• 18 مئی, 2024

حدیث کا تعارفی مطالعہ

حدیث کے لغوی معنی جدید یعنی نئی چیز کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں حدیث ہر اس قول و فعل اور تقریر کو کہتے ہیں جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جاتی ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کریم پر عمل کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔حدیث کے بغیر قرآن کریم کو صحیح طور پر سمجھنا بھی کٹھن ہے۔قرآن کریم ساری دنیا کے انسانوں کے لیے نہایت متوازن اور معتدل نظام زندگی اور نظام عمل پیش کرتا ہے۔ لیکن اس نظام کو سمجھنے کے لیے ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تشریح کی ضرورت ہے۔اگر حدیث کو قرآن پاک سے الگ کیا گیا تو قرآن پاک کا یہ نظام نا قابل فہم ہوگایہی وجہ ہے کہ مخالفین اسلام سب سے زیادہ احادیث کو اپنےاعتراضات کا نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حدیث قابل اعتماد نہیں کیونکہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دو سو سال بعد لکھی گئی ہیں اور کوئی بات اتنی مدت بعد کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ ہاں یہ بات جاننے کی ضرورت ہے کہ احادیث کولکھنے کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہی شروع ہوا تھا۔صحابہ کرام اپنے طور پر احادیث کے مجموعے تیار کرکے اور لکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتےاور سُناتے تھے۔یہ لکھنے کا سلسلہ برابرجاری رہا۔

حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں۔ ہاں جہاں قرآن اور سُنت سے کسی حدیث کو معارض پاو یں تو اس حدیث کو چھوڑ دیں۔‘‘

(ریویوچکڑالوی وبٹالوی، روحانی خزائن جلد19 صفحہ212)

حدیث کو سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے قرآن کریم قیامت تک کے لئے ہے اور ایک حکیمانہ اور جامع ومانع دستور ہدایت ہے۔اس میں اللہ تعالیٰ نے تمام شرعی احکام اور اصول اجمالی طور پر بیان فرما دیئے ہیں۔قرآن کریم نے زیادہ تر مسائل کے کلمات یا ان کی اصل روح بیان کر دی ہے اور ایسے انداز میں بیان کئے ہیں جو صرف لغت کی کتابوں کی ورق گردانی سے حاصل نہیں ہو سکتے بلکہ اس کے لیے ایک معلم اور مفسر کی ضرورت ہے۔جو قرآن قیامت تک کے لئے معیارحق بنایا گیاہوجس کے ذریعے ہر انسان کے اچھے اور برے اعمال کو پرکھا جاتا ہو جس کے ماننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے اور اس کے منکرین کو جہنم کے عذاب سے ڈرایا جاتا ہوتو ایسی محکم اور فیصلہ کن کتاب کا معلم وہی ہو سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خود معلم قرار دیا ہو۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیۡکُمۡ وَیُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۵۲﴾ؕۛ

(البقرہ: 152)

جیسا کہ تم لوگوں میں ہم نے رسول بھیجا جوتم ہی میں سے ہے۔وہ ہماری آیات پڑھ کر تم کو سناتا ہے اور تم کو پاک کرتا ہے اور تم کو کتاب الہٰی کی تعلیم دیتا ہے اور سمجھ کی باتیں بتاتا ہے جن کو تم جانتے بھی نہ تھے۔

اور پھر قرآن کریم نے ہی ہمیں بتایا ہے اقوال کی طرح آپؐ کے افعال اور اعمال بھی ہم سب کے لیے بہترین نمونہ عمل ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے:

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌٌ

(احزاب: 22)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے جس کی پیروی اور اتباع کے بغیر تم اللہ تعالیٰ کی محبت اورخوشنودی حاصل نہیں کرسکتے۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ

(ال عمران: 32)

آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو تم میری اتباع کرو۔اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔بہرحال قرآن پاک کی تعلیم اور تفسیر کا کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےسپرد کیا گیا اور آپ نے اپنے افعال اور اعمال کے ذریعے پورے 23 سال قرآن پاک کی تعلیم اور قرآنی احکامات اور ہدایات کی تفسیر اور تشریح بیان فرمائی۔یہی افعال اور اقوال حدیث کہلاتے ہیں۔ انہی کے ذریعہ ہم قرآن کریم کے مفہوم اور معنی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم اجمالی طور پر حکم دیتا ہے نماز پڑھو، روزہ رکھو، زکوٰۃ ادا کرو لیکن اس کی وضاحت نہیں کرتا کہ ہم نماز میں کتنی رکعتیں پڑھیں،روزہ کی کیا نوعیت ہے، زکوٰۃ کتنی رقم پر کتنی ادا کی جائے،یہ سب باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال سے معلوم ہوتی ہیں اور یہی تمام حدیث کہلاتی ہیں۔ اس وضاحت سے بخوبی اندازہ ہواہوگا کہ حدیث قرآن پاک کی تفسیر بھی ہے اور تشریح بھی ہے۔جس طرح ہم قرآن کی تعلیم کا اہتمام اور احترام کرتے ہیں اسی طرح ہم کو حدیث کا احترام کرنا ضروری ہے۔ جس طرح قرآن سے ثابت احکام پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح حدیث سے ثابت احکام پر بھی عمل کرنا ضروری ہے اسی لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیتے ہیں یا جو بات کہتے ہیں وہ وحی الہٰی کے عین مطابق ہوتا ہے اس بات کی تصدیق خود قرآن کریم کرتا ہے:

وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۴﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۵﴾

(انجم: 4-5)

یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی خواہش نفس سےنہیں بولتے۔یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔

حدیث کی تین اقسام ہیں۔قولی حدیث،فعلی حدیث، تقریری حدیث

قولی حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ حدیث قولی کہلاتے ہیں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ہمارے درمیان اور ان (کافروں) کے درمیان امتیاز کرنے والا عمل نماز ہے جس نے اسے ترک کردیا وہ کفر سے قریب ہو گیا۔یہ حدیث قولی حدیث کہلاتی ہے۔

فعلی حدیث: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام کیا یا لوگوں کو کر کے دکھایا وہ فعلی حدیث کہلاتی ہے جیسا کہ آپ نے روزہ رکھا،افطاری اور سحری کی وغیرہ عملی طور پر کر کے دکھایا یہ فعلی حدیث کہلاتی ہے۔

تقریری حدیث: حدیث کی اصطلاح میں تقریر سے مراد قائم رکھنا ہے۔کوئی ایسا کام جو اسلام سے پہلے لوگوں کے عمل میں رہا ہو۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہی عمل کیا ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں خاموشی اختیار کی ہو۔نہ کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایاگویا خاموشی سےمنظوری دی ہو۔یہ بھی حدیث کی ایک قسم ہے۔

حدیث سے متعلق چند ضروری اصطلاحات

  1. سند: سند کے لفظی معنی سہارے کے ہیں۔ سند کو سند اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اس کی ثقافت اور صحت کا انحصار اسی پر ہوتا ہے۔ اصطلاح میں سند لوگوں کے اس سلسلے کو کہتے ہیں جس پر سندختم ہوجائے۔
  2. متن: لغت میں زمین کے اس حصے کو کہتے ہیں جو سطح سے کچھ اونچاہو اور اصطلاح میں متن حدیث اس حصے کو کہتے ہیں جس پر سند ختم ہو جائے۔
  3. روایت: کسی حدیث کو بیان کرنا روایت کہلاتا ہے اور اس بیان کرنے والے کو راوی کہتے ہیں۔
  4. صحابی: ایسے شخص کو صحابی کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو اور ایمان کی حالت میں اس شخص نے وفات پائی ہو۔ جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ۔
  5. تابعی: وہ لوگ جنہوں نے ایمان کی حالت میں کسی صحابی سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی کی حالت میں وفات پائی ہو۔ جیسے امام محمد، امام شافعی، امام مالک وغیرہ۔
  6. محدث: وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو حدیث کی خدمت تعلیم و تعلّم کے لئے وقف کر لیا ہو اور علم حدیث میں مہارت رکھتے ہوں۔ جیسے امام بخاری، امام مسلم وغیرہ۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے لکھنے اور لکھانے کا کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی سے شروع ہوا تھا۔مثلاً:

اسلامی ریاست کا دستور: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اسلامی حکومت کے نظم و نسق کے لئے ایک دستور تیار کیا گیا جو زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق تقریباً 52 دفعات پر مشتمل تھا اور اس کو لکھ لیا گیا تھا۔

معاہدے اور صلح نامے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کو بہتر بنانے کے لیے معاہدے اور صلح نامے بھی لکھوائے جن میں صلح حدیبیہ سب سے زیادہ مشہور ہے۔

مردم شماری: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے ابتدائی زمانہ میں مسلمانوں کی مردم شماری کرائی جسے باقاعدہ لکھا گیا۔

