کرنا اور ان سے چمٹ جانا، اسی طرح کسی چیز کو اپنے لیے لازم کرلینا اور اپنے نفس کو اس پر مقید کردینا بھی اعتکاف کہلاتا ہے۔ (لسان العرب جزء9صفحہ255۔ زیر لفظ ’’عکف‘‘) امام راغب اصفہانی (متوفی:502ھ) بیان کرتے ہیں کہ اعتکاف کے (لغوی) معنی کسی چیز کو پوری توجہ سے قبول کرنے اور اس سے ازراہ تعظیم چمٹ جانے کے ہیں۔ اور شرع میں اعتکاف سے مراد قرب الٰہی کے حصول کے لیے مسجد میں بند ہوجانا ہے۔ (المفردات فی غريب القرآن صفحہ 579)

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اعتکاف کے لغوی معانی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔ ’’اعتکاف عُکوف سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ٹھہرنا، روکنا، اپنے اوپر لازم کرنا اور عکوف کے معنی جھکنے، دھرنا مارکر بیٹھنے اور چمٹے رہنے کے بھی ہیں۔ ۔ ۔ الاِعْتِکَاف:الإقَامَۃُ بِالْمَکَانِ وَلَزُوْمُھَا (لسان العرب:عکف) یعنی دھرنا مار کر کسی جگہ بیٹھ گیا۔ اعتکاف کے معنی گوشہ نشین ہونے کے بھی ہیں۔ لفظ مجاورت بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے (فتح الباری جزء4 صفحہ346 شرح باب2) اور یہ لفظ جِوَار سے مشتق ہے یعنی ہم نشین ہونا۔

(صحیح بخاری جلد سوم ترجمہ و تشریح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہؓ سن اشاعت 2008ء قادیان صفحہ 699 کتاب الاعتکاف)

اس سوال کے جواب میں کہ اعتکاف کا لفظی مطلب کیا ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بیان فرمایا: ’’کسی چیز پر سہارا کرنا، کسی چیز کو پکڑ کر بیٹھنا اس کو کہتے ہیں اعتکاف۔ تو معتکف وہ ہےجو اللہ کے دروازے کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔‘‘

(لجنہ سے ملاقات ریکارڈنگ 9جنوری 2000ء مأخوذ از روزنامہ الفضل 8مئی 2000ء صفحہ3)

اعتکاف رمضان کی بابت اسلامی اصطلاح

اعتکاف کے لغوی معنی کسی جگہ میں بند ہو جانے یا ٹھہرے رہنے کے ہیں،جیسا کہ اوپر تذکرہ ہوا۔ اعتکاف انسان جب چاہے اورجس دن چاہے بیٹھ سکتا ہے۔ لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنا مسنون ہے۔ رمضان کے اعتکاف کی بابت جو آنحضرت ﷺ کی مستقل سنت کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء نے اعتکاف کی جو اصطلاحی تعریف بیان کی ہے،اس کے متعلق فقہ کی مشہور کتاب ھدایہ بابت الاعتکاف میں لکھا ہے کہ: ’’اَللَّبْثُ فِی الْمَسْجِدِ مَعَ الصَّوْمِ وَنِیَّۃِ الْاِعْتِکَافِ‘‘ یعنی عبادت کی نیت سے روزہ رکھ کر مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔ (العناية شرح الهداية،كِتَابُ الصَّوْمِ،بَابُ الِاعْتِكَافِ جلد 2صفحہ 390) اسی طرح علامہ بدرالدین عینی(متوفی: 855ھ) لکھتے ہیں :شرعی اصطلاح میں اعتکاف سے مراد مسجد میں نیت کے ساتھ قیام کرنا ہے۔ (البناية شرح الهداية جزء4 صفحہ121) گویا فقہاء کے نزدیک اعتکاف کے لیے کم از کم تین چیزیں ضروری ہیں(1) مسجد میں(2) عبادت کی نیت سے(3) روزہ رکھ کر ٹھہرنا، اعتکاف کہلاتا ہے۔

