• 3 مئی, 2024

ایک انگریزی محاورہ پر طبع آزمائی

ایک انگریزی محاورہ پر طبع آزمائی
کتابِ زندگی کے مسودہ میں بہتری لانے سے کبھی نہ گھبرائیں

کہا جاتا ہے کہ مطالعہ کتب روح کی غذا اور دماغ کو صیقل کرنے کا ذریعہ ہے۔ خواہ یہ مطالعہ دینی کتب کا ہو یا دنیوی۔ بسا اوقات دنیاوی علوم کی کتب کا مطالعہ بھی روح کی آسودگی کا باعث بن جاتا ہے اور انسانی سوچوں کی تعمیر و ترقی پر بہت گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

خاکسار بھی گزشتہ دنوں ایک دنیوی مضمون کے مطالعہ میں مصروف تھا کہ میری نظروں کا گزر ایک انگریزی محاورہ سے ہوا تو اُس محاورہ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور آگے بڑھنے سے بزبان حال یہ کہتے ہوئے نہ صرف روکا بلکہ پُر زور اصرارکیا کہ کہاں جا رہے ہو بھئی ؟ میں ہی تو وہ ضرب المثل ہوں جس نے تمہیں اس مضمون کو پڑھنے پر مجبور کیا تھا، لہٰذا پہلے سوچوں کے گھوڑے دوڑاؤ اور میرا حق ادا کرو۔ چنانچہ باوجود الفضل کے ڈھیروں لائن میں لگے اور فائلوں میں رکے ہوئے کاموں کے میں نے اس محاورہ پر غور کرنا شروع کیا اور سوچا کہ یہ تو اتنا گہرا سبق لیے ہوئے ہے کہ میں اس سبق سے الفضل کے اپنے پیارے قارئین بھائیوں اور بہنوں کو بھی محظوظ کرواؤں گا۔ وہ سبق یا محاورہ یہ ہے۔

You are the author of your life, don´t be afraid to edit or change the script

ترجمہ:اپنی زندگی کے آپ خود مصنف ہیں اس لیے اپنی زندگی کی کتاب کے لکھے مسودہ میں تبدیلی کرنے یا بہتری لانے کے لیے اضافہ کرنے سے کبھی نہ گھبرائیں۔

اس محاورہ پر سوچ و بچار کے بعد کئی نصیحت آموز باتیں اور اسباق اس میں نظر آئے۔ مگر آج ایک اہم اور بنیادی سبق کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے۔ وہ یہ ہے کہ زندگی کے روز مرہ کے کاموں سے ہٹ کر بھی کچھ کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ہم میں سے بعض نے اپنی روز مرہ زندگی کے پروگرام اور شیڈیول کو اپنے ذہن کے کمپیوٹر اور دل کے بلیک باکس میں محفوظ کر رکھا ہے اور وہ اس کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ایسے لوگ سکھی، خوش اور مطمئن رہتے ہیں اور اپنی زندگی کو آسان بنا لیتے ہیں۔ ممکن ہے یہ بات درست بھی ہو لیکن اپنے معمولات کے اندر تبدیلی لانا،روزانہ کی روٹین میں پھنس کر بیٹھ جانے کی بجائے اپنے جسم اور دماغ کو متنوع حرکات و سکنات سے آراستہ کرتے ہوئے اوراپنے آپ کو مطالعہ کتب کے ذریعے علوم و فنون سے مالا مال کرنا زندگی میں چاشنی پیدا کر دیتا ہے۔اس میں سات رنگ بھر کر رہنے کے قابل بنا دیتا ہے اور اس طرح انسان کے اندر کا اور باہر کا موسم ایک جیسا خوشگوار بن جاتا ہے اور اپنے آس پاس کی ہر چیز اچھی لگنے لگتی ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ گڑھے کے ایک جگہ پر کھڑے پانی میں سڑانداور گندگی پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ جب تک اس کے اندر تازہ پانی کی آمیزش نہ ہوتی رہے۔یعنی پانی ایک طرف سے داخل ہو اور دوسری طرف سے باہر نکل جائے۔

اسی مضمون اور مفہوم پر مشتمل ایک عربی محاورہ بھی ہے کہ ’’البرکۃ فی الحرکۃ‘‘ کہ حرکت میں ہی برکت ہے، بعض لوگ تو اس عربی محاورہ کے اردو ترجمہ کو بھی محاورہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ ادھر خاکسار نے یہ محاورہ پڑھا اُدھر اُسی روز میرے واقف زندگی بیٹے کے افسرنے اُسے نصیحت کی کہ روزمرہ کے کاموں سے ہٹ کر مفید اور مثبت نتائج پر مبنی کام کرنے سے زندگی زیادہ حسین ہو جاتی ہے اور یہ میرااپنا تجربہ بھی ہے۔ جسے خاکسار آئے روز الفضل آن لائن میں مضامین کے انتخاب اورذہن میں آنے والے نت نئے آئیڈیاز پر چسپاں کرتا رہتا ہے، اورقارئین روزانہ ہی اس بات کا مشاہدہ کرتے ہوں گے کہ روزنامہ الفضل میں شامل ہونے والے عام ڈگر سے ہٹ کر مضامین اور آرٹیکلز وغیرہ اخبار کی زینت کوبڑھا دیتے ہیں۔

