• 5 مئی, 2024

جرم اور گناہ

انسان بحیثیت ایک معاشرتی جانور کے اس بات کا پابند ہے کہ وہ جس معاشرے میں رہتا ہو اس کے بعض اصول اورضوابط کی پابندی کرے۔

یہ معاشرہ دور حاضر سے قبل مختلف انداز میں کام کرتاتھا۔ کہیں قبائلی نظام کی صورت میں جہاں تمام قبیلہ ایک سردار کی زیر سرپرستی اکٹھا رہتا تھا اور قبیلے کی حفاظت اور سہولت کےلیے بعض ایسے قواعد اپنائے گئے تھے جس پر عمل کرنا ضروری تھا۔ آج بھی دنیا میں ایسے قبائلی معاشرے گر چہ کم ہیں مگر موجود ہیں۔

ان قواعد میں اہم بات قبیلے کے مفاد کی خاطر اپنا مفاد قربان کرنا ہوتا تھا۔ اور اکثر قبیلوں میں سردار مطلق العنان حکمران کی بجائے ایک ایسا لیڈر ہوتا تھا جو قبیلے کے سمجھدار لوگوں سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرتا۔

معاشرتی ترقی کے دور میں آہستہ آہستہ قبائلی نظام کے محدودہونے کے باعث جبکہ علاقائی توسیع کی وجہ سے کئی قبائل ایک نظام حکومت کے تابع رہنے لگے تو بادشاہت کا نظام مضبوط ہونے لگا اور مطلق العنان بادشاہوں نے وسیع رقبہ پر اپنی مملکت قائم کرنی شروع کر دی۔ ان حکومتوں میں بادشاہ کے پاس وسیع تر اختیارات تھے اور وہ زمین پر خدا کا نمائندہ تصور کیا جاتاتھا۔ بادشاہ کے منہ سے نکلا ہوا لفظ قانون تھا اور عوام الناس بےچارے بے بس تھے۔ بادشاہ کے سامنے چوں نہ کرسکتے تھے۔ یہ نظام تقریباً بیسویں صدی تک دنیا میں پوری طاقت سے رائج رہا۔

اس نظام کے ذمہ داروں کو نہ صرف مذہبی راہ نماوٴں کی تائید حاصل تھی بلکہ وہ اسکا ایک مضبوط بازو تھے۔ عوام الناس چونکہ مذہب سے متاثر ہیں اس لیے مذہبی راہ نماوٴں کو بادشاہوں کے دربار میں بڑی بڑی کرسیاں ملتی تھیں اور وہ بعض قوانین جو مذہب سے متعلق تھے ان کو رائج کروانے میں بادشاہوں کی راہ نمائی کرتے تھے۔

اس سے قبل قبائلی نظام میں بعض ایسی باتیں جائز سمجھی جاتی تھیں جن پر مذاہب نے پابندی لگا دی تھی مثلاً Incest یا محرم رشتے داروں کی آپس میں شادیاں یا قدرتی آفات سے بچاوٴ کے لیے انسانی جان کی قربانی وغیرہ مگر چونکہ مذاہب نے ایک ضابطہ اخلاق مہیا کیا اور ان ظالمانہ روایات کی دنیا سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی جس کےلیے مذہبی راہ نماوٴں کو بادشاہوں کی اور بادشاہوں کو مذہبی راہ نماوٴں کی ضرورت تھی۔ چنانچہ ریاست کے یہ دو بڑے ستون تھے جو عوام الناس پر حکومت کرکے ان کی درست یا غلط راہ نمائی کے ذمہ دار تھے۔

اٹھارہویں صدی میں دنیا نے ایک نیا رخ موڑا اور انقلاب فرانس کے بعد آہستہ آہستہ بادشاہت کا خاتمہ ہونا شروع ہوا اور جمہور کی حکومت متعارف ہوئی۔ اس کا بنیادی اصول اکثریت کی بنیاد پر حکومت کرنا ہے اور آجکل یہی طریق دنیا میں رائج ہے۔ اس طرز حکومت سے جہاں شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا وہاں مذہبی روایات کا بھی خاتمہ ہونا شروع ہوا اور خصوصاً موجودہ سائنسی ترقی کے زمانہ میں خالق اور مخلوق کا رشتہ بالکل ہی ختم ہوگیا۔