ابنیاء، صلحاء اور سلف صالحین کا اعتکاف
یعنی تنہائی میں عبادات

روزہ کی طرح اعتکاف کا بھی وجود دیگر مذاہب میں ملتا ہے، تاہم ضمنی تفاصیل میں اختلاف ہے۔ ویسے تو اعتکاف کی کوئی معین تاریخ بیان نہیں کی، بہرحال کم از کم حضرت ابراہیم علیہ السلام،جن کا زمانہ موٹے طورپر قریباً 22سو سال قبل مسیح بتایا جاتاہے۔ یعنی کہہ سکتے ہیں کہ اعتکاف کاوجودآج سے کم از کم 4ہزار سال قبل موجود تھا۔

  • اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (البقرہ: 126) اور ہم نے ابراہىم اور اسماعىل کو تاکىد کى کہ تم دونوں مىرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بىٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک و صاف بنائے رکھو۔۔
  • حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہ طور پر چالیس دِنوں کے لئے معتکف ہوئے،اور خدا تعالیٰ کے قرب کے جستجو میں مستغرق رہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:۔ وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (البقرہ: 52) اور جب ہم نے موسى سے چالىس راتوں کا وعدہ کىا۔
  • اسی طرح حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق آتاہے وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَھْلِھَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِھِمْ حِجَابًا (سورۃ مریم: 17-18) یعنی حضر ت مریمؑ کچھ عرصہ کے لئے اپنے رشتہ داروں کوچھوڑ کرعبادت کی خاطر ایک الگ تھلگ مقام کی طرف چلی گئی تھیں۔ جہاں انہیں ایک عظیم فرزندکی بشارت ملی تھی۔
  • حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے لئے بھی چالیس دن کا عرصہ خصوصی دعاؤں اور روزوں میں گزارنے کا اناجیل میں تذکرہ مذکور ہے۔ (مرقس باب 1 آیت 13) (لوقاباب 4 آیت 1)
  • زمانہ جاہلیت میں عرب کے باشندے بھی بیت اللہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف میں لکھا ہے کہ:۔ ’’أَنَّ عُمَرَ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺقَالَ:كُنْتُ نَذَرْتُ فِي الجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي المَسْجِدِ الحَرَامِ، قَالَﷺ: فَأَوْفِ بِنَذْرِكَ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیاکہ میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات بیت اللہ میں اعتکاف بیٹھوں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ نذر پوری کریں۔

(بخاری کتاب الاعتکاف،باب الاعتکاف لیلاً)

  • آنحضرت ﷺ کا بعثت سے قبل کے ایام میں دنیوی اشغال سے فارغ ہو کر غار حرا میں یاد خداوند ی میں مشغول رہنا بھی ایک رنگ میں اعتکاف ہی تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ’’كَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ: بعثت سے قبل غارِ حراء میں کئی کئی رات خلوت نشین رہا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب بدء الوحی) اس روایت میں جو لفظ تَحَنُّث استعمال ہوا ہے۔ وہ اعتکاف یعنی گوشہ نشینی کے مفہوم میں ہے۔ اسے تَحَنُّف بھی کہتے ہیں۔ یعنی یکسو ہوجانا۔ ثَاء اور فَاء متبادل حروف ہیں۔ اس سے لفظ حَنِیْف ہے۔ یہ طریق عبادت قدیم سے عربوں میں رائج تھا مگر غیر معین صورت میں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سنت ابراہیمی تھی جو مرورِ زمانہ کے ساتھ بدلی ہوئی صورتوں میں بطور یادگار باقی رہ گئی۔ حنیف حضرت ابراہیم ؑ کا لقب ہے۔ اسلام نے ابراہیمی سنت کو پھر تازہ کردیا اور اعتکاف کے لئے چند پابندیاں عائد کی ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘

(صحیح بخاری جلد سوم ترجمہ و تشریح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ سن اشاعت 2008ء قادیان صفحہ 703 کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف لیلا)

