• 4 مئی, 2024

ایڈیٹر کے نام خط

مکرم ڈاکٹر ملک مدثر احمد۔ احمدیہ ہسپتال کانو، نائیجیریا لکھتے ہیں۔
مورخہ 11جولائی2022ء کے شمارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی عمر پر اعتراض کے حوالے سے بہت ہی اعلیٰ تحقیقی مضمون پڑھنے کو ملا ہے۔ خاکسار اس سلسلہ میں آج کے زمانہ کی بات بتاتا ہے۔ کجا 14سو سال پرانے زمانے کی بات ہو۔سب ڈاکٹروں کا یہ ذاتی تجربہ ہو گا۔ خاص کر جو افریقہ اور پاکستان میں مریض دیکھتے ہیں کہ روزانہ ایسے مریض ملتے ہیں جنہیں اپنی عمر کا کچھ پتہ نہیں ہوتا بلکہ اندازہ بھی بہت غلط ہوتا ہے۔ مثلاً ایک عورت آ تی ہے اور رجسٹریشن پر اپنی عمر تیس سال لکھواتی ہے۔ جب وہ میرے پاس آتی ہے تو اسے دیکھتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ تو چالیس پچاس سال کی ہے۔ میں اس سے پوچھوں گا کہ محترمہ! آپ کی کتنی عمر ہے؟ تو کہے گی تیس سال۔ اور جب سوال کریں کہ کیا آپ کو اپنی تاریخ پیدائش کا علم ہے؟ تو جواب ملتا ہے۔ نہیں کوئی ریکارڈ نہیں۔ ہم دیہاتی لوگوں میں کوئی ریکارڈ نہیں رکھتا۔ اور جب پوچھا جائے۔ کیا اسکول گئی ہیں؟ تو جواب ملے گا۔ جی نہیں۔ اسی طرح اگر پوچھا جائے کہ شادی کو کتنے سال ہو گے ہیں؟ تو انہیں کچھ علم نہیں ہوتا۔ اگر یہ پوچھیں کہ اچھا کتنے بچے ہیں؟ تو اگر چھ بچے ہیں۔ کیا وہ اسکول جاتے ہیں؟ تو جواب اثبات میں ملتا ہے۔ اسی طرح اگر پوچھا جائے کہ کیا سب سے بڑے بچے یا بچی نے اسکول مکمل کر لیا ہے؟ تو ہاں میں جواب ملے گا۔ اگر بڑی لڑکی ہے اور اس کی اسکول کے بعد شادی بھی ہو گئی ہے۔ اس کے دو بچے بھی ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس بچی کی عمر اندازاً بیس سال ہے۔ تو کیا آپ کی عمر آٹھ سال تھی جب شادی ہوئی اور نو دس سال کی عمر میں آپ کا پہلا بچہ ہوا۔ اب وہ حیرانگی سے میرا منہ دیکھے گی اور کہے گی اچھا چالیس لکھ لیں۔ اور اگر پوچھوں کہ کیا آپ کو اب بھی ماہواری آتی ہے؟ تو جواب نفی میں ملے گا کہ پچھلے سال سے نہیں آئی۔ میرے بتانے پر کہ چالیس کی عمر میں تو عموماً اس علاقہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ میرا تو خیال ہے کہ آپ کی عمر چالیس سے زیادہ ہے۔ تو اکثر خواتین کہیں گی اچھا پینتالیس لکھ لیں۔ اس طرح کی گفتگو روزانہ ہماری مریضوں سے ہوتی ہے اور یہ صرف عورتوں سے نہیں، بلکہ مردوں سے بھی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر کسی راوی نے اپنے اندازہ سے حضرت عائشہ کی عمر نو سال کہہ دی۔ تو قطعا ًانوکھی بات نہیں۔ آج کل بھی جہاں تاریخ پیدائش کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ لوگوں کے حیران کن غلط اندازے ہوتے ہیں۔مجھے اپنے میڈیکل کالج کے زمانے کی ایک بات یاد آ گئی ہے۔ ہمارے سرجری کے پروفیسر مردوں میں پروسٹیٹ گلینڈ بڑھ جانے کا ٹاپک پڑھا رہے تھے۔ علامات پڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ بیماری مردوں میں بڑی عمر میں ہوتی ہے لیکن سرجری کی ایک معروف یوروپین کتاب میں لکھا ہے کہ برصغیر میں یہ بیماری چالیس سال میں بھی ہو جاتی ہے۔ وہ کہنے لگے کہ میں نے کبھی کوئی چالیس سال کا مریض اپنی پریکٹس میں نہیں دیکھا۔ اور کہنے لگے کسی بابے سے کسی نے عمر پوچھی ہو گی اور اس نے کہا ہو گا چالیس لکھ لو اور انہوں نے لکھ لی ہو گی۔ تو اگر آ ج کل ایسا ہوتا ہے تو اس زمانے میں کسی نے اپنے اندازے سے کوئی عمر کہہ دی اور اب اس کو سند بنا کر اعتراض محض جہالت اور تعصب ہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