• 16 مئی, 2024

حضرت ماسٹر محمد پریلؓ

حضرت ماسٹر محمد پریل رضی اللہ عنہ۔ کمال ڈیرہ سندھ

حضرت ماسٹر محمد پریل رضی اللہ عنہ ولد قائم الدین قوم گوپانگ بلوچ کنڈیارو ضلع نوشہروفیروز (یہ ضلع بننے سے پہلے یہ ضلع نواب شاہ میں تھا) کے قریبی گاؤں کمال ڈیرہ کے رہنے والے تھے بلکہ اس کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’ماہی جو بھان‘‘ آپ کی اصل سکونت بتائی جاتی ہے۔ حصول تعلیم کے بعد آپ نے بطور سکول ماسٹر ملازمت کی۔ 1905ء میں قادیان حاضر ہوکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف پایا اور پھر ساری زندگی اخلاص و وفا کے ساتھ سلسلہ احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہے اور اس دور دراز علاقے میں تبلیغ احمدیت میں سرگرم رہے۔ اپنی قبول احمدیت کی داستان بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’اس عاجز کا نام محمد پریل ولد قائم الدین ہے، قوم بلوچ ہے۔ کمال ڈیرہ سندھ کا رہنے والا ہوں۔ سال پیدائش 1883ء ہے۔ میری تعلیم سال 1894ء سے شروع ہوئی، 1903ء میں تعلیم سے فارغ ہوکر سکول ماسٹر کے طور پر ملازمت شروع کی۔ ہمارا ایک عزیز کریم داد مجذوب تھا، اُس نے گھر گھر میں اعلان کیا کہ امام مہدی علیہ السلام پیدا ہوگیا ہے اور مشرق کی طرف ہاتھ اٹھاتا تھا۔ ہمارا ایک استاد پیسہ اخبار لاہور سے منگاتا تھا، اُس اخبار نے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے بارہ میں مضمون لکھا، ہمارے گاؤں کے دو اصحاب حکیم محمد رمضان صاحب اور محمد ابراہیم صاحب رضی اللہ عنہما نے وہ مضمون پڑھا جس پر دونوں اصحاب قادیان چلے گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی زیارت کر کے بیعت کے فیض سے مشرف ہوکر واپس آئے۔ یہ 1896-97ء کا واقعہ ہے۔(نوٹ:حضرت اخوند محمد رمضان صاحب کی بیعت کا اندارج 1897ء کی ایک نایاب فہرست مبائعین میں یوں درج ہے:’’ذی قعدہ 1314ھ مطابق اپریل 1897ء ’’مولوی محمد رمضان کمال ڈیرہ ضلع حیدرآباد سندھ‘‘۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 644۔ ناقل) میں اُس وقت پڑھتا تھا۔ ایک دن حکیم صاحب مرحوم میرے سکول میں آئے جبکہ سید علی مراد شاہ صاحب بھی میرے پاس بیٹھے تھے، ان دونوں میں مذہبی بات چیت شروع ہوگئی۔ مجھے انہوں نے ثالث مقرر کیا۔ حکیم صاحب نے قرآن کریم سے دلائل پیش کیے اور سید صاحب اِدھر اُدھر کی کتابوں سے حوالے پیش کرتے تھے۔ میں نے سید صاحب کو کہا کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں آپ قرآن پیش کریں اور باتیں چھوڑ دیں۔ اس پر سید صاحب موصوف غصہ میں ناراض ہوکر چلے گئے اور میرے والد صاحب اور بزرگوار سے ملے اور انہیں کہا کہ آپ کا لڑکا بھی قادیانی ہوگیا ہے۔ جب میں گھر آیا تو مجھ کو والدین نے ڈانٹا اور کہا کہ تم سیدوں کی کیوں مخالفت کرتے ہو۔ رات کو میں نے رَو رَو کر دعائیں کیں، خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میرے گھر میں آگئے ہیں اور ان کے پیچھے بہت جماعت ہے۔ مَیں دوڑ کر حضور کے پاؤں پر گِر پڑاہوں اور کہتا ہوں کہ حضور آپ امام الزماں ہیں مجھ کو بچائیں۔ حضورؑ نے مسکرا کر کچھ فرمایا مگر میں نہ سمجھ سکا، آنکھ کھل گئی۔ ایسی نورانی تجلی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ آخر جولائی 1905ء کو اکیلا میں دار الامان چلا گیا اور حضور علیہ السلام کی دستی بیعت کی۔ میرے ساتھ کشمیر کا ایک بوڑھا مولوی تھا اُس نے بیعت کی۔ حضورؑ نے بیعت کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔ پھر میں نے عرض کیا کہ حضور پھر میرے لیے دعا مانگیں۔ حضورؑ نے فرمایا کیسی دعا! میں نے عرض کیا حضور سے دین کا علم مجھے بھی آ جائے۔ حضورؑ نے دوسری بار دعا مانگی۔ پھر میں نے عرض کیا حضور کوئی کتاب پڑھنے کے لیے عطا فرمائیں۔ اس وقت مکرم مہدی حسین صاحب مرحوم موجود تھے، اُن کو حضور نے فرمایا ان کو تین کتابیں دے دیں:سرمہ چشم آریہ، شحنۂ حق اور حقیقۃ الوحی کا آخری جز۔ (نوٹ:حقیقۃ الوحی کا ہونا محل نظر ہے کیونکہ یہ 1906ء میں لکھی جانی شروع ہوئی اور 1907ء میں شائع ہوئی جبکہ آپ نے اپنا سفر 1905ء میں بتایا ہے۔ ناقل) میں پندرہ روز دار الامان رہ کر پھر واپس آگیا۔ اس طرح میں نے جو کچھ دیکھا وہ ذیل میں عرض کرتا ہوں:

’’پہلے دن ظہر کی نماز کے وقت میں مسجد مبارک میں پہنچا، میں نے السلام علیکم یا نبی اللہ کہہ کر حضور کے دست مبارک کو چوما، پھر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے بھی مصافحہ کیا۔ حضورؑ نے پوچھا کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا حضور حیدرآباد سندھ سے۔ حضورؑ نے فرمایا سندھ کا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا حضور بہت سے دشمن بھی ہیں اور بہت سے دوست بھی ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا آپ کی کل بیعت لیں گے۔ اس زمانے میں مولوی محمد علی صاحب مرحوم کا دفتر مسجد مبارک میں تھا۔ مسجد مبارک بہت چھوٹی تھی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مسجد مبارک وسیع کرنے کا الہام ہو چکا تھا۔ حضورؑ نے مسجد کو وسیع کرانے کے لیے حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا ۔‘‘

(الفضل یکم جون 1958ء صفحہ 6)

ایک اور جگہ اپنے سفر قادیان کے متعلق آپؓ بیان فرماتے ہیں:
’’مَیں کم و بیش پندرہ بیس روز مہمان خانہ میں مقیم رہا۔ مولوی نجم الدین صاحب مرحومؓ (مراد حضرت مولوی نجم الدین بھیروی یکے از 313 صحابہ۔ ناقل) نے میری بہت خدمت کی۔ مکرم مولوی محمد علی صاحب مرحوم ایم اے کا دفتر مسجد مبارک میں ہی تھا۔ مَیں نے ان سے قلم دوات اور کاغذ لے کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں خط لکھا۔ چونکہ زبان پر عبور حاصل نہ تھا اس لیے نصف اردو اور نصف سندھی میں اپنا مفہوم ادا کیا۔ یہ خط حضرت نانا جان مرحوم میر ناصر نواب صاحبؓ کے ذریعہ حضورؑ کی خدمت میں پہنچا دیا۔ حضرت میر صاحبؓ مرحوم میرا خط پڑھ کر فرمانے لگے کہ کیا آپ سے ابھی تک بیعت نہیں لی گئی؟ میرا یہ خط لے کر آپ حضورؑ کی خدمت میں تشریف لے گئے، تھوڑی دیر کے بعد تشریف لائے اور فرمایا کہ حضور عصر کی نماز میں تشریف لائیں گے تو اس وقت آپ سے بیعت لیں گے۔ ظہر اور عصر کا درمیانی وقفہ مَیں نے مسجد مبارک میں ہی گذارا۔ عصر کی اذان ہوئی تو حضور تشریف لے آئے اور دورازہ سے قدم باہر رکھتے ہی ارشاد فرمایا ’’وہ دوست جو سندھ سے تشریف لائے ہیں، کہاں ہیں؟‘‘ مَیں احترامًا کھڑا ہوگیا۔ حضورؑ نے مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ ’’انہیں تو اُردو نہیں آتی مَیں بیعت کس طرح لوں‘‘ مَیں نے عرض کی حضور! مَیں تھوڑی بہت اُردو جانتا ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا ’’کیا آپ کچھ عرصہ پنجاب میں بھی رہے ہیں؟‘‘ مَیں نے بیان کیا کہ حضور پنجاب میں رہا تو نہیں البتہ حضور کی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ حضورؑ نے از راہ شفقت فرمایا بیٹھ جائیے۔ حضورؑ نے میری بیعت لی ….. اُس وقت کی مسجد مبارک موجودہ مسجد سے بالکل مختلف تھی، موجودہ مسجد وسیع ہے لیکن وہ نہایت ہی مختصر تھی …. موسم گرما میں مَیں حضورؑ کو پنکھا کیا کرتا تھا۔ حضورؑ جس وقت اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما ہوتے تو یوں معلوم ہوتا تھا جیسے تازہ تازہ غسل فرما کر تشریف لائے ہیں …. مَیں نے حضورؑ کو کبھی افسردہ اور غمگین نہیں دیکھا، ہمیشہ آپ کے چہرے پر بشاشت اور شگفتگی نظر آتی تھی۔ حضورؑ تبسم فرما کر اپنے احباب کی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔‘‘

(ماہنامہ الفرقان ربوہ نومبر 1961ء صفحہ 23-24)

اسی طرح رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 92 پر بھی آپؓ کی یہی روایات مختصر انداز میں درج ہیں۔ اخبار بدر یکم نومبر 1906ء صفحہ 14 پر ’’سلسلہ حقہ کے نئے ممبر‘‘ کے تحت سب سے اوّل آپ کا نام ’’محمد پریل صاحب۔ کمال ڈیرہ ضلع حیدرآباد سندھ‘‘ درج ہے۔ آپ سندھ جیسے دور دراز علاقے میں احمدیت کا ایک عمدہ نمونہ تھے، ہر آن تبلیغ احمدیت میں کوشاں رہتے تھے اور اپنی کارگزاری کی رپورٹیں بغرض دعا خلیفۃ المسیح کی خدمت میں بھجوایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آپ کے ایک خط کا ذکر یوں محفوظ ہے:’’محمد پریل ہندی (سہو ہے، سندھی ہونا چاہیے۔ ناقل) کا خط پیش ہوا۔ فرمایا بڑے مخلص آدمی ہیں، خدا انہیں کامیاب کرے۔‘‘

(بدر 27 فروری 1913ء صفحہ 10)