اسی طرح سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ جوانی میں آنحضورﷺہر سال غار حرا میں ایک مہینہ کے لئے اعتکاف فرمایا کرتے اور تنہائی میں اللہ کو یاد کرتے تھے،۔ جب آپؐ کا یہ اعتکاف ختم ہو تا توواپس آکر پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر گھر تشریف لے جاتے۔ جب حضورؐ کو پہلی وحی ہوئی تویہ رمضان کاہی مہینہ تھا جس میں آپؐ غار حرا میں اعتکاف فرما رہے تھے،چنانچہ اصل الفاظ یہ ہیں کہ:۔ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُجَاوِرُ فِي حِرَاءٍ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ شَهْرًا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فَإِذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ جِوَارَهُ مِنْ شَهْرِهِ ذَلِكَ،كَانَ أَوَّلُ مَا يَبْدَأُ بِهِ،إذَا انْصَرَفَ مِنْ جِوَارِهِ، الْكَعْبَةَ، قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ،فَيَطُوفُ بِهَا۔ ۔ ۔ حَتَّى إذَا كَانَ الشَّهْرُ الَّذِي أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ فِيهِ مَا أَرَادَ مِنْ كَرَامَتِهِ، مِنْ السّنة الَّتِي بَعثه اللَّهُ تَعَالَى فِيهَا، وَذَلِكَ الشَّهْرُ رَمَضَانَ

(السیرہ النبوۃ لابن ہشام جلد 1 صفحہ 235 زیر عنوان: ابْتِدَاءُ نُزُولِ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ مكتبة ومطبعة مصطفى البابي بمصر الطبعة الثانية، 1375ه – 1955 م)

مسلمانوں میں چلہ کشی کا دستور جو پایا جاتا ہے۔ اُس کا پس منظر بھی انبیاء علیہم السلام کی یہی سنت معلوم ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی 1886ء میں چالیس دن کے لئے بمقام ہوشیار پور گوشہ نشین ہوئے تھے اور آپؐ پر انہی دِنوں میں عظیم الشان تجلی ہوئی۔ جس میں آپ کو ایک نشانِ رحمت عطا کیا گیا۔ واقعات اس تجلی کے عظیم الشان ہونے کی تصدیق کررہے ہیں۔ ان وجوہ سے اعتکاف کی برکات ظاہر وباہر ہیں۔

اعتکاف بیٹھنے کی فضیلت واہمیت

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا ’’مَنِ اعْتَکَفَ یَوْمًا اِبْتِغَاءَ وَجْہِ اللّٰہِ جَعَلَ اللّٰہُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ اَبْعَدُ مِمَّا بَیْنَ الْحَافَتَیْنِ‘‘ جس نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ اس (اعتکاف کرنے والے) کے اور آگ کے درمیان تین خندقوں جیسا فاصلہ پیدا کردے گا۔ ہر خندق (زمین وآسمان کے) دونوں کناروں سے لمبی ہے۔

(المعجم الاوسط للطبرانی، روایت نمبر 7326)

اسی طرح رسول کریم ﷺ نے معتکف کی فضیلت بطور مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اَلْقَی نَفْسَہٗ بَیْنَ یَدَی الرَّحْمٰنِ فَقَالَ وَاللّٰہِ لَا ابرح حَتّٰی ترْحَمنِی‘‘ (درمنثور جلد اول زیر آیت وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ (البقرہ 188)) یعنی معتکف کلی طورپراپنے آپ کو خدا کے حضور میں ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا مجھے تیری ہی قسم مَیں یہاں سے نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ توُمجھ پررحم فرمائے۔

نیز فرمایا: ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ فِی الْمُعْتَکِفِ ھُوَیَعْتَکِفُ عَنِ الذُّنُوْبِ وَیَجْرِیْ لَہٗ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلّھَا‘‘ (ابن ماجہ کتاب الاعتکاف باب ثواب الاعتکاف) یعنی رسول مقبول ﷺنے اعتکاف کرنے والے کے متعلق فرمایا کہ معتکف اعتکاف کی وجہ سے جملہ گناہوں سے محفوظ رہتاہے۔ اسے ان نیکیوں کا جو اس نے اعتکاف سے پہلے بجا لائی تھیں اسی طرح اجرملتارہتاہے جیساکہ و ہ اب بھی بجا لا رہا ہے۔