انسان اپنی زندگی میں جو بھی کام کرتا ہے وہ دراصل اس کی زندگی کی کتاب میں لکھا جا رہا ہوتا ہے۔ جو اس کے بعد کھولی جائے گی اور لوگ اس کی زندگی کے حسن و قبح کو اس کے مرنے کے بعد بیان کریں گے۔ بعض لوگ بالخصوص اس کے عزیز و اقارب تو اس کی سیرت و سوانح پر کتب اور مضامین بھی لکھیں گے۔ روزنامہ الفضل میں یاد رفتگان کا جو سلسلہ جاری ہے۔ دراصل یہی وہ کتاب ہے جو وفات کے بعدمرحوم کے عزیز و اقارب کے ذریعے کھولی جاتی ہے اور لوگ اسے پڑھتے ہیں۔ محفلوں میں مرحوم کا ذکر خیر کرنا بھی اس کی اپنی اعمال و افعال سے لکھی کتاب سے پڑھنے کا دوسرا نام ہے۔ اس کو ’’سوانح عمری‘‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اگر مرحوم نے اپنی زندگی میں اس کو قلمبند کرکے محفوظ کر لیا ہو تو اس کو خود نوشت سوانح کہا جاتا ہے۔

ہم نے شعبہ تصنیف میں دیکھا ہے کہ کوئی مصنف، مضمون نویس، مراسلہ نگار یا تبصرہ کرنے والا جب لکھنے بیٹھتا ہے تو اپنی تحریر کو وہ خود ہی بار بار مٹاتا، دوبارہ لکھتا اور تبدیل کرتا رہتا ہے۔ ہم اسے ترمیم کرنا یا تصحیح کرنا یا پنجابی میں کٹ وڈھ کرنا کہتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں اپنی تحریر کو لکھ کر ایک بار پڑھ لینا چاہیے۔ پروف کی غلطیوں کے ساتھ مضمون بھی بہتر ہو جاتا ہے۔ ہمارے ایک مرحوم افسرتھے۔ ان کے پاس ان کی اپنی ہی تحریر کمپوز کر کے لے جاتے تو وہ اس میں اتنی اصلاح کر دیتے اور بار بار کرتے یوں یہ سلسلہ جاری رہتا۔ میرے ایک اور افسر تھے ان کے پاس انہی کا حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں تحریر کردہ ہاتھ سے لکھا خط کمپوز کر کے لے جاتا تو وہ اس میں اتنی اصلاح کرتے کہ کاغذ سرخ ہو جاتا۔ اتنی دفعہ وہ اس میں ترمیم کر دیتے کہ انسان تھک جاتا،سوچتا اور دعا کرتا کہ اب کی بار وہ ترمیم نہ کریں۔ ہم اپنی جماعتی کتب میں اپنے بزرگوں کے مبارک ہاتھوں سے لکھے اصل خطوط کے امیج کو دیکھتے ہیں تو اس میں بعض الفاظ کو مٹا کردوبارہ لکھا ہوا پاتے ہیں تو دراصل یہ اپنی تحریر کی اصلاح ہے۔ جو اس طرح مزید خوبصورت اورنکھر کر سامنے آجاتی ہے۔

یہی کیفیت ہمیں اپنی زندگی کی تحریر، اپنی زندگی کے خط،اپنی زندگی کی تصنیف یا کتاب میں نظر آتی ہے اور آنی بھی چاہیے۔اس میں مزید ترمیم اور اصلاح کا مذکورہ بالا طریق ہمیں اپنی زندگی کی کتاب میں بھی کرتے رہنا چاہیے۔ روزمرہ کے کاموں پر روزانہ نظر دوڑاتے رہنا چاہیے، بزرگوں کے مطابق یہ عمل رات کو زیادہ بہتر طور پر کیا جاسکتا ہے جب سونے سے پہلے پورے دن کے کاموں پر نظر ڈال کر آئندہ کے لیے ترمیم کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ اس طرح آپ کی زندگی کی کتاب یا تحریر کو مد مقابل پڑھنے والا پڑھ کر محظوظ ہو۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’چاہیئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12)

ہم نے روز مرہ کی تحریر میں دیکھا ہے کہ اگر کسی مضمون میں پروف کی بہت غلطیاں ہوں تو ہم اس مضمون کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر زندگی کی کتاب کے ورق میں غلطیاں ہو ں تو لوگ اکتا جاتے ہیں۔ باتیں بناتے ہیں۔

پس یہی وہ سبق ہے جو قرآن میں وللاخرۃ خیر لک من الاولیٰ اور احادیث میں الاعمال بخواتیمھا کے الفاظ میں ملتا ہے کہ ایک انسان کا ایک مقام پر ٹھہراؤ نہ ہو۔ ہر دم اور ہر وقت وہ آگے بڑھے اور بڑھتا چلا جائے اور اس کا اٹھنے والا قدم یا گزرنے والے قدم یا کام سے بہتر ہو۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگیوں کی ایسی کتاب اور دستاویزات لکھنے کی توفیق دے جو دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں۔ آمین

( ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اکتوبر 2022