• 1 اگست, 2025

تعارف سورۃالحاقۃ (69 ویں سورۃ)

(تعارف سورۃالحاقۃ (69 ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 53 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003ء
)

عمومی تاثر

یہ سورۃ بھی سابقہ سورۃ کی طرح ، جیساکہ اس کے مضامین سے ظاہر ہے ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی۔ یہ ساری سورۃ ہی قیامت کے برپا ہونے کے پر تحدی بیان پر مشتمل ہے اور اس یقین پر کہ آنحضور ﷺ باوجود شدید مخالفت کے، لازماً کامیاب ہوں گے اور قیامت کے برپا ہونے کے دعویٰ کی دلیل کے طور پر آپ ﷺ کا کامیاب و کامران ہونا بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قیامت کا برپا ہونا اور آپ ﷺ کا سچا ہونا، دونوں کا وقوع پذیر ہونا کفار کے نزدیک ناممکن تھا، اور یوں کسی ایک چیز کے وقوع پذیر ہونے سے دوسرے (دعویٰ) کے سچا ہونے کو تقویت ملتی ہے۔ یوں اس سورۃ کے آغاز میں ایک پر تحدی اور زوردار بیان حق کے مخالفین کے لئے ہے کہ حق کے مخالفین ہمیشہ تباہ و برباد ہوتے ہیں۔ پھر اس سورۃ میں کفار اور مؤمنوں کا موازنہ کیا گیاہے اور بتایا گیاہےکہ خدائی پیغام کے منکروں کی کیفیت قیامت کے دن ایسی ہوگی کہ وہ ان کے لئے نہایت سخت اور پریشان کن گھڑی ہوگی جبکہ مؤمنوں کے لئے یہ ابدی خوشی اور مسرت کا وقت ہوگا۔

اس سورۃ کا اختتام اس پُرتحدی بیان پر ہوا ہے کہ دونوں واقعات یعنی قیامت کا برپا ہونا اور آپ ﷺ کا کامیاب ہونا، باوجود شدید مخالفت کے اور نامساعد حالات کے، لازماً وقع پذیر ہوں گے۔ کیونکہ آپ ﷺ جو فرماتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے الہامی الفاظ ہیں اور کسی شاعر کی شیخی مارنے والے الفاظ نہیں ہیں، نہ ہی نجومی کا اٹکل پچو ہے اور نہ ہی جھوٹ ہے۔ اگر آپ ﷺ نے خدا پر جھوٹ باندھا ہوتا تو لازما ً آپ ﷺ کا انجام ایک اذیت ناک موت ہوتا کیونکہ (خدا پر)بہتان باندھنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔

(تعارف سورۃ المعارج (70 ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 45 آیات ہیں)

تعارفی کلمات

یہ سورۃ مکہ میں نبوت کے پانچویں سال کے قریب نازل ہوئی۔ نوڈلکے، میور اور چند دیگر محققین نے یہ تاریخ اس سورۃ کے وقت نزول کی بتائی ہے۔ سابقہ سورۃ میں تنبیہ کی گئی تھی کہ الحاقۃ (بڑی مصیبت) جلد انہیں آ لے گی اگر انہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی اور الٰہی پیغام کو قبول نہ کیا۔ موجودہ سورۃ اس بیان سے شروع ہوتی ہے کہ کفار کا مطالبہ ہے کہ ’کب وہ ہولناک سزا آئے گی؟‘ انہیں بتایا گیاہےکہ یہ (سزا) جلد انہیں آلے گی بلکہ ان کے دروازے پر کھڑی ہے۔ مگر جب وہ آجائے گی تو وہ ایسی زبردست اور تباہ کن ہوگی کہ پہاڑوں کو دھنکی ہوئی روئی کی مانند اڑا دے گی اور کفار خواہش کریں گے کہ وہ اپنوں اور غیروں سے کنارہ کرلیں یعنی اپنی بیویوں اور بچوں سے اور بھائیوں سے، تاکہ وہ اپنا کفارہ ادا کر سکیں مگر تب تک بہت تاخیر ہو چکی ہوگی۔

اپنے اختتام پر یہ سورۃ کفار کو تنبیہ کرتی ہے کہ وہ اسلام کے شاندار مستقبل کی پیشگوئیوں کو محض ایک خواب سمجھتے ہیں مگر وہ وقت تیزی سے آرہا ہے جب وہ اپنی آنکھوں کو جھکائے ہوئے (شرمسار) آپ ﷺ کی طرف دوڑیں گے تاکہ اسلام قبول کریں۔ پھر وہ شرمساری اور دکھ کے ساتھ تسلیم کرلیں گے کہ آپﷺ نے انکی شکست کے متعلق جو پیشگوئی کی تھی وہ بالکل درست تھی۔

(تعارف سورۃ نوح (71 ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 29 آیات ہیں)

وقت نزول، سیاق و سباق اور مضامین کا خلاصہ

جیساکہ یہ سورۃ حضرت نوح علیہ السلام کے روحانی تجربات کو بیان کرتی ہے اس لئے بجا طور پر اس سورۃ کا نام آپ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ وھیری کے نزدیک یہ سورۃ نبوت کے ساتویں سال میں نازل ہوئی جبکہ نوڈلکے کے نزدیک اس کا وقت نزول نبوت کے پانچویں سال میں ہے۔ جبکہ دیگر محققین کے نزدیک یہ ابتدائی مکی دور کی ہے، اس وقت جب سابقہ سورتیں نازل ہوئیں۔ سابقہ سورۃ کے اختتام پر یہ بتایا گیا تھا کہ شریر لوگ بالعموم خدائی پیغام کو جھٹلاتے ہیں۔ وہ خدا کے رسولوں کی مخالفت کرتے اور انہیں ظلم و تعدی کا نشانہ بناتے ہیں یہاں تک کہ سزاکا وقت آپہنچے اور وہ اپنے بد انجام کو پہنچ جائیں۔ موجودہ سورۃ قدیم انبیاء میں سے حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغی مساعی کا مختصر بیان کرتی ہے۔ اور آپ علیہ السلام نے اپنے دل کی آہ کو رقت آمیز طریق پر اپنے رب کے سامنے پیش کیا، اس کا بیان ہے۔ آپ نے اپنی قوم کو دن اور رات تبلیغ کی، آپ کی زبانی بیان ہوا ہے کہ آپ نے اجتماعی اور انفرادی تبلیغ کی۔ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خدا کی بے شمار نعمتیں اور افضال یاد کروائے اور انہیں الٰہی پیغام کو جھٹلانے کے بد نتائج کی تنبیہ کی۔ مگر آپ کی تبلیغ اور تنبیہ اور اپنی قوم کے لئے آپ کے نیک جذبات کے بدلے آپ کا استہزاء کیا گیا اور شدید مخالفت اور گالیوں کا سامنا ہوا اور بجائے اس کے کہ آپ کے محبت بھرے دل کی پیروی کی جاتی آپ کی قوم نے اپنے سرغنوں کے پیچھے چلنا قبول کیا اور آپ کی زندگی بھر کی تبلیغ محض بیابان میں کسی کو پکارنے کے مترادف ثابت ہوئی۔ آپ علیہ السلام نے حق کے دشمنوں کے تباہ و برباد ہونے کے لئے بد دعا کی ۔ اس سورۃ کا اختتام حضرت نوح علیہ السلام کی اسی بد دعا پر ہوا ہے۔

(ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مئی 2021