اعتکاف کی اقسام

اعتکاف کی تین اقسام ہیں:فرض، سنت اور نفل

1. فرض:۔ اگر کوئی شخص نذر مانے کہ وہ اعتکاف بیٹھے گا،تو نذر کے مطابق وہ اعتکاف پورا کرنا فرض ہوگا۔ اسی طرح اگر نذر مانتے ہوئے کسی نے جگہ معین کی ہوکہ فلاں جگہ اعتکاف بیٹھے گا،یا کوئی وقت معین کیا ہوکہ اتنا وقت بیٹھے گا، تو نذر ماننے والے کے لیے ضروری ہوگاکہ نذر کے ہر حصہ کو پورا کرے، جو عملاً کسی شرعی حکم یا ہدایت کے خلاف نہ ہو۔ اس حوالے سےقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ‘‘ یعنی انہیں چاہئے کہ اپنی نذریں پوری کیا کریں۔ (سورۃالحج: 30) اس کی عملی مثال ہمیں احادیث میں بھی ملتی ہے۔ روایت میں ذکر ہے کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضورﷺ سے دریافت کیا کہ میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرو۔ پس انہوں نے (حضرت عمرؓ) نے ایک رات کا اعتکاف کیا۔

(البخاری،کتاب الاعتکاف،باب مَنْ لَمْ یَرَ عَلَیْہِ اِذَااعْتَکَفَ صَوْمًا روایت نمبر 2042)

2. سنت:۔ ماہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا آنحضورﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔ جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 10دن کا اعتکاف کرتے تھے، البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔

(البخاری، ابواب الاعتکاف،باب الاعتکاف فی العشر الاوسط من رمضان روایت نمبر2044)

3. نفل:۔ انسان جب چاہے،جہاں چاہے، جتنے وقت اور دورانیہ کے لیے چاہے، اعتکاف بیٹھ سکتا ہے۔ یہ بیٹھنے والے کی مرضی پر منحصر ہے جتنے دن بیٹھنا چاہے بیٹھے۔ (فقہ مذاہب اربعہ صفحہ 986 اُردو) اس کی مثال بھی احادیث میں اس طرح ملتی ہے کہ ایک مرتبہ آنحضور ﷺ شوال کے مہینےمیں اعتکاف بیٹھے تھے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک سال آنحضورﷺ نے رمضان کی بجائے آخری عشرہ شوال میں اعتکاف کیا۔

(البخاری کتاب الاعتکاف۔ باب اعتکاف فی شوال)

اعتکاف کے دوران کیا کرنا چاہئے؟

معتکف اپنا زیادہ تر وقت ذکر الٰہی اور عبادت میں گزارے۔ فضول باتوں میں وقت ضائع کرنا درست نہیں۔ ذکر الٰہی اور عبادت میں نماز تہجد کے علاوہ دیگر نفل نمازیں بھی شامل ہیں، اسی طرح تلاوت قرآن کریم اور دینی کتب کا مطالعہ بھی شامل ہے۔

فرضیت رمضان کے ابتداء میں
رسول اللہؐ کا اعتکاف کا طریق

پھر جب 2ھ میں روزے کی فرضیت ہوئی توآپؐ نے ایک سال کے ماہ رمضان المبارک کے وسطی عشرے میں اعتکاف فرمایا۔ اس کے بعد آخری عشرہ میں اعتکاف فرمانا شروع کردیا۔ چنانچہ بخاری میں روایت ہے کہ۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ آپؐ ایک سال (انہی دنوں میں) معتکف ہوئے یہاں تک کہ جب اکیسویں رات ہوئی اور یہ وہ رات تھی جس کی صبح کو آپؐ اعتکاف سے نکلا کرتے تھے تو آپؐ نے فرمایا: جو میرے ساتھ معتکف تھا اسے چاہئے کہ آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھے اور آج رات مجھے لیلة القدر کے بارے میں بتایا گیا ہےاور میں نے دیکھا کہ اس کی صبح کو میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں۔ تم آخری عشرے میں اس کی تلاش کرو اور ہر طاق رات میں اسے ڈھونڈو۔ (بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی العشر الاواخر)

