• 19 اپریل, 2024

مومنین کے مخالفین کے حصہ میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں آتا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
ایک جگہ فرماتا ہے کہ اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ (البقرۃ:258) کہ اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے وہ ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ پس یہ جو اللہ تعالیٰ مومنوں سے دوستی کا اعلان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ مومنوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائے گا، ان کو ایک نور دکھائے گا تو یہ اعلان ہے کہ تمہاری کوشش، تمہارے ایمان کی مضبوطی کی کوشش تمہیں یقینا ً ترقیات نصیب کرے گی۔ تمہیں روحانی ترقی میں بڑھائے گی، پھر اس کی وجہ سے تمہاری جسمانی ضروریات بھی پوری فرمائے گا۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں نیک نیت سے کوشش ضروری ہے۔ دنیا کی طرف دوڑنے والوں کو تو پتہ نہیں دنیا ان کی خواہش کے مطابق ملتی بھی ہے کہ نہیں۔ کیونکہ بہت سے جو دنیا کمانے والے ہیں اور خدا کو بھولنے والے ہیں ان میں سے اکثریت کیا بلکہ سارے ہی بے چینی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ لیکن خدا کی خاطر خالص ہو کر اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والوں کو خدا بھی ملتا ہے اور دنیا بھی ان کے دَر کی لونڈی ہو جاتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا تو خداتعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے۔ پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطہ تک پہنچے گی تو وہ خدا تعالیٰ کے نور کو دیکھ لے گا۔ یہ جو آپؑ نے فرمایا کہ اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطے تک پہنچے گی۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر خاص احسان ہے کہ ہر انسان کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں، اس کی استعدادیں مختلف ہوتی ہیں، اس کی اپنی استعدادوں کی انتہا کے مطابق اس کا ٹارگٹ مقرر فرماتا ہے۔ پس ایمان کی مضبوطی اور اللہ کے نور سے حصہ لینے کے لئے اپنی استعدادوں کے انتہائی نقطے تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

پھر وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ ’’اس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش کا اس کے ذمّہ ہے اسے بجا لائے۔ یہ نہ کرے کہ پانی اگر بیس ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو وہ صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے۔ ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے۔ پھر اس اُمّت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا اور تزکیہ نفس سے کام لے گا تب قرآن شریف کے وعدے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے۔‘‘ (ملفوظات جلد4 صفحہ223-224 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس اللہ تعالیٰ دوستی کا حق ادا کرتا ہے، اس دنیا میں بھی انعامات سے نوازتا ہے، دنیاوی ضروریات بھی پوری کرتا ہے، روحانی ترقیات سے نوازتا ہے۔ اس دنیا کوبھی جنت بناتا ہے اور مرنے کے بعد بھی ہمیشہ رہنے والی جنت میں مومن کو رکھے گا۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومنین کے ساتھ قرآن میں بے شمار وعدے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پورا فرماتا ہے اور آج بھی ہم ان کو مختلف شکلوں میں پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، دیکھتے ہیں۔ ہزاروں احمدی اس وعدے کے مطابق اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھتے ہیں۔ خلافت کا جاری نظام بھی خداتعالیٰ کے وعدوں میں سے ایک بہت بڑا وعدہ ہے جو مومنین کے سکون کے لئے اور ان کو تمکنت دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ احمدیوں کے ساتھ، مومنین کی جماعت کے ساتھ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سچا تعلق رکھنے والوں کے ساتھ، گزشتہ سو سال سے ہم یہ وعدہ بڑی شان سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور ایک احمدی کی سکون اور آرام کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے۔ کئی قسم کے فتنہ اور فساد سے احمدی بچے ہوئے ہیں جن میں جو دوسرے ہیں وہ ڈوبے پڑے ہیں۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ جب یو کے میں گزشتہ دنوں جلسہ ہوا تھا توامریکہ میں ان کے ایک دوست ان کو ملنے آئے۔ اس وقت میری تقریر شروع ہونے والی تھی، میرے حوالے سے بتایا کہ ان کی تقریر ہے مَیں تو ابھی ٹی وی پرسننے لگا ہوں آپ بیٹھ کے میرا ذرا انتظار کر لیں۔ تو انہوں نے کہا مَیں بھی آپ کے ساتھ سنتا ہوں۔ شیعہ دوست تھے پاکستان سے امریکہ آئے ہوئے تھے۔ پڑھے لکھے آدمی تھے پوری تقریر انہوں نے سنی اور اس کے بعد کہنے لگے کہ مجھے مذہب سے ویسے زیادہ دلچسپی نہیں ہے لیکن آج مجھے پتہ لگا ہے کہ کیوں احمدی دوسروں سے مختلف ہیں۔ احمدی میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لئے اسلام کی راہنمائی کرنے کے لئے ایک انتظام کیا ہوا ہے جو ہمارے اندر نہیں۔ ایک آواز کے ساتھ تم لوگ اٹھتے بیٹھتے ہو۔ تو اللہ تعالیٰ کایہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ جماعت کے حق میں پورا ہو رہا ہے۔

پھر قرآن کریم کے وعدوں میں سے اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ ہے کہ وہ کافروں کے مقابلے میں مومنوں کا مددگار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑے واشگاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ تم دنیا میں پھر لو، تاریخ مذاہب پر نظر ڈال لو، کہیں بھی تمہیں یہ نظر نہیں آئے گا کہ نبیوں کی جماعت کا اور مومنوں کا آخری نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا ہو۔ عارضی ابتلا اور مشکلات بے شک آتے ہیں۔ لیکن آخر کار دشمن و کافر تباہ ہو جاتے ہیں۔ مومنین کے مخالفین کے حصہ میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ پس یہ ایک ایسا اصول ہے جو آنحضرتﷺ سے قبل کے انبیاء اور مومنین کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا۔ آنحضرتﷺ کے ساتھ بھی اور مسلمانوں میں مومنین کے لئے بھی قائم فرمایا اور آپؐ کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے حقیقی ایمان لانے والوں کے لئے یہ معیار قرار دے دیا کہ انجام کار کافروں کی تباہی ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا کافروں کی تباہی، انکار کرنے والوں کی تباہی اور مومنوں کی کامیابی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو مُکَفِّرِیْن و مُکَذِّبِیْن ہیں ان کا بدانجام ہوگا اور بد انجام کا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَھُمْ (محمد:12) یہ اس لئے ہے کہ اللہ ان لوگوں کا مولیٰ ہوتا ہے جو ایمان لائے اور کافروں کا یقینا کوئی مولیٰ نہیں ہوتا۔

(خطبہ جمعہ 17؍ اگست 2007ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 نومبر 2020