خلافت ثانیہ میں بھی جماعتی لٹریچر میں آپؓ کا ذکر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اخبار الفضل 24 نومبر 1915ء صفحہ 9 پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنی مفصل تبلیغی رپورٹ بھجوانے کا ذکر ہے۔ ایک اور جگہ آپ لکھتے ہیں:’’سکرنڈ (سندھ) سے محمد پریل صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں سندھی اشتہارات تقسیم کیے جاتے ہیں اور امید ہے کہ رفتہ رفتہ لوگ حق کو سمجھ لیں گے۔ چند روز ہوئے ہیں کہ بوجہ میرے احمدی ہونے کے دو شخصوں نے میری سخت مخالفت کی تھی، خدائے غیور نے انہیں اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور وہ انی مھین من اراد اھانتک کے وعید سے حصہ پا رہے ہیں۔‘‘ (الفضل 5؍ستمبر 1915ء صفحہ 2) الفضل 12؍اکتوبر 1915ء صفحہ 2 پر آپ کی تبلیغی مساعی کا ذکر موجود ہے جس میں آپ نے ممبران خدام کعبہ کے ایک رکن سے گفتگو کا مختصر حال لکھا ہے۔ ایک اور جگہ آپ کی تبلیغی مساعی کا ذکر یوں درج ہے:’’سکرنڈ (سندھ) سے برادر محمد پریل صاحب لکھتے ہیں کہ بعض لوگ میری طرف خطوط لکھتے ہیں کہ تم بے فائدہ روپیہ خرچ کرتے ہو یہاں تمہاری جماعت نہیں بنے گی۔ میں نے کہا کہ جماعت بنانا تو خدا تعالیٰ کا کام ہے، خدا چاہے تو ضرور بن جائے گی۔ پھر چند آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ سندھ میں احمدی جماعت کے دو تین ہی آدمی ہیں، کیا نبیوں کے اتنے ہی متبع ہوتے ہیں؟ میں نے کہا کہ نبیوں کی صداقت کا یہ کون سا معیار ہے، پہلے وقتوں میں تو ایسے ایسے نبی بھی ہوئے ہیں جن کے دو دو یا تین تین ہی پیرو تھے تو کیا وہ نبی نہ سمجھے جائیں گے۔ حضرت مرزا صاحب کے تو خدا کے فضل سے لاکھوں مرید ہیں۔‘‘ (الفضل 31؍اکتوبر 1915ء صفحہ2) اس کے کچھ عرصہ بعد ہی اخبار الفضل نے آپؓ کے متعلق لکھا: ’’سکرنڈ (سندھ) سے برادر محمد پریلؓ صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں لکھتے ہیں کہ پچھلے دنوں کچھ ہندو دوست میرے پاس آئے اور سوال کیا کہ آج کل مسلمان اماموں کا ماتم کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب قتل (شہید) ہوئے مگر ہمارے اوتار تو کوئی قتل نہیں ہوئے، یہ کیا بات ہے؟ میں نے جواب دیا کہ امام نبی نہ تھے۔ نبی اور امام میں بڑا فرق ہے، نبیوں کی اللہ تعالیٰ خاص حفاظت فرماتا ہے۔ دیکھو خدا نے رسول کریمؐ کو فرمایا تھا کہ واللّٰہ یعصمک من النّاس تو آنحضرتﷺ کی کیسی حفاظت کی کہ ہر طرف سے دشمنوں کا نرغہ تھا مگر کوئی آپؐ کا بال بیکا نہ کر سکا اور یہ ماتم تو خود اسلامی تعلیم کے بر خلاف ہے۔ جو لوگ احکام دین کی خلاف ورزی کرتے ہوں ان کے افعال کا مذہب ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔‘‘ (الفضل یکم دسمبر 1915ء صفحہ 2 کالم 3) ایک اور جگہ آپ کے متعلق لکھا ہے: ’’الحمد للّٰہ …. محمد پریل سندھ میں …. آسمان سے آئے ہوئے نور کی اشاعت کر رہے ہیں۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز فروری 1918ء صفحہ 78)

آپؓ نے چند دن کی مختصر علالت کے بعد مورخہ 13 اگست 1971ء بروز جمعۃ المبارک کراچی میں اپنے بیٹے مکرم ماسٹر شمس الدین صاحب کے پاس وفات پائی، بوجہ موصی ہونے کے آپؓ کی میت ربوہ لائی گئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔

(الفضل 20 اگست 1971ء صفحہ 6)

آپؓ کی اہلیہ محترمہ رحمت بی بی صاحبہ (وفات:26 فروری 1971ء) بھی بہت نیک، ملنسار، مہمان نواز اور تبلیغ کا شوق رکھنے والی خاتون تھیں۔ آپؓ کے بیٹے مکرم مولانا بشارت احمد بشیر صاحب (وفات:20 جنوری 1992ء) مبلغ سلسلہ تھے جنہوں نے مغربی افریقہ میں بطور مبلغ سمیت مرکزی دفاتر میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہٗ

(نوٹ: آپؓ کی تصویر مکرم ناصر احمد گوپانگ صاحب مربی سلسلہ نے مہیا کی ہے، فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء۔)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اکتوبر 2022