• 29 اپریل, 2024

انبیاء دنیا میں آ کر راستی اور سچائی کو قائم کرتے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آپؓ (حضرت مصلح موعودؓ) لکھتے ہیں کہ انہی پر موقوف نہیں بلکہ جن جن کو آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا، اُن کی یہی حالت تھی۔ جب جہلم میں مولوی کرم دین صاحب نے آپ پر مقدمہ کیا تو ایک ہندو وکیل لالہ بھیم سین صاحب تھے، اُن کی چھٹی آئی۔ اُن کا خط آیا کہ میرا لڑکا بیرسٹری پاس کر کے آیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اُسے آپ کی خدمت کی سعادت حاصل ہو اور اس میں آپ اُن کو وکیل کر لیں۔ یہ لڑکے جن کا ذکر ہے بڑے لائق وکیل تھے، وہاں لاء (Law) کالج کے پرنسپل بھی رہے اور پھر وہاں انڈیا میں ہائی کورٹ کے چیف جج مقرر ہوئے۔ تو حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ لالہ بھیم سین صاحب نے الحاح سے یہ درخواست اس لئے کی کہ سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا تھا اور وہ آپ کی سچائی دیکھ چکے تھے۔ سچائی ایک ایسی چیز ہے جو اپنوں پر ہی نہیں، غیروں پر بھی اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ آپ فرماتے ہیں کہ انبیاء دنیا میں آ کر راستی اور سچائی کو قائم کرتے ہیں اور ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آ کر کوئی توپیں اور مشین گنیں ایجادنہیں کی تھیں، بینک جاری نہیں کئے تھے یا صنعت و حرفت کی مشینیں ایجادنہیں کی تھیں۔ پھر وہ کیا چیز تھی جو آپ نے دنیا کو دی اور جس کی حفاظت آپ کے ماننے والوں کے ذمہ تھی۔ وہ سچائی کی روح اور اخلاقِ فاضلہ تھے۔ یہ پہلے مفقود تھی۔ آپ نے پہلے اُسے کمایا اور پھر یہ خزانہ دنیا کو دیا اور صحابہ اور اُن کی اولادوں اور پھر اُن کی اولادوں کے ذمہ یہی کام تھا کہ ان چیزوں کی حفاظت کریں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ یہ حکم سن کر کہ ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کا کلام پہنچائیں، کچھ گھبرا گئے۔ اس لئے کہ آپ اس عظیم الشا ن ذمہ داری کو کس طرح پورا کریں گے؟ اس گھبراہٹ میں آپ گھر آئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور شدتِ جذبات سے آپ اُس وقت سردی محسوس کر رہے تھے۔ جب گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے کہا مجھے کپڑا پہنا دو، کپڑا اوڑھا دو۔ حضرت خدیجہ نے دریافت کیا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ آپ نے سارا واقعہ سنایا۔ حضرت خدیجہ نے جواب دیا کہ کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً۔ کہ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ خدا کی قَسم! کبھی خدا آپ کو رُسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ میں فلاں فلاں خوبیاں ہیں اور ان خوبیوں میں سے ایک یہ بتائی کہ جو اخلاق دنیا سے اُٹھ گئے ہیں آپ نے اپنے وجود میں ان کو دوبارہ پیدا کیا ہے اور بنی نوع انسان کی اس کھوئی ہوئی متاع کو دوبارہ تلاش کیا ہے۔ پھر بھلا خدا آپ جیسے وجود کو کس طرح ضائع کر سکتا ہے؟ تو انبیاء کی بعثت کی غرض یہی ہوتی ہے اور مومنوں کے سپرد یہی امانت ہوتی ہے جس کی حفاظت کرنا اُن کا فرض ہوتا ہے۔ محبت کی وجہ سے انبیاء کا وجود مومنوں کو بیشک بہت پیارا ہوتا ہے۔ مگر حقیقت کے لحاظ سے انبیاء کی عظمت کی وجہ وہی نور ہے جسے دنیا تک پہنچانے کے لئے خدا تعالیٰ اُنہیں مبعوث کرتا ہے، اُنہیں خدا تعالیٰ کا وہ پیغام ہی بڑا بناتا ہے جو وہ لاتے ہیں۔ پس جب نبی کے اَتْباع یعنی پیروکار اس وجود کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تو اس پیغام کی حفاظت کے لئے کیا کچھ نہ کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کے لئے صحابہ کرام نے قربانیاں کیں، وہ واقعات پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اُن کی محبت کو دیکھ کر آج بھی دل میں محبت کی لہر پیدا ہو جاتی ہے۔ اُحد کی جنگ میں ایک ایسا موقع آیا کہ صرف ایک صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ گئے اور دشمن بے تحاشا تیر اور پتھر پھینک رہے تھے۔ اُس صحابی نے اپنا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف کر دیا اور اُس پر اتنے تیر اور پتھر لگے کہ وہ ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا۔ کسی نے صحابی سے پوچھا، یہ کیا ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اتنے تیر اور پتھر اس پر لگے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے شل ہو گیا۔ اُس نے پوچھا کہ آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی۔ تو انہوں نے کہا اور بڑا لطیف جواب دیا۔ کہنے لگے کہ اُف نکلنا چاہتی تھی لیکن میں نکلنے نہیں دیتا تھا کیونکہ اگر اُف کرتا تو ہاتھ ہل جاتا اور کوئی تیر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لگ جاتا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ تم اس قربانی کا اندازہ کرو اور سوچو کہ اگر آج کسی کی انگلی کو زخم آ جائے تو وہ کتنا شور مچاتا ہے، مگر اُس صحابی نے ہاتھ پر اتنے تیر کھائے کہ وہ ہمیشہ کے لئے شَل ہو گیا۔

(خطبہ جمعہ 29 نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اکتوبر 2022