• 19 اپریل, 2024

خوش قسمت ہیں وہ جن کا ولی اللہ تعالیٰ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
پس کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جن کا ولی اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے۔ اور جن کا ولی خدا تعالیٰ ہو جاتا ہے اُن کے غم اور خوف تو ویسے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ آئندہ کے لئے نیک عمل کرنے کی طرف اُن کی توجہ ہو جاتی ہے۔ گزشتہ کے اگر کوئی برے عمل ہیں تو اُن سے معافی ہو جاتی ہے۔ انسان کو اپنے مستقبل کے بارے میں خوف رہتا ہے۔ یہاں مثلاً بہت سارے اسائلم سیکرز (Asylum Seekers) آئے ہوئے ہیں، اُن کو ہر وقت فکر پڑی رہتی ہے کہ پتہ نہیں ہمارا کیا فیصلہ ہو گا، کیا بنے گا؟ بعض میں نے دیکھے ہیں، اس خوف کی وجہ سے کئی کئی کلو اپنا وزن کم کر چکے ہیں۔ ملتے ہیں تو چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہوتی ہیں۔ کوئی اپنے بزنس کے حالات کی وجہ سے پریشان ہے۔ خوفزدہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں آئندہ کیا ہو گا؟ طلباء ہیں تو اپنے امتحانوں کی وجہ سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ غرض آئندہ آنے والی باتیں انسان کو ایک خوف کی حالت میں رکھتی ہیں جب تک کہ اُن کے نتائج اُن پر ظاہر نہ ہو جائیں۔ اسی طرح حزن ہے یا غم ہے جو گزری ہوئی باتوں کا ہوتا ہے۔ جتنا بڑا غم ہو انسان اُتنا ہی زیادہ غمگین رہتا ہے۔ بعض دنیا دار اپنے کاروباروں کے نقصان میں اس قدر غمگین ہو جاتے ہیں کہ اُس کامستقل روگ لگا لیتے ہیں۔ بعض دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں، بعض پر دل کے ایسے حملے ہوتے ہیں کہ مستقل بستر پر لیٹ جاتے ہیں یا دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ بہر حال ایک متقی مومن اور احسان کرنے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن کو نہ کوئی خوف ہو گا، نہ غم۔ ایک دیندار انسان جس کو خدا تعالیٰ کی صفات کا صحیح ادراک ہے اور اُس کے مطابق وہ اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے، وہ کبھی بھی دنیا کے غموں کو اپنا روگ نہیں بناتا۔ بیشک نیک لوگوں کو خوف کی حالت بھی آتی ہے، غم کی حالت بھی آتی ہے لیکن وہ دنیا کے غم نہیں ہوتے، وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے غم ہوتے ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کا خوف ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شعر میں فرمایا کہ

؎ اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب

(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد4 صفحہ410)

پس یہ دلدار کو راضی کرنے کی فکر اور خوف ہوتا ہے، اور یہ خوف جو ہے اُن کی توجہ دعاؤں اور ذکرِ الٰہی کی طرف مبذول کراتا ہے اور اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ (الرعد: 29) کی آواز اُن کو تسلّی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی اُن کے لئے اطمینانِ قلب کا باعث بنتا ہے جو پرانے غموں کو بھی دور کر دیتا ہے اور آئندہ کے خوفوں کے دُور ہونے کی بھی اُن کو تسلّی دلاتا ہے۔ تقویٰ پر چلنے والوں کا خوف پیار اور محبت کا خوف ہوتا ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایسا خوف یا ایسی تڑپ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے بے چین رکھے۔ پس یہ بے چینی دل کو تقویت دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتی ہے۔ دنیا دار کی بے چینی اس کے برعکس دلوں پر حملہ کرنے والی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والا، محسنین میں شمار ہونے والا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ رکھتا ہے اور اپنے اعمال پر نظر رکھتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد بنتا ہے۔ پس دنیا دار اور دیندار کے غم اور خوف میں یہ فرق ہے۔

(خطبہ جمعہ 3فروری 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جولائی 2021