احکام خداوندی
قسط نمبر: 13
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہےوہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کرتا ہے۔‘‘
(کشتی نوح)
امثال القرآن
’’قرآن شریف پر تدبر کرو۔ اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے۔ اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں۔‘‘
(حضرت مسیح موعود ؑ)
آج کے اکثر علما یہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں استعارے اور مثالیں نہیں بیان ہوئیں۔ بلکہ وہ ہر بات کو ظاہری رنگ میں پورا ہونا سمجھتے ہیں جس سے وہ قرآن پاک کی توہین کرتے ہیں۔ لیکن اللہ بار بار مثالیں دے کے سمجھاتا ہے اور یہی کہتا ہے کہ ہدایت تو متقیوں کے لئے ہے۔ اس لئے ان امثال کو سمجھنے کےلئے متقی ہونا شرط ہے۔ اللہ ہمیں متقی اور ثابت قدم بنائے آمین۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ آخر اللہ تعالیٰ مثالیں کیوں دیتا ہے؟
نصیحت پکڑنے کی خاطر امثال کا ذکر
• اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ۔
• تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ۔
(ابراہیم: 25۔26)
کیا تو نے غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے مثال بیان کی ہے ایک کلمۂ طیّبہ کی ایک شجرۂ طیّبہ سے۔ اس کی جڑ مضبوطی سے پیوستہ ہے اور اس کی چوٹی آسمان میں ہے۔ وہ ہر گھڑی اپنے ربّ کے حکم سے اپنا پھل دیتا ہے۔ اور اللہ انسانوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔
• وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ۔
(الزمر: 28)
اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر قسم کی مثال بیان کردی ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
مثال،ہدایت یا ضلالت کا موجب ہے
• اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَیَقُوۡلُوۡنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۘ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ۔
(البقرہ: 27)
اللہ ہرگز اس سے نہیں شرماتا کہ کوئی سی مثال پیش کرے جیسے مچھر کی بلکہ اُس کی بھی جو اُس کے اوپر ہے۔ پس جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو ایمان لائے تو وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے ربّ کی طرف سے حق ہے۔ اور جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جنہوں نے انکار کیا تو وہ کہتے ہیں (آخر) یہ مثال پیش کرنے سے اللہ کا مقصد کیا ہے۔ وہ اس (مثال) کے ذریعہ سے بہتوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہتوں کو اس کے ذریعہ سے ہدایت دیتا ہے اور وہ اس کے ذریعہ فاسقوں کے سوا کسی کو گمراہ نہیں ٹھہراتا۔
اللہ کے بارے میں مثال بیان کرنے کی ممانعت
• فَلَا تَضۡرِبُوۡا لِلّٰہِ الۡاَمۡثَالَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔
(النحل: 75)
پس اللہ کے بارہ میں مثالیں نہ بیان کرو۔ یقیناً اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
معبود ان باطلہ کی مثال کہ وہ مکھی بھی نہیں بنا سکتے
• یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ۔
(الحج: 74)
اے انسانو! ایک اہم مثال بیان کی جا رہی ہے پس اسے غور سے سنو۔ یقیناً وہ لوگ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ہرگز ایک مکھی بھی نہ بنا سکیں گے خواہ وہ اِس کے لئے اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو وہ اُس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ کیا ہی بے بس ہے (فیض کا) طالب اور وہ جس سے (فیض) طلب کیا جاتا ہے۔
قرآن پاک کی امثال کو غور سے سننا اور ان پر تفکر کرنا
• لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ۔
(الحشر: 22)
اگر ہم نے اِس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تُو ضرور دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے عجز اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ اور یہ تمثیلات ہیں جو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ تفکّر کریں۔
اللہ کے سوا دوست بنانے والوں کی مکڑی سے مثال
• مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡلِیَآءَ کَمَثَلِ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتۡ بَیۡتًا ؕ وَ اِنَّ اَوۡہَنَ الۡبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ۔
(العنکبوت: 42)
اُن لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اَور دوست بنائے مکڑی کی طرح ہے اُس نے بھی ایک گھر بنایا اور تمام گھروں میں یقیناً مکڑی ہی کا گھر سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے۔ کاش وہ یہ جانتے۔
خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرنے کی مثال
• ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرۡیَۃً کَانَتۡ اٰمِنَۃً مُّطۡمَئِنَّۃً یَّاۡتِیۡہَا رِزۡقُہَا رَغَدًا مِّنۡ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتۡ بِاَنۡعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الۡجُوۡعِ وَ الۡخَوۡفِ بِمَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ۔
(النحل: 113)
اللہ ایک ایسی بستی کی مثال بیان کرتا ہے جو بڑی پُرامن اور مطمئن تھی۔ اس کے پاس ہر طرف سے اس کا رزق بافراغت آتا تھا پھر اُس (کے مکینوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اُنہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا ان کاموں کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔
اَصۡحٰبَ الۡقَرۡیَۃِ کو بطور مثال پیش کرنا
• وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡیَۃِ ۘ اِذۡ جَآءَہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ۔
(یٰسین: 14)
اور ان کے سامنے اصحاب قریہ کو مثال کے طور پر پیش کر جب اس (بستی) میں (اللہ کی طرف سے) مرسلین آئے۔
اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کی مثال
• مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔
(البقرہ: 262)
ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اُگاتا ہو۔ ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے (اس سے بھی) بہت بڑھا کر دیتا ہے۔ اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
• مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ۔
(البقرہ: 266)
اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس میں سے بعض کوثبات دینے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اُسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے، اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہی بہت ہو۔ اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔
(700 احکام خداوندی از حنیف محمود)
(قدسیہ نور والا۔ ناروے)