• 21 مئی, 2024

مالی قربانی اور اس کے ثمر

مالی قربانی اور اس کے ثمر
قربانی میں دی ہوئی دو انگوٹھیاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کی صورت میں واپس کر دیں

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ

(البقرہ: 275)

اس آیت میں اللہ تعا لیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کو کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا۔ جب کوئی انسان صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرتا ہے توخدا تعالیٰ اس کے دل کی حالت کو بدل دیتا ہے اور اس میں ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔

خاکسار خود اس چیز کا گواہ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ دلوں کی حالت کو بدلتا ہے۔ جس واقعہ کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں اس سےپہلے میری حالت اور طرح کی تھی۔ میں چندہ ادا تو کرتا تھا لیکن آہستہ آہستہ پورے سال میں پورا کرتا۔ اس واقعہ کے بعد خدا نے دل کی حالت بدل دی اور اب کوشش ہوتی ہےکہ خلیفۂ وقت کے زبان مبارک سےاللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے الفاظ ادا ہوتے ہی اسی وقت ادائیگی کر دی جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر سارا سال اس کے ثمرات سے مستفیذہونے کا موقع ملتا رہے اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ ایسی جگہوں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے انسان گمان بھی نہیں کر سکتا۔ جیسے کہ وہ خود قرآن مجیدمیں فرماتا ہے:

وَیَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَمَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ

(الطلاق: 4)

خاکسار کی شادی مارچ 2015ء میں ہوئی۔ خاکسار اللہ کے فضل سے مربی سلسلہ ہے اور میدان عمل میں خدمت کی توفیق پا رہاہے۔ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ جب شادی ہوتی ہے تو کچھ عرصہ بعد یہ سوال لوگ پوچھنا شروع کردیتے ہیں کہ کیا کوئی اولاد ہے؟ شادی کے شروع کے ایام میں تو اس سوال پر اتنا برا محسوس نہیں ہوتا لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے تو پھر یہ سوال الجھن میں مبتلا کردیتا ہے اور اگر کسی دیہی جماعت میں ہوں تو پھر صورتحال اور بھی مشکل ہوجاتی ہے۔ مختلف لوگ آپ کو مختلف مشورے دیتے ہیں کہ یہ کرو، یہ دوا استعمال کرو۔ عورتیں خاص طور پر زیادہ اس طرح کے سوالات زیادہ کرتیں ہیں۔

میری شادی کو ہوئے ابھی اتنا عرصہ تو نہیں ہوا تھا۔ 10,9ماہ ہی ہوئے تھے لیکن گاؤں میں رہنے کی وجہ سےزیادہ محسوس ہوتا تھا۔ شادی کے وقت خاکسار کی تقرری ایک گاؤں میں تھی پھر میرا تبادلہ ایک شہری جماعت میں ہو گیا۔جہاں کچھ سکون تو ملا کیوں کہ شہر کے لوگ مختلف طبیعتوں کے ہوتے ہیں۔ لیکن اب ہمیں بھی محسوس ہوتا تھا کہ کافی وقت گزر چکا ہے اور ابھی تک امید پیدا نہیں ہوئی۔ چنانچہ میری اہلیہ کی ایک جاننے والی نے چندہ کی تحریک کی۔ اس کے بعد ہم رخصت پر اپنے آبائی گھرآئےہوئے تھے تو ایک روز ہم دونوں نے سوچا۔ ایسا کرتے ہیں ہمارے پاس جو سب سے قیمتی چیز ہے اسے خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرتے ہیں۔ جب ہم نے غور کیا تو سوائے زیور کے ہمارے پاس اور کچھ نہ تھا تو میری اہلیہ نے سب سے پہلے اپنی دو انگوٹھیاں دیں۔ جو ہم نے ایک تحریک جدید میں اور ایک وقف جدید میں دے دی۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہفتہ کے اندر ہی اللہ تعالیٰ نے امید پیدا کر دی۔ اس کے کچھ دنوں بعد خاکسار جب جماعت کے مختلف کاموں سے فارغ ہو کر گھر واپس آیا تو میری اہلیہ نے مجھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک پراناخطبہ پڑھنے کے لئے دیا اور ایک واقعہ کی طرف نشاندہی کی۔ جب میں نے خطبہ پڑھا تو اس میں ایک فیملی کا ذکر تھا کہ ان کی بھی کئی سالوں سےاولاد نہیں ہو رہی تھی تو انہوں نے چندہ دیا۔ اوراللہ تعالیٰ نے ان کو جڑواں بچوں سے نوازا۔ میرے منہ سے بھی بے ساختہ نکلا۔ ’’کیا پتا خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کرے۔‘‘

چنانچہ مہینہ ڈیڑھ کے بعد جب ہم چیک اپ کروانے ڈاکٹر کے پاس گئے تو ڈاکٹر نے الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ میں بتایا کہ یہ جڑواں بچے ہیں۔ تو میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دونوں انگوٹھیاں واپس کر دیں ہیں۔ اس کے بعد میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بچوں کے نام تجویز کرنے کے لئے درخواست کی تو حضور نے از راہ شفقت بچوں کے نام سید سجیل احمد اور سیدہ شافعہ تجویز فرما دئے۔ جو نام آئے وہ صرف دو تھے ایک بچے کا اور ایک بچی کا۔ میرے گھر والوں نے کہا کہ دوبارہ لکھو کیوں کہ اگر دو بیٹے پیدا ہو گئے یا دو بیٹیاں پیدا ہو گئیں تو نام صرف ایک ایک کا ہی ہے۔میں نے کہا میں دوبارہ نہیں لکھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے۔ جب پیدائش کا وقت قریب آیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچوں کی پیدائش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔ جن کے نام سید سجیل احمد اور سیدہ شافعہ محمود ہے جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ زچگی کے وقت بھی اللہ تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا اور دونوں بچوں کی پیدائش نارمل ہوئی۔

میری اہلیہ جسمانی ساخت کے اعتبار سے زیادہ صحت مند نہیں۔ اس لئے جو بھی میری اہلیہ کی ظاہری حالت کو دیکھتا ہے اسے جڑواں بچوں کے ہونے کا یقین نہیں آتا مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ بچے خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور خلیفہ وقت کی مبارک تحریک پر لبّیک کہنے اور انفاق فی سبیل اللہ کا زندہ نشان ہیں۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذلک۔ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے انعام کو دیکھ کر میری اہلیہ نے اپنا سارا زیور اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا۔ الحمد للّٰہ ثم الحمدللّٰہ۔

اس واقعہ کا علم جب میرے استاذی محترم شبیر ثاقب صاحب کو ہوا تو انہوں نے اصرار کیا کہ آپ یہ واقعہ لکھ کر الفضل میں دیں۔ کیونکہ یہ جماعت کی امانت ہے اس لئےخاکسار یہ ارسال کر رہا ہے۔

(سید جمیل احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