نئے طرز حکومت میں جرم کی نوعیت بھی تبدیل ہو گئی۔ کیونکہ نئے حالات میں نئے قوانین متعارف ہوئے۔ مثلاًنقل و حمل کے لیے نت نئی ایجادات سامنےآئیں اور عوام کی سہولت کےلیے ایک مخصوص سمت چلنے کے قوانین بنے۔ بعض ممالک میں ٹریفک دائیں ہاتھ اور بعض ممالک میں بائیں ہاتھ پر چلتی ہے۔ اگر کسی ایسے ملک مثلاً برطانیہ میں جہاں ٹریفک بائیں ہاتھ چلتی ہے آپ کار دائیں ہاتھ پر چلائیں تو یہ جرم ہے۔ لیکن اگر فرانس میں بائیں ہاتھ پر چلائیں تویہ جرم ہوگا۔

اس سے معلوم ہوا کہ جرم ایک نسبتی چیز ہے۔ کسی ملک میں ایک جرم دوسرے ملک میں ایک اچھی بات شمار ہوسکتی ہے۔ مثلاً یورپ کے بعض ممالک میں حجاب کا استعمال جرم قرار دیا گیا ہے جبکہ مسلمان ممالک میں یہ ایک اچھا رویہ سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ گناہ کا تعلق خالق کائنات کی نافرمانی سے ہے۔ جس کا حساب اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ بعض جرائم کا تعلق اخلاقیات سے ہے اور یہ دو جرائم ہیں جہاں مذہب اور ریاست ایک سوچ کے حامل ہوتے ہیں مثلاً چوری کرنا۔ دھوکہ دہی۔ قتل اور غیرقانونی جنسی تعلقات وغیرہ گناہ بھی ہیں اور جرائم بھی۔ تو جرم کا تعلق کسی ملک کے قوانین کو توڑنے سے جبکہ گناہ کا تعلق خداتعالیٰ کے بیان فرمودہ قوانین کو توڑنے سے ہے۔

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے گناہ کے حوالہ سے فرمایا ہے کہ گناہ چونکہ خداتعالیٰ کی نافرمانی کو کہتے ہیں اس لیے اسکی مثال ایسی ہے جیسے مثلاً کوئی درخت ہو جو زمین سے ناطہ توڑلے جسکے نتیجہ میں پانی اور نمکیات جذب ہونا بند ہوجائیں گے اور وہ سر سبز درخت خشک ہوکر محض جلانےکے کام آئے گا۔ چنانچہ اگر خداتعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے تو اس حّی وقیوم ہستی سے تعلق جوڑنا ہی دراصل زندگی کی ضمانت ہے۔ ورنہ انسانیت سوکھے درخت کی طرح مرجھا کررہ جائے گی۔

موجودہ سائنسی ترقی کے نتیجہ میں انسان میں ایک قسم کا ایسا تکبر پیدا ہوا ہے کہ وہ خالق ہی کا انکار کر بیٹھا ہے اور اس طرح دراصل گناہ اور ثواب کے خیال سے دور ہٹتا چلا گیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اخلاقیات سے تعلق رکھنے والے جرائم جن کی بنیاد مذہب پر یقین تھی آہستہ آہستہ سوکھنا شروع ہوئی اور اخلاقیات کا درخت خشک ہونے لگا ہے۔ مثلاً موجودہ دور میں لذات کے حصول کےلیے کھلے عام جنسی تعلقات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور بعض مغربی ممالک میں توہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دے دیاگیا ہے جو پہلے ایک جرم شمار ہوتا تھا۔ اب یہ گناہ تو ہے لیکن ان ممالک میں جرم نہیں اور وہ لوگ جوخداتعالیٰ کے وجود سے ہی منکر ہیں ان کےنزدیک گناہ کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ اس بات کو مزید آگے بڑھائیں تو اگر گناہ کچھ نہیں تو پھر نیکی بھی کوئی چیز نہیں رہتی۔ اس طرح اخلاقیات کا سارا تانابانا ٹوٹ پھوٹ جاتاہے۔