اس کی مزید تفاصیل احادیث میں اس طرح ملتی ہیں کہ آنحضورﷺ نے ایک عشرے سے زیادہ بھی اعتکاف کیا،بلکہ بعض روایات میں تو یہ بھی آتا ہے کہ آنحضورﷺ نے پورا رمضان بھی اعتکاف کیا۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ ’’إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ مِنْ رَمَضَانَ،ثُمَّ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ،فِي قُبَّةٍ تُرْكِيَّةٍ عَلَى سُدَّتِهَا حَصِيرٌ، قَالَ:فَأَخَذَ الْحَصِيرَ بِيَدِهِ فَنَحَّاهَا فِي نَاحِيَةِ الْقُبَّةِ، ثُمَّ أَطْلَعَ رَأْسَهُ فَكَلَّمَ النَّاسَ، فَدَنَوْا مِنْهُ، فَقَالَ: ‘‘إِنِّي اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ، أَلْتَمِسُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ، ثُمَّ أُتِيتُ، فَقِيلَ لِي: إِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَعْتَكِفَ فَلْيَعْتَكِفْ’’فَاعْتَكَفَ النَّاسُ مَعَهُ، قَالَ:’’وَإِنِّي أُرِيتُهَا لَيْلَةَ وِتْرٍ، وَإِنِّي أَسْجُدُ صَبِيحَتَهَا فِي طِينٍ وَمَاءٍ’’فَأَصْبَحَ مِنْ لَيْلَةِ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، وَقَدْ قَامَ إِلَى الصُّبْحِ، فَمَطَرَتِ السَّمَاءُ، فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ، فَأَبْصَرْتُ الطِّينَ وَالْمَاءَ، فَخَرَجَ حِينَ فَرَغَ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ،وَجَبِينُهُ وَرَوْثَةُ أَنْفِهِ فِيهِمَا الطِّينُ وَالْمَاءُ، وَإِذَا هِيَ لَيْلَةُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کا پہلا عشرہ اعتکاف کرتے تھے۔ پھر آپؐ نے درمیانی عشرہ میں ایک ترکی خیمہ میں جس کی چوکھٹ پر چٹائی تھی اعتکاف کیا۔ راوی کہتے ہیں۔ آپؐ نے چٹائی اپنے۔ ہاتھ سے پکڑی اور وہ خیمہ کی طرف کردی۔ پھر آپؐ نے اپنا سر مبارک باہر نکالا اور لوگوں سے گفتگو فرمائی۔ وہ آپؐ کے قریب ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا میں نے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا کہ میں اس رات (لیلۃالقدر کو) تلاش کروں پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا پھر میرے پاس کوئی آیا اور مجھے کہا گیا وہ (لیلۃالقدر) آخری عشرہ میں ہے۔ پس جو کوئی تم میں سے پسند کرتا ہے کہ وہ اعتکاف کرے تو وہ ضرور اعتکاف کرے لوگوں نے آپؐکے ساتھ اعتکاف کیا۔ آپؐ نے فرمایا مجھے وہ ایک طاق رات میں دکھائی گئی ہے اور یہ کہ اس کی صبح کو میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پس آپؐ نے اکیسویں رات کی صبح کی اور صبح تک عبادت کی۔ تو بارش برسی اور مسجد، ہاتھ سے پکڑی اوروہ خیمہ کی طرف کردی۔ پھر آپؐ نے اپنا سر مبارک باہر نکالااور لوگوں سے گفتگو فرمائی۔ وہ آپؐ کے قریب ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا میں نے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا کہ میں اس رات (لیلۃالقدر کو) تلاش کروں پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا پھر میرے پاس کوئی آیا اور مجھے کہاگیا وہ (لیلۃالقدر) آخری عشرہ میں ہے۔ پس جو کوئی تم میں سے پسند کرتا ہے کہ وہ اعتکاف کرے تو وہ ضرور اعتکاف کرے لوگوں نے آپؐکے ساتھ اعتکاف کیا۔ آپؐ نے فرمایا مجھے وہ ایک طاق رات میں دکھائی گئی ہے اور یہ کہ اس کی صبح کو میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پس آپؐ نے اکیسویں رات کی صبح کی اور صبح تک عبادت کی۔ تو بارش برسی اور مسجد ٹپک پڑی۔ میں نے مٹی اور پانی دیکھا پس آپؐ جب صبح کی نمازسے فارغ ہوئے تو باہر نکلے اور آپؐ کی پیشانی اور ناک دونوں پر پانی اور مٹی لگے ہوئے تھے اور یہ آخری عشرہ کی اکیسویں رات تھی۔

(مسلم، كِتَاب الصِّيَامِ۔ بَابُ اسْتِحْبَابِ صَوْمِ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ إِتْبَاعًا لِرَمَضَانَ)

(باقی کل ان شاءاللہ)

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

تربیتی سیمینار مجلس خدام الاحمدیہ یونان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اپریل 2022