• 5 مئی, 2024

’’وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا۔ کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر زکوٰۃ کی ادائیگی ہے یا تزکیہ اموال ہے، جس میں زکوۃ بھی ہے اور باقی مالی قربانیاں بھی ہیں۔ یہ بھی آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں صرف جماعت احمدیہ کے ذریعے سے ہی جاری ہے اور خلیفۂ وقت کی ہدایت کے ماتحت دنیا میں چندے کے نظام کے ذریعے سے افرادِ جماعت اور جماعتوں کی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ ایک مُلک میں اگر کمی ہے تو دوسرے ملک کی مدد سے اُس کمی کو پورا کیا جاتا ہے۔ ایک جگہ اگر زیادہ مالی کشائش ہے تو غریب ملکوں کی تبلیغ کی، اشاعتِ لٹریچر کی، مساجد کی تعمیر کی جو ضروریات ہیں وہ اَور مختلف طریقوں سے پوری کی جاتی ہیں۔ تو یہ ایک نظام ہے جو خلیفۂ وقت کے تحت چل رہا ہوتا ہے۔ کہیں غریبوں کی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ کہیں طبی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ کہیں تعلیمی ضروریات پوری کی جا رہی ہوتی ہیں۔ کہیں تبلیغِ اسلام کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو نظامِ وصیت اور نظامِ خلافت کو اکٹھا بیان فرمایا ہے تو اس میں ان تمام ضروریات کو پورا کرنے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ اور پھر لوگ جو چندہ دیتے ہیں وہ خلافت کے نظام کی وجہ سے اس اعتماد پر بھی قائم ہیں کہ اُن کا چندہ فضولیات میں ضائع نہیں ہو گا بلکہ ایک نیک مقصد کے لئے استعمال ہو گا۔ بلکہ غیر از جماعت بھی یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ اگر ہم زکوٰۃ احمدیوں کو دیں تو اِس کا صحیح مصرف ہو گا۔ گھانا میں مجھے کئی لوگ اپنی فصلوں کی زکوٰۃ دے کر جایا کرتے تھے کہ آپ صحیح استعمال کریں گے یا وہاں مشن میں جمع کرا دیا کرتے تھے۔ کئی زمیندار میرے واقف تھے وہ جنس کی صورت میں مجھے دے جایا کرتے تھے کہ آپ جمع کروا دیں۔ کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ہم اگر یہ زکوٰۃ اپنے مولویوں کو دیں گے، اماموں کو دیں گے تو وہ کھا جائیں گے اور اس کا صحیح استعمال نہیں ہو گا۔ بلکہ آج بھی مختلف جگہوں سے مجھے جماعتوں کی طرف سے یہ خط آتے ہیں کہ غیرازجماعت زکوٰۃ یا صدقہ دینا چاہتے ہیں تو اس بارے میں کیا ہدایت ہے۔ جہاں تک زکوٰۃ اور صدقات کا تعلق ہے جماعت اُن کو لے سکتی ہے اور لیتی ہے لیکن دوسرے طوعی اور لازمی چندے جو ہیں وہ صرف احمدیوں سے لئے جاتے ہیں۔ بہر حال زکوٰۃ کا نظام بھی خلافت کے نظام سے وابستہ ہے۔

آخر پر اس میں پھر اطاعت کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول سے حقیقی تعلق اور اُس کے نتیجے میں خلافت سے تعلق کا نقطہ اور محور کامل اطاعت ہے، جب یہ ہو گی تو مومن انعامات کا وارث بنتا چلا جائے گا۔

اب میں رسالہ الوصیت کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے اس وعدے اور اس پیشگوئی کا اعلان فرما رہے ہیں کہ یہاں یہ وعدہ بھی ہے اور پیشگوئی بھی کہ آپ کی وفات قریب ہے۔ ایک پیشگوئی تھی کہ آپ کی وفات قریب ہے۔ آپ کو اطلاع دی جا رہی تھی اور ساتھ یہ پیشگوئی تھی اور اطلاع کے ساتھ وعدہ کیا جا رہا تھا کہ وفات کا وقت تو قریب ہے لیکن ہم ایسے تمام اعتراض دُور اور دفع کر دیں گے جن سے آپ علیہ السلام کی رسوائی مطلوب ہو۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں تجھ سے راضی ہوں گا۔ پھر فرمایا کھلے کھلے نشان تیری تصدیق کے لئے ہمیشہ موجود رکھیں گے۔ دنیا نے دیکھا کہ آپؑ کی رسوائی کے جو طلبگار تھے اور کوشش کرنے والے تھے وہ رسوا ہوئے۔ اُن کا نام و نشان دنیا سے مٹ گیا۔ آج اُن کو یاد کرنے والا کوئی نہیں۔ گالیاں دینے والے، الزام لگانے والے مَر کھپ گئے لیکن آپ کی جماعت دنیا میں پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ نشانات کا جو سلسلہ آپ کی زندگی میں شروع ہوا تھا آج بھی جاری ہے۔ لاکھوں بیعتیں جو ہر سال ہوتی ہیں اُن میں سے اکثر خدا تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ملنے پر ہوتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے تائیدی نشانات ہیں۔ پس یہ خدا تعالیٰ کی تائیدات ہیں جو آپ کی صداقت کا ثبوت ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ
’’خدا تعالیٰ کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اتریں گی۔ کچھ تو ان میں سے میری زندگی میں ظہور میں آ جائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی۔ اور وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا۔ کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد‘‘۔

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر20 صفحہ303-304)

پس یہ وعدہ ہم آج تک پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ پیشگوئی ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ آفات کا زور بھی اب زیادہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ روزانہ خبروں میں کسی نہ کسی ملک میں قدرتی آفات کی خبر ہوتی ہے۔ کوئی نہ کوئی ملک قدرتی آفات کا نشانہ بن رہا ہوتا ہے۔ اِن آفات کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیشگوئی فرما چکے ہیں کہ یہ آئیں گی۔ کیا یہ باتیں عقل رکھنے والوں کے لئے کافی نہیں۔ سوچیں کہ ایک دعویدار نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر یہ اطلاع دی کہ اس طرح آفات آئیں گی، زلازل آئیں گے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قسم کی آفات نے دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ آج اُن لوگوں کو جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کرنے والے ہیں چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے اس فرستادہ کی باتوں پر غور کریں۔ پھر اُن لوگوں کے لئے یہ خاص طور پر سوچنے کا مقام ہے جو ہر وقت جماعت احمدیہ کی مخالفت میں کمر بستہ ہیں کہ باوجود اُن کی تمام تر کوششوں کے جماعت کا ہر قدم ہر لمحے ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کیا یہ کسی انسان کاکام ہو سکتا ہے کہ اس طرح ترقی ہو رہی ہے اور لوگوں کے دلوں پر اثر ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو دلوں کو زمانے کے امام کی طرف پھیر رہا ہے۔ آخر کب تک یہ لوگ خدا تعالیٰ سے لڑیں گے۔ سوائے اس کے کہ اپنی دنیا و عاقبت خراب کریں ان کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ بڑے واضح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرما چکے ہیں۔ تمہاری آنکھیں گل جائیں، تمہارے ناک زمین پر رگڑ رگڑ کر گل جائیں تب بھی تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’یہ خدا تعالیٰ کی سنّت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنّت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22)۔ اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا، بلکہ ایسے وقت میں وہ اُن کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتاہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے۔ اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں‘‘۔

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر 20 صفحہ 304)

(خطبہ جمعہ 27؍ مئی 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مئی 2021