مذہب چونکہ انسان کو ایک ایسی ہستی کی طرف بلاتاہے جو نہ صرف کائنات کی خالق ہے بلکہ اس کا نظام چلانے کی ذمہ دارہے اس لیے اس کی طرف سے موصول ہونے والے احکامات ہر وقت انسان کے مدنظر رہنے چاہئیں۔ دنیا میں کوئی سائنس یا فلسفہ ایسا نہیں جو انسان کی سوچ پر نظررکھے۔ اگر ایک شخص اپنے رہن سہن میں قابل قبول ہے تو وہ معاشرے میں قابل قبول ہوتاہے خواہ سوچ میں کیسا ہی بد کردار کیوں نہ ہو اور جب سوچ پر کنڑول ختم ہوجائے تو ایک حصہ معاشرے کاضرور ایسا نکلتا ہے جو منفی کاموں پر تُل جاتاہے۔ اسکی مثالیں روز مرّہ ہمیں معاشرے میں نظر آتی ہیں۔ چنانچہ مذہب نہ صرف عمل کی بلکہ سورج کی بھی راہ نمائی کرتاہے۔ اور انسان کو رحجانات سے محفوظ رکھتا ہے مثلاً انائیت جرم نہیں لیکن گناہ ہے۔ اسی طرح تکبر جرم نہیں لیکن گناہ ہے۔ بدگمانی، بدظنی، غیبت، حسدوغیرہ کے ذہنی رحجانات کسی بھی دنیوی قانون کے مطابق جرم نہیں لیکن مذاہب کے تعلیمات میں یہ گناہ شمار ہوتے ہیں۔

مذہب کا دوسرا پہلو محبت اور ہمدردی کا قیام ہے مذہب کے علاوہ کوئی اور فلسفہ محبت کادرس تو دے سکتاہے لیکن دل میں اسے جاگیزیں نہیں کر سکتا۔ اگر تو کوئی ایسی ہستی موجود ہی نہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا تھا پھر محبت اور ہمدردی ایک بے معنی چیز بن جاتے ہیں۔ اگر انسان اس دنیا میں اتفاقاً آیا اور ختم ہوگیا اور اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا تو وہ انسان بے وقوف سمجھا جائےگا جو محبت اور ہمدردی اور قربانی کی بات کرے بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ اس چند روزہ دنیا سے لطف اٹھا کر رخصت ہو۔

چنانچہ اگر ہم مذہب کو انسانی سوچ سے نکال دیں تو معاشرے کا سارانظام درہم برہم ہوجاتاہے۔ اگرگناہ کوئی چیز نہیں تو پھر نیکی بھی کوئی چیز نہیں رہتی پھر مشکل وقت میں دعا کا خانہ بھی خالی رہ جاتا ہے بقول جان ایلیا بڑا بے آسرا پن ہے سو چپ رہ۔ نہیں ہے یہ کوئی مثردہ خدانئیں۔

آج اگر ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ہے تو کل محرم رشتہ داروں سے شادی کا قانون بھی رائج ہوسکتا ہے۔ پرسوں لذت کے حصول کےلیے ڈرگز کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے۔ (جو بعض ممالک میں حاصل ہو رہی ہے) اس کے بعد کم عمر لڑکیوں یا لڑکوں سے تعلقات استوار کرنے کی اجازت بھی مل جائے گی جو فی الحال ایک بڑا جرم شمار ہوتا ہے اور انسان کی اخلاقی پستی کی کوئی انتہا نہیں رہے گی۔

اب مذہب سے دوری کے باعث ایسے سوال اٹھ رہے ہیں جو اخلاقیات سے متصادم ہیں مثلاً Mercy killing یعنی بڑے بوڑھوں کو جو زندگی میں کسی کام کے نہیں رہے بلکہ تکلیف میں ہیں انہیں مار دینا بہتر ہے۔ یا فاسٹر مدرز کے ذریعہ ٹیسٹ ٹیوب بچوں کی پیدائش وغیرہ یہ تمام پہلو قابل غور ہیں اور جب تک انسان ایک قادر اور حّی و قیوم خدا سے اپنا تعلق نہ جوڑے معاشرہ تنزل کے عمیق گڑھے میں گرتا چلا جائے گا۔

٭…٭…٭

(مرسلہ: سید قمر سلیمان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2020