کتابت حدیث کا حکم: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ سے حدیث سنتا ہوں جو مجھے اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن بھول جاتا ہوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے داہنے ہاتھ سے مدد لو (یعنی لکھ لیا کرو) اور اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ فرمایا۔

بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےمدنی دور میں مختلف حکمرانوں اور بادشاہوں کے نام خطوط لکھے۔

عہدِ صحابہ کرام کے زمانہ میں احادیث کےمجموعے:صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی احادیث کی تحریروں اور چھوٹےچھوٹے صحیفوں کےعلاوہ احادیث کی ضخیم کتابیں بھی لکھی گئیں اورخطوط کے ذریعے بھی روایت حدیث کا طریقہ رائج ہوا۔اس طرح وہ تحریری سرمایہ جو صحابہ کرام کے زمانے کے بعد تابعین نے انجام دیا اس کی فہرست بہت طویل ہے۔اس میں ایک نام بہت اہم ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیزجوماہ صفر 99 ھ میں منصب خلافت پر فائز ہوئے اور جب 101ھ میں وفات پائی۔آپ نے اپنے دور خلافت میں احادیث نبویہ کی تدوین سرکاری انتظام سے جس بڑے پیمانے پر کرائی اور حضرت ابن شہاب زہری (50ھ 124ھ) نے اس میدان میں جو کام کئے وہ قابل قدر اور عظیم الشان ہیں۔

صحاح ستّہ حدیث کی 6 صحیح کتابیں

بخاری: یہ کتاب محمد بن اسماعیل البخاری کی کتاب ہے۔ اس کتاب کے ذریعے امام بخاری کی شہرت ہوئی۔ یہ کتاب 18سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی۔ اور اس کو اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے۔ اس کتاب میں تقریباً 7300 سے کچھ زائد احادیث ہیں۔

مسلم: اس کتاب کے تدوین کنندہ کا نام مسلم بن حجاج ہے۔ کنیت ابوالحسن۔ اس کتاب میں مکررات کو نکالنے کے بعد چار ہزار حدیث جمع ہیں اور امام مسلم نے اپنی کتاب میں ایک سیر حاصل دیباچہ علم حدیث پر تحریر کیا ہے۔ امام بخاری کی کتاب کے بعد سب سے مستند ہے۔

ترمذی: اس مجموعہ حدیث کو ترمذی شریف کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے مرتب کا نام محمد بن عیسیٰ الترمذی ہے۔ کنیت ابوعیسیٰ ہے۔ ترمذی بہت مشہور، مفید تصنیف ہے۔ اس کو فقہی انداز پر ترتیب دیا گیا ہے۔

ابو داؤد: 4800 احادیث نبوی کا مستند مجموعہ ہے جس کو امام ابو داؤد سلیمان بن الاشعث السجستانى کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ نے اسے پانچ لاکھ احادیث میں سے منتخب فرمایا ہے۔

ابن ماجہ: یہ مجموعہ چار ہزار احادیث پر مشتمل ہے۔ اس کے مؤلف ابو عبداللہ بن یزید المقزونی ابن ماجہ ہیں۔ آپ ابن ماجہ کے نام سے مشہور ہیں۔بعض محدثین اس مجموعہ کو صحاح ستہ میں شامل نہیں کرتے کیونکہ ان میں ضعیف احادیث موجود ہیں۔ کچھ لوگ اس کے بجائے مؤطا امام مالک کو صحاح ستہ میں شامل کرتے ہیں۔

نسائی: 15761 احادیث پر مشتمل ہے۔ اس میں صحیح اور حسن دونوں قسم کی احادیث موجود ہیں۔ آپ کا نام احمد بن شعیب ہے۔ 215ھ میں پیدا ہوئے اور 303ھ میں وفات پائی۔ خراسان کے مشہور شہر ’’نساء‘‘ کے رہنے والے تھے۔ تقویٰ اور زہد میں بلند مقام حاصل کیا۔امامت حدیث کا مرتبہ نصیب ہوا آپ کی کتاب کا نام سنن نسائی ہے۔ صحاح ستہ میں چھٹا مقام حاصل ہے۔

امام بخاری 194ھ تا256ھ۔ امام مسلم 202ھ تا 261ھ۔ امام ترمذی 209ھ تا279ھ۔
امام ابو داؤد 202ھ تا275ھ۔ امام بن ماجہ 209 ھ تا 275ھ۔ امام نسائی 215ھ تا303ھ۔
امام مالک 93ھ تا179ھ۔

(محمد عمر تماپوری۔ بھارت)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